بہت خوشی کی خبر
بہت خوشی کی خبر ہے۔ عطاء الحق قاسمی پاکستان ٹیلی ویژن کے، جو اب پی ٹی وی کے نام سے زیادہ معروف ہے،
بہت خوشی کی خبر ہے۔ عطاء الحق قاسمی پاکستان ٹیلی ویژن کے، جو اب پی ٹی وی کے نام سے زیادہ معروف ہے، چیئرمین ہو گئے۔ اس خوشی میں ہم نے انھیں مبارک باد دی اور کیک بھی چکھ لیا۔ لیکن اسی کے ساتھ ہم نے ان پر یہ واضح کیا کہ یہ عہدہ آپ کو مبارک ہو۔ مگر یہ اپنے ساتھ آپ کے لیے ایک چیلنج بھی لایا ہے۔ یہ چیلنج اس پس منظر میں آیا ہے کہ اس وقت جو پاکستان کے ٹی وی چینلوں کا نقشہ ہے وہ کچھ بہت خوشگوار نہیں ہے۔
یہ ردعمل عام ہے کہ پاکستان ٹی وی نے جب آغاز کیا تھا تو وہ بیشک ڈکٹیٹر شپ کا زمانہ تھا اور ٹی وی کا قیام اس ملک کے لیے ایک نیا تجربہ تھا لیکن اس نے اپنے پروگراموں کے حوالے سے جلد ناظرین کا ایک بڑا حلقہ پیدا کر لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے پروگرام نکھرتے بھی چلے گئے اور اسی حوالے سے مقبولیت کے منازل بھی طے کرتے چلے گئے۔ لیکن اب جب کہ جمہوریت کا دور ہے اور جمہوریت جیسی کیسی بھی ہے بقول شخصے جمہوریت تو ہے تو وہ جو ایک معیار قائم ہوا تھا وہ تو ملیا میٹ ہو گیا اور پروگراموں میں جو رنگا رنگی تھی۔ ان رنگا رنگ پروگراموں کی جگہ ایسے پروگرام آئے ہیں کہ وہ جمہوری تو ہو گئے ہیں لیکن اس جمہوریت میں پاکستان کی سیاسی زندگی جس ابتری کا شکار ہوئی ہے وہی ابتری اپنے الیکٹرونک میڈیا کے پروگراموں میں بھی نظر آتی ہے اب سیاسی مخلوق ہی کی اس شعبہ میں ریل پیل ہے۔ وہ اس میڈیم کے معیار کو اپنی سطح پر لے آئی ہے۔
دوسرا درجہ مذہبی پروگراموں کو حاصل ہے۔ اسلام کی جو تعبیر ہمارے نئے مصلحین اور نئے مفکرین کے ساتھ جس میں سب سے بڑھ کر علامہ اقبال ہیں آئی تھی وہ دقیانوسی مذہبی پروگراموں کے ریلے میں غتربود ہو گئی۔ ان پروگراموں کو مقبولیت ملنی ہی تھی مگر مقبولیت گزشتہ مقبولیت سے کتنی مختلف ہے مگر ریٹنگ کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہے۔ انھیں آم کھانے سے مطلب ہے' پیڑ گننے کے قائل نہیں ہیں۔ سو سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے الیکٹرونک میڈیا میں کوئی بندہ ایسا آ پائے گا جو اس نقشہ کو بدل کر پھر ایک نیا نقشہ قائم کر سکے۔ ایسا نقشہ جو گمشدہ نقشہ سے اگر بہتر نہ ہو تو کم از کم اس حد تک تو اپنا کھویا ہوا وقار قائم کر سکے۔
کیا عطاء الحق قاسمی سے اس قسم کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ توقع سنجیدہ ادبی تہذیبی حلقوں میں اس بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ وہ جب لاہور آرٹ کونسل کے سربراہ بنے تو وہاں اچھی خاصی بڑی تبدیلی لائے۔ سوئی سوئی آرٹ کونسل کو تھوڑا جھنجھوڑا سارے فنون کو یکساں اہمیت دے کر اور اس کے ساتھ ان کے فروغ کے لیے کچھ نئے ڈھب اختیار کیے۔ سالانہ ادب و فنون کے فیسٹیول کی بنیاد ڈالی۔ اس تجربے کی کامیابی نے آرٹ کونسل کو اب واقعی ایک متحرک کلچرل ادارے کی حیثیت دیدی ہے۔ کیا اس قسم کی کسی بڑی تبدیلی کی الیکٹرونک میڈیا میں ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔
عجب اتفاق ہے کہ انھیں دنوں جناب اسلم اظہر کا انتقال ہوا ہے۔ پی ٹی وی کی تعمیر اور فروغ کا سہرا جن کے سر باندھا جا سکتا ہے ان میں سب سے بڑھ کر اسلم اظہر تھے۔ شاید ضیاء الحق کے زمانے میں وہ اس ڈکٹیٹر کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکے اور اس ادارے سے ان کی رخصتی ہو گئی۔ وہ پھر اس فن کی طرف متوجہ ہوئے جو ٹی وی کی انتظامی سرگرمیوں میں اس میں اس طرح سے منہمک نہیں رہ سکے جیسے پہلے تھے۔ یعنی تھیٹر۔ اس سرگرمی میں دوبارہ ان کی شمولیت اور پھر گوشہ نشینی۔ ایک جائزے میں ہم نے پڑھا کہ اب وہ ملاقاتیں بہت کم کرتے تھے۔ یکسوئی سے مطالعہ میں غرق رہتے تھے۔ اور ہاں ٹی وی کی دید سے یکسر اجتناب برتتے تھے۔ یہ ردعمل بہت معنی خیز ہے۔ اگرچہ ان کے پرانے رفقا نے جو مرنے کے بعد انھیں یاد کیا ہے اور ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ان کے اس ردعمل کو زیادہ قابل توجہ نہیں سمجھا۔ یہ ایک ایسے حساس ٹی وی آرگنائزر کا ردعمل تھا جس نے اس میڈیم کو بنانے سنوارنے میں بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ اب وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ تو سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا۔ ایں دفتر را گاؤ خورد۔ گاؤ را قصاب برد۔ اس سارے دفتر کو گائے نے چر لیا۔ گائے قصاب کے ہتھے چڑھ گئی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ پھر اسے اس سارے کھڑاک سے بیزار ہونا ہی تھا۔
ہاں ایک بات اور۔ ان کی رخصتی کے بعد پی ٹی وی کے سامعین کو اچھے خاصے عرصے تک ان کی عدم موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ان کی جگہ جن شخصیتوں نے سنبھالی ان میں کئی ایک تو انھیں کے تربیت یافتہ تھے۔ نئے آنے والوں میں ایک ضیا جالندھری تھے جن کا اس شعبہ سے پہلے ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہر چند کہ اغیار نے ان کے بارے میں اقبال کے ایک شعر سے فائدہ اٹھا کر اس خیال کو تقویت دی کہ؎
خوش آ گئی ہے ضیا کو جالندھری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
لیکن پروگراموں کے بنے بنائے سانچہ کو بدلنے کی انھوں نے بھی ایسی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ انقلاب معکوس اس وقت آیا جب بے سوچے سمجھے نئے چینلوں کے اجازت نامے تقسیم کیے گئے اور پھر جلد ہی جمہوری دور شروع ہو گیا۔ جمہوریت کی اس واپس سے یار و اغیار کی اشک شوئی تو ہو گئی لیکن پاکستانی جمہوریت کے دلدر تو دور نہیں ہوتے تھے تو جمہوریت کی سواری باد بہاری کے ساتھ اس کے دلدر بھی آئے۔ اس کی زد سب سے بڑھ کر الیکٹرونک میڈیا پر پڑی۔
اب جو ٹی وی چینلوں کا نقشہ ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ عیاں را چہ بیان۔ سب کچھ اتنا واضح ہے کہ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ تو بڑا کام تو یہی ہے کہ پی ٹی وی کی چیئرمین والی کرسی پر بیٹھے وہ یہاں کے پچھلے نقشہ کو غور سے دیکھے اور اس کی بحالی کی کوشش کرے۔
ہاں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پچھلے نقشہ میں کسی اصلاح کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ کہ وہ ہر اعتبار سے کامل و مکمل نقشہ تھا۔ مگر ایسا کبھی ہوا نہیں کرتا۔ جو مسلم طور پر اچھے اور عیوب سے پاک کام ہوتے ہیں ان میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ کمیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ اسلم اظہر کے زمانے کے ٹی وی پروگراموں میں ایک گڑ بڑ یہ تھی کہ بعض پروگرام بہت کامیاب تھے۔ خاص طور پر مزاحیہ پروگرام اور ڈراما سیریز کے سلسلے۔ اس کامیابی سے پی ٹی وی اتنا مگن ہو گیا کہ طنز و مزاح کا بیشک اپنا ایک رول اور ایک مقام ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سنجیدہ موضوعات پر بحث کا دروازہ بند کر دیا جائے یہ سوچ کر کہ ایسے پروگرام کو تو ففٹی ففٹی والی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب آغا ناصر کی لکھی ہوئی پی ٹی وی کی تاریخ شایع ہوئی تو ہم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی یہ بات لکھی تھی اور زبانی عرض کیا تھا کہ آپ نے پی ٹی وی کے پروگراموں کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ مگر عجب ہے کہ مزاحیہ پروگراموں سے ہٹ کر جو ایک سنجیدہ پروگرام کیا تھا اور جس کی قومی اہمیت بھی تھی اسے یکسر فراموش کر دیا۔
انھوں نے پوچھا کہ وہ کونسا پروگرام تھا۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ پی ٹی وی پر تقریروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مسئلہ تھا پاکستان کی تہذیبی شناخت کا۔ یا کہہ لیجیے کہ پاکستان کی تہذیب کا تعین۔ اس پر جن اہل دانش نے تقریریں کیں ان میں تین کے نام یاد ہیں۔ فیض صاحب' پروفیسر کرار حسین' ڈاکٹر اجمل۔ بولے کہ یار' بھول ہو گئی۔
بھول ہونی ہی تھی۔ جب اتنی اہم بحث انھیں یاد نہیں رہی تو چند دوسرے سنجیدہ پروگرام پی ٹی وی سے سرزد ہوئے تھے وہ انھیں کیسے یاد رہتے۔ کیونکہ ایسے پروگراموں کو دیکھنے والے اور داد دینے والے تو ففٹی ففٹی سے خط اٹھانے والوں اور سیریل سے لطف اندوز ہونے والوں کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں تھے۔
یہ ردعمل عام ہے کہ پاکستان ٹی وی نے جب آغاز کیا تھا تو وہ بیشک ڈکٹیٹر شپ کا زمانہ تھا اور ٹی وی کا قیام اس ملک کے لیے ایک نیا تجربہ تھا لیکن اس نے اپنے پروگراموں کے حوالے سے جلد ناظرین کا ایک بڑا حلقہ پیدا کر لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے پروگرام نکھرتے بھی چلے گئے اور اسی حوالے سے مقبولیت کے منازل بھی طے کرتے چلے گئے۔ لیکن اب جب کہ جمہوریت کا دور ہے اور جمہوریت جیسی کیسی بھی ہے بقول شخصے جمہوریت تو ہے تو وہ جو ایک معیار قائم ہوا تھا وہ تو ملیا میٹ ہو گیا اور پروگراموں میں جو رنگا رنگی تھی۔ ان رنگا رنگ پروگراموں کی جگہ ایسے پروگرام آئے ہیں کہ وہ جمہوری تو ہو گئے ہیں لیکن اس جمہوریت میں پاکستان کی سیاسی زندگی جس ابتری کا شکار ہوئی ہے وہی ابتری اپنے الیکٹرونک میڈیا کے پروگراموں میں بھی نظر آتی ہے اب سیاسی مخلوق ہی کی اس شعبہ میں ریل پیل ہے۔ وہ اس میڈیم کے معیار کو اپنی سطح پر لے آئی ہے۔
دوسرا درجہ مذہبی پروگراموں کو حاصل ہے۔ اسلام کی جو تعبیر ہمارے نئے مصلحین اور نئے مفکرین کے ساتھ جس میں سب سے بڑھ کر علامہ اقبال ہیں آئی تھی وہ دقیانوسی مذہبی پروگراموں کے ریلے میں غتربود ہو گئی۔ ان پروگراموں کو مقبولیت ملنی ہی تھی مگر مقبولیت گزشتہ مقبولیت سے کتنی مختلف ہے مگر ریٹنگ کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہے۔ انھیں آم کھانے سے مطلب ہے' پیڑ گننے کے قائل نہیں ہیں۔ سو سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے الیکٹرونک میڈیا میں کوئی بندہ ایسا آ پائے گا جو اس نقشہ کو بدل کر پھر ایک نیا نقشہ قائم کر سکے۔ ایسا نقشہ جو گمشدہ نقشہ سے اگر بہتر نہ ہو تو کم از کم اس حد تک تو اپنا کھویا ہوا وقار قائم کر سکے۔
کیا عطاء الحق قاسمی سے اس قسم کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ توقع سنجیدہ ادبی تہذیبی حلقوں میں اس بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ وہ جب لاہور آرٹ کونسل کے سربراہ بنے تو وہاں اچھی خاصی بڑی تبدیلی لائے۔ سوئی سوئی آرٹ کونسل کو تھوڑا جھنجھوڑا سارے فنون کو یکساں اہمیت دے کر اور اس کے ساتھ ان کے فروغ کے لیے کچھ نئے ڈھب اختیار کیے۔ سالانہ ادب و فنون کے فیسٹیول کی بنیاد ڈالی۔ اس تجربے کی کامیابی نے آرٹ کونسل کو اب واقعی ایک متحرک کلچرل ادارے کی حیثیت دیدی ہے۔ کیا اس قسم کی کسی بڑی تبدیلی کی الیکٹرونک میڈیا میں ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔
عجب اتفاق ہے کہ انھیں دنوں جناب اسلم اظہر کا انتقال ہوا ہے۔ پی ٹی وی کی تعمیر اور فروغ کا سہرا جن کے سر باندھا جا سکتا ہے ان میں سب سے بڑھ کر اسلم اظہر تھے۔ شاید ضیاء الحق کے زمانے میں وہ اس ڈکٹیٹر کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکے اور اس ادارے سے ان کی رخصتی ہو گئی۔ وہ پھر اس فن کی طرف متوجہ ہوئے جو ٹی وی کی انتظامی سرگرمیوں میں اس میں اس طرح سے منہمک نہیں رہ سکے جیسے پہلے تھے۔ یعنی تھیٹر۔ اس سرگرمی میں دوبارہ ان کی شمولیت اور پھر گوشہ نشینی۔ ایک جائزے میں ہم نے پڑھا کہ اب وہ ملاقاتیں بہت کم کرتے تھے۔ یکسوئی سے مطالعہ میں غرق رہتے تھے۔ اور ہاں ٹی وی کی دید سے یکسر اجتناب برتتے تھے۔ یہ ردعمل بہت معنی خیز ہے۔ اگرچہ ان کے پرانے رفقا نے جو مرنے کے بعد انھیں یاد کیا ہے اور ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ان کے اس ردعمل کو زیادہ قابل توجہ نہیں سمجھا۔ یہ ایک ایسے حساس ٹی وی آرگنائزر کا ردعمل تھا جس نے اس میڈیم کو بنانے سنوارنے میں بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ اب وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ تو سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا۔ ایں دفتر را گاؤ خورد۔ گاؤ را قصاب برد۔ اس سارے دفتر کو گائے نے چر لیا۔ گائے قصاب کے ہتھے چڑھ گئی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ پھر اسے اس سارے کھڑاک سے بیزار ہونا ہی تھا۔
ہاں ایک بات اور۔ ان کی رخصتی کے بعد پی ٹی وی کے سامعین کو اچھے خاصے عرصے تک ان کی عدم موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ان کی جگہ جن شخصیتوں نے سنبھالی ان میں کئی ایک تو انھیں کے تربیت یافتہ تھے۔ نئے آنے والوں میں ایک ضیا جالندھری تھے جن کا اس شعبہ سے پہلے ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہر چند کہ اغیار نے ان کے بارے میں اقبال کے ایک شعر سے فائدہ اٹھا کر اس خیال کو تقویت دی کہ؎
خوش آ گئی ہے ضیا کو جالندھری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
لیکن پروگراموں کے بنے بنائے سانچہ کو بدلنے کی انھوں نے بھی ایسی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ انقلاب معکوس اس وقت آیا جب بے سوچے سمجھے نئے چینلوں کے اجازت نامے تقسیم کیے گئے اور پھر جلد ہی جمہوری دور شروع ہو گیا۔ جمہوریت کی اس واپس سے یار و اغیار کی اشک شوئی تو ہو گئی لیکن پاکستانی جمہوریت کے دلدر تو دور نہیں ہوتے تھے تو جمہوریت کی سواری باد بہاری کے ساتھ اس کے دلدر بھی آئے۔ اس کی زد سب سے بڑھ کر الیکٹرونک میڈیا پر پڑی۔
اب جو ٹی وی چینلوں کا نقشہ ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ عیاں را چہ بیان۔ سب کچھ اتنا واضح ہے کہ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ تو بڑا کام تو یہی ہے کہ پی ٹی وی کی چیئرمین والی کرسی پر بیٹھے وہ یہاں کے پچھلے نقشہ کو غور سے دیکھے اور اس کی بحالی کی کوشش کرے۔
ہاں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پچھلے نقشہ میں کسی اصلاح کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ کہ وہ ہر اعتبار سے کامل و مکمل نقشہ تھا۔ مگر ایسا کبھی ہوا نہیں کرتا۔ جو مسلم طور پر اچھے اور عیوب سے پاک کام ہوتے ہیں ان میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ کمیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ اسلم اظہر کے زمانے کے ٹی وی پروگراموں میں ایک گڑ بڑ یہ تھی کہ بعض پروگرام بہت کامیاب تھے۔ خاص طور پر مزاحیہ پروگرام اور ڈراما سیریز کے سلسلے۔ اس کامیابی سے پی ٹی وی اتنا مگن ہو گیا کہ طنز و مزاح کا بیشک اپنا ایک رول اور ایک مقام ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سنجیدہ موضوعات پر بحث کا دروازہ بند کر دیا جائے یہ سوچ کر کہ ایسے پروگرام کو تو ففٹی ففٹی والی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب آغا ناصر کی لکھی ہوئی پی ٹی وی کی تاریخ شایع ہوئی تو ہم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی یہ بات لکھی تھی اور زبانی عرض کیا تھا کہ آپ نے پی ٹی وی کے پروگراموں کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ مگر عجب ہے کہ مزاحیہ پروگراموں سے ہٹ کر جو ایک سنجیدہ پروگرام کیا تھا اور جس کی قومی اہمیت بھی تھی اسے یکسر فراموش کر دیا۔
انھوں نے پوچھا کہ وہ کونسا پروگرام تھا۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ پی ٹی وی پر تقریروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مسئلہ تھا پاکستان کی تہذیبی شناخت کا۔ یا کہہ لیجیے کہ پاکستان کی تہذیب کا تعین۔ اس پر جن اہل دانش نے تقریریں کیں ان میں تین کے نام یاد ہیں۔ فیض صاحب' پروفیسر کرار حسین' ڈاکٹر اجمل۔ بولے کہ یار' بھول ہو گئی۔
بھول ہونی ہی تھی۔ جب اتنی اہم بحث انھیں یاد نہیں رہی تو چند دوسرے سنجیدہ پروگرام پی ٹی وی سے سرزد ہوئے تھے وہ انھیں کیسے یاد رہتے۔ کیونکہ ایسے پروگراموں کو دیکھنے والے اور داد دینے والے تو ففٹی ففٹی سے خط اٹھانے والوں اور سیریل سے لطف اندوز ہونے والوں کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں تھے۔