2016ء ماہرین کے تجزیئے کیا کہتے ہیں

رواں برس عالمی سیاست ومعیشت سے لے کر شعبہ سائنس تک میں جنم لینے والی انقلابیوں کا دلچسپ بیان

رواں برس عالمی سیاست ومعیشت سے لے کر شعبہ سائنس تک میں جنم لینے والی انقلابیوں کا دلچسپ بیان ۔ فوٹو : فائل

MARDAN:
قول ہے : '' مستقبل کا انحصار اس امر پر ہے کہ آپ حال میں کیا کر رہے ہیں'' چناں چہ حال کو دیکھتے ہوئے اس سال حیاتِ انسانی کے مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا احوال ماہرین کچھ یوں بیان کررہے ہیں۔

سیاست
بیسویں صدی میں بھی مغربی استعماراور عالم اسلام کے مابین پچھلی چند صدیوں سے چلی آ رہی کشمکش جاری تھی کہ مصر میں ایک نئے عجوبے نے جنم لیا ۔ چند جوشیلے مصری نوجوان اپنی حکومت کومغربی استعمار کا پٹھو سمجھتے تھے۔ انہوں نے 1964ء میں مسلح تنظیم، تکفیر الھجرہ قائم کی ' مصر کو دارالحرب قرار دیا اور حکومت کے خلاف کارروائیاں کرنے لگے۔

یہ سلسلہ پھر بڑھتا گیا اور بعد ازاں تکفیر والھجرہ سے منسلک نوجوانوں نے اپنی مسلح تنظیمیں بھی قائم کر لیں۔ان تنظیموں نے مصری مسلمانوں کو تقسیم کر دیا۔ بیشتر مصریوں نے انہیں دور جدید کا ''خارجی'' قرار دیا، مگر تنظیموں کو بہت سے ہم نوا مسلمان بھی مل گئے۔ یہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ عیش و عشرت میں محو تمام مسلم حکمران مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ لہٰذا پہلے ان کا خاتمہ ضروری ہے،پھر فلسطین ' کشمیر' بوسنیا'چیچنیا وغیرہ کو غاصبوں سے آزاد کرایا جائے۔

آج عالم اسلام میں کئی مسلح تنظیمیں درج بالا نظریے پر یقین رکھتی ہیں۔ ان میںداعش ( اسلامی حکومت عراق و شام) سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ دیگر میں بوکو حرام' القاعدہ' تحریک طالبان پاکستان' حرکتہ الشہاب (صومالیہ) وغیرہ شامل ہیں۔

چھوٹی بڑی جنگجو تنظیموں کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔بعض تنظیمیں نظریہ تکفیر پر عمل کرتی ہیں یعنی تنظیم کے نظریات سے اتفاق نہ کرنے والا مسلمان واجب القتل ٹھہرتا ہے۔داعش نے دو تین سال قبل جنم لیا اور مختصر عرصے میں عراق و شام کے وسیع علاقے پر قابض ہو گئی۔ آج بیشتر اسلامی ممالک میں اس کے حامی ملتے ہیں۔ جبکہ دنیا کی سّکہ بند پانچ میں سے چار سپر پاورز... امریکا' روس' برطانیہ اور فرانس اس سے نبردآزما ہو چکی ہیں۔

ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے، داعش کے قائد، ابوبکر بغدادی مسلمانوں اور غیر مسلموں کی وہ ''عظیم جنگ'' چاہتے ہیں جسے قرآن و سنّت میں قرب قیامت کی علامت کہا گیا ہے۔ بائیبل کی رو سے یہ جنگ ''ہر مجدون'' کہلاتی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے، اس جنگ کا آغاز شام کے شہر' دابق سے ہو گا ۔اسی لیے داعش نے دابق پہ قبضہ کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔داعش کی بھرپور کوشش ہے کہ اپنی لڑائی کو عالم اسلام اور مغرب کے مابین جنگ میں بدل دے۔داعش کے حامی اسے مجاہدین کی جماعت قرار دیتے ہیں۔مخالف مسلمانوں کی نظر میں یہ وہ فتنہ ہے جسے مسلم دشمن طاقتوں نے کھڑا کیا۔

2016ء میں بھی یقینا داعش کے خلاف سپرپاورز کے فضائی حملے جاری رہیں گے، مگر ماہرین کا کہنا ہے،اس کا مکمل صفایا کرنے کی خاطر زمینی حملہ بہت ضروری ہے۔ فضائی حملوں سے داعش کا انفراسٹرکچر کمزور تو ہوگا، مگر پھر وہ القاعدہ کی طرح غیر روایتی طرز جنگ اپناسکتی ہے... مثال کے طور پر مغربی شہروں میں شہریوں پر حملے کرنا۔ایسے حملوں سے امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف مزید نفرت پھیلے گی۔ کئی یورپی لیڈر مسلمان مہاجرین کو یورپ آنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ داعش کی پُرتشدد کارروائیوں سے مدد پاکر وہ اپنے ممالک کی سرحدیں بند کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

عراق اور شام میں داعش کے ظہور نے دونوں اسلامی ممالک کی صورت حال بہت پیچیدہ بنا ڈالی ہے۔سپرپاورز اپنی فوجیں ان ملکوں میںبھجوانے سے کترا رہی ہیں کیونکہ وہ اپنے فوجی مروانے کو تیار نہیں۔ امریکا اورنیٹو ممالک کی کوشش ہے کہ ترک فوج شام پر حملہ کردے۔ مگر ترکی بھی اپنے پڑوسیوں سے جنگ کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔یوں وہ بیٹھے بٹھائے دشمن بنا لے گا۔

یہ ممکن ہے کہ قائدینِ داعش کے ارادے نیک ہوں اور وہ واقعی خلافت راشدہ کی طرز پر حکومت قائم کرنا چاہتے ہوں۔ لیکن پچھلے تین برس سے داعش اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں سے نبردآزما ہے۔ اس کے قائدین میں خلفائے راشدین کی طرح فراست، رواداری، اعتدال پسندی، ذہانت اور انسان دوستی جیسی خوبیاں نظر نہیں آتیں۔اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کو متحد کرنے کے بجائے مزید پارہ پارہ کردیا۔

پاکستان کی بات کی جائے تو 2016ء میں پاکستانی حکومت کی توجہ دہشت گردی کے خاتمے، معیشت کو سنبھالا دینے اور توانائی بحران حل کرنے پر مرکوز رہے گی۔ مزید برآں اسے اپنے پڑوسیوں سے بھی تعلقات خوشگوار رکھنے ہوں گے تاکہ بیرونی محاذ پر کوئی نیا مسئلہ نہ کھڑا ہو۔
٭٭
نومبر 2016ء میں سپر پاور امریکا میں صدارتی انتخابات منعقد ہوں گے۔ امریکی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اصل مقابلہ ڈیموکریٹک امیدوار' ہیلری کلنٹن اور ریپبلکن امیدوار' مارکو روبیو کے مابین ہو گا۔ تاہم ریپبلکن پارٹی کی طرف سے جیب بش یا ٹیڈ کروز بھی امیدوار ہو سکتے ہیں۔

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے ریپبلکن امیدواروں' ڈونالڈ ٹرمپ اور بن کارسن کی جیت کاامکان کم ہے۔ ایک سرمایہ کار تو دوسرا ریٹائر سرجن سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے سیاست میں داخل ہوئے اور اس شعبے کو مزید بدنام کر ڈالا۔امریکی سیاسی پنڈتوں کی رو سے ہیلری کلنٹن امریکا کی پہلی خاتون صدر ہونے کااعزاز حاصل کر لیں گی۔ اعتدال پسندی' سیاست میں مہارت اور علمی وجاہت ہیلری کلنٹن کے ''پلس پوائنٹ '' ہیں۔



معیشت

2015ء میں سب سے بڑا معاشی واقعہ تیل کی قیمتوں کا گرنا ثابت ہوا۔ اگست 2014ء میں ایک بیرل تیل کی قیمت ''115 ڈالر'' تک جاپہنچی تھی۔ چونکہ تیل کی قیمت اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے لہٰذا ان دنوں ضروریات زندگی اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی آسمان پر جاپہنچی تھیں۔

آخر تیل کی قیمت گرنا شروع ہوئی اور اب ایک بیرل تیل تقریباً ''30 ڈالر'' میں مل رہا ہے۔ چناںچہ دنیا بھر میں ضروریات زندگی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے۔ اس سال کے اوائل سے ایرانی تیل بھی بین الاقوامی منڈی میں فروخت ہونے لگے گا۔ لہٰذا خیال ہے، فی بیرل تیل کی قیمت مزید کم ہوگی۔ عوام کے لیے تو یہ اچھی خبر ہی ہے۔

2015ء چین کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا کیونکہ اس کی شرح معاشی ترقی بدستور گرتی رہی۔ 2016ء میں بھی شرح ترقی بڑھنے کا امکان نہیں۔ ''برکس'' (BRICKS)کے بقیہ ممالک یعنی روس، برازیل اور جنوبی افریقہ بھی معاشی مسائل کا نشانہ بن چکے۔ صرف بھارت کی شرح ترقی میں اضافے کا رجحان ہے۔ اس صورت حال میں برکس اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور پہلے جیسی ابھرتی طاقت نہیں رہا۔

دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت امریکا میں معیشت سنبھل رہی ہے جو پہلے زوال کا شکار تھی۔ آج امریکا میں ہر ہفتے 50 ہزار نئی ملازمتیں جنم لے رہی ہیں۔ ماہرین معاشیات کا دعویٰ ہے، 2016ء میں بھی یہ مثبت رجحان جاری رہے گا۔ ڈالر کی بڑھتی قدر سے بھی امریکی معیشت کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔

امریکا کو ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی معیشت مقامی ہے۔ یعنی برآمدات امریکی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا صرف 15 فیصد ہیں۔ جب کہ کئی ممالک مثلاً آئرلینڈ، ویت نام، متحدہ عرب امارات، سلواکیہ، ہالینڈ، لتھونیا، ہانگ کانگ وغیرہ برآمدات ہی سے آمدنی کماتے ہیں۔ لہٰذا جب دیگر ممالک معاشی بحران میں مبتلا ہوں، تو وہاں کی معیشت بھی زوال پذیر ہوجاتی ہے۔

سماجیات
شام کی خانہ جنگی اپریل 2011ء سے شروع ہوئی۔ تب سے تقریباً پنتالیس لاکھ شامی اپنا گھر بار چھوڑ کر تارکین وطن بن چکے۔ ان میں سے پینتیس لاکھ ترکی، لبنان اور اردن میں مقیم ہیں۔ لیکن ان ممالک میں شامیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں، اس لیے تقریباً دس لاکھ شامی یورپ یا شمالی امریکا ہجرت کرگئے۔شامیوں کی دیکھا دیکھی افغانستان، عراق اور کئی افریقی ممالک سے بھی لوگ یورپ جانے لگے۔ چناںچہ تخمینہ ہے کہ صرف 2015ء میں دس لاکھ سے زائد غیر ملکیوں نے یورپی ممالک میں پناہ لی۔

ان تارکین وطن، پناہ گزینوں اور مہاجرین میں 95 فیصد مسلمان ہیں۔ اس واسطے خصوصاً پیرس حملوں کے بعد یورپ میں مسلمان تارکین وطن کے خلاف مخالفت بڑھ گئی۔ انہیں معیشت پر بوجھ سمجھا اور شدت پسند کہا جانے لگا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ وہ مقامی لوگوں سے ملازمتیں چھین لیں گے۔ غرض تارکین وطن کے مخالف یورپی لیڈروں نے مختلف دلائل دے کر یورپیوں کو آنے والے شامیوں، افغانیوں، افریقیوں وغیرہ سے برگشتہ کردیا۔ حتیٰ کہ انہیں غیر ملکیوں سے خوف محسوس ہونے لگا۔

اسی عجوبے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یورپی ممالک میں قوم پرستی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین عمرانیات کی رو سے 2016ء میں یہ رجحان جاری رہے گا۔ یہ مظہر یورپ میں مقامی انتخابات کے ذریعے نمایاں ہورہا ہے۔ مثلاً پیرس حملوں کے بعد فرانس میں ریاستی اور مقامی پارلیمنٹوں کے الیکشن ہوئے۔ ان میں قوم پرست اور شدت پسند فرانسیسی جماعت، نیشنل فرنٹ نے قومی سطح پر سب سے زیادہ ووٹ لیے۔

پناہ گزینوں کے بحران کی وجہ سے تقریباً سبھی یورپی ممالک میں قوم پرست پارٹیوں کو فائدہ پہنچا اور یورپی عوام ان کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ خطرناک رجحان ہے کیونکہ قوم پرست لیڈر عموماً تنگ نظر ہوتے ہیں اور وہ اہم فیصلے کرتے ہوئے انسان دوستی، اعتدال پسندی اور رواداری کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔

سائنس
اس سال بھی سائنسی موضوعات میں شعبہ ماحولیات سرفہرست رہے گا۔ وجہ یہ کہ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے، درجہ حرارت کی ریکارڈ شدہ تاریخ میں 2016ء گرم ترین سال ثابت ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ 1961ء تا 1990ء کرہ ارض کا درجہ حرارت 14 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے۔ 1990ء سے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس برس عالمی درجہ حرارت 14 ڈگری سینٹی گریڈ سے 0.72 تا 0.96 سینٹی گریڈ زیادہ ہونے کی توقع ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں کمی بیشی قدرتی آفات مثلاً قحط، طوفان، زیادہ بارشیں وغیرہ جنم دینے کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے سے قدرتی آفات بھی زیادہ تعداد میں وقوع پذیر ہونے لگی ہیں۔ اس خطرے کا سدباب یہی ہے کہ رکازی ایندھن کم سے کم جلا کر عالمی درجہ حرارت میں کمی کی جائے۔آب و ہوا اور موسموں میں تغیر و تبدل سے پاکستان کو بھی متفرق مسائل کا سامنا ہے۔
٭٭
رواں سال بھی مشین اور انسان کا ادغام جاری رہے گا۔ اب تک ایسے کئی آلات سامنے آچکے جنہیں انسان پہن کر روزمرہ کاموں میں مدد لینے لگا ہے۔ یہ آلات ''وئیرایبل'' (wearable) کہلاتے ہیں۔ ماہرین سائنس کے نزدیک اس سال ''انٹرن ایبلز'' (Internables) کا چلن شروع ہوگا۔ یہ آلات انسانی جسم کے اندر نصب ہوں گے اور وائی فائی کی مدد سے کام کریں گے۔

وائی فائی کی ٹیکنالوجی کو بہتر سے بہتر بنانے پر بھی تحقیق جاری ہے تاکہ انسان کے زیر استعمال سبھی مشینی اشیا باہم منسلک ہوجائیں۔ امریکا اور یورپ میں ایسی تاریں بچھانے پر کام جاری ہے جن میں ڈیٹا ''ایک گیگا بائٹ فی سیکنڈ'' کی رفتار سے سفر کرے گا۔ یوں انٹرنیٹ دنیا پر ڈیٹا کی نقل وحرکت بہت تیز رفتار اور آسان ہوجائے گی۔

نوسٹرا ڈیمس نے کیا دیکھا؟
جب بھی نئے برس کا سورج طلوع ہوتا ہے میڈیا میں مشہورفرانسیسی نجومی، مچل نوسٹراڈیمس کی پیشن گوئیاں چکر کھانے لگتی ہیں۔ اس فرانسیسی نجومی نے سولہویں صدی میں پیشن گوئیاں پہ مشتمل ایک کتاب لکھی تھی۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس کی کچھ پیشن گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ نوسٹراڈمیس نے مستقبل میں عظیم جنگیں ہونے، زمین پر شہاب ثاقب گرنے اور قیامت آنے کی پیشن گوئیاں کررکھی ہیں۔ جب بھی نیا سال آئے، تو انہی کا تذکرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً مغربی میڈیا میں یہ چرچا عام ہے کہ 2016ء میں تیسری عالمی جنگ چھڑسکتی ہے کیونکہ ایک طرف روس اور چین کا اتحاد ہے اور دوسری جانب امریکہ اور نیٹو ممالک صف آرا ہیں۔
Load Next Story