ایسا بھی ہوتا ہے
خدا ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین)
فلمی دنیا میں گروپ بندی کا رواج کوئی نیا نہیں ہے، بالی ووڈ سے لے کر لالی ووڈ تک یہ گروپ بندی ہر دور میں رہی ہے۔ جو اس گروپ بندی سے گھبرا گیا وہ راستے سے ہٹ گیا اورجو اس گروپ بندی کے سامنے ڈٹ گیا، وہ آگے بڑھ گیا اوراپنی منزل سے ہمکنار ہوگیا۔
میں جب بحیثیت گیت نگار نیا نیا فلمی دنیا سے وابستہ ہوا تو مجھے بھی اس گروپ بندی سے گزرنا پڑا، میں نے بھی کافی دنوں تک اس گروپ بندی کے تازیانے سہے تھے پھر مجھے اندازہ ہوا کہ فلمی دنیا میں کسی شاعرکو اگر آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہے تو اس کو ایک اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی موسیقارکی گڈ بک میں آنا بھی ضروری ہوتا ہے،کیونکہ شاعرکو فلمسازوہدایت کار سے زیادہ موسیقارکی دوستی فائدہ پہنچاتی ہے۔ شاعر اور موسیقار کا ساتھ چولی دامن کی طرح کا سا ہوتا ہے۔
دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بن کر ہی آگے بڑھتے ہیں، بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی موسیقار شنکر جے کشن کے پسندیدہ شاعروں میں شیلندر اور حسرت جے پوری ہوتے تھے، موسیقار ایس۔ڈی برمن اور روی کی گڈبک میں ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطان پوری ہوتے تھے اور موسیقار اعظم نوشاد شاعر شکیل بدایونی کے شیدائی تھے۔
اسی طرح جب لاہور کی فلم انڈسٹری میں، میں نے قدم رکھا تو پتہ چلا کہ موسیقار ایم۔اشرف شاعر مسرور انور کے بغیر نہیں چلتے، موسیقار نذیر علی گیت نگار خواجہ پرویز کو ترجیح دیتے ہیں اور موسیقار ناشاد تسلیم فاضلی کے سوائے کسی شاعرکو بھی اہمیت نہیں دیتے البتہ ایک آدھ گیت کسی سینئر شاعر کا مل گیا تو اسے قبول کرلیتے ہیں۔ اسی طرح موسیقار نثار بزمی مسرور انور اور کلیم عثمانی کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی رکھتے تھے موسیقار روبن گھوش کی خواہش ہوتی تھی کہ مسرور بارہ بنکوی اور اختر یوسف کا ساتھ ہو تو زیادہ اچھا ہے۔
اس گروپ بندی کے باوجود بھی اگر کوئی حوصلہ مند نغمہ نگار اپنی ہمت کو پسپا نہیں ہونے دیتا تو اسے بھی آخر کامیابی نصیب ہو ہی جاتی تھی۔ اب ایک موسیقارکمال احمد تھے جو بہت ہی سادہ طبیعت کے تھے وہ ہر شاعر کے ساتھ کام کرتے تھے اور ہر شاعر سے یہی کہتے میں تو اچھے کلام اور اچھی شاعری کا غلام ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ فلمساز و ہدایتکار رنگیلا کی فلم ''صبح کا تارا'' میں موسیقار کمال احمد نے میرے پہلے گیت کے مکھڑے کو پہلی بار سن کر ہی پسند کیا تھا اور میری حوصلہ افزائی کی تھی اس گیت کا مکھڑا تھا:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کوکبھی رُلاتا ہے
یہ گیت مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہوا اور پھر اس گیت کو بے تحاشا مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ شروع دنوں میں بھی کچھ گروپ بندی کا شکار ہوا تھا، اس دورکی ایک فلم تھی ''مستانی محبوبہ'' جس کے فلمساز حیدرآباد سندھ سے آئے ہوئے قاضی عبدالستار تھے۔ انھوں نے اپنی پہلی فلم کی ہدایت کار سنگیتا کو لیا اور کاسٹ میں وحید مراد کے ساتھ کویتا کو مرکزی کردار میں لیا تھا فلم کے موسیقار ناشاد تھے میں ان دنوں نگار ویکلی لاہور میں نمایندہ بھی تھا۔ قاضی عبدالستار نگارکے قاری تھے اور نگار ویکلی کی وجہ سے بھی مجھ سے واقف تھے پھر میں کراچی سے تعلق رکھتا تھا اس دوران میری ان سے جلد ہی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی۔
باتوں باتوں میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ سندھ میں محکمہ ریلوے کے ایک بڑے آفیسر تھے اور انھیں جوانی کے زمانے ہی سے فلمی دنیا میں آنے کا شوق تھا۔ ملازمت کے دوران بھی بمبئی اورکراچی ولاہور کی فلمی دنیا کے بارے میں فلمی اخبارات کے ذریعے بڑی معلومات رکھتے تھے اور ان کے دل میں فلم بنانے کی خواہش نے جنم لیا تھا۔
جب یہ اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھی خاصی رقم ان کو ملی تھی اور پھر ملازمت کے دوران میں بھی فضل ربی سے کافی کچھ کمایا تھا اب انھیں جب موقع ملا تو وہ پہلی فرصت میں لاہور آئے اور بحیثیت فلمساز لاہورکی فلم انڈسٹری سے منسلک ہوگئے ''مستانی محبوبہ'' ان کی پہلی فلم تھی جس کی ایورنیو اسٹوڈیو میں مہورت ادا کی گئی۔
میں نے ایک دن ''مستانی محبوبہ'' کے لیے ایک تھیم سانگ لکھ کر فلمساز قاضی عبدالستار کو سنایا انھیں وہ گیت بڑا اچھا لگا وہ بولے یہ گیت سنگیتا کو بھی دکھاتے ہیں۔ پھر قاضی صاحب نے سنگیتا کو دکھایا اسے بھی وہ فلم کا تھیم سانگ اچھا لگا۔ پھر قاضی صاحب ہی نے وہ گیت موسیقار ناشاد کو دے دیا۔ ناشاد نے وہ گیت لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ مذکورہ فلم کے کئی گیت تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے ریکارڈ کیے جاتے رہے مگر میرے گیت کا نمبر نہیں آیا۔ فلمساز اور میں نے ناشاد سے کئی بار پوچھا بھی تو وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال گئے اور ہر بار یہی کہا بھئی! گیت کے معاملے میں آپ میرے کام میں دخل نہ دیا کریں۔
ناشاد ایک نام ور اور سینئر ترین موسیقار تھے ہندوستان میں بھی ان کا بڑا نام رہا تھا ان کے سامنے کوئی زیادہ بات نہیں کرسکتا تھا ویسے بھی موسیقار ناشاد بڑے اکھڑ طبیعت کے آدمی تھے اور اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے تھے۔ اسی دوران سنگیتا نے اپنی ذاتی فلم ''لاڈ پیار اور بیٹی'' بنانے کا اعلان کردیا تھا اور اس کی تیاری بھی آخری مرحلے میں تھی۔
فلم کے موسیقار نذیر علی تھے اب میری نذیر علی سے بھی اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی۔ سنگیتا کو پتہ تھا کہ موسیقار ناشاد اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگی تم فلم ''مستانی محبوبہ'' کے لیے لکھے گئے اپنے گیت کو بھول جاؤ۔ فلم انڈسٹری میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات بن کے بھی بگڑ جاتی ہے اور کبھی کبھی بگڑ کر بھی بن جاتی ہے۔
تم میری فلم کے گیتوں کے لیے موسیقار نذیر علی کے ساتھ اپنا ٹائم سیٹ کرلو۔ پہلے دو تین گیت تم نے ہی لکھنے ہیں۔ پھر سنگیتا نے مجھے دو گیتوں کی سچویشن بھی بتائی ان میں ایک گیت آؤٹ ڈورکا تھا اور دوسرا ان ڈورکا۔ وہ ایک کلب سانگ تھا۔ میں نے ایک ہفتے کے بعد موسیقار نذیر علی کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کردیا پہلے ہم نے آؤٹ ڈور میں فلمایا جانے والا گیت مکمل کیا۔ جس کے بول تھے:
تُو بے رخی نہ چھوڑے گا دھمال ہوگا
جگ دیکھے گا پھر جو بھی تیرا حال ہوگا
یہ طربیہ گیت شوخ و شنگ اداکارہ کویتا اور غلام محی الدین پر فلمایا گیا تھا، کویتا ایک شرارتی اور بے باک گاؤں کی مٹیار ہوتی ہے۔ غلام محی الدین سے پیارکرتی ہے اور اس کے بے گانے پن اور بے رخی کو دیکھتے ہوئے اسے ایک باغ میں درخت سے الٹا لٹکا دیتی ہے اور پھر یہ گانا گاتی ہے یہ گانا ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ پھر ہم نے کلب سانگ مکمل کیا تھا یہ ایک ہنگامہ خیز کلب سانگ تھا جو کافی طویل دورانیے کا تھا اور یہ ایک مشکل گیت تھا۔ دھن پر لکھا گیا تھا اور یہ گیت تین دنوں کی کاوشوں کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچا تھا اس گیت کا ایک انترہ اردو میں تھا تو دوسرا انترا انگریزی میں بھی لکھا گیا تھا۔اور مکھڑا کچھ یوں تھا:
او ہائے ینگ بے بی ینگ بوائے
لائف شڈ ایوری موومنٹ انجوائے
یہ دنیا کے میلے رہ کے اکیلے
کوئی جیون کیسے بتائے او ہائے
یہ ایک کلب سانگ تھا جو ناہید اختر، اے۔نیر اور دو درجن کورس کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا اب میں پھر موسیقار ناشاد کی طرف آتا ہوں جو کچھ عرصے بعد کافی بیمار ہوگئے تھے، جب صحت بحال ہوئی تو ایورنیو اسٹوڈیو آئے وہ ایورنیوکے چبوترے پرکھڑے دھوپ سینک رہے تھے اور بہت سے لوگ ان کی مزاج پرسی کر رہے تھے، میں نے بھی جاکر ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے کہا ناشاد صاحب! آپ ہماری فلم انڈسٹری کا قیمتی سرمایہ ہیں، اللہ آپ کو صحت دے اور سلامت رکھے، یہ کہہ کر میں ان سے ہاتھ ملا کر جانے لگا تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے گئے اور کہنے لگے۔
ہماری اکھڑ طبیعت کی وجہ سے تمہارے ساتھ کچھ بے انصافی ہوگئی تمہارا گیت ہم نے اپنی فلم میں نہیں لیا، مگر خیر چلو یار! زندہ محبت باقی اب جو بھی ہم نئی فلم کریں گے اس میں پہلا ایک گیت تمہارا ریکارڈ کریں گے۔'' میں نے یہ سن کر کہا۔'' یہ آپ کی محبت ہے آپ جیسے عظیم موسیقار نے میرے لیے اتنا کہہ دیا یہ بات ہی میرے لیے بڑی بات ہے'' وہ مسکرا دیے اور پھر بات آئی گئی ہوگئی پھر چند دنوں کے بعد وہ دوبارہ علیل ہوگئے اور کافی دنوں تک صاحب فراش رہنے کے بعد جانبر نہ ہوسکے اور ان کا انتقال ہوگیا اور اس طرح ہماری فلم انڈسٹری ایک نام ور اور قیمتی فنکار سے محروم ہوگئی، خدا ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین)
میں جب بحیثیت گیت نگار نیا نیا فلمی دنیا سے وابستہ ہوا تو مجھے بھی اس گروپ بندی سے گزرنا پڑا، میں نے بھی کافی دنوں تک اس گروپ بندی کے تازیانے سہے تھے پھر مجھے اندازہ ہوا کہ فلمی دنیا میں کسی شاعرکو اگر آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہے تو اس کو ایک اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی موسیقارکی گڈ بک میں آنا بھی ضروری ہوتا ہے،کیونکہ شاعرکو فلمسازوہدایت کار سے زیادہ موسیقارکی دوستی فائدہ پہنچاتی ہے۔ شاعر اور موسیقار کا ساتھ چولی دامن کی طرح کا سا ہوتا ہے۔
دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بن کر ہی آگے بڑھتے ہیں، بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی موسیقار شنکر جے کشن کے پسندیدہ شاعروں میں شیلندر اور حسرت جے پوری ہوتے تھے، موسیقار ایس۔ڈی برمن اور روی کی گڈبک میں ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطان پوری ہوتے تھے اور موسیقار اعظم نوشاد شاعر شکیل بدایونی کے شیدائی تھے۔
اسی طرح جب لاہور کی فلم انڈسٹری میں، میں نے قدم رکھا تو پتہ چلا کہ موسیقار ایم۔اشرف شاعر مسرور انور کے بغیر نہیں چلتے، موسیقار نذیر علی گیت نگار خواجہ پرویز کو ترجیح دیتے ہیں اور موسیقار ناشاد تسلیم فاضلی کے سوائے کسی شاعرکو بھی اہمیت نہیں دیتے البتہ ایک آدھ گیت کسی سینئر شاعر کا مل گیا تو اسے قبول کرلیتے ہیں۔ اسی طرح موسیقار نثار بزمی مسرور انور اور کلیم عثمانی کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی رکھتے تھے موسیقار روبن گھوش کی خواہش ہوتی تھی کہ مسرور بارہ بنکوی اور اختر یوسف کا ساتھ ہو تو زیادہ اچھا ہے۔
اس گروپ بندی کے باوجود بھی اگر کوئی حوصلہ مند نغمہ نگار اپنی ہمت کو پسپا نہیں ہونے دیتا تو اسے بھی آخر کامیابی نصیب ہو ہی جاتی تھی۔ اب ایک موسیقارکمال احمد تھے جو بہت ہی سادہ طبیعت کے تھے وہ ہر شاعر کے ساتھ کام کرتے تھے اور ہر شاعر سے یہی کہتے میں تو اچھے کلام اور اچھی شاعری کا غلام ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ فلمساز و ہدایتکار رنگیلا کی فلم ''صبح کا تارا'' میں موسیقار کمال احمد نے میرے پہلے گیت کے مکھڑے کو پہلی بار سن کر ہی پسند کیا تھا اور میری حوصلہ افزائی کی تھی اس گیت کا مکھڑا تھا:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کوکبھی رُلاتا ہے
یہ گیت مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہوا اور پھر اس گیت کو بے تحاشا مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ شروع دنوں میں بھی کچھ گروپ بندی کا شکار ہوا تھا، اس دورکی ایک فلم تھی ''مستانی محبوبہ'' جس کے فلمساز حیدرآباد سندھ سے آئے ہوئے قاضی عبدالستار تھے۔ انھوں نے اپنی پہلی فلم کی ہدایت کار سنگیتا کو لیا اور کاسٹ میں وحید مراد کے ساتھ کویتا کو مرکزی کردار میں لیا تھا فلم کے موسیقار ناشاد تھے میں ان دنوں نگار ویکلی لاہور میں نمایندہ بھی تھا۔ قاضی عبدالستار نگارکے قاری تھے اور نگار ویکلی کی وجہ سے بھی مجھ سے واقف تھے پھر میں کراچی سے تعلق رکھتا تھا اس دوران میری ان سے جلد ہی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی۔
باتوں باتوں میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ سندھ میں محکمہ ریلوے کے ایک بڑے آفیسر تھے اور انھیں جوانی کے زمانے ہی سے فلمی دنیا میں آنے کا شوق تھا۔ ملازمت کے دوران بھی بمبئی اورکراچی ولاہور کی فلمی دنیا کے بارے میں فلمی اخبارات کے ذریعے بڑی معلومات رکھتے تھے اور ان کے دل میں فلم بنانے کی خواہش نے جنم لیا تھا۔
جب یہ اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھی خاصی رقم ان کو ملی تھی اور پھر ملازمت کے دوران میں بھی فضل ربی سے کافی کچھ کمایا تھا اب انھیں جب موقع ملا تو وہ پہلی فرصت میں لاہور آئے اور بحیثیت فلمساز لاہورکی فلم انڈسٹری سے منسلک ہوگئے ''مستانی محبوبہ'' ان کی پہلی فلم تھی جس کی ایورنیو اسٹوڈیو میں مہورت ادا کی گئی۔
میں نے ایک دن ''مستانی محبوبہ'' کے لیے ایک تھیم سانگ لکھ کر فلمساز قاضی عبدالستار کو سنایا انھیں وہ گیت بڑا اچھا لگا وہ بولے یہ گیت سنگیتا کو بھی دکھاتے ہیں۔ پھر قاضی صاحب نے سنگیتا کو دکھایا اسے بھی وہ فلم کا تھیم سانگ اچھا لگا۔ پھر قاضی صاحب ہی نے وہ گیت موسیقار ناشاد کو دے دیا۔ ناشاد نے وہ گیت لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ مذکورہ فلم کے کئی گیت تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے ریکارڈ کیے جاتے رہے مگر میرے گیت کا نمبر نہیں آیا۔ فلمساز اور میں نے ناشاد سے کئی بار پوچھا بھی تو وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال گئے اور ہر بار یہی کہا بھئی! گیت کے معاملے میں آپ میرے کام میں دخل نہ دیا کریں۔
ناشاد ایک نام ور اور سینئر ترین موسیقار تھے ہندوستان میں بھی ان کا بڑا نام رہا تھا ان کے سامنے کوئی زیادہ بات نہیں کرسکتا تھا ویسے بھی موسیقار ناشاد بڑے اکھڑ طبیعت کے آدمی تھے اور اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے تھے۔ اسی دوران سنگیتا نے اپنی ذاتی فلم ''لاڈ پیار اور بیٹی'' بنانے کا اعلان کردیا تھا اور اس کی تیاری بھی آخری مرحلے میں تھی۔
فلم کے موسیقار نذیر علی تھے اب میری نذیر علی سے بھی اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی۔ سنگیتا کو پتہ تھا کہ موسیقار ناشاد اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگی تم فلم ''مستانی محبوبہ'' کے لیے لکھے گئے اپنے گیت کو بھول جاؤ۔ فلم انڈسٹری میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات بن کے بھی بگڑ جاتی ہے اور کبھی کبھی بگڑ کر بھی بن جاتی ہے۔
تم میری فلم کے گیتوں کے لیے موسیقار نذیر علی کے ساتھ اپنا ٹائم سیٹ کرلو۔ پہلے دو تین گیت تم نے ہی لکھنے ہیں۔ پھر سنگیتا نے مجھے دو گیتوں کی سچویشن بھی بتائی ان میں ایک گیت آؤٹ ڈورکا تھا اور دوسرا ان ڈورکا۔ وہ ایک کلب سانگ تھا۔ میں نے ایک ہفتے کے بعد موسیقار نذیر علی کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کردیا پہلے ہم نے آؤٹ ڈور میں فلمایا جانے والا گیت مکمل کیا۔ جس کے بول تھے:
تُو بے رخی نہ چھوڑے گا دھمال ہوگا
جگ دیکھے گا پھر جو بھی تیرا حال ہوگا
یہ طربیہ گیت شوخ و شنگ اداکارہ کویتا اور غلام محی الدین پر فلمایا گیا تھا، کویتا ایک شرارتی اور بے باک گاؤں کی مٹیار ہوتی ہے۔ غلام محی الدین سے پیارکرتی ہے اور اس کے بے گانے پن اور بے رخی کو دیکھتے ہوئے اسے ایک باغ میں درخت سے الٹا لٹکا دیتی ہے اور پھر یہ گانا گاتی ہے یہ گانا ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ پھر ہم نے کلب سانگ مکمل کیا تھا یہ ایک ہنگامہ خیز کلب سانگ تھا جو کافی طویل دورانیے کا تھا اور یہ ایک مشکل گیت تھا۔ دھن پر لکھا گیا تھا اور یہ گیت تین دنوں کی کاوشوں کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچا تھا اس گیت کا ایک انترہ اردو میں تھا تو دوسرا انترا انگریزی میں بھی لکھا گیا تھا۔اور مکھڑا کچھ یوں تھا:
او ہائے ینگ بے بی ینگ بوائے
لائف شڈ ایوری موومنٹ انجوائے
یہ دنیا کے میلے رہ کے اکیلے
کوئی جیون کیسے بتائے او ہائے
یہ ایک کلب سانگ تھا جو ناہید اختر، اے۔نیر اور دو درجن کورس کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا اب میں پھر موسیقار ناشاد کی طرف آتا ہوں جو کچھ عرصے بعد کافی بیمار ہوگئے تھے، جب صحت بحال ہوئی تو ایورنیو اسٹوڈیو آئے وہ ایورنیوکے چبوترے پرکھڑے دھوپ سینک رہے تھے اور بہت سے لوگ ان کی مزاج پرسی کر رہے تھے، میں نے بھی جاکر ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے کہا ناشاد صاحب! آپ ہماری فلم انڈسٹری کا قیمتی سرمایہ ہیں، اللہ آپ کو صحت دے اور سلامت رکھے، یہ کہہ کر میں ان سے ہاتھ ملا کر جانے لگا تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے گئے اور کہنے لگے۔
ہماری اکھڑ طبیعت کی وجہ سے تمہارے ساتھ کچھ بے انصافی ہوگئی تمہارا گیت ہم نے اپنی فلم میں نہیں لیا، مگر خیر چلو یار! زندہ محبت باقی اب جو بھی ہم نئی فلم کریں گے اس میں پہلا ایک گیت تمہارا ریکارڈ کریں گے۔'' میں نے یہ سن کر کہا۔'' یہ آپ کی محبت ہے آپ جیسے عظیم موسیقار نے میرے لیے اتنا کہہ دیا یہ بات ہی میرے لیے بڑی بات ہے'' وہ مسکرا دیے اور پھر بات آئی گئی ہوگئی پھر چند دنوں کے بعد وہ دوبارہ علیل ہوگئے اور کافی دنوں تک صاحب فراش رہنے کے بعد جانبر نہ ہوسکے اور ان کا انتقال ہوگیا اور اس طرح ہماری فلم انڈسٹری ایک نام ور اور قیمتی فنکار سے محروم ہوگئی، خدا ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین)