وولکس ویگن کا ’’مہا‘‘ اسکینڈل
عالمی شہرت یافتہ جرمن کارسازکمپنی کے مالکان نے لاچ وہوس میں پھنس کراپنے نیک نام ادارے کی ساکھ تباہ کر ڈالی،شم کشارپورٹ
یہ 2013ء کی بات ہے جب پیٹر موک چوکنا ہوا۔ وہ مشہور جرمن کار ساز ادارے، وولکس ویگن کی بنائی کار، جیٹا رکھتا تھا۔ یہ کار اس نے ایک ہفتہ قبل ہی خریدی تھی۔ گاڑی چلاتے اور برتتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ دھواں چھوڑتی ہے۔عام لوگ گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں پر دھیان نہیں دیتے، مگر پیٹر موک کی بات الگ تھی۔ وہ ایک بین الاقوامی غیر منافع بخش اور غیر سرکاری تنظیم، دی انٹرنیشنل کونسل آن کلین ٹرانسپورٹیشن کا یورپ میں ڈائرکٹر اور مستند انجینئر تھا۔ یہ تنظیم ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے ایندھن صاف کرنے کی خاطر تحقیق و تجربے کرتی ہے۔
پیٹر موک اپنی وولکس ویگن جیٹا کو ادارے کی لیبارٹری میں لے گیا۔ لیبارٹری میں خصوصی آلات کے ذریعے جانچا جاتا کہ ایک کار کتنا دھواں چھوڑتی ہے اور اس میں مضر صحت گیسوں و ذرات کی مقدار کتنی ہے۔ تاہم لیبارٹری میں کیے گئے تجربے سے یہ ثابت نہ ہوسکا کہ جیٹا کار زیادہ ایندھن خارج کرتی ہے۔
پیٹر موک نے پھر امریکہ میں اپنے ساتھی، جان جرمن سے رابطہ کرکے اسے اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ پیٹر چاہتا تھا کہ جان بھی وولکس ویگن کی بنائی کاروں پرتجربے کرے۔ چونکہ امریکاکی لیبارٹری میں زیادہ جدید آلات نصب تھے لہٰذا وہاں شاید سچائی سامنے آجاتی۔ مگر امریکی لیبارٹری کے تجربے سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ وولکس ویگن کمپنی کی ساختہ کاریں کم دھواں چھوڑتی ہیں۔
یاد رہے، امریکا اور یورپی ممالک نے ماحول صاف ستھرا رکھنے کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں۔ ان قوانین کی رو سے ڈیزل یا پٹرول گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں مضر صحت گیسوں اورذرات مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ وغیرہ کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے۔ اسی لیے سبھی کار ساز ادارے اپنی گاڑیوں میں ایسے خصوصی آلات نصب کرتے ہیں جو دھوئیں میں موجود خطرناک گیسیں اور ذرات جذب کرلیں۔
جان جرمن کو بھی وولکس ویگن گاڑیاں سڑک پر چلاتے ہوئے محسوس ہوا کہ ان سے دھوئیں کا اخراج زیادہ ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ گاڑیوں کو سڑک پر چلا کر تجربات سے گزارا جائے۔ اس مقصد کے لیے جان نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی سے وابستہ ایک ادارے، سینٹر فار آلٹرنیٹو فیولزانجنز اینڈ ایمیشنز (Center for Alternative Fuels Engines and Emissions) سے رابطہ کیا۔ اس سائنسی و تحقیقی ادارے نے ایسا پورٹ ایبل آلہ ایجاد کیا ہے جو گاڑی سے نکلنے والے دھوئیں اور اس میں موجود گیسوں کی مقدار جانچتا ہے۔ یہ آلہ کار کی ڈکی میں رکھنا ہوتا ہے۔ اس سے منسلک پائپ دھواں چھوڑنے والے پائپ سے جوڑا جاتا ہے۔
درج بالا تحقیقی سینٹر کے تین محققوں ہی نے وولکس ویگن ساختہ دو کاریں لیں، ان میں پورٹیبل تشخیصی آلہ رکھا اور سڑکوں پر انہیں چلانے لگے۔ پہلا چکر تین میل پر محیط تھا۔ جب پہلا چکر ختم ہوا اور انہوں نے ایندھن کی جانچ پڑتال کرنے والے آلے کا نتیجہ دیکھا تو حیران پریشان ہوگئے۔
آلے کی رو سے دونوں کاریں بڑی مقدار میں خطرناک گیس، نائٹروجن آکسائیڈ خارج کررہی تھیں۔ یہ اخراج قانون کی حد سے ''35 گنا'' تک زیادہ تھا۔ یاد رہے، نائٹروجن آکسائیڈ مضر صحت گیس ہے۔ ہوا میں یہ موجود ہو تو دمے کے مریضوں کو کھانسی آنے لگتی ہے۔ نیز پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے امراض کی شدت بڑھاتی ہے۔ امراض قلب کو بھی شدید بنا ڈالتی ہے۔ اسی لیے دمے اور دل کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ ٹریفک والے علاقوں سے دور رہیں۔
امریکی محققوں کو یقین نہ آیا کہ وولکس ویگن کی کاریں مضر صحت گیس چھوڑ رہی ہیں۔ اس جرمن کمپنی کی کاریں اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ مگر اب افشا ہوا کہ وہ تو انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والی زہریلی گیس حد سے زیادہ مقدار میں خارج کررہی ہیں۔یہ پہلے چکر کا نتیجہ تھا۔ امریکی محققوں کو خیال آیا کہ شاید تشخیصی آلہ خراب ہے۔ چناں چہ دوسرے چکر میں نیا آلہ استعمال کیا گیا۔ مگر وہی پریشان کن نتیجہ سامنے آیا۔ اب محققوں نے ساٹھ میل تک کاریں چلائیں تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ مگر دونوں نائٹروجن آکسائیڈ کی ازحد مقدار چھوڑ رہی تھیں۔ انہوں نے 1200 میل تک کاریں چلا دیں مگر نتیجے میں کوئی ردوبدل نہ ہوا۔ یہ تجربات 2014ء کے اوائل میں کیے گئے۔
مئی 2014ء میں جان جرمن نے امریکی سرکاری ادارے، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی سے رابطہ کرکے انہیں درج بالا تجربات کے نتیجے سے آگاہ کیا۔ وہ کوشش کے باوجود نہیں جان سکا کہ وولکس ویگن ساختہ کاریں زہریلی گیس زیادہ کیوں چھوڑ رہی ہیں۔ تاہم اسے امید تھی، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے سائنس داں سچائی کا پتا چلالیں گے۔ یہ ایجنسی امریکا میں ماحول صاف شفاف رکھنے کی ذمے دار ہے۔جان کا انداز ہ درست نکلا ۔ایجنسی کے ماہرین نے تحقیق سے دریافت کر لیا کہ وولکس ویگن گاڑیوں میںایک پوشیدہ سافٹ ویئر نصب ہے جو اصطلاح میں ''ڈیفیٹ ڈیوائس''(Defeat device) کہلاتا ہے۔
مضر صحت گیسوں کی مقدار کم کرنے کے لیے کار ساز ادارے گاڑی کے ڈیزل انجن میںایک ٹینک نصب کرتے ہیں۔ ٹینک میں ایک کیمیائی مادہ ' یوریا بھرا ہوتا ہے۔ جب ڈیزل انجن سے دھواں نکلے' تو یوریا اس میں شامل خطرناک گیسوں کو بے ضرر گیس، نائٹروجن اور پانی میں تبدیل کر دیتا ہے ۔پٹرول انجن میں یہی اہم کام کیٹا لائٹک کنوریٹر انجام دیتا ہے۔ یوں گاڑیوں کا دھواں ماحول میں آلودگی نہیں پھیلا پاتا۔تاہم یوریا ٹینک اور کیٹالائٹک کنوریٹر کارانجن کی مدد سے اپنا کام کرتے ہیں۔
اسی لیے دونوں کو رواں دواں رکھتے ہوئے زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے، یورپی و امریکی شہری عموماً ڈیزل انجن والی کاریں نہیں خریدتے کہ ان میں زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے۔اُدھر وولکس ویگن کی انتظامیہ پر دنیا میں سب سے بڑا کارساز ادارہ بننے کا خبط سوار تھا۔ یہ اسی وقت ممکن تھا جب ان کی گاڑیاں جاپانی ادارے' ٹویوٹا سے زیادہ فروخت ہوتیں۔ نمبرون بننے کی خاطر ہی انتظامیہ نے دھوکے بازی اور فراڈ سے مدد لینے کا فیصلہ کر لیا۔ مالکان بھول گئے کہ جرم جلد یا بدیر قانون کی نگاہ میں آہی جاتاہے۔ تب لالچ ہوس اور انا نے انہیں اندھا کر ڈالا۔
ہوا یہ کہ وولکس ویگن کمپنی کے کمپیوٹر ماہرین نے ایک خصوصی سافٹ ویئر (ڈیفیٹ ڈیوائس) ایجاد کیا۔ 2008ء تا 2015ء یہ سافٹ ویئر مختلف ماڈلوںکی ''ایک کروڑ اٹھار ہ لاکھ'' وولکس ویگن گاڑیوں کے انجنوں میں نصب کیا گیا۔ ان گاڑیوں میں اکثریت ڈیزل انجن رکھتی ہیں۔یہ خصوصی سافٹ ویئر دو روپ رکھتا۔ جب گاڑی سڑک پر بھاگ رہی ہوتی تو یہ یوریا ٹینک یا کیٹالائٹک کنوریٹر کو اپنی ذمے داری انجام دینے سے روک دیتا۔
چناںچہ گاڑی کا ایندھن خطرناک گیسوں کی کئی گنا زیادہ مقدار ہوا میں چھوڑ نے لگتا ۔ اسی عمل کے باعث ڈیزل بھی کم خرچ ہوتا۔ یوں وولکس ویگن کمپنی کو یہ دعوی کرنے کا موقع مل گیا کہ وہ کم ایندھن استعمال کرنے والی گاڑیاں تیار کرتی ہے۔ معاصرین پر یہی برتری حاصل کرنے کے لیے درج بالا خصوصی سافٹ ویئر ایجاد کیا گیا۔ گاڑیوں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے کی خواہش نے وولکس ویگن کمپنی کے مالکان کو پستی کے گڑھے میں گرا دیا۔
جب کمپنی کی گاڑی ایندھن میں مضر صحت گیسوں کے اخراج کی مقدار جانچنے کے لیے لیبارٹری پہنچتی ' تو اس سافٹ ویئر کا دوسرا روپ سامنے آتا۔ تب وہ یوریا ٹینک یا کیٹالائٹک کنویٹر کو چالو کر دیتا۔ لہذا ٹیسٹ سے یہی افشا ہوتا کہ گاڑی مضر صحت گیسیں کم خارج کر رہی ہے۔ یہ سافٹ ویئر سٹیرنگ وہیل کی پوزیشن' انجن کی روانی اور ہوا کا دباؤ جان کر اندازہ لگاتا کہ گاڑی لیبارٹری میں ٹیسٹ سے گزر رہی ہے ۔ تب وہ خطرناک گیس چوسنے والے آلات چالو کر دیتا۔
یہ سافٹ ویئر آشکارا کرتا ہے کہ کمپیوٹر سائنس کا ہنر جب شیطان صفت انسانوں کے ہاتھ لگ جائے' تو وہ اس کی مدد سے خطرناک پروگرام تخلیق کر سکتے ہیں ۔ اسی لیے مشہور برطانوی سائنس داں' اسٹیفن ہاکنگ کمپویٹر سائنس کو ایک حد تک رکھنے کا قائل ہے۔ وہ خبردار کرتا ہے کہ ''مصنوعی ذہانت'' مسلسل ترقی کرتی رہی' تو آنے والے چند سو برس میں مشینیں انسانوں پر حاوی ہو جائیں گی۔ تب کمزور انسان مجبور ہوں گے کہ طاقتور مشینوں کے غلام بن جائیں۔
وولکس ویگن کمپنی کی ہٹ دھرمی اور بے پروائی دیکھیے کہ اس نے گاڑیوں میں ڈیفیٹ ڈیوائس کی موجودگی سے انکار کر دیا۔ کمپنی انتظامیہ کا اصرار تھا کہ کسی تکنیکی خرابی کے باعث چند گاڑیاں مضر صحت گیسیں زیادہ خارج کر رہی ہیں۔ مگر امریکی سرکاری اداروں نے کمپنی کے سامنے سافٹ ویئر موجود ہونے کے ٹھوس ثبوت رکھے' تو اس نے مارے خفت کے چپ سادھ لی۔ مغربی میڈیا میں رفتہ رفتہ وولکس ویگن کمپنی کے انوکھے فراڈ کا چرچا ہونے لگا۔
میڈیا نے اسے کارپوریٹ دنیا کی جدید تاریخ میں سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا۔ کمپنی کے سی ای او' مارٹن ونٹر کورن نے عوام سے معافی مانگی اور کہا''مجھے اس اسکینڈل سے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے گاہکوں اور عوام کا اعتماد توڑ ڈالا۔''مارٹن ونٹر کورن کا کہنا تھا کہ یہ فاش غلطی چند لوگوں سے سرزد ہوئی اور وہ اس کا ذمے دار نہیں۔ تاہم ٹیم کے قائد کی حیثیت سے اس پر دباؤ بڑھ گیا کہ وہ مستعفی ہو جائے۔ مارٹن کچھ عرصہ انکار کرتا رہا پھر 23ستمبر 2015ء کو اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔وولکس ویگن کمپنی نے ڈیفیٹ ڈیوائس چند ہزار یا لاکھ نہیں ایک کروڑ سے زائد گاڑیوں میں لگائی۔
یہ یقینی ہے،اتنا بڑا قدم کمپنی کے ''بڑوں'' کی منظوری کے بعد ہی اٹھایا گیا ۔ تاہم انہیں بچانے کے لیے چھوٹے عہدے داروں کو مجرم قرار دے کر ان کی چھٹی کر دی گئی۔ گویا جرم کسی اور نے کیا جبکہ سزا دوسروں کو بھگتنا پڑی۔ یہ اسکینڈل سامنے آتے ہی وولکس ویگن کمپنی کے حصص کی مالیت 40 فیصد سے زیادہ گر گئی۔
نیز مارکیٹ میں اس کی ساکھ بہت خراب ہوئی۔ کمپنی اب متاثرہ گاڑیوں کے مالکان کو فی کس تین ہزار ڈالر تک بطور ہرجانہ ادا کرے گی۔ نیز گاڑیوں میں ڈیفیٹ سافٹ وئیر ختم کیا جا رہا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کی عدالتیں فراڈ کرنے پر کمپنی پہ بھاری جرمانہ عائد کر سکتی ہیں۔ خیال ہے کہ امریکی عدالت کلین ائر ایکٹ کی خلاف ورزی پر کمپنی کو ''18 ارب ڈالر'' کا جرمانہ سنائے گی۔
انجینئرنگ کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دیگر کارساز اداروں نے بھی اپنی گاڑیوں میں مختلف اقسام کے ڈیفیٹ ڈیوائسیز لگا رکھی ہیں۔ ان سافٹ ویئرز کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ سڑک پر تو ایندھن کی کھپت کم رکھیں مگر گاڑی جوں ہی ٹیسٹ کے لئے لیبارٹری پہنچے' وہاں مضر صحت گیسیں چوسنے والے آلات حرکت میں آ جائیں۔یاد رہے' رکازی ایندھن (پٹرول' ڈیزل' کوئلہ' لکڑی) جلنے سے زمین کی فضا میں خطرناک گیسوں کی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کی وجہ سے زمین کی آب و ہوا اور موسموں میں حیرت انگیز تبدیلیاں آ رہی ہیں جو نقصان دہ بھی ہیں۔ اگر انسان نے رکازی ایندھن کا استعمال کم نہ کیا تو آنے والی صدیوں میں کرہ ارض پر زندگی گزارنا کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔
پیٹر موک اپنی وولکس ویگن جیٹا کو ادارے کی لیبارٹری میں لے گیا۔ لیبارٹری میں خصوصی آلات کے ذریعے جانچا جاتا کہ ایک کار کتنا دھواں چھوڑتی ہے اور اس میں مضر صحت گیسوں و ذرات کی مقدار کتنی ہے۔ تاہم لیبارٹری میں کیے گئے تجربے سے یہ ثابت نہ ہوسکا کہ جیٹا کار زیادہ ایندھن خارج کرتی ہے۔
پیٹر موک نے پھر امریکہ میں اپنے ساتھی، جان جرمن سے رابطہ کرکے اسے اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ پیٹر چاہتا تھا کہ جان بھی وولکس ویگن کی بنائی کاروں پرتجربے کرے۔ چونکہ امریکاکی لیبارٹری میں زیادہ جدید آلات نصب تھے لہٰذا وہاں شاید سچائی سامنے آجاتی۔ مگر امریکی لیبارٹری کے تجربے سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ وولکس ویگن کمپنی کی ساختہ کاریں کم دھواں چھوڑتی ہیں۔
یاد رہے، امریکا اور یورپی ممالک نے ماحول صاف ستھرا رکھنے کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں۔ ان قوانین کی رو سے ڈیزل یا پٹرول گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں مضر صحت گیسوں اورذرات مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ وغیرہ کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے۔ اسی لیے سبھی کار ساز ادارے اپنی گاڑیوں میں ایسے خصوصی آلات نصب کرتے ہیں جو دھوئیں میں موجود خطرناک گیسیں اور ذرات جذب کرلیں۔
جان جرمن کو بھی وولکس ویگن گاڑیاں سڑک پر چلاتے ہوئے محسوس ہوا کہ ان سے دھوئیں کا اخراج زیادہ ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ گاڑیوں کو سڑک پر چلا کر تجربات سے گزارا جائے۔ اس مقصد کے لیے جان نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی سے وابستہ ایک ادارے، سینٹر فار آلٹرنیٹو فیولزانجنز اینڈ ایمیشنز (Center for Alternative Fuels Engines and Emissions) سے رابطہ کیا۔ اس سائنسی و تحقیقی ادارے نے ایسا پورٹ ایبل آلہ ایجاد کیا ہے جو گاڑی سے نکلنے والے دھوئیں اور اس میں موجود گیسوں کی مقدار جانچتا ہے۔ یہ آلہ کار کی ڈکی میں رکھنا ہوتا ہے۔ اس سے منسلک پائپ دھواں چھوڑنے والے پائپ سے جوڑا جاتا ہے۔
درج بالا تحقیقی سینٹر کے تین محققوں ہی نے وولکس ویگن ساختہ دو کاریں لیں، ان میں پورٹیبل تشخیصی آلہ رکھا اور سڑکوں پر انہیں چلانے لگے۔ پہلا چکر تین میل پر محیط تھا۔ جب پہلا چکر ختم ہوا اور انہوں نے ایندھن کی جانچ پڑتال کرنے والے آلے کا نتیجہ دیکھا تو حیران پریشان ہوگئے۔
آلے کی رو سے دونوں کاریں بڑی مقدار میں خطرناک گیس، نائٹروجن آکسائیڈ خارج کررہی تھیں۔ یہ اخراج قانون کی حد سے ''35 گنا'' تک زیادہ تھا۔ یاد رہے، نائٹروجن آکسائیڈ مضر صحت گیس ہے۔ ہوا میں یہ موجود ہو تو دمے کے مریضوں کو کھانسی آنے لگتی ہے۔ نیز پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے امراض کی شدت بڑھاتی ہے۔ امراض قلب کو بھی شدید بنا ڈالتی ہے۔ اسی لیے دمے اور دل کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ ٹریفک والے علاقوں سے دور رہیں۔
امریکی محققوں کو یقین نہ آیا کہ وولکس ویگن کی کاریں مضر صحت گیس چھوڑ رہی ہیں۔ اس جرمن کمپنی کی کاریں اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ مگر اب افشا ہوا کہ وہ تو انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والی زہریلی گیس حد سے زیادہ مقدار میں خارج کررہی ہیں۔یہ پہلے چکر کا نتیجہ تھا۔ امریکی محققوں کو خیال آیا کہ شاید تشخیصی آلہ خراب ہے۔ چناں چہ دوسرے چکر میں نیا آلہ استعمال کیا گیا۔ مگر وہی پریشان کن نتیجہ سامنے آیا۔ اب محققوں نے ساٹھ میل تک کاریں چلائیں تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ مگر دونوں نائٹروجن آکسائیڈ کی ازحد مقدار چھوڑ رہی تھیں۔ انہوں نے 1200 میل تک کاریں چلا دیں مگر نتیجے میں کوئی ردوبدل نہ ہوا۔ یہ تجربات 2014ء کے اوائل میں کیے گئے۔
مئی 2014ء میں جان جرمن نے امریکی سرکاری ادارے، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی سے رابطہ کرکے انہیں درج بالا تجربات کے نتیجے سے آگاہ کیا۔ وہ کوشش کے باوجود نہیں جان سکا کہ وولکس ویگن ساختہ کاریں زہریلی گیس زیادہ کیوں چھوڑ رہی ہیں۔ تاہم اسے امید تھی، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے سائنس داں سچائی کا پتا چلالیں گے۔ یہ ایجنسی امریکا میں ماحول صاف شفاف رکھنے کی ذمے دار ہے۔جان کا انداز ہ درست نکلا ۔ایجنسی کے ماہرین نے تحقیق سے دریافت کر لیا کہ وولکس ویگن گاڑیوں میںایک پوشیدہ سافٹ ویئر نصب ہے جو اصطلاح میں ''ڈیفیٹ ڈیوائس''(Defeat device) کہلاتا ہے۔
مضر صحت گیسوں کی مقدار کم کرنے کے لیے کار ساز ادارے گاڑی کے ڈیزل انجن میںایک ٹینک نصب کرتے ہیں۔ ٹینک میں ایک کیمیائی مادہ ' یوریا بھرا ہوتا ہے۔ جب ڈیزل انجن سے دھواں نکلے' تو یوریا اس میں شامل خطرناک گیسوں کو بے ضرر گیس، نائٹروجن اور پانی میں تبدیل کر دیتا ہے ۔پٹرول انجن میں یہی اہم کام کیٹا لائٹک کنوریٹر انجام دیتا ہے۔ یوں گاڑیوں کا دھواں ماحول میں آلودگی نہیں پھیلا پاتا۔تاہم یوریا ٹینک اور کیٹالائٹک کنوریٹر کارانجن کی مدد سے اپنا کام کرتے ہیں۔
اسی لیے دونوں کو رواں دواں رکھتے ہوئے زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے، یورپی و امریکی شہری عموماً ڈیزل انجن والی کاریں نہیں خریدتے کہ ان میں زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے۔اُدھر وولکس ویگن کی انتظامیہ پر دنیا میں سب سے بڑا کارساز ادارہ بننے کا خبط سوار تھا۔ یہ اسی وقت ممکن تھا جب ان کی گاڑیاں جاپانی ادارے' ٹویوٹا سے زیادہ فروخت ہوتیں۔ نمبرون بننے کی خاطر ہی انتظامیہ نے دھوکے بازی اور فراڈ سے مدد لینے کا فیصلہ کر لیا۔ مالکان بھول گئے کہ جرم جلد یا بدیر قانون کی نگاہ میں آہی جاتاہے۔ تب لالچ ہوس اور انا نے انہیں اندھا کر ڈالا۔
ہوا یہ کہ وولکس ویگن کمپنی کے کمپیوٹر ماہرین نے ایک خصوصی سافٹ ویئر (ڈیفیٹ ڈیوائس) ایجاد کیا۔ 2008ء تا 2015ء یہ سافٹ ویئر مختلف ماڈلوںکی ''ایک کروڑ اٹھار ہ لاکھ'' وولکس ویگن گاڑیوں کے انجنوں میں نصب کیا گیا۔ ان گاڑیوں میں اکثریت ڈیزل انجن رکھتی ہیں۔یہ خصوصی سافٹ ویئر دو روپ رکھتا۔ جب گاڑی سڑک پر بھاگ رہی ہوتی تو یہ یوریا ٹینک یا کیٹالائٹک کنوریٹر کو اپنی ذمے داری انجام دینے سے روک دیتا۔
چناںچہ گاڑی کا ایندھن خطرناک گیسوں کی کئی گنا زیادہ مقدار ہوا میں چھوڑ نے لگتا ۔ اسی عمل کے باعث ڈیزل بھی کم خرچ ہوتا۔ یوں وولکس ویگن کمپنی کو یہ دعوی کرنے کا موقع مل گیا کہ وہ کم ایندھن استعمال کرنے والی گاڑیاں تیار کرتی ہے۔ معاصرین پر یہی برتری حاصل کرنے کے لیے درج بالا خصوصی سافٹ ویئر ایجاد کیا گیا۔ گاڑیوں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے کی خواہش نے وولکس ویگن کمپنی کے مالکان کو پستی کے گڑھے میں گرا دیا۔
جب کمپنی کی گاڑی ایندھن میں مضر صحت گیسوں کے اخراج کی مقدار جانچنے کے لیے لیبارٹری پہنچتی ' تو اس سافٹ ویئر کا دوسرا روپ سامنے آتا۔ تب وہ یوریا ٹینک یا کیٹالائٹک کنویٹر کو چالو کر دیتا۔ لہذا ٹیسٹ سے یہی افشا ہوتا کہ گاڑی مضر صحت گیسیں کم خارج کر رہی ہے۔ یہ سافٹ ویئر سٹیرنگ وہیل کی پوزیشن' انجن کی روانی اور ہوا کا دباؤ جان کر اندازہ لگاتا کہ گاڑی لیبارٹری میں ٹیسٹ سے گزر رہی ہے ۔ تب وہ خطرناک گیس چوسنے والے آلات چالو کر دیتا۔
یہ سافٹ ویئر آشکارا کرتا ہے کہ کمپیوٹر سائنس کا ہنر جب شیطان صفت انسانوں کے ہاتھ لگ جائے' تو وہ اس کی مدد سے خطرناک پروگرام تخلیق کر سکتے ہیں ۔ اسی لیے مشہور برطانوی سائنس داں' اسٹیفن ہاکنگ کمپویٹر سائنس کو ایک حد تک رکھنے کا قائل ہے۔ وہ خبردار کرتا ہے کہ ''مصنوعی ذہانت'' مسلسل ترقی کرتی رہی' تو آنے والے چند سو برس میں مشینیں انسانوں پر حاوی ہو جائیں گی۔ تب کمزور انسان مجبور ہوں گے کہ طاقتور مشینوں کے غلام بن جائیں۔
وولکس ویگن کمپنی کی ہٹ دھرمی اور بے پروائی دیکھیے کہ اس نے گاڑیوں میں ڈیفیٹ ڈیوائس کی موجودگی سے انکار کر دیا۔ کمپنی انتظامیہ کا اصرار تھا کہ کسی تکنیکی خرابی کے باعث چند گاڑیاں مضر صحت گیسیں زیادہ خارج کر رہی ہیں۔ مگر امریکی سرکاری اداروں نے کمپنی کے سامنے سافٹ ویئر موجود ہونے کے ٹھوس ثبوت رکھے' تو اس نے مارے خفت کے چپ سادھ لی۔ مغربی میڈیا میں رفتہ رفتہ وولکس ویگن کمپنی کے انوکھے فراڈ کا چرچا ہونے لگا۔
میڈیا نے اسے کارپوریٹ دنیا کی جدید تاریخ میں سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا۔ کمپنی کے سی ای او' مارٹن ونٹر کورن نے عوام سے معافی مانگی اور کہا''مجھے اس اسکینڈل سے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے گاہکوں اور عوام کا اعتماد توڑ ڈالا۔''مارٹن ونٹر کورن کا کہنا تھا کہ یہ فاش غلطی چند لوگوں سے سرزد ہوئی اور وہ اس کا ذمے دار نہیں۔ تاہم ٹیم کے قائد کی حیثیت سے اس پر دباؤ بڑھ گیا کہ وہ مستعفی ہو جائے۔ مارٹن کچھ عرصہ انکار کرتا رہا پھر 23ستمبر 2015ء کو اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔وولکس ویگن کمپنی نے ڈیفیٹ ڈیوائس چند ہزار یا لاکھ نہیں ایک کروڑ سے زائد گاڑیوں میں لگائی۔
یہ یقینی ہے،اتنا بڑا قدم کمپنی کے ''بڑوں'' کی منظوری کے بعد ہی اٹھایا گیا ۔ تاہم انہیں بچانے کے لیے چھوٹے عہدے داروں کو مجرم قرار دے کر ان کی چھٹی کر دی گئی۔ گویا جرم کسی اور نے کیا جبکہ سزا دوسروں کو بھگتنا پڑی۔ یہ اسکینڈل سامنے آتے ہی وولکس ویگن کمپنی کے حصص کی مالیت 40 فیصد سے زیادہ گر گئی۔
نیز مارکیٹ میں اس کی ساکھ بہت خراب ہوئی۔ کمپنی اب متاثرہ گاڑیوں کے مالکان کو فی کس تین ہزار ڈالر تک بطور ہرجانہ ادا کرے گی۔ نیز گاڑیوں میں ڈیفیٹ سافٹ وئیر ختم کیا جا رہا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین کی عدالتیں فراڈ کرنے پر کمپنی پہ بھاری جرمانہ عائد کر سکتی ہیں۔ خیال ہے کہ امریکی عدالت کلین ائر ایکٹ کی خلاف ورزی پر کمپنی کو ''18 ارب ڈالر'' کا جرمانہ سنائے گی۔
انجینئرنگ کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دیگر کارساز اداروں نے بھی اپنی گاڑیوں میں مختلف اقسام کے ڈیفیٹ ڈیوائسیز لگا رکھی ہیں۔ ان سافٹ ویئرز کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ سڑک پر تو ایندھن کی کھپت کم رکھیں مگر گاڑی جوں ہی ٹیسٹ کے لئے لیبارٹری پہنچے' وہاں مضر صحت گیسیں چوسنے والے آلات حرکت میں آ جائیں۔یاد رہے' رکازی ایندھن (پٹرول' ڈیزل' کوئلہ' لکڑی) جلنے سے زمین کی فضا میں خطرناک گیسوں کی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کی وجہ سے زمین کی آب و ہوا اور موسموں میں حیرت انگیز تبدیلیاں آ رہی ہیں جو نقصان دہ بھی ہیں۔ اگر انسان نے رکازی ایندھن کا استعمال کم نہ کیا تو آنے والی صدیوں میں کرہ ارض پر زندگی گزارنا کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔