سامراجی معاشی و اشرافیائی جمہوری غلامی چوتھا حصہ

عالمی مہنگائی سے توانائی کے حوالے سے تیل کا بنیادی کردار ہے۔

k_goraya@yahoo.com

کتاب "Arab Petro Politics کے صفحے 47 پر ٹیبل 29 کو پیش کیا جاتا ہے۔1971 میں OAPEC ممبر 13 ملکوں کی تیل آمدنی ریونیو 1961 میں 2439.4 ملین ڈالر، 1965 میں 3906.0 ملین ڈالر 1970 میں 7526.0 ملین ڈالر، 1971 میں 11023.2 ملین ڈالر 1972 میں 13673.8 ملین ڈالر، 1973 میں 22813.2 ملین ڈالر، 1974 میں 87196.8 ملین ڈالر، 1975 میں 92449.3 ملیں ڈالر، 1976 میں 107884.8 ملین ڈالر، 1977 میں 122520.8 ملین ڈالر، اور 1980 میں 264025.1 ملین ڈالر تھا۔

عالمی مہنگائی سے توانائی کے حوالے سے تیل کا بنیادی کردار ہے۔ امریکا ایک طرف معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں پر سڈ مڈ CDMEd لگاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان ملکوں کو تیل مہنگا خریدنا پڑتا ہے اور عربوں کی تیل کی آمدنی بڑھتی رہتی ہے۔ اور عربوں میں امریکی تیل کمپنیاں اور دوسرے یورپی ملکوں کی تیل کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔

عربوں کا تمام سرمایہ امریکی بینکوں اور یورپی بینکوں میں منتقل ہوتا گیا۔ عربوں کی آمدنی (ریونیو) میں 1961 سے 1980 کے دوران 10 ہزار 7 سو 23 فیصد (10723.00فیصد) اضافہ ہوگیا تھا۔ اور پوری دنیا میں 1961 فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر 19130.0 ملین ڈالر اور 1980 میں بڑھ کر 370451.15 ملین ڈالر ہوگئے تھے۔ فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر میں 1937 فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔ اور 1961 سے 1980 تک تیل کی قیمتوں میں (1961 میں 1.45 ڈالر فی بیرل تیل اور 1980 میں اوسطاً 30.713 ڈالر فی بیرل تیل) 2018 فیصد ڈالر اضافہ ہوا تھا۔ یہ اضافہ تقریباً دنیا کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر فی صد 1937 اضافے کے تقریباً برابر ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے اگر امریکا عربوں کو استعمال نہ کرتا تو آج پوری دنیا کے معاشی غلام ملکوں کی معیشت ایسی نہ ہوتی جو ''امریکا عرب مشترکہ ہتھکنڈے'' کے بعد تباہی کی شکل میں آج موجود ہے۔اس طرح امریکا جس کے پاس ڈالر کے عوض سونا ادا کرنا مشکل تھا۔ اسی امریکا نے IMF کے پلیٹ فارم سے معاشی غلام ملکوں پر سڈ مڈ مردہ ڈالر ٹیکس لگا کر ان ملکوں کی مجموعی معیشتوں کو خساروں میں بدل کر مردہ ڈالروں کا مقروض ملک بنادیا۔ ساتھ ہی تجارت کے لیے مردہ ڈالر کے ''فارن ایکسچینج'' رکھنے پر مجبور کردیا۔ دوسری طرف عربوں کے حکمرانوں کے ذریعے (رمضان جنگ) 6 اکتوبر 1973 کو کروا کر (شام اور مصر نے اسرائیل پر حملہ کردیا تھا)۔

سعودی عرب کے ذریعے عربوں کی خاص تنظیم OAPEC ، 1971 میں مکمل (کروا) تکمیل کے بعد پھر اس تنظیم کو استعمال کرکے تیل کا بائیکاٹ کروا کر تیل کی قیمتیں بڑھوا کر یورپ کو زمین چاٹنے پر مجبور کردیا۔ اور عربوں کے ذریعے مردہ ڈالر پھر واپس امریکی بینکوں میں واپس جمع کروالیے۔ امریکا ہمیشہ دوسرے ملکوں کو استعمال کرتا آیا ہے۔ افغانستان اور سابقہ سوویت یونین جنگ میں امریکا نے جنرل ضیا الحق اس کی ٹیم کے ذریعے جہادی خریدے افغانستان جنگ میں اسلامی جہاد کے نام پر جھونک دیے۔ آخر میں 1985 میں امریکا نے پھر سعودی عرب کے بادشاہ کو استعمال کیا۔ تیل 1985 میں 30 ڈالر کا فی بیرل تھا۔

1986 میں سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں کئی ملین بیرل اضافہ کردیا جس کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 30 ڈالر بیرل سے گر کر 10 ڈالر بیرل تیل پر آگئیں۔ سوویت یونین کی معیشت خسارے کا شکار ہوگئی۔ سوویت یونین نے اس کے بعد افغانستان سے نکلنے کا اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ ایسا ہی تجزیہ فلسفی ماہر قانون دان خادم تھیم نے سوویت یونین کے افغانستان سے اخراج کے بعد روزنامہ ایکسپریس کراچی میں مضمون کی شکل میں پیش کیا تھا۔ راقم نے اپنی ریسرچ کے دوران اس سلسلے میں شایع ہونے والی کتابوں اور خاص آئی ایم ایف کے پیش کردہ اعداد و شمار سے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا تھا۔

امریکا نے افغان وار میں طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو بنوایا۔ اس کے بعد شام میں باغیوں کو امریکی اسلحہ اور ڈالر کی بارش کرکے شام کی حکومت کے خلاف ان کو استعمال کیا اور پھر کامیابی نہ ملی تو امریکا نے داعش کو بنوا کر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام شروع کرادیا۔ یاد رہے کہ امریکا دوسرے ملکوں میں موجود تضادات کو اپنے طریقے سے واقعات سے حالات کے تناظر میں ابھار کر اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ لارنس آف عریبیہ نے عربوں میں ''عرب قوم پرستی'' کو ابھارنے کا کام کیا جس سے ترکی کی سلطنت کمزور ہوگئی تھی اور پھر یورپی سامراجیوں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے تھے۔ اور 15 دسمبر 2015 کو امریکا جس نے ''لارنس آف عریبیہ'' کا کردار اب طالبان، القاعدہ اور اب داعش کی شکل میں اسٹیج کردیا ہے۔


امریکا اس خطے میں زیادہ دفاعی قوت افواج کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ آسانی سے باقی وسائل پر قبضہ کرسکے۔اب پھر مزید امریکا سعودی عرب کے ذریعے 34 اسلامی ملکوں کی ''تنظیم اسلامی اتحاد'' بنوا کر اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے اس تمام خطے کو بارود کے ڈھیر میں جلانا چاہتا ہے تاکہ جتنا زیادہ عوام کا قتل عام ہو اتنا ہی امریکا کو یہاں کے وسائل کو مزید لوٹنے اور استعمال کرنے کا موقع ملے۔ کیونکہ 2035 میں سعودی عرب کے تیل ذخائر خشک ہو رہے ہیں۔ اب امریکا عرب خطے کو ختم کروا کر نوآزاد ممالک جو سوویت یونین کی تحلیل کے بعد وجود میں آئے ہیں یہ CIS ممالک آرمینیا، آذر بائیجان، بیلاروس، جارجیا، قازقستان ، کرغسزتان، مالدوا، رشیا، یوکرین کے وسائل کو مادرپدر آزاد ہوکر استعمال کرسکے۔ امریکا یہاں پر مسلم ممالک کی افرادی قوت کا بھرپور استعمال کرنے کا سوچ رہا ہے۔

یہ افرادی قوت ''اسلامی اتحاد'' کے پلیٹ فارم پر اکٹھی کرنے جا رہا ہے۔ اور نئی شکل میں طالبان بنانے کے لیے سعودی بادشاہ کو اسلام کے نام پر پھر استعمال کر رہا ہے کیونکہ داعش کو تو خود امریکا نے ہی بنایا ہے اور اس کی فنڈنگ اور سرمایہ امریکا 20 اسلامی ملکوں کے ذریعے کر رہا ہے۔ جس کا اشارہ رشین صدر ولادی میر پوتن کرچکا ہے کہ 20 عرب ممالک داعش کو فنڈنگ کر رہے ہیں اور یہ بیان دسمبر 2015 میں سامنے آنے کے بعد سامراجی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے پھر پلاننگ کے بعد سب مل کر چلانے لگے۔

برطانوی سامراجی اخبار سنڈے ٹائمز کے حوالے سے پاکستانی اخبارات میں یہ خبر 28 دسمبر 2015 کو شایع ہوئی کہ ''سنڈے ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن اور افغان طالبان کے امیر ملا منصور کے درمیان خفیہ ملاقات تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں 15 ستمبر کو ایک ملٹری بیس پر ہوئی جس میں روسی صدر نے ملا منصور کو ہتھیاروں اور مالی امداد کی پیشکش کی۔ حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ 28 دسمبر 2015 کی شام کو 6 بجے ٹی وی خبروں میں سعودی عرب کے مفتی اعظم کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ ''داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے۔

اس کے لیے ''اسلامی اتحاد'' کے ذریعے مسلم ممالک مل کر اسے شکست دیں گے۔'' اس سے اب یہ مزید واضح ہوجاتا ہے کہ سامراجی امریکا اور اس کے حواری مل کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں کمزور اور قتل عام کروانا چاہتے ہیں اور اس جنگ میں امریکی اور یورپی ملکوں کے جاسوس عربوں کا بھیس دھار یا بنا کر مزید اس جنگ کو ہوا دیں گے۔امریکا مسلسل 1900 سے لے کر 2015 تک ''عالمی کرنسی وار'' بھی کرتا آرہا ہے یعنی 115 سال سے مسلسل دوسرے ملکوں کے مالیاتی سسٹم پر یا ملکوں پر براہ راست قبضے کے ساتھ ساتھ امریکا اپنے حواریوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کرتا آرہا ہے۔

امریکا نے پہلی عالمی جنگ میں 6 اپریل 1917 سے محوری سامراجیوں کے خلاف جارحیت شروع کی اور 1970-71 میں اس کے نتیجے میں یورپی ملکوں سے مالیاتی اور منڈی کشمکش میں ڈیفالٹر ہوگیا۔ یورپی ملکوں کی مجبوری تھی کہ ان کے پاس امریکی مردہ ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو کی شکل میں ڈالروں کی بڑی تعداد و مقدار تھی یہی ان کی کمزوری تھی۔ امریکا 1970 میں تمام یورپی اور دیگر ملکوں کے سامنے 61 ارب 41 کروڑ 99 لاکھ 61 ہزار 6 سو ڈالر سے ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔

امریکا اس گرداب سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس کے لیے امریکا نے عربوں اور اسرائیل کی جنگ کروائی عربوں کی خاص تنظیم OAPEC بنوا کر عرب ملکوں کے ذریعے تیل 600 فیصد سے بھی زیادہ مہنگا کروا کر پورے یورپ سے مردہ ڈالروں کا نکاس کروا لیا۔ اور بعد میں عربوں کا سرمایہ خاص کر امریکا منتقل ہوتا گیا۔

یورپی ملکوں کی مجبوری تیل تھی اور تیل کے بدلے عرب ڈالر مانگ رہے تھے۔ یورپی ملکوں نے مہنگا تیل خرید کر امریکا سے اپنی شکست مان لی۔ امریکا نے پورے یورپ کو جھکنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد عالمی سطح پر امریکا اور تمام صنعتی کلچرڈ یورپی ممالک نے ''اندرون خانہ'' ڈیل کرکے پوری دنیا کو ''امریکی مردہ ڈالر'' کے ذریعے لوٹنے وسائل ہتھیانے لگے۔

(جاری ہے)
Load Next Story