پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید

یہ بھارتی وزیراعظم کا حالیہ دورہ پاکستان ہی تھا کہ پٹھانکوٹ حملے کے باوجود بھارتی حکومت عدم توازن کا شکار نہ ہوئی

www.facebook.com/shah Naqvi

جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ بھارت نے سیکریٹری خارجہ مذاکرات کو پٹھانکوٹ ایئر بیس حملے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی سے مشروط کرتے ہوئے کا ہے کہ گیند اب پاکستان کے کورٹ میں ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ لیکن پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد سرحد پار دراندازی کا معاملہ پھر سرفہرست آ گیا ہے حالانکہ ایک دن پہلے بھارتی ایجنسی نے یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان اس حملے میں ملوث نہیں۔ اس بیان نے پاکستان اور بھارت میں امن دوست قوتوں کو حوصلہ و اطمینان دیا لیکن اگلے ہی روز بھارت نے کہا کہ پٹھانکوٹ حملہ اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانے پر حملے کے تانے بانے جڑے ہوئے ہیں۔ مزید کہا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہماری اولین ترجیح ہے کیونکہ اس حملے کے باعث پاک بھارت مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورہ سری لنکا کے دوران دارالحکومت کولمبو سے وزیراعظم نریندر مودی کو ٹیلیفون کر کے پٹھان کوٹ حملے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جب بھی دونوں ملکوں کے درمیان امن لانے کے لیے سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے تو دہشت گرد امن عمل کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ دونوں وزرائے اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار اور تعاون پر مبنی تعلقات ہی دہشت گردوں کے مذموم عزائم کا بھرپور جواب ہوں گے۔ پاکستانی وزیراعظم نے پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات میں بھارتی حکومت کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی فراہم کردہ معلومات پر کام کر رہے ہیں۔ جو بھی معلومات ملیں یا پیش رفت ہوئی بھارتی حکومت سے اس کا تبادلہ کیا جائے گا۔ مضبوط اور تعاون پر مبنی تعلقات دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کا بہترین جواب ہیں۔

یہ بھارتی وزیراعظم کا حالیہ دورہ پاکستان ہی تھا کہ پٹھانکوٹ حملے کے باوجود بھارتی حکومت عدم توازن کا شکار نہ ہوئی ورنہ ماضی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا ممبئی دہشت گردی ایسا لگتا تھا کہ دونوں ملکوں میں ایسی جنگ چھڑے گی جس کا انجام ایٹمی تباہی پر ہو گا۔ بھارتی وزیراعظم کے اچانک دورہ پاکستان سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برصغیر کے کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے جا گرے ۔ دونوں ملکوں کی قومی آمدنی کا بڑا حصہ ایٹم بموں اور اسلحے پر خرچ ہو رہا ہو دونوں ملکوں کے وسائل محدود ہیں جب کہ ان وسائل کا بیشتر حصہ جنگوں کی تیاری لگایا جا رہا ہے۔

غربت، کم خوراکی، بیروزگاری، جہالت نے انھیں دہشت گرد گروہوں کا آسان چارہ بنا دیا ہے۔ ناصاف پانی کے ہاتھوں صرف پاکستان میں روزانہ چار ہزار افراد موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ دنیا اپنے تنازعات طے کر رہی ہے اور ہم لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔ چین سے ہی ہم سبق سیکھ لیتے کہ بھارت سے اپنے سرحدی تنازعات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اپنے عروج پر ہے حتی کہ دونوں کی مشترکہ جنگی مشقیں تک ہو چکی ہیں۔ چین ہمیں کئی مرتبہ مشورہ دے چکا ہے کہ کشمیر کے تنازع کو کچھ سالوں کے لیے فریز کر کے دونوں ملک اپنی تجارت، سیاحت بڑھائیں اور اپنے عوام کے لیے ویزہ پابندیاں نرم اور ختم کریں۔ جس میں ایک ایسا ماحول پیدا ہو گا جس کے نتیجے میں کشمیر کا ایک پرامن اور پائیدار حل ممکن ہو سکے گا۔ تائیوان کے معاملہ پر چین خود بھی یہی کر رہا ہے۔


بھارتی وزیراعظم کے دورے کا روس و چین سمیت پوری دنیا نے خیر مقدم کیا اور اسے ایک تاریخی پیشرفت قرار دیا۔ اس دورے نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ جو دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے سے خوف زدہ ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے دورے سے پہلے ہی خوشگوار ماحول بن چکا تھا جب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسلام کانفرنس میں شرکت کی جس میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں اپنے منہ اپنی تعریف نہیں کرنا چاہتا۔ جس پر بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم تو تعریف کریں گے۔ پوری دنیا آپ کے خلوص کی تعریف کرتی ہے''۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ اور وزیراعظم کے دورے کے درمیان تین ہفتوں سے کم وقت کا وقفہ تھا۔

فروری 99ء میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی امرتسر سے بذریعہ بس لاہور آئے، مینار پاکستان پر حاضری دی اور پہلی بار ایک انتہا پسند جماعت نے جو پاکستان مخالف تھی، پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا لیکن پھر فوراً ہی کارگل ہوا اور حالات پہلے سے بھی بدتر ہو گئے۔ پاک بھارت تعلقات میں سانپ سیڑھی کا کھیل مستقل طور پر جاری ہے۔ ہم ان تعلقات میں بڑی مدت اور کوشش کے بعد ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دس قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ پٹھانکوٹ حملہ دہشت گردوں کا مودی کے دورہ پاکستان کا جواب ہے کہ وہ ہر صورت پاک بھارت تعلقات میں بہتری کو ناکام بنائیں گے۔ یہ حملہ بھارتی وزیراعظم کے دورے کے صرف 6 دن کے بعد کیا گیا۔ جب تک ان دونوں ملکوں میں دشمنی رہے گی۔ دہشت گرد نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ مشرق وسطیٰ سے برصغیر کے خطے میں دہشت گردی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی رہے گی۔

ماضی میں سابق صدر جنرل مشرف اور سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن پھر معاملات بگڑ گئے چنانچہ کشمیر کے حل کے معاہدے پر دستخط ہوتے ہوتے رہ گئے۔ وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے چند دن پہلے یہ بیان دیا کہ کشمیر کے حوالے سے مشرف فارمولہ ہی زیر غور آئیگا... لگتا ہے کہ اس دفعہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کو پاکستانی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل ہے... اگر ایسا ہے تو برصغیر کے عوام کو پیشگی مبارک باد۔ خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت سیاسی عسکری قیادت' جس میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ موجود تھے نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ ''خطے'' سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارت سے مکمل تعاون کیا جائے گا'۔

مارچ اپریل سے پاک بھارت تعلقات اپنے ''طویل نیگٹو فیز'' سے باہر نکلنا شروع ہو جائیں گے۔
Load Next Story