شمالی کوریا کا ہائیڈروجن بم تجربہ

شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے تجربے سے یاد آیا کہ امریکا نے ہائیڈروجن بم کا پہلا تجربہ 1952 ء میں کیا تھا۔

شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے تجربے سے یاد آیا کہ امریکا نے ہائیڈروجن بم کا پہلا تجربہ 1952 ء میں کیا تھا، فوٹو؛ فائل

ISLAMABAD:
شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ امریکا، جاپان، جنوبی کوریا سمیت متعدد ممالک نے اس کی مذمت کی ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے شمالی کوریا کو اس کے ہر ایٹمی تجربے پر سب و شتم کا نشانہ بناتے ہوئے دعوی کرتا رہا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک کے عوام بھوکوں مر رہے ہیں جب کہ وہ اپنے قیمتی وسائل جوہری تجربات پر ضایع کر رہا ہے۔ جہاں تک شمالی کوریا کا تعلق ہے تو ظاہر ہے اس کے تمام دشمنوں کے جوہری ذخائر چھلک چھلک پڑ رہے ہیں ایسی صورت میں اسے اپنے تحفظ کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے تجربے سے یاد آیا کہ امریکا نے ہائیڈروجن بم کا پہلا تجربہ 1952 ء میں کیا تھا جو کہ اس نے سوویت روس کے ہائیڈروجن بم دھماکے کے جواب میں کیا تھا جیسا کہ پاکستان کو بھارتی ایٹمی بم کے جواب میں ایٹم بم بنانا پڑا تھا۔ شمالی کوریا میں پنجی ری وہ مقام ہے جہاں 2006ء سے اب تک شمالی کوریا تین مرتبہ زیرِ زمین جوہری بم کے تجربات کر چکا ہے۔ امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق زلزلے کی شدت5.1 تھی۔ شمالی کوریا کی جانب سے جوہری تجربے کے دعوے کے بعد مغربی دنیا کی طرف سے اس اقدام کو عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔


امریکا نے شمالی کوریا سے کہا ہے کہ وہ اپنے عالمی وعدوں کی پاسداری کرے اور اس قسم کے اشتعال انگیز اقدامات کا جواب دیا جائے گا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا اس معاملے کا جائزہ لے رہا ہے لیکن ابھی تجربے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے معاملے پر اجلاس طلب کر لیا ہے۔ ادھر جوہری امور کے ماہرین نے شمالی کوریا کے دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا یہ دھماکا واقعی میں اتنا شدید تھا جو کہ ہائیڈروجن بم کے نتیجے میں ہو سکتا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اینڈ کارپویشن کے اہلکار بروس بینٹ نے بھی شمالی کوریا کے دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

بہر حال شمالی کوریا جیسے چھوٹے اور محدود وسائل کے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اپنے تمام تر وسائل کو جھونکنے کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں وہ طاقتور اقوام سے آگے نہیں نکل سکتا۔ ادھر طاقتور اقوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر کمزور اور محدود وسائل کے حامل ملک بھی ایٹمی ہتھیار تیار کررہے ہیں' یہ سب طاقتور اقوام کی یکطرفہ اور استحصالی پالیسیوں کا نتیجہ ہے' اگر طاقتور اقوام اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں اور کمزور اقوام کے وسائل پر قبضہ نہ کریں اور انھیں تحفظ کا احساس ہو تو کمزور اقوام ایٹمی ہتھیار بنانا ترک کر دیں گی۔
Load Next Story