عوام کو بجلی کے جھٹکے
امریکی سامراج نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت نجکاری کا عمل عالمی سرمایہ دا ری کو دوام بخشنے کے لیے شروع کیا ہے۔
امریکی سامراج نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت نجکاری کا عمل عالمی سرمایہ دا ری کو دوام بخشنے کے لیے شروع کیا ہے۔ یہ عمل امریکا سے جنوبی افریقہ اور فرانس سے پاکستان تک جاری ہے۔
پاکستان میں قومی ملکیت میں لینے کا عمل بھٹو نے شروع کیا۔ انھوں نے بینک، بیمہ کمپنیوں، تعلیمی اداروں، تیل، گھی، سیمنٹ، چینی، اسٹیل ملز، توانائی کے شعبوں، مواصلات، گیس، انجینئرنگ کمپلیکس اور لاتعداد صنعتوں، اداروں اور کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے کر عوام کو ملازمت کی یقین دہانی، نرخوں اور ترسیلات کی سہولتیں مہیا کیں۔
بھٹو کی حکومت میں وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن تھے تو تعلیم اور صحت کا بجٹ تینتالیس فیصد تھا، مگر افسوس کی بات ہے کہ بے نظیر بھٹو نے سب سے پہلے گھی، تیل اور سیمنٹ سمیت متعدد فیکٹریوں، ملوں اور اداروں کی نجکا ری کی۔ بے نظیر وزیر اعظم تھیں اور مسلم کمرشل بینک سی بی اے یونین کے جنرل سیکریٹری عثمان غنی پی پی پی کے رہنما تھے اور نجکا ری کے خلاف جدوجہد کرنے کی پاداش میں پی پی حکومت کے دور میں ہی انھیں گرفتار کر کے کرا چی سینٹرل جیل بھیجا گیا اور وہ میرے ساتھ بیرک نمبر بائیس میں قید رہے۔
اس کے بعد جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو انھوں نے نجکاری کی بھر مار کر دی، جس کی امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی تعریف کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف اور اب نواز شریف نے پچھلی ساری کسر نکال لی۔ کراچی کے شہریوں کو بجلی کے ہوشربا بلوں نے ادھ موا کر دیا ہے، درحقیقت ''کے الیکٹر ک'' اپنے صارفین کو غیر منصفانہ بل بھیجتی ہے، اپنی ریکوری بڑھانے کے لیے۔ اسی سلسلے میں سینیٹ کے چئیرمین رضا ربانی اور دیگرارا کین سینیٹ مختار احمد دھامرا، عبد القیوم سو مرو، سعید غنی اور شاہی سید نے اپنے دستخطوں سے ایک توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا تھا جس میں وزیر پانی و بجلی کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی گئی کہ نیپرا نے بتایا کہ ''کے الیکٹر ک'' کی انتظامیہ اپنے صارفین کو بھاری اور اضافی بل بھیجنے میں ملوث ہے، لہٰذا ''کے الیکٹرک'' سے زیا دہ ان لوگوں سے شکایات ہے، جنھوں نے ''کے الیکٹر ک'' کو اونے پو نے داموں میں فروخت کیا ہے۔
اس میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے اور ان کی انکوائری کی جائے، جس نے اس میں رقم کھائی اسے سزا دی جائے۔ دو دسمبر دو ہزار پندرہ کے انگریزی معاصر کے مطا بق پنجاب میں بتتیس ارب، سندھ میں سڑسٹھ ارب، کے پی کے میں چھتیس ارب اور بلوچستان میں پچیس ارب روپے کی بجلی چوری کی گئی اور اس کا سارا بوجھ پچھلے چار سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں دو سو پچاس فیصد اضافہ کر کے عام صارفین پر منتقل کیا گیا۔
بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کی کوئی سنجیدہ کوشش اگر ریاست کرتی بھی ہے تو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے اور سارا بو جھ عام لوگوں پر ڈال دیا جا تا ہے۔ نجکاری کے خلاف مشرق بعید کے مما لک میں اداروں اور کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لینے کی زبردست تحریک چل رہی ہے، جب کہ جنوبی امریکی ممالک نے اداروں اور کمپنیوں کو تیزی سے قو می ملکیت میں لینے کا کام جا ری رکھا ہوا ہے۔ یہاں کے بعض ممالک قومیائے گئے اداروں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں بھی دے رہے ہیں۔ یورپ میں بھی نجکاری کے خلاف زبردست تحریک چل رہی ہے۔
لندن کی ٹیوب ( زیر زمین ٹرین) کی نجکاری کی گئی۔ دس سال بعد مزدوروں اور عوام کی مخالفت اور دباؤکے با عث حکو مت از سر نو ٹیوب کو قومی ملکیت میں لینے پر مجبور ہوئی۔ اس وقت دنیا کے پچاسی ارب پتی افراد دنیا کی آ دھی دولت کے مالک ہیں۔ ایک جانب ارب پتیوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جا نب اربوں انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ سعودی عرب کے ایک سرمایہ دار نے افریقہ کے غریب ترین ملک ایتھوپیا کی لا کھوں ایکڑ زمین خریدی ہے۔
اسی طرح جنوبی کوریا کے ایک سرمایہ دار کا مڈغاسکر کی کل زرعی زمین کا آدھا خریدنے کا معاہدہ ہونے جا رہا تھا جس کے خلاف کسانوں نے زبردست تحریک چلائی اور اس میں بہت سے کسان جان سے بھی جاتے رہے لیکن انھوں نے زمین کوریائی سرمایہ دار کو فروخت نہیں ہونے دی، پاکستان میں بھی قطر، سعودی عرب، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، ہالینڈ اور عرب امارات کے سرمایہ داروں نے لاکھوں ایکڑ زمین ننانوے سال کے پٹے پر بھاولپور، میرپور خاص، چاغی، مکران، جہلم اور کھاریاں وغیرہ میں خریدی ہیں اور اپنی سہولت کے لحاظ سے معاہدے کیے ہیں جس کے تحت ان پر ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔
پانی اور بجلی کے استعمال کی کوئی حد مقرر نہیں ہو گی۔ ان زمینوں پر کارپوریٹ فارمنگ ہو گی اور پیداوار کو بلا ڈیوٹی یہاں سے برآمد کرنے کی اجازت ہو گی جب کہ اپنے عوام پر بجلی کی بوگس بلنگ اور ایکسیس بلنگ کی جاتی ہے مزید برآں ہر چیز میں عوام پر من مانے ٹیکس لگا کر عوام کو منو مٹی تلے دبایا جا رہا ہے۔ آ ئے روز ٹیکس لگانے سے اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں نجکاری کی جانے والے اداروں میں سے بیشتر بند ہو گئے ہیں اور ان کے ملا زمین بیروزگار ہو گئے ہیں اور جو چل رہے ہیں وہاں بھی بڑے پیمانے پر چھانٹی کی جا رہی ہے اور پیداواری اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
قومی ملکیت میں رہنے کے وقت گھی اور تیل بیس رو پے کلو تھا اور اب دو سو رو پے کلو ہے، سیمینٹ فی بوری چوبیس روپے کی تھی اور اب پانچ سو رو پے بوری ہے، چینی پہلے سترہ روپے کلو تھی اور اب باسٹھ روپے کلو ہے۔ اسی طرح بجلی پہلے ایک روپے فی یونٹ سے بڑھ کر گیارہ رو پے فی یونٹ ہو گئی۔
تمام تر اختلاف کے باوجود ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اگر کسی حد تک ریلوے کو قو می ملکیت میں رکھتے ہو ئے اس کی کارکردگی میں بہتری اور کرپشن میں کمی لا سکتے ہیں اور یہ بیان دے سکتے ہیں کہ 'اگر ریلوے کی نجکاری کی گئی تو میں اس کی وزارت سے استعفیٰ دے دونگا۔' تو پھر دوسرے وزراء ایسا کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی، غیر ریاستی معاشرے میں مضمر ہے لیکن فی الحال تمام بھاری، بنیادی اور خدمات کے اداروں کو قو می ملکیت میں لے لیا جا ئے تو مسئلہ ایک حد تک حل ہو سکتا ہے۔
بدعنوانی سرمایہ دارانہ نظام کی برا ئی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ وہ دن جلد آنے وا لا ہے جب دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔
پاکستان میں قومی ملکیت میں لینے کا عمل بھٹو نے شروع کیا۔ انھوں نے بینک، بیمہ کمپنیوں، تعلیمی اداروں، تیل، گھی، سیمنٹ، چینی، اسٹیل ملز، توانائی کے شعبوں، مواصلات، گیس، انجینئرنگ کمپلیکس اور لاتعداد صنعتوں، اداروں اور کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے کر عوام کو ملازمت کی یقین دہانی، نرخوں اور ترسیلات کی سہولتیں مہیا کیں۔
بھٹو کی حکومت میں وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن تھے تو تعلیم اور صحت کا بجٹ تینتالیس فیصد تھا، مگر افسوس کی بات ہے کہ بے نظیر بھٹو نے سب سے پہلے گھی، تیل اور سیمنٹ سمیت متعدد فیکٹریوں، ملوں اور اداروں کی نجکا ری کی۔ بے نظیر وزیر اعظم تھیں اور مسلم کمرشل بینک سی بی اے یونین کے جنرل سیکریٹری عثمان غنی پی پی پی کے رہنما تھے اور نجکا ری کے خلاف جدوجہد کرنے کی پاداش میں پی پی حکومت کے دور میں ہی انھیں گرفتار کر کے کرا چی سینٹرل جیل بھیجا گیا اور وہ میرے ساتھ بیرک نمبر بائیس میں قید رہے۔
اس کے بعد جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو انھوں نے نجکاری کی بھر مار کر دی، جس کی امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی تعریف کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف اور اب نواز شریف نے پچھلی ساری کسر نکال لی۔ کراچی کے شہریوں کو بجلی کے ہوشربا بلوں نے ادھ موا کر دیا ہے، درحقیقت ''کے الیکٹر ک'' اپنے صارفین کو غیر منصفانہ بل بھیجتی ہے، اپنی ریکوری بڑھانے کے لیے۔ اسی سلسلے میں سینیٹ کے چئیرمین رضا ربانی اور دیگرارا کین سینیٹ مختار احمد دھامرا، عبد القیوم سو مرو، سعید غنی اور شاہی سید نے اپنے دستخطوں سے ایک توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا تھا جس میں وزیر پانی و بجلی کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی گئی کہ نیپرا نے بتایا کہ ''کے الیکٹر ک'' کی انتظامیہ اپنے صارفین کو بھاری اور اضافی بل بھیجنے میں ملوث ہے، لہٰذا ''کے الیکٹرک'' سے زیا دہ ان لوگوں سے شکایات ہے، جنھوں نے ''کے الیکٹر ک'' کو اونے پو نے داموں میں فروخت کیا ہے۔
اس میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے اور ان کی انکوائری کی جائے، جس نے اس میں رقم کھائی اسے سزا دی جائے۔ دو دسمبر دو ہزار پندرہ کے انگریزی معاصر کے مطا بق پنجاب میں بتتیس ارب، سندھ میں سڑسٹھ ارب، کے پی کے میں چھتیس ارب اور بلوچستان میں پچیس ارب روپے کی بجلی چوری کی گئی اور اس کا سارا بوجھ پچھلے چار سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں دو سو پچاس فیصد اضافہ کر کے عام صارفین پر منتقل کیا گیا۔
بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کی کوئی سنجیدہ کوشش اگر ریاست کرتی بھی ہے تو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے اور سارا بو جھ عام لوگوں پر ڈال دیا جا تا ہے۔ نجکاری کے خلاف مشرق بعید کے مما لک میں اداروں اور کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لینے کی زبردست تحریک چل رہی ہے، جب کہ جنوبی امریکی ممالک نے اداروں اور کمپنیوں کو تیزی سے قو می ملکیت میں لینے کا کام جا ری رکھا ہوا ہے۔ یہاں کے بعض ممالک قومیائے گئے اداروں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں بھی دے رہے ہیں۔ یورپ میں بھی نجکاری کے خلاف زبردست تحریک چل رہی ہے۔
لندن کی ٹیوب ( زیر زمین ٹرین) کی نجکاری کی گئی۔ دس سال بعد مزدوروں اور عوام کی مخالفت اور دباؤکے با عث حکو مت از سر نو ٹیوب کو قومی ملکیت میں لینے پر مجبور ہوئی۔ اس وقت دنیا کے پچاسی ارب پتی افراد دنیا کی آ دھی دولت کے مالک ہیں۔ ایک جانب ارب پتیوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جا نب اربوں انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ سعودی عرب کے ایک سرمایہ دار نے افریقہ کے غریب ترین ملک ایتھوپیا کی لا کھوں ایکڑ زمین خریدی ہے۔
اسی طرح جنوبی کوریا کے ایک سرمایہ دار کا مڈغاسکر کی کل زرعی زمین کا آدھا خریدنے کا معاہدہ ہونے جا رہا تھا جس کے خلاف کسانوں نے زبردست تحریک چلائی اور اس میں بہت سے کسان جان سے بھی جاتے رہے لیکن انھوں نے زمین کوریائی سرمایہ دار کو فروخت نہیں ہونے دی، پاکستان میں بھی قطر، سعودی عرب، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، ہالینڈ اور عرب امارات کے سرمایہ داروں نے لاکھوں ایکڑ زمین ننانوے سال کے پٹے پر بھاولپور، میرپور خاص، چاغی، مکران، جہلم اور کھاریاں وغیرہ میں خریدی ہیں اور اپنی سہولت کے لحاظ سے معاہدے کیے ہیں جس کے تحت ان پر ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔
پانی اور بجلی کے استعمال کی کوئی حد مقرر نہیں ہو گی۔ ان زمینوں پر کارپوریٹ فارمنگ ہو گی اور پیداوار کو بلا ڈیوٹی یہاں سے برآمد کرنے کی اجازت ہو گی جب کہ اپنے عوام پر بجلی کی بوگس بلنگ اور ایکسیس بلنگ کی جاتی ہے مزید برآں ہر چیز میں عوام پر من مانے ٹیکس لگا کر عوام کو منو مٹی تلے دبایا جا رہا ہے۔ آ ئے روز ٹیکس لگانے سے اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں نجکاری کی جانے والے اداروں میں سے بیشتر بند ہو گئے ہیں اور ان کے ملا زمین بیروزگار ہو گئے ہیں اور جو چل رہے ہیں وہاں بھی بڑے پیمانے پر چھانٹی کی جا رہی ہے اور پیداواری اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
قومی ملکیت میں رہنے کے وقت گھی اور تیل بیس رو پے کلو تھا اور اب دو سو رو پے کلو ہے، سیمینٹ فی بوری چوبیس روپے کی تھی اور اب پانچ سو رو پے بوری ہے، چینی پہلے سترہ روپے کلو تھی اور اب باسٹھ روپے کلو ہے۔ اسی طرح بجلی پہلے ایک روپے فی یونٹ سے بڑھ کر گیارہ رو پے فی یونٹ ہو گئی۔
تمام تر اختلاف کے باوجود ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اگر کسی حد تک ریلوے کو قو می ملکیت میں رکھتے ہو ئے اس کی کارکردگی میں بہتری اور کرپشن میں کمی لا سکتے ہیں اور یہ بیان دے سکتے ہیں کہ 'اگر ریلوے کی نجکاری کی گئی تو میں اس کی وزارت سے استعفیٰ دے دونگا۔' تو پھر دوسرے وزراء ایسا کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی، غیر ریاستی معاشرے میں مضمر ہے لیکن فی الحال تمام بھاری، بنیادی اور خدمات کے اداروں کو قو می ملکیت میں لے لیا جا ئے تو مسئلہ ایک حد تک حل ہو سکتا ہے۔
بدعنوانی سرمایہ دارانہ نظام کی برا ئی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ وہ دن جلد آنے وا لا ہے جب دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔