سزا یافتہ کرکٹرز کی واپسی راشد لطیف آئی سی سی پربرس پڑے
آئی سی سی کی کرپشن کے بارے میں ’’زیروٹالرینس‘‘ کی پالیسی کہاں گئی؟ سابق کپتان کا سوال
سزا یافتہ کرکٹرز کی ایک بار پھر کرکٹ میں واپسی پر سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف آئی سی سی پربرس پڑے اور کہا کہ ان کرکٹرز کی واپسی بڑی غلطی ہے۔
راشد لطیف نے برطانوی ویب سائٹ کو انٹرویو میں کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا یہ دعویٰ کہاں گیا کہ وہ کرپشن کے بارے میں ''زیرو ٹالرینس'' کی پالیسی رکھتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ جب ایک کرکٹر اپنی زبان سے جرم کا اعتراف کرلے تو پھر یہ سیدھا سادہ تاحیات پابندی والا معاملہ تھا،آئی سی سی اینٹی کرپشن کے نام پر جو لاکھوں ڈالرز خرچ کر رہی ہے اس کا فائدہ کیا ہوا؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کم عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرم کرو پھر اعتراف کر کے انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آجاؤ۔
راشد لطیف نے کہا کہ آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کوچاہیے کہ وہ اپنے ضابطہ اخلاق ختم کردیں، اس بارے میں ان دلائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ محمد عامر نے سزا کاٹ لی یا وہ دوسرے موقع کے حقدار ہیں، اگر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کسی کو بھی زندگی بھر اس کے ذریعہ معاش سے محروم نہیں کیا جاسکتا تو پھر ثبوت سامنے لائے بغیر دانش کنیریا پر کیوں تاحیات پابندی عائد کردی گئی؟ ان پر کیوں دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ پہلے جرم تسلیم کرلیں پھر بات ہوگی؟
سابق کپتان نے کہا کہ اظہر علی اور محمد حفیظ نے جب محمد عامر کی کیمپ میں موجودگی پر اپنا موقف پیش کیا تو ایک لمحے کے لیے سب ہل کر رہ گئے تھے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ مسئلے کی نزاکت سمجھنے کے بجائے محمد عامر کا موازنہ ان دونوں کرکٹرز سے کیاگیا، درحقیقت اس معاشرے میں اب کوئی سچ سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں، کرپشن کا جنون پاکستانی کرکٹ کو دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے۔ راشدلطیف نے کہا کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کی جو شرٹ حنیف محمد، ظہیر عباس، عمران خان، جاوید میانداد اور دیگر عظیم کرکٹرز نے پہنی اب اسے وہ کرکٹرز بھی پہنیں گے جنھوں نے چند پیسوں کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کیا۔
راشد لطیف نے برطانوی ویب سائٹ کو انٹرویو میں کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا یہ دعویٰ کہاں گیا کہ وہ کرپشن کے بارے میں ''زیرو ٹالرینس'' کی پالیسی رکھتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ جب ایک کرکٹر اپنی زبان سے جرم کا اعتراف کرلے تو پھر یہ سیدھا سادہ تاحیات پابندی والا معاملہ تھا،آئی سی سی اینٹی کرپشن کے نام پر جو لاکھوں ڈالرز خرچ کر رہی ہے اس کا فائدہ کیا ہوا؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کم عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرم کرو پھر اعتراف کر کے انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آجاؤ۔
راشد لطیف نے کہا کہ آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کوچاہیے کہ وہ اپنے ضابطہ اخلاق ختم کردیں، اس بارے میں ان دلائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ محمد عامر نے سزا کاٹ لی یا وہ دوسرے موقع کے حقدار ہیں، اگر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کسی کو بھی زندگی بھر اس کے ذریعہ معاش سے محروم نہیں کیا جاسکتا تو پھر ثبوت سامنے لائے بغیر دانش کنیریا پر کیوں تاحیات پابندی عائد کردی گئی؟ ان پر کیوں دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ پہلے جرم تسلیم کرلیں پھر بات ہوگی؟
سابق کپتان نے کہا کہ اظہر علی اور محمد حفیظ نے جب محمد عامر کی کیمپ میں موجودگی پر اپنا موقف پیش کیا تو ایک لمحے کے لیے سب ہل کر رہ گئے تھے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ مسئلے کی نزاکت سمجھنے کے بجائے محمد عامر کا موازنہ ان دونوں کرکٹرز سے کیاگیا، درحقیقت اس معاشرے میں اب کوئی سچ سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں، کرپشن کا جنون پاکستانی کرکٹ کو دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے۔ راشدلطیف نے کہا کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کی جو شرٹ حنیف محمد، ظہیر عباس، عمران خان، جاوید میانداد اور دیگر عظیم کرکٹرز نے پہنی اب اسے وہ کرکٹرز بھی پہنیں گے جنھوں نے چند پیسوں کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کیا۔