ایک حیران کن مگر خوشگوار نظیر

وہ لکھتے ہیں، آگرہ شہر سے کوئی 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مضافاتی بستی میں معین الاسلام نامی ایک دینی مدرسہ قائم ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

بھارت میں ہمارے ایک دوست راجندر دیش پانڈے ہیں۔ وہ انسانی حقوق اور خطے میں امن و شانتی کے بہت سرگرم پرچارک ہیں۔ وہ انتہائی تندہی کے ساتھ ان ہی اہداف کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں۔ دو روز قبل انھوں نے email کے ذریعے ایک حیران کن اسٹوری شیئر کی ہے، جو برصغیر میں عوامی سطح پر تبدیل ہوتے رجحانات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اسٹوری ان تمام حلقوں کے لیے حیرت سے بڑھ کر خوش کن طمانیت کا باعث بنے گی، جو اس خطے کو امن کا گہوارہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور امن و شانتی کا خواب کئی دہائیوں سے آنکھوں میں سجائے دونوں ممالک کی حکمران اشرافیہ کے بدلتے تیوروں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں، آگرہ شہر سے کوئی 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مضافاتی بستی میں معین الاسلام نامی ایک دینی مدرسہ قائم ہے۔ یہ مدرسہ مڈل اسکول تک ہے، یعنی اس میں پہلے سے آٹھویں درجہ تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مدرسہ کی کئی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اول، یہ کہ یہاں مخلوط تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، یعنی لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کلاس روم میں ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دوئم یہاں مسلمان طلبا و طالبات کے علاوہ ہندو بچوں کو بھی داخل کیا جاتا ہے۔ اسکول میں اس وقت 4 سو سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں، جن میں سے 150 بچے ہندو ہیں۔ سوئم، ان بچوں کو عصری علوم جن میں سائنس کے مختلف مضامین، کمپیوٹر سائنس اور سماجی علوم شامل ہیں، کے علاوہ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کے ساتھ سنسکرت بھی پڑھائی جاتی ہے۔ چہارم، تمام بچے بلاامتیاز مذہب و عقیدہ اردو اور ہندی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں۔ پنجم، اس مدرسہ کا تعلیمی معیار اس قدر بلند ہے کہ فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو اعلیٰ ثانوی تعلیم کے دیگر اداروں میں میرٹ پر داخلہ مل جاتا ہے۔

مدرسہ کے مہتمم (پرنسپل) مولانا عذیر عالم کا کہنا ہے کہ یہ مدرسہ 1926ء میں قائم ہوا تھا، جس میں 2005ء سے ہندو بچوں کو بھی داخلہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ و طالبات کو اس خطے کے قدیم تہذیبی ورثے سے آگہی، ان کے علم میں اضافے اور تقابل ادیان کا صحیح تصور اجاگر کرنے کی خاطر چند ماہ قبل سنسکرت پڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہندو اور مسلمان طلبہ و طالبات کو عربی اور سنسکرت پڑھانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انھیں دونوں مذاہب کی مبادیات اور اخلاقیات کو سمجھنے کا موقع مل سکے اور ان میں ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام اور برداشت پیدا ہو سکے۔ اس سلسلے میں ہندوستان بھر کے جید علما اور پنڈتوں سے مشاورت کی گئی اور ان کی آراء کی روشنی میں سنسکرت کا نصاب تیار کیا گیا۔ اس وقت سنسکرت تین اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ دو اساتذہ کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے، جن میں سے ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر ہیں، جب کہ ایک ٹیچر مشتاق ہاشمی مسلمان ہیں، جو ابتدائی درجات کو پڑھاتے ہیں۔

اس سلسلے میں شیو پرشاد انٹر کالج آگرہ کے سابق پرنسپل پروفیسر بھوپندر سنگھ پریہار کا کہنا ہے کہ ایک انٹرویو کے دوران ایک طالبہ اوشا نے انھیں بتایا کہ عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں اسے ریاضی زیادہ مشکل لگتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس مدرسے کے طلبہ و طالبات، جن کی اکثریت نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے، آٹھویں درجہ تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیگر تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہے، جہاں انھیں اپنی تعلیمی استعداد کی بدولت میرٹ پر باآسانی داخلہ مل جاتا ہے۔ اسکول کے مہتم مولانا عذیر عالم اور پروفیسر بھوپندر سنگھ کا دعویٰ ہے کہ اس مدرسہ کے طلبہ و طالبات میں وسیع القلبی، متحمل مزاجی اور ادیان کی معاشرتی اہمیت اور تقدیس کا جو احساس اجاگر کیا جا رہا ہے، وہ آگے چل کر بھارتی معاشرے میں تحمل اور برداشت کی نئی راہیں متعین کرنے کا باعث بنے گا۔


معروف فلسفی لارڈ برٹرینڈ رسل اپنی کتاب On Education میں لکھتے ہیں کہ نصاب تعلیم اور اساتذہ کی سوچ بچے کے ذہن پر گہرا اثر کرتی ہے اور وہ ان ہی باتوں کا سچ اور حقیقی تصور کرنے لگتا ہے، جو اس کے ذہن میں اساتذہ ڈال دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر اساتذہ بچوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیں کہ برف کالی ہوتی ہے، تو بچہ تمام عمر برف کو کالی ہی قرار دیتا رہے گا، خواہ اس کے سامنے کتنے ہی عملی دلائل کیوں نہ پیش کر دیے جائیں۔ اس کی واضح مثال ہمارے ملک میں مختلف سماجی علوم کا نصاب اور اساتذہ کا متعصبانہ طرز تدریس ہے۔ ایک تو ابتدائی درجات سے یونیورسٹی کی سطح تک ہمارے نصاب میں غیر مسلموں کو جن القابات اور خصوصیات سے نوازا جاتا ہے، وہ انتہائی قابل اعتراض ہوتا ہے۔ اس پر طرہ اساتذہ کامتعصبانہ طرز تدریس ہے، جو نصاب سے بھی کئی ہاتھ آگے جا کر غیر مسلموں بالخصوص ہندو کمیونٹی کے بارے میں بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے ہیں۔ تنگ نظری پر مبنی اپنے بھاشن کے دوران وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کلاس میں موجود غیر مسلم بچوں کے ذہنوں پر ان کے الفاظ منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بن رہے ہوں گے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غیر مسلموں کے بارے میں ہمارے اساتذہ جس رائے کا اظہار کرتے ہیں، وہ تو اپنی جگہ سہی، مگر مسلمانوں کے مختلف فقہوں اور مسالک کے ماننے والوں کے بارے میں جو شرانگیز باتیں اسکولوں خاص طور پربعض دینی مدارس کی سطح پر پھیلائی جاتی ہیں ، وہ ناپختہ ذہنوں میں عقیدے کی بنیاد پر نفرتوں کو مزید گہرا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ آج ملک جس فکری انتشار اور ذہنی بے راہ روی کا شکار ہے، اس کو فروغ دینے میں نصاب تعلیم اور اساتذہ کی کم علمی، تنگ نظری کا بہت بڑا دخل ہے۔ 2002ء سے 2005ء کے دوران راقم نے سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دینی مدارس کا سروے کیا۔ ان کے نصاب تعلیم اور طریقہ تدریس کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان مدارس میں فقہی اور مسلکی عصبیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ اس کی وجہ وہ مقولہ ہے کہ ''نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان''۔ ان اسکولوں میں جو اساتذہ اسلامیات یا مطالعہ پاکستان پڑھاتے ہیں، ان کی اپنی علمی استعداد ان مضامین کے حوالے سے غیر تسلی بخش ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ اپنی قابلیت جھاڑنے کی خاطر غیر مسلموں کے بارے میں ایسی کوڑیاں لاتے ہیں، جن کا تاریخ اور سماجی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان میں اتنا بھی شعور نہیں کہ وہ اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ وہ ناپختہ ذہنوں میں عصبیت اور تنگ نظری کا جو زہر بھر رہے ہیں، وہ آنے والے کل متشدد فرقہ واریت میں تبدیل ہو کر مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان ناختم ہونے والی نفرتوں کو مزید گہرا کرنے کا باعث بن جائے گا۔

انسانی معاشروں کا حسن اور رنگارنگی ان میں موجود مختلف عقائد اور نسلی و لسانی تشخص کے حامل افراد کی ایک دوسرے کے لیے قبولیت اور باہمی یگانگت میں پنہاں ہوتی ہے۔ دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی مضبوط روایات تحمل، برداشت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے۔ مثبت انداز میں تقابل ادیان دیگر مذاہب کے احترام کی راہ ہموار کرتی ہے۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ علم ذہن کو محدود نہیں بلکہ اس کی وسعتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ علم ہی کائنات کی تسخیر کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے جب پہلی وحی آئی، تو یہ نہیں کہا گیا کہ اے رسولﷺ سنو بلکہ کہا گیا کہ پڑھو۔ گویا یہ بتانا مقصود تھا کہ آنے والے زمانے علم کے فروغ اور وسعتوں کے زمانے ہوں گے، اس لیے اب توجہ صرف اور صرف علم پر ہونی چاہیے۔ علم کے لیے دینی یا عصری کی شرط نہیں۔ اگر شرط ہوتی تو جنگ بدر کے موقع پر قید ہونے والے پڑھے لکھے قریش قیدیوں کو مسلمانوں کو پڑھانے کی ذمے داری نہ سونپی جاتی۔ اس لیے جو عناصر تعلیمی ادارے تباہ کرتے ہیں، وہ کسی بھی طور رسول عربیؐ کے پیروکار نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ تعلیم کو فقہی اور مسلکی پابندیوں میں جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ملک و معاشرے کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے معاشرے کے روشن مستقبل اور ترقی و خوشحالی کے لیے زیادہ سے زیادہ تعلیم پر انحصار کرنا ہو گا۔ آگرہ کا درج بالا مدرسہ ہم سب کے لیے رول ماڈل ہے، اس قسم کی مثالوں اور نظیروں سے سبق سیکھنا ہو گا، جو وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔
Load Next Story