مطیع الرحمن نظامی میرے بچپن کی حسین یاد
ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی‘ کپڑے اور مکان کا نعرہ اور منشور میں درج ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘
یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن نے ہماری مجلسی زندگی پر ڈاکہ نہیں ڈالا تھا۔ محلوں کی چوپالیں اور تھڑے رات گئے تک آباد رہتے تھے۔ سیاست سے لے کر ادب اور معیشت سے لے کر سیاحت تک کونسا ایسا موضوع ہے جو ان محفلوں میں زیر بحث نہ آتا تھا۔ یہ محفلیں گلی محلوں کے درمیان موجود چوپالوں' نکڑوں یا ویہڑوں میں منعقد ہوتیں۔ ہر شہر میں بعض مخصوص دکانیں ہوتیں جن کے مالکان علم کی پیاس میں عموماً عصر کے بعد اپنی دکان کے حصے میں کرسیاں سجا رکھتے جہاں شہر کے مخصوص معززین آتے' دن کے معاملات' شہر کے حالات اور ملکی سیاست پر گفتگو کرتے اور شام ڈھلے رخصت ہو جاتے۔
ہر کسی کو یاد کرنے پر اپنے شہر کے یہ مخصوص ٹھکانے ضرور یاد آ جائیں گے جو اب اجڑ چکے ہیں۔ میری زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ دو شہروں گجرات اور کوئٹہ میں گزرا ہے اس لیے مجھے آج بھی ان دونوں شہروں کی محفلیں ایک سہانے منظر نامے کی طرح یاد آتی ہیں اور آنکھیں بھگو جاتی ہیں۔ اگر آپ اس زمانے میں کوئٹہ کی جناح روڈ پر عصر کے بعد گزرتے تو آپ کو کسی دکان میں نواب اکبر بگٹی اپنی محفل سجائے ہوئے نظر آتے تو کسی میں محمود خان اچکزئی' چائے خانوں میں لوگ دیر تک بیٹھتے اور دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔ زمرد حسین صاحب کی قلات پبلشرز والی دکان تو سیاست دانوں' ادیبوں' شاعروں کا مرکز تھی جس طرح شہر میں کوئی نئی کتاب آئے تو وہ بک اسٹالوں پر ملتی ہے اسی طرح کوئٹہ میں کوئی ادیب' شاعر' صحافی یا سیاست دان باہر سے تشریف لاتا تو زمرد حسین صاحب کے قلات پبلشر والے تکیے میں ضرور نظر آتا۔
گجرات جسے سرسید نے خطۂ یونان کہا تھا اس کے ہاں بھی ڈیرے بہت تھے۔ حکیم جمیل صاحب اپنے مطب کے سامنے گلی میں پانی کا چھڑکاؤ کرواتے' کرسیاں رکھ دی جاتیں اور پھر وہاں کون کون نہیں آتا تھا۔ سیاست دانوں سے لے کر ادیبوں' شاعروں اور کالج کے پروفیسروں تک ہر کوئی۔ صبح کے وقت ضلع کچہری میں وکیلوں کے چھپڑ سیاست دانوں اور صحافیوں کے ٹھکانے ہوتے اور شام کو ادب پرور لوگوں کی دکانیں ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہیں۔ لیکن اس زمانے میں رات گئے یا پھر عشاء کے بعد کے معمولات میں سب سے اہم عوامی جلسے' مذہبی تقریبات اور میلوں کے سرکس تھے۔ سینما گھروں کی رونق اپنی جگہ لیکن عوامی جلسے تو ہر خاص و عام کو میسر تھے' اس لیے لوگ ہر سیاسی و مذہبی جلسہ اپنے اپنے شوق کے اعتبار سے رات ڈھلے تک دیکھتے اور تقریریں سنتے رہتے۔
تقریر کا فن اپنے عروج پر تھا اور شعلہ بیان مقررین گھنٹوں لوگوں کو اپنے سحر میں لیے رکھتے۔ میرا گھر گجرات کے ایک مشہور علاقے کالری دروازے کی گلی محلہ ڈپٹی یار محمد خان میں تھا۔ کالری دروازہ آج فیصل گیٹ کہلاتا ہے جس کا نام گجرات کے شہریوں نے شاہ فیصل کے انتقال کے بعد ان کے نام سے معنون کر دیا تھا۔ یہ گیٹ فصیل شہر کے گیٹوں میں سے ایک تھا۔ قدیم دروازہ تو منہدم ہو چکا تھا جس کی وجہ سے یہاں ایک میدان سا بن گیا تھا جہاں سیاسی جلسے منعقد ہوتے۔ مقررین کی آوازیں چھتوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے کانوں تک پہنچتی تھیں لیکن پھر بھی لوگ جلسے میں جا کر روبرو مقرر کو سننا پسند کرتے۔ میرے بچپن کی یادوں کی ایک خوبصورت یاد ایک سیاسی جلسہ اور اس میں ایک مقرر کی تقریر ہے۔ ایوب خان کا دور اقتدار ختم ہوا تھا اور یحییٰ خان نے سیاسی سرگرمیوں کا اعلان کر دیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت نے انگڑائی لی تھی اور مقبولیت کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہی تھی۔ ہمارے سامنے وحدت مغربی پاکستان یعنی ون یونٹ ٹوٹا تھا ا ور اس کی کوکھ سے چار صوبے بلوچستان' سندھ' پنجاب اور سرحد برآمد ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں سرخ انقلاب کی آمد آمد کے تذکرے عام تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی' کپڑے اور مکان کا نعرہ اور منشور میں درج ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' پاکستان میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کے لیے خوش کن پیغام تھے۔ یہی وہ دن تھے جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مولانا بھاشانی نے کسان کانفرنس منعقد کی۔ ان کی ڈھاکہ سے مغربی پاکستان آمد یہاں کے رہنے والوں کے لیے ایک اچنبھا تھا۔ یہ کانفرنس کسانوں کو درانتی اور ہل کے ذریعے انقلاب لانے کے ذرائع بتاتی رہی۔ فیض احمد فیض نے اسی کانفرنس میں اپنی انقلابی شاعری سے لوگوں کو گرمایا تھا۔
مولانا بھاشانی جس خطے سے آئے تھے یعنی مشرقی پاکستان اس کا ذکر یوں تو مغربی پاکستان کی محفلوں میں بہت ہی کم ہوتا اور اگر ہوتا تو دو طرح کے رویے ہماری گفتگو میں پائے جاتے۔ ایک رویہ عام لوگوں کا تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام پسماندہ ہیں' مفلوک الحال ہیں اور ہم مغربی پاکستان کے عوام ان کی آفتوں اور سیلابوں میں مد د کرتے ہیں نہ کسی کو بنگالی موسیقی سے دلچسپی تھی اور نہ بنگالی ثقافت سے۔ ڈھاکہ میں بنائی گئی چند فلمیں سینماؤں میں لگتیں تو لوگ کو سنار بنگلہ کی اس سرزمین کے مناظر بھلے لگتے۔ شبنم اور رحمان تھے تو بنگالی لیکن ان کی پہچان لاہور کی فلم انڈسٹری بن چکی تھی۔
دوسری جانب ایک ایسا طبقہ تھا جو پاکستان کے میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔ یہ طبقہ بائیں بازو کی اس سوچ سے تعلق رکھتا تھا جن کے نزدیک پاکستان کی وحدت کو اسی طرح نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اگر یہا ں پر بسنے والی قومیتوں میں نفرتوں کو پروان چڑھایا جائے۔ دونوں علاقوں کے پریس مختلف تھے اس لیے کسی کو علم تک نہ تھا کہ دوسری جانب کیا لکھا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں یہ مستقل پراپیگنڈہ تھا کہ مغربی پاکستان تمہارے وسائل کو لوٹ رہا ہے اور وہاں کی ترقی دراصل تمہارے استحصال کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب یہاں کے پریس پر چھائے ہوئے لوگ بنگالیوں کا ذکر تو نہ کرتے لیکن مغربی پاکستان کے رہنے والوں کو ظالم' استحصالی' خون چوسنے والے اور بنگالیوں کے حقوق کا غاصب بنا کر پیش کرتے۔
یہ پراپیگنڈہ ایسا تھا کہ دونوں جانب محبت کے گیت گانے والا کوئی نظر نہ آتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کا ایک فرد بھی مشرقی پاکستان میں موجود نہ تھا۔ گویا پاکستان ٹوٹنے سے کئی سال پہلے ہی بھٹو نے اس خطے سے جان چھڑا لی تھی۔ شیخ مجیب اور بھاشانی کی پارٹی کے جھنڈے ان کے لاہور کے دفتروں پر لہراتے نظر آ جاتے تھے۔ یہ دفاتر بھی پورے مغربی پاکستان میں تین یا چار ہوں گے۔ لیکن ایک تنظیم ایسی تھی جس کے دفتر مغربی پاکستان کے کونے کونے میں موجود تھے اور ان دفاتر پر آویزاں بورڈ پر اس تنظیم کا نام بنگالی میں بھی لکھا ہوتا تھا۔ یہ واحد جگہ' دفتر یا بورڈ ایسا تھا جس کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان بھی ہمارا حصہ ہے۔ یہ تھی اسلامی جمعیت طلبہ جس نے بورڈ پر بنگالی میں اس کا نام ''اسلامی چھاترو شنگھو'' لکھا ہوتا تھا۔
گجرات کے کالری گیٹ اور موجودہ فیصل گیٹ میں یوم پاکستان کا ایک جلسہ اسی اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے منعقد ہوا۔ اس جلسے کے دو مقررین تھے ایک پروفیسر خالد علوی مرحوم جو جامعہ پنجاب میں پڑھاتے تھے اور دوسرے ڈھاکہ سے آئے ہوئے مطیع الرحمن نظامی۔ یہ میرا دہریت کا دور تھا۔ کارل مارکس اور اینگز کو پڑھنے کے بعد ذہن میں خسرے کی طرح لادینیت کی بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ مشرقی پاکستان چونکہ ہم سب کے لیے ایک دور دراز اور انوکھا خطہ تھا اس لیے وہاں سے آنے والوں کو سننا اور دیکھنا معلومات میں اضافے کے لیے ضروری تھا۔ میں اس جلسے میں چلا گیا۔ پہلے تو خالد علوی کی تقریر نے مجھے مبہوت کر دیا۔ جامعہ پنجاب کا ایک استاد اور سرکاری ملازم اسقدر جرات سے گفتگو کر رہا تھا کہ میں حیران رہ گیا۔
سچی بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران جب کبھی سوچتا ہوں کہ اسقدر بے خوفی مجھ میں کیسے آئی تو شاید اس کا ایک جواز یہ ہے کہ مجھے خالد علوی کی جرات نے متاثر کیا تھا لیکن جس شخص کی تقریر' حسن بیان' ملاحت اور پاکستان سے محبت میں ڈوبے ہوئے الفاظ نے مجھے گرویدہ بنایا وہ مطیع الرحمن نظامی تھے۔ پہلی حیرت میرے لیے یہ تھی کہ ایک بنگالی پورے پاکستان پر چھائی اسلامی جمعیت طلبہ کا سربراہ کیسے بن گیا۔ مغربی پاکستان میں موجود کسی اور سیاسی پارٹی یا تنظیم میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ وہ اس بنگالی نوجوان کو مغربی پاکستان میں ایک ہیرو اور ایک لیڈر کے طور پر لیے لیے پھر رہی ہے۔ یہ کیسے مغربی پاکستان کے رہنے والے ہیں جنھیں اپنے بنگالی بھائیوں سے نفرت ہی نہیں۔ وہ انھیں کمتر نہیں جانتے۔
یہ سوال میرے ذہن سے ٹکراتے رہے اور میری دلچسپی مطیع الرحمن نظامی کی تقریر میں بڑھتی گئی۔ چودہ سال کے بچے کے لیے یہ بہت حیرت کے لمحات تھے۔ وہ جسے یک طرفہ مطالعہ نے دہریہ بنایا تھا اور یک طرفہ پراپیگنڈ نے بنگالیوں کا صحیح تصور ہی واضح نہیں ہونے دیا تھا۔ اگر مطیع الرحمن نظامی کی وہ تقریر میری زندگی میں نہ آتی تو کبھی بھی وسیع نظری سے بنگالی عوام کو نہ دیکھ پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان ٹوٹا تو یہ ایک ایسا المیہ تھا جس نے مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے قریب کیا اور میں بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا حصہ بنا' اس تحریک نے پاکستان سے محبت جگائی اور پاکستان سے محبت نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا' ایسے میں اگر مولانا مودودی کا مدلل علم میری رہنمائی نہ کرتا تو میں دہریت کے تاریک سمندر میں غرق رہتا۔
آج وہ مطیع الرحمن نظامی جس کی تقریر نے مجھے پاکستانیت کے قریب کیا۔ جس کی بنگالی لہجے کی اردو نے مجھے اس خطے سے محبت سکھائی' اسے اس پاکستان سے محبت نے جرم میں بنگلہ دیش میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور وہ اس منزل کا راہی ہے جس پر ایسے کئی پروانے جھول چکے ہیں۔ میں اس خطہ جسے مغربی پاکستان کہتے تھے اور اس وقت پاکستان' وہاں پر موجود آنکھوں میں آنسو لیے صرف یہ سوچ رہا ہوں دنیا کی تاریخ میں کمزور ترین ملکوں نے بھی اپنے سے محبت کرنے والوں کو ایسے فراموش نہیں کیا ہو گا جیسے ہم نے کیا ہے۔ شاید ہی کوئی آنکھ اشکبار ہو' شاید ہی کسی کو احساس ہو کہ جو قومیں اپنے عشاق سے یہ سلوک کرتی ہیں ان کے گھروں میں بھی ان سے محبت کرنے والے پیدا ہونے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ محبت کے معاملے میں بانجھ ہو جاتی ہیں۔
ہر کسی کو یاد کرنے پر اپنے شہر کے یہ مخصوص ٹھکانے ضرور یاد آ جائیں گے جو اب اجڑ چکے ہیں۔ میری زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ دو شہروں گجرات اور کوئٹہ میں گزرا ہے اس لیے مجھے آج بھی ان دونوں شہروں کی محفلیں ایک سہانے منظر نامے کی طرح یاد آتی ہیں اور آنکھیں بھگو جاتی ہیں۔ اگر آپ اس زمانے میں کوئٹہ کی جناح روڈ پر عصر کے بعد گزرتے تو آپ کو کسی دکان میں نواب اکبر بگٹی اپنی محفل سجائے ہوئے نظر آتے تو کسی میں محمود خان اچکزئی' چائے خانوں میں لوگ دیر تک بیٹھتے اور دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔ زمرد حسین صاحب کی قلات پبلشرز والی دکان تو سیاست دانوں' ادیبوں' شاعروں کا مرکز تھی جس طرح شہر میں کوئی نئی کتاب آئے تو وہ بک اسٹالوں پر ملتی ہے اسی طرح کوئٹہ میں کوئی ادیب' شاعر' صحافی یا سیاست دان باہر سے تشریف لاتا تو زمرد حسین صاحب کے قلات پبلشر والے تکیے میں ضرور نظر آتا۔
گجرات جسے سرسید نے خطۂ یونان کہا تھا اس کے ہاں بھی ڈیرے بہت تھے۔ حکیم جمیل صاحب اپنے مطب کے سامنے گلی میں پانی کا چھڑکاؤ کرواتے' کرسیاں رکھ دی جاتیں اور پھر وہاں کون کون نہیں آتا تھا۔ سیاست دانوں سے لے کر ادیبوں' شاعروں اور کالج کے پروفیسروں تک ہر کوئی۔ صبح کے وقت ضلع کچہری میں وکیلوں کے چھپڑ سیاست دانوں اور صحافیوں کے ٹھکانے ہوتے اور شام کو ادب پرور لوگوں کی دکانیں ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہیں۔ لیکن اس زمانے میں رات گئے یا پھر عشاء کے بعد کے معمولات میں سب سے اہم عوامی جلسے' مذہبی تقریبات اور میلوں کے سرکس تھے۔ سینما گھروں کی رونق اپنی جگہ لیکن عوامی جلسے تو ہر خاص و عام کو میسر تھے' اس لیے لوگ ہر سیاسی و مذہبی جلسہ اپنے اپنے شوق کے اعتبار سے رات ڈھلے تک دیکھتے اور تقریریں سنتے رہتے۔
تقریر کا فن اپنے عروج پر تھا اور شعلہ بیان مقررین گھنٹوں لوگوں کو اپنے سحر میں لیے رکھتے۔ میرا گھر گجرات کے ایک مشہور علاقے کالری دروازے کی گلی محلہ ڈپٹی یار محمد خان میں تھا۔ کالری دروازہ آج فیصل گیٹ کہلاتا ہے جس کا نام گجرات کے شہریوں نے شاہ فیصل کے انتقال کے بعد ان کے نام سے معنون کر دیا تھا۔ یہ گیٹ فصیل شہر کے گیٹوں میں سے ایک تھا۔ قدیم دروازہ تو منہدم ہو چکا تھا جس کی وجہ سے یہاں ایک میدان سا بن گیا تھا جہاں سیاسی جلسے منعقد ہوتے۔ مقررین کی آوازیں چھتوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے کانوں تک پہنچتی تھیں لیکن پھر بھی لوگ جلسے میں جا کر روبرو مقرر کو سننا پسند کرتے۔ میرے بچپن کی یادوں کی ایک خوبصورت یاد ایک سیاسی جلسہ اور اس میں ایک مقرر کی تقریر ہے۔ ایوب خان کا دور اقتدار ختم ہوا تھا اور یحییٰ خان نے سیاسی سرگرمیوں کا اعلان کر دیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت نے انگڑائی لی تھی اور مقبولیت کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہی تھی۔ ہمارے سامنے وحدت مغربی پاکستان یعنی ون یونٹ ٹوٹا تھا ا ور اس کی کوکھ سے چار صوبے بلوچستان' سندھ' پنجاب اور سرحد برآمد ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں سرخ انقلاب کی آمد آمد کے تذکرے عام تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی' کپڑے اور مکان کا نعرہ اور منشور میں درج ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' پاکستان میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کے لیے خوش کن پیغام تھے۔ یہی وہ دن تھے جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مولانا بھاشانی نے کسان کانفرنس منعقد کی۔ ان کی ڈھاکہ سے مغربی پاکستان آمد یہاں کے رہنے والوں کے لیے ایک اچنبھا تھا۔ یہ کانفرنس کسانوں کو درانتی اور ہل کے ذریعے انقلاب لانے کے ذرائع بتاتی رہی۔ فیض احمد فیض نے اسی کانفرنس میں اپنی انقلابی شاعری سے لوگوں کو گرمایا تھا۔
مولانا بھاشانی جس خطے سے آئے تھے یعنی مشرقی پاکستان اس کا ذکر یوں تو مغربی پاکستان کی محفلوں میں بہت ہی کم ہوتا اور اگر ہوتا تو دو طرح کے رویے ہماری گفتگو میں پائے جاتے۔ ایک رویہ عام لوگوں کا تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام پسماندہ ہیں' مفلوک الحال ہیں اور ہم مغربی پاکستان کے عوام ان کی آفتوں اور سیلابوں میں مد د کرتے ہیں نہ کسی کو بنگالی موسیقی سے دلچسپی تھی اور نہ بنگالی ثقافت سے۔ ڈھاکہ میں بنائی گئی چند فلمیں سینماؤں میں لگتیں تو لوگ کو سنار بنگلہ کی اس سرزمین کے مناظر بھلے لگتے۔ شبنم اور رحمان تھے تو بنگالی لیکن ان کی پہچان لاہور کی فلم انڈسٹری بن چکی تھی۔
دوسری جانب ایک ایسا طبقہ تھا جو پاکستان کے میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔ یہ طبقہ بائیں بازو کی اس سوچ سے تعلق رکھتا تھا جن کے نزدیک پاکستان کی وحدت کو اسی طرح نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اگر یہا ں پر بسنے والی قومیتوں میں نفرتوں کو پروان چڑھایا جائے۔ دونوں علاقوں کے پریس مختلف تھے اس لیے کسی کو علم تک نہ تھا کہ دوسری جانب کیا لکھا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں یہ مستقل پراپیگنڈہ تھا کہ مغربی پاکستان تمہارے وسائل کو لوٹ رہا ہے اور وہاں کی ترقی دراصل تمہارے استحصال کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب یہاں کے پریس پر چھائے ہوئے لوگ بنگالیوں کا ذکر تو نہ کرتے لیکن مغربی پاکستان کے رہنے والوں کو ظالم' استحصالی' خون چوسنے والے اور بنگالیوں کے حقوق کا غاصب بنا کر پیش کرتے۔
یہ پراپیگنڈہ ایسا تھا کہ دونوں جانب محبت کے گیت گانے والا کوئی نظر نہ آتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کا ایک فرد بھی مشرقی پاکستان میں موجود نہ تھا۔ گویا پاکستان ٹوٹنے سے کئی سال پہلے ہی بھٹو نے اس خطے سے جان چھڑا لی تھی۔ شیخ مجیب اور بھاشانی کی پارٹی کے جھنڈے ان کے لاہور کے دفتروں پر لہراتے نظر آ جاتے تھے۔ یہ دفاتر بھی پورے مغربی پاکستان میں تین یا چار ہوں گے۔ لیکن ایک تنظیم ایسی تھی جس کے دفتر مغربی پاکستان کے کونے کونے میں موجود تھے اور ان دفاتر پر آویزاں بورڈ پر اس تنظیم کا نام بنگالی میں بھی لکھا ہوتا تھا۔ یہ واحد جگہ' دفتر یا بورڈ ایسا تھا جس کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان بھی ہمارا حصہ ہے۔ یہ تھی اسلامی جمعیت طلبہ جس نے بورڈ پر بنگالی میں اس کا نام ''اسلامی چھاترو شنگھو'' لکھا ہوتا تھا۔
گجرات کے کالری گیٹ اور موجودہ فیصل گیٹ میں یوم پاکستان کا ایک جلسہ اسی اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے منعقد ہوا۔ اس جلسے کے دو مقررین تھے ایک پروفیسر خالد علوی مرحوم جو جامعہ پنجاب میں پڑھاتے تھے اور دوسرے ڈھاکہ سے آئے ہوئے مطیع الرحمن نظامی۔ یہ میرا دہریت کا دور تھا۔ کارل مارکس اور اینگز کو پڑھنے کے بعد ذہن میں خسرے کی طرح لادینیت کی بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ مشرقی پاکستان چونکہ ہم سب کے لیے ایک دور دراز اور انوکھا خطہ تھا اس لیے وہاں سے آنے والوں کو سننا اور دیکھنا معلومات میں اضافے کے لیے ضروری تھا۔ میں اس جلسے میں چلا گیا۔ پہلے تو خالد علوی کی تقریر نے مجھے مبہوت کر دیا۔ جامعہ پنجاب کا ایک استاد اور سرکاری ملازم اسقدر جرات سے گفتگو کر رہا تھا کہ میں حیران رہ گیا۔
سچی بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران جب کبھی سوچتا ہوں کہ اسقدر بے خوفی مجھ میں کیسے آئی تو شاید اس کا ایک جواز یہ ہے کہ مجھے خالد علوی کی جرات نے متاثر کیا تھا لیکن جس شخص کی تقریر' حسن بیان' ملاحت اور پاکستان سے محبت میں ڈوبے ہوئے الفاظ نے مجھے گرویدہ بنایا وہ مطیع الرحمن نظامی تھے۔ پہلی حیرت میرے لیے یہ تھی کہ ایک بنگالی پورے پاکستان پر چھائی اسلامی جمعیت طلبہ کا سربراہ کیسے بن گیا۔ مغربی پاکستان میں موجود کسی اور سیاسی پارٹی یا تنظیم میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ وہ اس بنگالی نوجوان کو مغربی پاکستان میں ایک ہیرو اور ایک لیڈر کے طور پر لیے لیے پھر رہی ہے۔ یہ کیسے مغربی پاکستان کے رہنے والے ہیں جنھیں اپنے بنگالی بھائیوں سے نفرت ہی نہیں۔ وہ انھیں کمتر نہیں جانتے۔
یہ سوال میرے ذہن سے ٹکراتے رہے اور میری دلچسپی مطیع الرحمن نظامی کی تقریر میں بڑھتی گئی۔ چودہ سال کے بچے کے لیے یہ بہت حیرت کے لمحات تھے۔ وہ جسے یک طرفہ مطالعہ نے دہریہ بنایا تھا اور یک طرفہ پراپیگنڈ نے بنگالیوں کا صحیح تصور ہی واضح نہیں ہونے دیا تھا۔ اگر مطیع الرحمن نظامی کی وہ تقریر میری زندگی میں نہ آتی تو کبھی بھی وسیع نظری سے بنگالی عوام کو نہ دیکھ پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان ٹوٹا تو یہ ایک ایسا المیہ تھا جس نے مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے قریب کیا اور میں بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا حصہ بنا' اس تحریک نے پاکستان سے محبت جگائی اور پاکستان سے محبت نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا' ایسے میں اگر مولانا مودودی کا مدلل علم میری رہنمائی نہ کرتا تو میں دہریت کے تاریک سمندر میں غرق رہتا۔
آج وہ مطیع الرحمن نظامی جس کی تقریر نے مجھے پاکستانیت کے قریب کیا۔ جس کی بنگالی لہجے کی اردو نے مجھے اس خطے سے محبت سکھائی' اسے اس پاکستان سے محبت نے جرم میں بنگلہ دیش میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور وہ اس منزل کا راہی ہے جس پر ایسے کئی پروانے جھول چکے ہیں۔ میں اس خطہ جسے مغربی پاکستان کہتے تھے اور اس وقت پاکستان' وہاں پر موجود آنکھوں میں آنسو لیے صرف یہ سوچ رہا ہوں دنیا کی تاریخ میں کمزور ترین ملکوں نے بھی اپنے سے محبت کرنے والوں کو ایسے فراموش نہیں کیا ہو گا جیسے ہم نے کیا ہے۔ شاید ہی کوئی آنکھ اشکبار ہو' شاید ہی کسی کو احساس ہو کہ جو قومیں اپنے عشاق سے یہ سلوک کرتی ہیں ان کے گھروں میں بھی ان سے محبت کرنے والے پیدا ہونے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ محبت کے معاملے میں بانجھ ہو جاتی ہیں۔