سپریم کورٹ بینظیر کے قتل کی دوسری ایف آئی آر سے متعلق کیس میں 5 رکنی بینچ بنانے کا فیصلہ
ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154 کے تحت ایک راہگیر بھی ایف آئی آر درج کرا سکتا ہے،چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل کی دوسری ایف آرسے متعلق کیس میں پانچ ججوں پرمشتمل لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کر لیا اورقرار دیا ہے کہ مستقبل قریب میں جونہی بڑابینچ دستیاب ہوگا تو اس کیس کوسنا جائے گا۔
جمعرات کوجناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میر مرتضیٰ قتل کیس کی روشنی میں اس کیس کو دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کیس میں عدالت یہ قرار دے چکی ہے کہ ایف آئی آرکا اندارج اور تفتیش پولیس کی ذمے داری ہے۔ درخواست گزاربینظیربھٹوکے سابق سیکیورٹی افسراسلم چوہدری کے وکیل رشید اے رضوی نے بتایا کہ مرتضیٰ کیس میں عدالت کے حکم پر تیسری ایف آئی آردرج ہوئی تھی اورعدالت نے یہ بھی طے کیا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج کیلیے متاثرہ فریق کاہوناضروری نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک راہگیربھی ایف آئی آرکے اندراج کامجاز ہے،ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154 نے انھیں ایف آئی آر کا حق دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے بڑے لوگوں کا نام آنے سے کیس کی نوعیت تبدیل نہیں ہو تی۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کے خلاف مجرمانہ سازش کی، وہ بھٹو فیملی سے ذاتی عناد رکھتے تھے، اس بات کی گواہی انھوں نے اپنی کتاب میں بھی دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اعجاز شاہ اور کمال شاہ اس سازش میں برابر کے شریک ہیں جبکہ پرویز الہی کو بھی بھٹو فیملی سے خاص عداوت تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پرویز الہی پیپلز پارٹی حکومت میں نائب وزیر اعظم ہیں آپ ان کے خلاف عداوت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ جب وہ ڈپٹی وزیر اعظم ہیں تو عناد کہاں سے آیا۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر اب تک آزادانہ انکوائری نہیں ہوئی اور نہ ہی رپورٹ عام کی گئی، انکوائری ہو جائے تو بہت سے سوالوں کا جواب سامنے آ جائے گا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل شفیع چا نڈیو نے کہا کہ رپورٹ عام ہو چکی ہے جس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا اس ضمن میں نو ٹیفکیشن ہوا ہے تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پرویز الہی کے وکیل نے بتایا کہ اس کیس کو پانچ رکنی بینچ میں سننے کا فیصلہ ہوا تھا جس پر عدالت نے کیس کی سماعت کیلیے لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
جمعرات کوجناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میر مرتضیٰ قتل کیس کی روشنی میں اس کیس کو دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کیس میں عدالت یہ قرار دے چکی ہے کہ ایف آئی آرکا اندارج اور تفتیش پولیس کی ذمے داری ہے۔ درخواست گزاربینظیربھٹوکے سابق سیکیورٹی افسراسلم چوہدری کے وکیل رشید اے رضوی نے بتایا کہ مرتضیٰ کیس میں عدالت کے حکم پر تیسری ایف آئی آردرج ہوئی تھی اورعدالت نے یہ بھی طے کیا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج کیلیے متاثرہ فریق کاہوناضروری نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک راہگیربھی ایف آئی آرکے اندراج کامجاز ہے،ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154 نے انھیں ایف آئی آر کا حق دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے بڑے لوگوں کا نام آنے سے کیس کی نوعیت تبدیل نہیں ہو تی۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کے خلاف مجرمانہ سازش کی، وہ بھٹو فیملی سے ذاتی عناد رکھتے تھے، اس بات کی گواہی انھوں نے اپنی کتاب میں بھی دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اعجاز شاہ اور کمال شاہ اس سازش میں برابر کے شریک ہیں جبکہ پرویز الہی کو بھی بھٹو فیملی سے خاص عداوت تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پرویز الہی پیپلز پارٹی حکومت میں نائب وزیر اعظم ہیں آپ ان کے خلاف عداوت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ جب وہ ڈپٹی وزیر اعظم ہیں تو عناد کہاں سے آیا۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر اب تک آزادانہ انکوائری نہیں ہوئی اور نہ ہی رپورٹ عام کی گئی، انکوائری ہو جائے تو بہت سے سوالوں کا جواب سامنے آ جائے گا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل شفیع چا نڈیو نے کہا کہ رپورٹ عام ہو چکی ہے جس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا اس ضمن میں نو ٹیفکیشن ہوا ہے تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پرویز الہی کے وکیل نے بتایا کہ اس کیس کو پانچ رکنی بینچ میں سننے کا فیصلہ ہوا تھا جس پر عدالت نے کیس کی سماعت کیلیے لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔