شام میں بھوک سے اموات میں اضافہ
شام و عراق کے غریب عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے اصل ذمے دار مشرق وسطیٰ کی حکمران اشرافیہ ہی ہے
KARACHI:
شام میں چار سال سے زیادہ عرصہ سے جاری خانہ جنگی اور اوپر سے امریکا' روس اور نیٹو کے طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں ملک کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غذائی اشیاء کی حد سے زیادہ قلت کے باعث لوگ درختوں کے پتے حتیٰ کہ گھاس پھونس کھانے پر مجبور ہیں۔ بہت سے لوگوں نے شدید بھوک سے تنگ آ کر اپنے پالتو جانور اور رنگا رنگ پرندے مار کر کھا لیے ہیں اور اب زیادہ لوگ بھوک کے ہاتھوں دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
مُٹھی بھر چاول کی قیمت سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ایک کلو گرام چاول کے لیے 250 ڈالر طلب کیے جا رہے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً 30,25 ہزار روپے کے برابر رقم ہے۔ ایک برطانوی اخبار نے شام کے بعض علاقوں کے مکینوں سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کر کے حالات جاننے کی کوشش کی۔ ایک شخص نے بتایا کہ اس نے گلدان میں رکھے پھول کھا کر بھوک مٹانے کی کوشش کی لیکن وہ سخت کڑوے اور بد ذائقہ تھے۔
زیادہ تر لوگوں کا وزن پندرہ سے بیس کلو گرام تک کم ہو چکا ہے اور وہ بتدریج موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ موایہ نامی ایک قصبے میں 30 ہزار سے زیادہ افراد سرکاری اور باغی افواج کے گھیرے میں جولائی کے مہینے سے پھنسے ہوئے ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنی پالتو بلیاں کتے کاٹ کر کھانے پر مجبور ہو گئے۔
بھوک کے ساتھ شدید سردی بھی لوگوں کو ہلاک کر رہی ہے اور خود کو مہذب دنیا کے لیڈر کہلوانے والے اس قدر بڑے انسانی المیہ سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک کمسن شامی بچے کی لاش سمندر نے ایک ساحل پر اگل دی جس کی تصاویر ٹی وی چینلز پر چلنے کے نتیجے میں عالمی ضمیر کو ایک جھرجھری آئی اور جنگ سے بھاگنے والے پناہ گزینوں کے لیے بعض یورپی ملکوں کے دروازے کسی حد تک کھل گئے تاہم اس کے ساتھ ہی جرمن چانسلر کا یہ جملہ بھی مسلم امہ کے ضمیر پر ایک نشتر بن کر لگا کہ مسلمانوں کے مقدس ممالک کا فاصلہ جرمنی کی نسبت خاصہ کم تھا لہذا ان پناہ گزینوں کی اولین دادرسی تو ادھر سے ہونی چاہیے تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کا بحران وہاں کی حکمران اشرافیہ کے تضادات کا نتیجہ ہے۔
شام و عراق کے غریب عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے' اس کے اصل ذمے دار مشرق وسطیٰ کی حکمران اشرافیہ ہی ہے جو اپنے اپنے تعصبات پر قابو پانے میں ناکام ہے جس کا نتیجہ خون ریزی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ شام و عراق کے عوام بھوک و غربت کے دلدل میں دھنس رہے ہیں' اس بحران کے خاتمے کی کنجی مشرق وسطیٰ کی حکمران اشرافیہ کے پاس ہے' اسے حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے اور اس بحران کے خاتمے کے لیے اپنے تعصبات و مفادات کو پس پشت ڈالنا چاہیے۔
شام میں چار سال سے زیادہ عرصہ سے جاری خانہ جنگی اور اوپر سے امریکا' روس اور نیٹو کے طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں ملک کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غذائی اشیاء کی حد سے زیادہ قلت کے باعث لوگ درختوں کے پتے حتیٰ کہ گھاس پھونس کھانے پر مجبور ہیں۔ بہت سے لوگوں نے شدید بھوک سے تنگ آ کر اپنے پالتو جانور اور رنگا رنگ پرندے مار کر کھا لیے ہیں اور اب زیادہ لوگ بھوک کے ہاتھوں دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
مُٹھی بھر چاول کی قیمت سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ایک کلو گرام چاول کے لیے 250 ڈالر طلب کیے جا رہے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً 30,25 ہزار روپے کے برابر رقم ہے۔ ایک برطانوی اخبار نے شام کے بعض علاقوں کے مکینوں سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کر کے حالات جاننے کی کوشش کی۔ ایک شخص نے بتایا کہ اس نے گلدان میں رکھے پھول کھا کر بھوک مٹانے کی کوشش کی لیکن وہ سخت کڑوے اور بد ذائقہ تھے۔
زیادہ تر لوگوں کا وزن پندرہ سے بیس کلو گرام تک کم ہو چکا ہے اور وہ بتدریج موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ موایہ نامی ایک قصبے میں 30 ہزار سے زیادہ افراد سرکاری اور باغی افواج کے گھیرے میں جولائی کے مہینے سے پھنسے ہوئے ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنی پالتو بلیاں کتے کاٹ کر کھانے پر مجبور ہو گئے۔
بھوک کے ساتھ شدید سردی بھی لوگوں کو ہلاک کر رہی ہے اور خود کو مہذب دنیا کے لیڈر کہلوانے والے اس قدر بڑے انسانی المیہ سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک کمسن شامی بچے کی لاش سمندر نے ایک ساحل پر اگل دی جس کی تصاویر ٹی وی چینلز پر چلنے کے نتیجے میں عالمی ضمیر کو ایک جھرجھری آئی اور جنگ سے بھاگنے والے پناہ گزینوں کے لیے بعض یورپی ملکوں کے دروازے کسی حد تک کھل گئے تاہم اس کے ساتھ ہی جرمن چانسلر کا یہ جملہ بھی مسلم امہ کے ضمیر پر ایک نشتر بن کر لگا کہ مسلمانوں کے مقدس ممالک کا فاصلہ جرمنی کی نسبت خاصہ کم تھا لہذا ان پناہ گزینوں کی اولین دادرسی تو ادھر سے ہونی چاہیے تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کا بحران وہاں کی حکمران اشرافیہ کے تضادات کا نتیجہ ہے۔
شام و عراق کے غریب عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے' اس کے اصل ذمے دار مشرق وسطیٰ کی حکمران اشرافیہ ہی ہے جو اپنے اپنے تعصبات پر قابو پانے میں ناکام ہے جس کا نتیجہ خون ریزی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ شام و عراق کے عوام بھوک و غربت کے دلدل میں دھنس رہے ہیں' اس بحران کے خاتمے کی کنجی مشرق وسطیٰ کی حکمران اشرافیہ کے پاس ہے' اسے حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے اور اس بحران کے خاتمے کے لیے اپنے تعصبات و مفادات کو پس پشت ڈالنا چاہیے۔