زبیر سے کاشف پہلا حصہ
رضیہ بٹ اور اے آر خاتون پاکستان کی بہت بڑی ناول نگار رہی ہیں۔
رضیہ بٹ اور اے آر خاتون پاکستان کی بہت بڑی ناول نگار رہی ہیں۔ نہ جانے والدہ محترمہ انھیں کیوں پڑھتی تھیں کہ وہ تین چار جماعتیں ہی پڑھی ہوئی تھیں۔ اس کی وجہ ہمارا بھائی زبیر تھا۔ تھیلیسمیا کے مریض کو خون لگایا جاتا ہے، جس کا دورانیہ کئی گھنٹے ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی میں نہ اس قدر رسالے اور ڈائجسٹ تھے کہ وقت گزاری کے لیے ان کا مطالعہ کیا جائے۔
والد صاحب لائبریری سے ان کے لیے خواتین کے ناول لاتے جنھیں والدہ بھائی کی اسپتال میں موجودگی کے دوران پڑھتیں۔ وہ خود تو اپنے لیے نسیم حجازی کے ناول لاتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹی وی صرف گھروں میں تو مقبول ہو رہا تھا لیکن چوبیس گھنٹے کی نشریات تھیں اور نہ ہی سیکڑوں چینل اور نہ ٹی وی کا دفتروں، بینکوں، ایئرپورٹس اور اسپتالوں میں کوئی رواج تھا۔ کئی کئی سو صفحات کے ناولوں کا مطالعہ والدہ کی ضرورت بھی تھی اور مجبوری بھی۔ اس دور سے قبل ہی رضیہ بٹ کی فلمیں نائلہ اور صائقہ ہٹ ہوئی تھیں۔
اس دور کے بعد ہی اے آر خاتون کے ناولوں افشاں، عروسہ اور شمع پر پی ٹی وی نے ڈرامے بنائے۔ گویا زبیر کے تھیلیسمیا کے مرض نے ہمارے گھرانے میں بڑے بڑے ناول نگاروں کو موضوع بحث بنایا، نسیم حجازی کے ناولوں پر تو ٹی وی کے ڈرامے بھی بنے اور فلمیں بھی۔ یوں اگر آج کل خواتین درجنوں ٹی وی چینلز پر ڈرامے دیکھتی ہیں اور مرد حضرات زیادہ تر اسپورٹس و سیاسی چینلز دیکھتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نصف صدی قبل بھی ناولوں کے مطالعے میں خواتین و حضرات کی پسند مختلف رہی ہے۔ یقین جانیے کہ اولاد کے غم میں ان کی پسند ناپسند یکساں ہوجاتی ہے بلکہ جینا مرنا ایک ہوجاتا ہے۔
زبیر کا بلڈ گروپ بی نیگیٹو تھا۔ مریض کو مہینے میں ایک یا دو مرتبہ خون دیا جانا لازمی ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خون کے عطیے کے حوالے سے شعور کچھ کم تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں بلکہ دنیا میں یہ مرض سامنے آتا گیا، قریبی عزیز کی ضرورت اور آگاہی نے شعور کی سطح بلند کی۔ اتفاق سے ہم دونوں بھائیوں کا ایک ہی بلڈ گروپ تھا۔ اس دور میں جناب ناظم جیوا نے ''فاطمید بلڈ ٹرانسفیوژن'' جیسا ادارہ قائم کیا۔ جب بھی ڈونرز ملتے تو خون ہی خون کو خون دیتا۔ شرابیں شرابوں میں مل کر نشہ بڑھاتی ہیں، یہ فراز کو علم ہوگا۔ خون، خون میں مل کر کیا کرتا ہے؟
اس کا علم زبیر کو ہوگا۔ تھیلیسمیا کے مریض کو جب خون دیا جاتا ہے تو فولاد (آئرن) جسم میں ہی رہ جاتی ہے۔ اضافی فولاد کو جسم سے نکالنے کے لیے ڈسفرال انجکشن ایک پمپ کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہ انجکشن پیٹ میں کئی گھنٹے تک لگا ہوتا ہے۔ مریضوں کے لیے یہ اضافی تکلیف ہوتی ہے۔ جب ہم زبیر کے لیے اسپتال جاتے تو محسوس ہوتا کہ ایسے بے شمار مریض ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا کہ ایک خاندان میں تھیلیسمیا کے مرض کے کئی کئی بچے ہیں۔ پھر اسپتالوں میں ایسا انتظام ہوا کہ خون لگنے کے دوران بچے ٹی وی بھی دیکھ رہے ہوتے۔ یہ بھی نظر آیا کہ وہ اسکول کا کام کر رہے ہیں اور مائیں ہوم ورک کرانے میں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ زبیر ان مریضوں میں عمر میں سب سے بڑا تھا۔ پھر کیا ہوا؟
سن نوے کا گیارہ ستمبر آیا۔ ہمیں فاطمید والوں نے جناح اسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف خون کا نہیں بلکہ دل کا مسئلہ بھی ہے۔ جناح اسپتال والوں نے شام کو بتایا کہ کئی قسم کے مسائل ہیں لہٰذا آپ پرائیویٹ اسپتال لے جائیں۔ یوں ہم صرف گیارہ گھنٹوں میں تیسرے اسپتال کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ ہمارے لیے 9/11 ہی تھا۔ یہاں ڈاکٹر حضرات کے حوالے سے ایک بات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب جناح اسپتال کے لیے والد اور والدہ کو نہیں جانے دیا گیا کہ ایک مریض کے ساتھ ایک تیمار دار ہو۔ ڈاکٹر نے سگے بھائی جیسے قریبی رشتے کی واقفیت کے بعد بھی فوراً اور بے دھڑک کہہ دیا کہ ''بچنے کی ایک فیصد بھی امید نہیں ہے۔''جب والدین نے پوچھا کہ ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں تو وہی جملہ دہرا دیا لیکن ضبط نہ ہوسکا۔ شعبہ طب کے ذمے داروں کو اس حوالے سے ضرور غور کرنا چاہیے۔ بارہ دن اسپتال میں رہنے کے بعد زبیر ہم سے جدا ہوگیا۔ ہم ذہنی طور پر اس صدمے کے لیے تیار تھے اس کے باوجود غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
زبیر ہم میں نہ رہا لیکن تھیلیسمیا کے ہر بچے کو اپنا بچہ جانا۔ یہ وہ مرض بتایا گیا جس کا کوئی علاج نہیں۔ بس صرف خون دیتے رہیں اور اپنے پیارے کی زیادہ سے زیادہ زندگی اور صحت کی دعا کرتے رہیں۔ جسم میں فولاد جمع ہوجائے تو پیٹ میں لگے انجکشن کی تکلیف، جسمانی تکلیف بچے کے لیے اور روحانی اذیت اس کے قریبی عزیزوں کے لیے۔ وقت گزرتا گیا۔ پاکستان میں اس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ ادارے وجود میں آتے رہے۔ حسینی بلڈ، عمیر ثنا فاؤنڈیشن اور کاشف اقبال تھیلیسمیا کیئر سینٹر جیسے ادارے۔ بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لیے اس قدر تکالیف ہیں تو چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہاتوں کے باسیوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی۔ دور دراز کا سفر کرکے آنا اور پھر دو تین دن وہاں رہنا۔
''ہر بچے کی پیدائش انسان کو بتاتی ہے کہ خدا ان سے مایوس نہیں۔'' دعا دی جاتی ہے کہ اللہ آپ کو تھانے، عدالت اور اسپتال سے بچائے۔ جب اسپتالوں میں مٹھائی کے ڈبے دیکھتے ہیں اور مبارکباد کی گونج سنتے ہیں تو یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ماں باپ کتنے خوش ہوتے ہیں اپنے خاندان میں بچے کی پیدائش پر۔ جب بچہ مسلسل بیمار رہتا ہو اور اس کے ٹیسٹ کے بعد پتہ چلتا ہو کہ اسے تھیلیسمیا کا مرض ہے تو والدین پر کیا گزرتی ہوگی؟ بچے کی جسمانی اذیت کے ساتھ رشتے داروں کی روحانی تکلیف۔ بے شمار اخراجات اور دربدری۔ ہر دم شمع کے بجھ جانے کا دھڑکا۔ باپ کو یہ اذیت کہ یہ بچہ میرے نہیں بلکہ شاید اس کے جنازے کو کندھا مجھے دینا پڑے۔ علاج نہیں ہے تو کچھ احتیاط تو ہوگی؟
''احتیاط علاج سے بہتر ہے'' والا محاورہ بھی تھیلیسمیا کے مرض کا علاج ہے۔ یہ مرض دو قسم کا ہوتا ہے، میجر اور مائنر، یعنی چھوٹا اور بڑا۔ جن بچوں کو خون دینا ہوتا ہے وہ میجر تھیلیسمیا کا شکار ہوتے ہیں۔ چھوٹے مرض کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کو کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ایک عام آدمی کی شکل میں جیتے ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب مائنر مرض کے دو لوگوں کی شادی ہوجائے۔ اس صورت میں خطرہ ہوتا ہے کہ ان کے کچھ یا تمام بچے اس مرض کا شکار ہوں۔ جب کوئی علاج اب تک نہیں ہے اور احتیاط ہی ہے تو ضروری ہے کہ چھوٹے مرض میں مبتلا مرد و عورت آپس میں شادی نہ کریں۔
(جاری ہے)
والد صاحب لائبریری سے ان کے لیے خواتین کے ناول لاتے جنھیں والدہ بھائی کی اسپتال میں موجودگی کے دوران پڑھتیں۔ وہ خود تو اپنے لیے نسیم حجازی کے ناول لاتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹی وی صرف گھروں میں تو مقبول ہو رہا تھا لیکن چوبیس گھنٹے کی نشریات تھیں اور نہ ہی سیکڑوں چینل اور نہ ٹی وی کا دفتروں، بینکوں، ایئرپورٹس اور اسپتالوں میں کوئی رواج تھا۔ کئی کئی سو صفحات کے ناولوں کا مطالعہ والدہ کی ضرورت بھی تھی اور مجبوری بھی۔ اس دور سے قبل ہی رضیہ بٹ کی فلمیں نائلہ اور صائقہ ہٹ ہوئی تھیں۔
اس دور کے بعد ہی اے آر خاتون کے ناولوں افشاں، عروسہ اور شمع پر پی ٹی وی نے ڈرامے بنائے۔ گویا زبیر کے تھیلیسمیا کے مرض نے ہمارے گھرانے میں بڑے بڑے ناول نگاروں کو موضوع بحث بنایا، نسیم حجازی کے ناولوں پر تو ٹی وی کے ڈرامے بھی بنے اور فلمیں بھی۔ یوں اگر آج کل خواتین درجنوں ٹی وی چینلز پر ڈرامے دیکھتی ہیں اور مرد حضرات زیادہ تر اسپورٹس و سیاسی چینلز دیکھتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نصف صدی قبل بھی ناولوں کے مطالعے میں خواتین و حضرات کی پسند مختلف رہی ہے۔ یقین جانیے کہ اولاد کے غم میں ان کی پسند ناپسند یکساں ہوجاتی ہے بلکہ جینا مرنا ایک ہوجاتا ہے۔
زبیر کا بلڈ گروپ بی نیگیٹو تھا۔ مریض کو مہینے میں ایک یا دو مرتبہ خون دیا جانا لازمی ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خون کے عطیے کے حوالے سے شعور کچھ کم تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں بلکہ دنیا میں یہ مرض سامنے آتا گیا، قریبی عزیز کی ضرورت اور آگاہی نے شعور کی سطح بلند کی۔ اتفاق سے ہم دونوں بھائیوں کا ایک ہی بلڈ گروپ تھا۔ اس دور میں جناب ناظم جیوا نے ''فاطمید بلڈ ٹرانسفیوژن'' جیسا ادارہ قائم کیا۔ جب بھی ڈونرز ملتے تو خون ہی خون کو خون دیتا۔ شرابیں شرابوں میں مل کر نشہ بڑھاتی ہیں، یہ فراز کو علم ہوگا۔ خون، خون میں مل کر کیا کرتا ہے؟
اس کا علم زبیر کو ہوگا۔ تھیلیسمیا کے مریض کو جب خون دیا جاتا ہے تو فولاد (آئرن) جسم میں ہی رہ جاتی ہے۔ اضافی فولاد کو جسم سے نکالنے کے لیے ڈسفرال انجکشن ایک پمپ کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہ انجکشن پیٹ میں کئی گھنٹے تک لگا ہوتا ہے۔ مریضوں کے لیے یہ اضافی تکلیف ہوتی ہے۔ جب ہم زبیر کے لیے اسپتال جاتے تو محسوس ہوتا کہ ایسے بے شمار مریض ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا کہ ایک خاندان میں تھیلیسمیا کے مرض کے کئی کئی بچے ہیں۔ پھر اسپتالوں میں ایسا انتظام ہوا کہ خون لگنے کے دوران بچے ٹی وی بھی دیکھ رہے ہوتے۔ یہ بھی نظر آیا کہ وہ اسکول کا کام کر رہے ہیں اور مائیں ہوم ورک کرانے میں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ زبیر ان مریضوں میں عمر میں سب سے بڑا تھا۔ پھر کیا ہوا؟
سن نوے کا گیارہ ستمبر آیا۔ ہمیں فاطمید والوں نے جناح اسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف خون کا نہیں بلکہ دل کا مسئلہ بھی ہے۔ جناح اسپتال والوں نے شام کو بتایا کہ کئی قسم کے مسائل ہیں لہٰذا آپ پرائیویٹ اسپتال لے جائیں۔ یوں ہم صرف گیارہ گھنٹوں میں تیسرے اسپتال کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ ہمارے لیے 9/11 ہی تھا۔ یہاں ڈاکٹر حضرات کے حوالے سے ایک بات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب جناح اسپتال کے لیے والد اور والدہ کو نہیں جانے دیا گیا کہ ایک مریض کے ساتھ ایک تیمار دار ہو۔ ڈاکٹر نے سگے بھائی جیسے قریبی رشتے کی واقفیت کے بعد بھی فوراً اور بے دھڑک کہہ دیا کہ ''بچنے کی ایک فیصد بھی امید نہیں ہے۔''جب والدین نے پوچھا کہ ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں تو وہی جملہ دہرا دیا لیکن ضبط نہ ہوسکا۔ شعبہ طب کے ذمے داروں کو اس حوالے سے ضرور غور کرنا چاہیے۔ بارہ دن اسپتال میں رہنے کے بعد زبیر ہم سے جدا ہوگیا۔ ہم ذہنی طور پر اس صدمے کے لیے تیار تھے اس کے باوجود غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
زبیر ہم میں نہ رہا لیکن تھیلیسمیا کے ہر بچے کو اپنا بچہ جانا۔ یہ وہ مرض بتایا گیا جس کا کوئی علاج نہیں۔ بس صرف خون دیتے رہیں اور اپنے پیارے کی زیادہ سے زیادہ زندگی اور صحت کی دعا کرتے رہیں۔ جسم میں فولاد جمع ہوجائے تو پیٹ میں لگے انجکشن کی تکلیف، جسمانی تکلیف بچے کے لیے اور روحانی اذیت اس کے قریبی عزیزوں کے لیے۔ وقت گزرتا گیا۔ پاکستان میں اس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ ادارے وجود میں آتے رہے۔ حسینی بلڈ، عمیر ثنا فاؤنڈیشن اور کاشف اقبال تھیلیسمیا کیئر سینٹر جیسے ادارے۔ بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لیے اس قدر تکالیف ہیں تو چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہاتوں کے باسیوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی۔ دور دراز کا سفر کرکے آنا اور پھر دو تین دن وہاں رہنا۔
''ہر بچے کی پیدائش انسان کو بتاتی ہے کہ خدا ان سے مایوس نہیں۔'' دعا دی جاتی ہے کہ اللہ آپ کو تھانے، عدالت اور اسپتال سے بچائے۔ جب اسپتالوں میں مٹھائی کے ڈبے دیکھتے ہیں اور مبارکباد کی گونج سنتے ہیں تو یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ماں باپ کتنے خوش ہوتے ہیں اپنے خاندان میں بچے کی پیدائش پر۔ جب بچہ مسلسل بیمار رہتا ہو اور اس کے ٹیسٹ کے بعد پتہ چلتا ہو کہ اسے تھیلیسمیا کا مرض ہے تو والدین پر کیا گزرتی ہوگی؟ بچے کی جسمانی اذیت کے ساتھ رشتے داروں کی روحانی تکلیف۔ بے شمار اخراجات اور دربدری۔ ہر دم شمع کے بجھ جانے کا دھڑکا۔ باپ کو یہ اذیت کہ یہ بچہ میرے نہیں بلکہ شاید اس کے جنازے کو کندھا مجھے دینا پڑے۔ علاج نہیں ہے تو کچھ احتیاط تو ہوگی؟
''احتیاط علاج سے بہتر ہے'' والا محاورہ بھی تھیلیسمیا کے مرض کا علاج ہے۔ یہ مرض دو قسم کا ہوتا ہے، میجر اور مائنر، یعنی چھوٹا اور بڑا۔ جن بچوں کو خون دینا ہوتا ہے وہ میجر تھیلیسمیا کا شکار ہوتے ہیں۔ چھوٹے مرض کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کو کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ایک عام آدمی کی شکل میں جیتے ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب مائنر مرض کے دو لوگوں کی شادی ہوجائے۔ اس صورت میں خطرہ ہوتا ہے کہ ان کے کچھ یا تمام بچے اس مرض کا شکار ہوں۔ جب کوئی علاج اب تک نہیں ہے اور احتیاط ہی ہے تو ضروری ہے کہ چھوٹے مرض میں مبتلا مرد و عورت آپس میں شادی نہ کریں۔
(جاری ہے)