بلوچستان کے مسئلے سے نمٹانہ گیا تو دیگر علاقے بھی متاثر ہونگے وزیراعظم
ناراض بلوچ مذاکرات کریں، چند علاقوں میں بے چینی کو بڑی گڑبڑ قرار نہیں دیا جاسکتا،خطاب
وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، ناراض بلوچ نوجوان ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں، حکومت سے مذاکرات کریں، مسئلہ حل کریں گے تاہم قومی پرچم کی توہین کرنے والوں سے بات نہیں کی جائے گی۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ امن و امان ہے، اس سے فوری نہ نمٹا گیا تو دوسرے علاقوں پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کی صورت حال اتنی سادہ نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں تاہم غیر ملکی میڈیا واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ بلوچستان کے عوام محب وطن ہیں، بلوچ نوجوان آئیں اور ہم سے بات کریں۔ انھوں نے کہا کہ صدر زرداری نے بلوچستان سے معافی مانگی، این ایف سی ایوارڈ اور ملازمتیں دیں، آغاز حقوق بلوچستان شروع کیا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لوگ مستفید ہوئے جب کہ فوج اور ایف سی نے بلوچستان میں ترقیاتی کام کیے ہیں۔
بلوچستان موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے، پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے والے ناراض لوگوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں تاہم مٹھی بھر عناصر کو محب وطن بھاری اکثریت کو یرغمال نہیں بنانے دیں گے۔ حکومت بلوچستان میں ترقی اور امن و سلامتی کی بحالی کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لائے گی۔ بلوچستان کا مسئلہ صوبے کے چند علاقوں میں امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ہے، ان چھوٹے چھوٹے مقامات پر بے چینی کو بڑے پیمانے پر گڑ بڑ سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ اندورنی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے بلوچستان کی صورتحال اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں، ہمیں بلوچستان کے عوام کیلیے بہت سے محاذوں پر لڑنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں گڑ بڑ اگرچہ غیرملکی ایماء کی وجہ سے ہے لیکن یہ ریاست کا اندرونی معاملہ ہے اور اسے پاکستان کے عوام نے ہی حل کرنا ہے۔ ہمارے تمام دوست جو اس خطے میں امن کے خواہاں ہیں ان سے توقع ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری اور بلوچستان کی95 فیصد سے زائد آبادی کی امنگوں کا احترام کریں گے۔ بلوچستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ ایک حقیقت ہوسکتا ہے لیکن فرقہ واریت کی آڑ میں غیر ریاستی عناصر اور غیرملکی امداد سے کام کرنے والے بعض گروپ بھی سرگرم ہیں۔
ہم اپنے بلوچ بھائی، بہنوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے اندر اور باہر منفی سرگرمیوں میں ملوث چند ناراض نوجوان پاکستان کے مخالفین کی سازشوں کا شکار نہ ہوں، پورا پاکستان آپ کا ہے ،آئیں اور اپنی حکومت سے بات کریں آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔ تعمیری مذاکرات اور سیاسی رابطے صوبے اور ملک کو مسائل کی موجودہ دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ ان عناصر سے بات نہیں کی جائے گی جو پاکستان کی خودمختاری اور پاکستانی پرچم کا احترام نہیں کرتے۔
ہم پاکستان کے دشمنوں کو ان کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بلوچستان کے عوام محب وطن ہیں تاہم کچھ عناصر اپنی دکان چمکانے کیلیے منفی نعرے لگاتے ہیں، مٹھی بھر عناصر کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ محب وطن بھاری اکثریت کو یرغمال بنائیں۔ مٹھی بھر شرپسند عناصر بعض علاقوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان شر پسندوں کے خلاف فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات دیگر علاقوں پر بھی ہو سکتے ہیں۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ امن و امان ہے، اس سے فوری نہ نمٹا گیا تو دوسرے علاقوں پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کی صورت حال اتنی سادہ نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں تاہم غیر ملکی میڈیا واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ بلوچستان کے عوام محب وطن ہیں، بلوچ نوجوان آئیں اور ہم سے بات کریں۔ انھوں نے کہا کہ صدر زرداری نے بلوچستان سے معافی مانگی، این ایف سی ایوارڈ اور ملازمتیں دیں، آغاز حقوق بلوچستان شروع کیا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لوگ مستفید ہوئے جب کہ فوج اور ایف سی نے بلوچستان میں ترقیاتی کام کیے ہیں۔
بلوچستان موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے، پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے والے ناراض لوگوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں تاہم مٹھی بھر عناصر کو محب وطن بھاری اکثریت کو یرغمال نہیں بنانے دیں گے۔ حکومت بلوچستان میں ترقی اور امن و سلامتی کی بحالی کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لائے گی۔ بلوچستان کا مسئلہ صوبے کے چند علاقوں میں امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ہے، ان چھوٹے چھوٹے مقامات پر بے چینی کو بڑے پیمانے پر گڑ بڑ سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ اندورنی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے بلوچستان کی صورتحال اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں، ہمیں بلوچستان کے عوام کیلیے بہت سے محاذوں پر لڑنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں گڑ بڑ اگرچہ غیرملکی ایماء کی وجہ سے ہے لیکن یہ ریاست کا اندرونی معاملہ ہے اور اسے پاکستان کے عوام نے ہی حل کرنا ہے۔ ہمارے تمام دوست جو اس خطے میں امن کے خواہاں ہیں ان سے توقع ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری اور بلوچستان کی95 فیصد سے زائد آبادی کی امنگوں کا احترام کریں گے۔ بلوچستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ ایک حقیقت ہوسکتا ہے لیکن فرقہ واریت کی آڑ میں غیر ریاستی عناصر اور غیرملکی امداد سے کام کرنے والے بعض گروپ بھی سرگرم ہیں۔
ہم اپنے بلوچ بھائی، بہنوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے اندر اور باہر منفی سرگرمیوں میں ملوث چند ناراض نوجوان پاکستان کے مخالفین کی سازشوں کا شکار نہ ہوں، پورا پاکستان آپ کا ہے ،آئیں اور اپنی حکومت سے بات کریں آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔ تعمیری مذاکرات اور سیاسی رابطے صوبے اور ملک کو مسائل کی موجودہ دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ ان عناصر سے بات نہیں کی جائے گی جو پاکستان کی خودمختاری اور پاکستانی پرچم کا احترام نہیں کرتے۔
ہم پاکستان کے دشمنوں کو ان کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بلوچستان کے عوام محب وطن ہیں تاہم کچھ عناصر اپنی دکان چمکانے کیلیے منفی نعرے لگاتے ہیں، مٹھی بھر عناصر کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ محب وطن بھاری اکثریت کو یرغمال بنائیں۔ مٹھی بھر شرپسند عناصر بعض علاقوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان شر پسندوں کے خلاف فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات دیگر علاقوں پر بھی ہو سکتے ہیں۔