میں کس کا ساتھ دوں
علامہ اقبال مفکر پاکستان کا زیادہ تر عربی روایات کا کلام بھی فارسی زبان میں ہے۔
دو بھائیوں کی لڑائی میں ایک ایسا بھی وقت آتا ہے جب تیسرے بھائی کو فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے اور تیسرے بھائی کو سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دے۔ ایسی صورت میں کئی طرح سے جائزہ لینا پڑتا ہے کہ دونوں بھائیوں کا کردار کیا ہے۔
شخصی اعتبار سے کس کا کیا کردار ہے، عام لوگوں سے اس کا برتاؤ کیا ہے، بندگان خدا سے اس کا برتاؤ رحم، انصاف، حسن سلوک، رواداری، لین دین، روایتی تاریخی جائزہ، حسب نسب، علم و فہم، تقویٰ اور سیکڑوں چیزیں مدنظر رکھنے کے علاوہ کڑے وقت میں اس کا کردار کیا رہا۔ پھر روایتی اعتبار سے تاریخی روابط اور نسبتی، رحم دلی، قصاص، معافی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو مغلیہ سلطنت کا برصغیر پر حکمرانی کا خواب مغلیہ سلطنت نہ دیکھ پاتی اگر ہمایوں کو ایران کی حمایت حاصل نہ ہوتی۔ سرنگا پٹنم پر انگریزوں کے قبضے کے بعد برصغیر سے فارسی ختم ہوئی۔ مگر اردو زبان سے فارسی کا ناتا قدیم ہے۔
علامہ اقبال مفکر پاکستان کا زیادہ تر عربی روایات کا کلام بھی فارسی زبان میں ہے۔ مرزا غالب کو اپنے فارسی کلام پر ناز رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی الفاظ نے اردو کو فصیح و بلیغ بنایا ہے اور عربی زبان کو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے پر فخر رہا ہے مگر عربی زبان عربی بولنے والے تمام مسالک کی زبان ہے۔ یہاں تک کہ عرب کرسچن اور یہودیوں کی زبان بھی ہے، پاک و ہند میں جو بھی اولیا حضرات تشریف لائے وہ عربی و فارسی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ عرب و عجم، بادشاہ و فقیر کا مسئلہ تو آنحضرتؐ نے ختم کر دیا تھا، بادشاہت کا تصور اسلام میں نہیں بلکہ سلطانی جمہور کا تصور ہے۔
ادھر سعودی عرب میں ہونے والے واقعے نے نئی صورت حال کو جنم دے دیا ہے۔ جس سے ایرانی اور سعودی سفارتی اور ہر قسم کے تعلقات منقطع ہو گئے۔ سوڈان اور بحرین نے بھی تعلقات منقطع کردیے، اب لگتا ہے کہ نئی صف بندی ہوگی۔ البتہ اس واقعہ نے امریکا کے لیے کچھ دشواریاں پیدا کر دیں، امریکا پر ہیومن رائٹس انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ان پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں دہشت گردوں کی چند پھانسیوں کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔
ایسی صورت میں پاکستان کے لیے یہ مشکل ہے کہ ان دونوں ممالک میں سے وہ کس کا ساتھ دے کیونکہ پاکستان کو 1965ء کی جنگ میں ایران کی جانب سے ہماری فضائی قوت کی عملی طور پر حمایت، 1970ء میں جب جنگ میں کیماڑی کے آئل ٹینکروں کو آگ بجھانے اور سفارتی طور پاکستان کا ساتھ دینا پاکستان نہیں بھولا۔ پھر دیرینہ تعلقات اور اردو زبان اور فارسی زبان کا رشتہ، پھر آر سی ڈی کی یاد ابھی بھی تازہ ہے۔ اگر پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دیتا ہے تو روس، چین تعلقات اور پاکستان کس طرح آگے چلے گا۔
کیونکہ راہداری اور چین کے پاکستان سے کس طرح معاملات آگے بڑھیں گے، ایسے موقع پر شمالی کوریا کا ہائیڈروجن بم کا تجربہ، یہ سب عالمی تعلقات میں بے معنی نہیں شاید ہمارے خطے میں صرف سی این این اور بی بی سی دیکھا جاتا ہے اس لیے عام لوگوں کو علم نہیں جیسا کہ آر ٹی (RT) (CCTV) چائنا ٹی وی، پریس ٹی وی کے مطابق اب شام پر فضائی حملہ ناممکنات میں سے ہو گیا ہے روس نے فضائی حصار باندھ لیا ہے اور عراق کا سعودی عرب سے تعلق کشیدہ ہو گیا ہے۔
اس لیے پاکستان کو ان 30-34 ملکوں کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں اس موقع پر مجھے متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کا یہ پیغام یاد آ رہا ہے کہ عرب ملکوں کے اتحاد کو صفر سمجھو صفر (0) جمع ہزار صفر (0) نتیجہ صفر ہی رہے گا کہ دفاعی طور پر نہ ان کے پاس کوئی فوجی انڈسٹری ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مضبوط فوج لہٰذا اس مفروضے کو سامنے رکھ کر فیصلے کی ضرورت ہے اور پھر ابتدا میں جن پہلوؤں کو زیر غور لایا گیا ہے ان تمام پہلوؤں کو زیر بحث لانا ضروری ہے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کا استوار ہونا ضروری ہے ورنہ یہ پراکسی وار ڈائریکٹ وار میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
جب کوئی سلطان کسی ملک میں جمہوریت کی بات کرتا ہے تو یہ ہنسی کا مقام ہے خود را فضیحت دیگراں را نصیحت۔ لہٰذا ایک دوسرے کے خلاف ظلم روا رکھنے کی اجازت کسی کو نہ ہونی چاہیے، کسی نسل، فرقے کو کسی ملک میں ظلم روا رکھنے کی آزادی نہ ہونی چاہیے ایسے موقع پر پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی ملک کے اتحاد کا حصہ نہ بنے ورنہ مشرق وسطیٰ کی جنگ ہمارے دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔
افغانستان اور بھارت کی سرحدیں مخدوش ہو چکی ہیں، لہٰذا تیسری طرف کی سرحدیں اگر مخدوش ہوئیں تو یہ پاکستان کے لیے اچھا نہ ہو گا۔ تاریخ کے تناظر میں تو ایران پاکستان تلخی کا تصور نہیں کیا جا سکتا لہٰذا پاکستان کو ایک ایسا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ چنگاری شعلہ نہ بنے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بادشاہت کے زعم میں تیغ کشی اپنے پرامن شہری پر اب بند ہونی چاہیے، دنیا بدل چکی ہے، آزادی اظہار پر اس قدر سختی زیادہ عرصہ ممکن نہیں ہے۔
شخصی اعتبار سے کس کا کیا کردار ہے، عام لوگوں سے اس کا برتاؤ کیا ہے، بندگان خدا سے اس کا برتاؤ رحم، انصاف، حسن سلوک، رواداری، لین دین، روایتی تاریخی جائزہ، حسب نسب، علم و فہم، تقویٰ اور سیکڑوں چیزیں مدنظر رکھنے کے علاوہ کڑے وقت میں اس کا کردار کیا رہا۔ پھر روایتی اعتبار سے تاریخی روابط اور نسبتی، رحم دلی، قصاص، معافی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو مغلیہ سلطنت کا برصغیر پر حکمرانی کا خواب مغلیہ سلطنت نہ دیکھ پاتی اگر ہمایوں کو ایران کی حمایت حاصل نہ ہوتی۔ سرنگا پٹنم پر انگریزوں کے قبضے کے بعد برصغیر سے فارسی ختم ہوئی۔ مگر اردو زبان سے فارسی کا ناتا قدیم ہے۔
علامہ اقبال مفکر پاکستان کا زیادہ تر عربی روایات کا کلام بھی فارسی زبان میں ہے۔ مرزا غالب کو اپنے فارسی کلام پر ناز رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی الفاظ نے اردو کو فصیح و بلیغ بنایا ہے اور عربی زبان کو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے پر فخر رہا ہے مگر عربی زبان عربی بولنے والے تمام مسالک کی زبان ہے۔ یہاں تک کہ عرب کرسچن اور یہودیوں کی زبان بھی ہے، پاک و ہند میں جو بھی اولیا حضرات تشریف لائے وہ عربی و فارسی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ عرب و عجم، بادشاہ و فقیر کا مسئلہ تو آنحضرتؐ نے ختم کر دیا تھا، بادشاہت کا تصور اسلام میں نہیں بلکہ سلطانی جمہور کا تصور ہے۔
ادھر سعودی عرب میں ہونے والے واقعے نے نئی صورت حال کو جنم دے دیا ہے۔ جس سے ایرانی اور سعودی سفارتی اور ہر قسم کے تعلقات منقطع ہو گئے۔ سوڈان اور بحرین نے بھی تعلقات منقطع کردیے، اب لگتا ہے کہ نئی صف بندی ہوگی۔ البتہ اس واقعہ نے امریکا کے لیے کچھ دشواریاں پیدا کر دیں، امریکا پر ہیومن رائٹس انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ان پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں دہشت گردوں کی چند پھانسیوں کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔
ایسی صورت میں پاکستان کے لیے یہ مشکل ہے کہ ان دونوں ممالک میں سے وہ کس کا ساتھ دے کیونکہ پاکستان کو 1965ء کی جنگ میں ایران کی جانب سے ہماری فضائی قوت کی عملی طور پر حمایت، 1970ء میں جب جنگ میں کیماڑی کے آئل ٹینکروں کو آگ بجھانے اور سفارتی طور پاکستان کا ساتھ دینا پاکستان نہیں بھولا۔ پھر دیرینہ تعلقات اور اردو زبان اور فارسی زبان کا رشتہ، پھر آر سی ڈی کی یاد ابھی بھی تازہ ہے۔ اگر پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دیتا ہے تو روس، چین تعلقات اور پاکستان کس طرح آگے چلے گا۔
کیونکہ راہداری اور چین کے پاکستان سے کس طرح معاملات آگے بڑھیں گے، ایسے موقع پر شمالی کوریا کا ہائیڈروجن بم کا تجربہ، یہ سب عالمی تعلقات میں بے معنی نہیں شاید ہمارے خطے میں صرف سی این این اور بی بی سی دیکھا جاتا ہے اس لیے عام لوگوں کو علم نہیں جیسا کہ آر ٹی (RT) (CCTV) چائنا ٹی وی، پریس ٹی وی کے مطابق اب شام پر فضائی حملہ ناممکنات میں سے ہو گیا ہے روس نے فضائی حصار باندھ لیا ہے اور عراق کا سعودی عرب سے تعلق کشیدہ ہو گیا ہے۔
اس لیے پاکستان کو ان 30-34 ملکوں کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں اس موقع پر مجھے متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کا یہ پیغام یاد آ رہا ہے کہ عرب ملکوں کے اتحاد کو صفر سمجھو صفر (0) جمع ہزار صفر (0) نتیجہ صفر ہی رہے گا کہ دفاعی طور پر نہ ان کے پاس کوئی فوجی انڈسٹری ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مضبوط فوج لہٰذا اس مفروضے کو سامنے رکھ کر فیصلے کی ضرورت ہے اور پھر ابتدا میں جن پہلوؤں کو زیر غور لایا گیا ہے ان تمام پہلوؤں کو زیر بحث لانا ضروری ہے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کا استوار ہونا ضروری ہے ورنہ یہ پراکسی وار ڈائریکٹ وار میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
جب کوئی سلطان کسی ملک میں جمہوریت کی بات کرتا ہے تو یہ ہنسی کا مقام ہے خود را فضیحت دیگراں را نصیحت۔ لہٰذا ایک دوسرے کے خلاف ظلم روا رکھنے کی اجازت کسی کو نہ ہونی چاہیے، کسی نسل، فرقے کو کسی ملک میں ظلم روا رکھنے کی آزادی نہ ہونی چاہیے ایسے موقع پر پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی ملک کے اتحاد کا حصہ نہ بنے ورنہ مشرق وسطیٰ کی جنگ ہمارے دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔
افغانستان اور بھارت کی سرحدیں مخدوش ہو چکی ہیں، لہٰذا تیسری طرف کی سرحدیں اگر مخدوش ہوئیں تو یہ پاکستان کے لیے اچھا نہ ہو گا۔ تاریخ کے تناظر میں تو ایران پاکستان تلخی کا تصور نہیں کیا جا سکتا لہٰذا پاکستان کو ایک ایسا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ چنگاری شعلہ نہ بنے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بادشاہت کے زعم میں تیغ کشی اپنے پرامن شہری پر اب بند ہونی چاہیے، دنیا بدل چکی ہے، آزادی اظہار پر اس قدر سختی زیادہ عرصہ ممکن نہیں ہے۔