بھٹو سے وٹو تک
پاکستانی سیاست بھی اکثر وبیشتر عجب مضحکہ خیز مناظر پیش کرتی ہے،جسے عموماً سیاسی مصلحت کا نام دیا جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست بھی اکثر وبیشتر عجب مضحکہ خیز مناظر پیش کرتی ہے،جسے عموماً سیاسی مصلحت کا نام دیا جاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے سیاست کو ہر طرح سے برباد کرنے کی کوشش کی،لیکن سیاستدانوں نے بھی اسے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔اب پیپلزپارٹی کو ہی لیجیے،جن بنیادوں پر یہ1967ء میں قائم ہوئی، آج ان نظریات سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے۔اب تو وہ لوگ بھی پیپلز پارٹی کی صفوں میں شامل ہیں یا اس کے اتحادی ہیں، جو کبھی اس کے روایتی دشمن سمجھے جاتے تھے۔ جس کی سب سے اہم مثال میاں منظوراحمد وٹو کی نہ صرف پیپلز پارٹی میں شمولیت ،بلکہ ان کا وسطی پنجاب کا صدر بننا ہے۔
پچھلے دنوں انھوںنے اپنی نامزدگی کے فوراً بعد لاہور کا رخ کیا اوراسی ناصر باغ میں کارکنوں کے جم غفیر سے خطاب کیا،جہاں بھٹو مرحوم نے ایوب خان کی کابینہ سے علیحدگی کے بعد پہلاجلسہ کیا تھا۔ ہوسکتا ہے انھیں یہ گمان ہوکہ جس طرح اہل لاہور نے اس زمانے میں بھٹو مرحوم کا والہانہ استقبال کیا تھا اور لاہور سمیت پنجاب کے تمام بڑے شہر بھٹو کے فریفتہ ہوگئے تھے،شاید انھیں بھی ویسی ہی پذیرائی مل جائے۔مگر اب زمانہ بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزرچکا ہے اور پنجاب میں ایک نئی مڈل کلاس پیدا ہو چکی ہے، جس کی ترجیحات ماضی کی مڈل کلاس سے خاصی مختلف ہیں۔
ان کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر، ناصر باغ میں ان کے جلسے نے یادوں کے بہت سے دریچے کھول دیے۔ یہ میرے بچپن کا زمانہ تھا، میں سکھر میں زیر تعلیم تھا اور لاہور میں اپنی ننھیال آیا ہوا تھا۔ سیاست کا چسکا، آٹھویں جماعت میں محترمہ فاطمہ جناح کے ایوب خان کے خلاف الیکشن سے پڑگیا تھا۔اس لیے میں بھی اس جلسے میں چلا گیا۔جلسے میں لاہور انتظامیہ نے پہلے تو پانی چھوڑا۔لیکن اس کے باوجود جب لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے، تو پانی میں ہلکا سا کرنٹ چھوڑا گیا،جس کے جھٹکوں نے لوگوں کو بدحواس کردیا اور ہم سب گرتے پڑتے ادھر ادھربھاگنے لگے۔
ادھر بھٹو صاحب کی آمد پر شامیانے اور قناعتوں کی رسیاں کاٹ دی گئیں،جس سے شامیانہ بھٹو سمیت پارٹی راہنمائوں پر آن پڑا۔ احمد رضاقصوری جو ان دنوں بھٹوکے جان نثاروں میں شامل ہوا کرتے تھے، کسی نہ کسی طرح بھٹو کو جلسہ گاہ سے نکال کر باہر لے جانے میں کامیاب ہوگئے اور ایک رکشہ میں سوار کرا دیا، جس نے انھیں ڈاکٹرمبشر کے گھر چھوڑدیا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے، جب پنجاب کی مڈل کلاس پربھارت مخالف جذبات کچھ زیادہ ہی طاری تھے۔بھٹوکے بھارت کے ساتھ ہزار برس تک جنگ لڑنے کے اعلان نے اہل پنجاب کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔اس کے علاوہ اس دورکے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر جماعتیں دائیں بازو سے تعلق رکھتی نظر آئیں گی۔ مسلم لیگ کے دودھڑے تھے۔ ایک سرکاری کنونشن مسلم لیگ اور دوسری اپوزیشن کی کونسل مسلم لیگ،جس کے سربراہ میاں ممتاز دولتانہ تھے۔ مذہبی جماعتوں میںجماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام فعال تھیں۔مجیب الرحمان کے چھ نکات کے بعد نوابزادہ نصراللہ خاں عوامی لیگ سے الگ ہوکر پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی قائم کرچکے تھے۔
یوں عوامی لیگ کی گوکہ اس حصے میں شاخیں ضرور موجود تھیں،مگر اس کی سیاسی طاقت کا اصل محورمشرقی پاکستان تھا۔ بائیںبازو کی نمایاں سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ یہ جماعت60ء کے عشرے کے اوائل میں دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔جن میں ایک دھڑے کے سربراہ خان عبدالولی خان اور جنرل سیکریٹری محمودالحق عثمانی تھے۔دوسرے دھڑے کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی اور جنرل سیکریٹری عارف افتخار (میاں افتخارالدین کے فرزند)تھے۔ یہ دونوں جماعتیں ملک کے ترقی پسند حلقوں میں اپنا اثر ونفوذ رکھتی تھیں۔مگر بائیںبازوکی طرف جھکائوکے ساتھ سینٹرلسٹ رجحان رکھنے والی کوئی جماعت نہیں تھی۔
اس سیاسی منظر نامے میں جب بھٹو مرحوم کی قیادت میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو، پنجاب کی اربن مڈل کلاس نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔اس وقت ملک بھر سے مڈل کلاس کے لبرل، سیکولر اور بائیں بازوکی طرف جھکائو رکھنے والے دانشوروں اورسیاسی کارکن جوق درجوق پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے تھے۔کیونکہ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان،خورشید حسن میر،حنیف رامے،شیخ محمد رشید، میر رسول بخش تالپور، حق نواز گنڈا پور،حیات محمد شیرپائو اور احمد رضاقصوری جیسے اربن مڈل کلاس کے روشن خیال لوگ اس میں شامل تھے۔ میاں محمود علی قصوری جیسی بلندوبالا شخصیت کے نیشنل عوامی پارٹی چھوڑ کر اس میں شامل ہونے سے اس کا لبرل رنگ مزید نمایاںہوگیا ۔یوں یہ جماعت اس وقت کی اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کے مچلتے جذبات واحساسات کی ترجمان تصورکی جانے لگی۔
1970ء کے عام انتخابات بلکہ دسمبر1971ء میں اقتدار میں آنے تک پیپلز پارٹی کی شناخت اربن مڈل کلاس کی جماعت کے طورپر رہی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد روایتی سیاسی گھرانوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی ۔ایک طرف سندھ کے فیوڈلزاور پنجاب کے بڑے سیاسی گھرانوں کی شمولیت اور دوسری طرف معراج محمد خان، میر رسول بخش تالپور،فیصل آباد کے مختار رانا سمیت بیشمار ترقی پسند راہنمائوں کی کنارہ کشی کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کا اربن مڈل کلاس والا رنگ پھیکا پڑنے لگا اور روایتی سیاسی اندازغالب آنے لگا ۔ لیکن اس کے باوجود یہ عوام کے نچلے طبقات اور لبرل ذہن رکھنے والی مڈل کلاس کے لیے گوشہ عافیت سمجھی جاتی تھی۔جس کا ثبوت جنرل ضیاء کی گیارہ برس کی آمریت کے دوران پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جرأتمندی کے ساتھ صعوبتیں برداشت کرنا تھا۔لیکن1988ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی مکمل طور پر ایک روایتی سیاسی جماعت میں تبدیل ہوکرصرف دیہی علاقوں کی نمایندہ ہوکر رہ گئی۔
دوسری جانب پنجاب جہاں پیپلز پارٹی نے جنم لیا اور مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچی تھی، ایک نئی مڈل کلاس ابھرنا شروع ہوئی۔یہ مڈل کلاس ابتدائی دور کی روایتی مڈل کلاس سے مختلف تھی۔یہ جذباتیت کے بجائے معروضیت پر یقین رکھتی تھی۔اسی لیے کشمیر کازاور بھارت دشمنی جیسے روایتی تصورات کے بجائے معاشی وسماجی ترقی کے لیے اچھی حکمرانی کے قیام کی خواہشمند تھی۔معیشت کے استحکام اور سماجی ترقی کی خواہش میں پنجاب کی مڈل کلاس نے دیگرسیاسی قوتوں کو آزمانے کی کوشش میں نئی ابھرنے والی Right to the Centreجماعت مسلم لیگ(ن) کو اپنا نمایندہ بنایا،جو گذشتہ 25برس سے وسطی پنجاب کی مقبول جماعت چلی آرہی ہے۔اب پنجابی مڈل کلاس کی چوتھی نسل جوان ہو رہی ہے، جس کے اہداف پچھلی نسل سے مختلف ہیں۔ یہ مزید تبدیلی کی خواہاں ہے اور سیاست کے انداز کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی خواہاں ہے۔ یوں پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف کی شکل میں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔
پنجاب میں ابھرنے والے اس نئے سیاسی تنائو کومحسوس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی بجاطور پر یہ سمجھ رہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اورتحریک انصاف کے درمیان سیاسی ٹکرائو کی صورت میں دائیں بازو کا ووٹ تقسیم ہوگا،جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے لیے گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔اس لیے پنجاب میں ایسی قیادت کو سامنے لایا جائے جو جوڑ توڑ کی ماہر ہو اور پارٹی کے لیے راہ ہموار کرسکے۔ویسے بھی پیپلز پارٹی کوئی نظریاتی جماعت نہیںہے،بلکہ کئی دہائیوں سے صرف انتخابی سیاست کر رہی ہے۔ اس لیے اس کے سامنے صرف ایک ہی ہدف ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
اس مرحلے پر صدر آصف علی زرداری کی صلاحیتوںکاجائزہ نہ لینا زیادتی ہے۔بے شک وہ بھٹو مرحوم اور محترمہ کی طرح کرشماتی شخصیت نہیںہیں۔لیکن انھیں زندگی کے تلخ حقائق کا خاصا تجربہ ہے۔جیل میں مختلف قسم کے لوگوں سے رابطے اور ایوان اقتدار میں ہونے والی ریشہ دوانیوں نے ان کے تجربات میں وسیع اضافہ کیا ہے۔وہ نظریاتی طور پر بھی کسی فکری رجحان سے وابستہ نہیں ہیں،لیکن اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ معاملات کو معروضیت کی آنکھ سے دیکھنے کی اہلیت بہرحال رکھتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ وہ پارٹی کو دیہی کے ساتھ اربن ووٹرز کے لیے بھی قابل قبول بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے سندھ میں قوم پرستوں کی تمام تر مخالفتوں اور مزاحمت کے باوجود ایم کیو ایم کا ہاتھ سختی سے تھاما ہوا ہے۔ پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کو الگ نہیں ہونے دیا ہے۔اب وہ پنجاب میں پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس نئی صورتحال میں کئی سینئر اور پارٹی کے قدیمی کارکنوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پنجاب میں پارٹی کی قیادت میاں منظور وٹو کو سوپنا،اسی سوچ کی عکاس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نئی پنجابی مڈل کلاس کے تصورات اور ترجیحات پرکس حد تک پوری اترتی ہے اور مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ٹکرائو سے کس حد تک فائدہ اٹھاتی ہے۔ میاں منظور وٹو نے ناصر باغ میں جلسہ کرکے 45سال پرانی تاریخ کو دہرانے کی کوشش تو ضرورکی ہے، مگرکیا وہ اس دورکا سیاسی منظرنامہ واپس لانے میں کامیاب ہوسکیں گے؟جس کی بظاہربہت کم توقع ہے۔مگر پھر بھی فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
اس میں شک نہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے سیاست کو ہر طرح سے برباد کرنے کی کوشش کی،لیکن سیاستدانوں نے بھی اسے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔اب پیپلزپارٹی کو ہی لیجیے،جن بنیادوں پر یہ1967ء میں قائم ہوئی، آج ان نظریات سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے۔اب تو وہ لوگ بھی پیپلز پارٹی کی صفوں میں شامل ہیں یا اس کے اتحادی ہیں، جو کبھی اس کے روایتی دشمن سمجھے جاتے تھے۔ جس کی سب سے اہم مثال میاں منظوراحمد وٹو کی نہ صرف پیپلز پارٹی میں شمولیت ،بلکہ ان کا وسطی پنجاب کا صدر بننا ہے۔
پچھلے دنوں انھوںنے اپنی نامزدگی کے فوراً بعد لاہور کا رخ کیا اوراسی ناصر باغ میں کارکنوں کے جم غفیر سے خطاب کیا،جہاں بھٹو مرحوم نے ایوب خان کی کابینہ سے علیحدگی کے بعد پہلاجلسہ کیا تھا۔ ہوسکتا ہے انھیں یہ گمان ہوکہ جس طرح اہل لاہور نے اس زمانے میں بھٹو مرحوم کا والہانہ استقبال کیا تھا اور لاہور سمیت پنجاب کے تمام بڑے شہر بھٹو کے فریفتہ ہوگئے تھے،شاید انھیں بھی ویسی ہی پذیرائی مل جائے۔مگر اب زمانہ بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزرچکا ہے اور پنجاب میں ایک نئی مڈل کلاس پیدا ہو چکی ہے، جس کی ترجیحات ماضی کی مڈل کلاس سے خاصی مختلف ہیں۔
ان کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر، ناصر باغ میں ان کے جلسے نے یادوں کے بہت سے دریچے کھول دیے۔ یہ میرے بچپن کا زمانہ تھا، میں سکھر میں زیر تعلیم تھا اور لاہور میں اپنی ننھیال آیا ہوا تھا۔ سیاست کا چسکا، آٹھویں جماعت میں محترمہ فاطمہ جناح کے ایوب خان کے خلاف الیکشن سے پڑگیا تھا۔اس لیے میں بھی اس جلسے میں چلا گیا۔جلسے میں لاہور انتظامیہ نے پہلے تو پانی چھوڑا۔لیکن اس کے باوجود جب لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے، تو پانی میں ہلکا سا کرنٹ چھوڑا گیا،جس کے جھٹکوں نے لوگوں کو بدحواس کردیا اور ہم سب گرتے پڑتے ادھر ادھربھاگنے لگے۔
ادھر بھٹو صاحب کی آمد پر شامیانے اور قناعتوں کی رسیاں کاٹ دی گئیں،جس سے شامیانہ بھٹو سمیت پارٹی راہنمائوں پر آن پڑا۔ احمد رضاقصوری جو ان دنوں بھٹوکے جان نثاروں میں شامل ہوا کرتے تھے، کسی نہ کسی طرح بھٹو کو جلسہ گاہ سے نکال کر باہر لے جانے میں کامیاب ہوگئے اور ایک رکشہ میں سوار کرا دیا، جس نے انھیں ڈاکٹرمبشر کے گھر چھوڑدیا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے، جب پنجاب کی مڈل کلاس پربھارت مخالف جذبات کچھ زیادہ ہی طاری تھے۔بھٹوکے بھارت کے ساتھ ہزار برس تک جنگ لڑنے کے اعلان نے اہل پنجاب کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔اس کے علاوہ اس دورکے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر جماعتیں دائیں بازو سے تعلق رکھتی نظر آئیں گی۔ مسلم لیگ کے دودھڑے تھے۔ ایک سرکاری کنونشن مسلم لیگ اور دوسری اپوزیشن کی کونسل مسلم لیگ،جس کے سربراہ میاں ممتاز دولتانہ تھے۔ مذہبی جماعتوں میںجماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام فعال تھیں۔مجیب الرحمان کے چھ نکات کے بعد نوابزادہ نصراللہ خاں عوامی لیگ سے الگ ہوکر پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی قائم کرچکے تھے۔
یوں عوامی لیگ کی گوکہ اس حصے میں شاخیں ضرور موجود تھیں،مگر اس کی سیاسی طاقت کا اصل محورمشرقی پاکستان تھا۔ بائیںبازو کی نمایاں سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ یہ جماعت60ء کے عشرے کے اوائل میں دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔جن میں ایک دھڑے کے سربراہ خان عبدالولی خان اور جنرل سیکریٹری محمودالحق عثمانی تھے۔دوسرے دھڑے کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی اور جنرل سیکریٹری عارف افتخار (میاں افتخارالدین کے فرزند)تھے۔ یہ دونوں جماعتیں ملک کے ترقی پسند حلقوں میں اپنا اثر ونفوذ رکھتی تھیں۔مگر بائیںبازوکی طرف جھکائوکے ساتھ سینٹرلسٹ رجحان رکھنے والی کوئی جماعت نہیں تھی۔
اس سیاسی منظر نامے میں جب بھٹو مرحوم کی قیادت میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو، پنجاب کی اربن مڈل کلاس نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔اس وقت ملک بھر سے مڈل کلاس کے لبرل، سیکولر اور بائیں بازوکی طرف جھکائو رکھنے والے دانشوروں اورسیاسی کارکن جوق درجوق پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے تھے۔کیونکہ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان،خورشید حسن میر،حنیف رامے،شیخ محمد رشید، میر رسول بخش تالپور، حق نواز گنڈا پور،حیات محمد شیرپائو اور احمد رضاقصوری جیسے اربن مڈل کلاس کے روشن خیال لوگ اس میں شامل تھے۔ میاں محمود علی قصوری جیسی بلندوبالا شخصیت کے نیشنل عوامی پارٹی چھوڑ کر اس میں شامل ہونے سے اس کا لبرل رنگ مزید نمایاںہوگیا ۔یوں یہ جماعت اس وقت کی اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کے مچلتے جذبات واحساسات کی ترجمان تصورکی جانے لگی۔
1970ء کے عام انتخابات بلکہ دسمبر1971ء میں اقتدار میں آنے تک پیپلز پارٹی کی شناخت اربن مڈل کلاس کی جماعت کے طورپر رہی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد روایتی سیاسی گھرانوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی ۔ایک طرف سندھ کے فیوڈلزاور پنجاب کے بڑے سیاسی گھرانوں کی شمولیت اور دوسری طرف معراج محمد خان، میر رسول بخش تالپور،فیصل آباد کے مختار رانا سمیت بیشمار ترقی پسند راہنمائوں کی کنارہ کشی کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کا اربن مڈل کلاس والا رنگ پھیکا پڑنے لگا اور روایتی سیاسی اندازغالب آنے لگا ۔ لیکن اس کے باوجود یہ عوام کے نچلے طبقات اور لبرل ذہن رکھنے والی مڈل کلاس کے لیے گوشہ عافیت سمجھی جاتی تھی۔جس کا ثبوت جنرل ضیاء کی گیارہ برس کی آمریت کے دوران پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جرأتمندی کے ساتھ صعوبتیں برداشت کرنا تھا۔لیکن1988ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی مکمل طور پر ایک روایتی سیاسی جماعت میں تبدیل ہوکرصرف دیہی علاقوں کی نمایندہ ہوکر رہ گئی۔
دوسری جانب پنجاب جہاں پیپلز پارٹی نے جنم لیا اور مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچی تھی، ایک نئی مڈل کلاس ابھرنا شروع ہوئی۔یہ مڈل کلاس ابتدائی دور کی روایتی مڈل کلاس سے مختلف تھی۔یہ جذباتیت کے بجائے معروضیت پر یقین رکھتی تھی۔اسی لیے کشمیر کازاور بھارت دشمنی جیسے روایتی تصورات کے بجائے معاشی وسماجی ترقی کے لیے اچھی حکمرانی کے قیام کی خواہشمند تھی۔معیشت کے استحکام اور سماجی ترقی کی خواہش میں پنجاب کی مڈل کلاس نے دیگرسیاسی قوتوں کو آزمانے کی کوشش میں نئی ابھرنے والی Right to the Centreجماعت مسلم لیگ(ن) کو اپنا نمایندہ بنایا،جو گذشتہ 25برس سے وسطی پنجاب کی مقبول جماعت چلی آرہی ہے۔اب پنجابی مڈل کلاس کی چوتھی نسل جوان ہو رہی ہے، جس کے اہداف پچھلی نسل سے مختلف ہیں۔ یہ مزید تبدیلی کی خواہاں ہے اور سیاست کے انداز کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی خواہاں ہے۔ یوں پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف کی شکل میں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔
پنجاب میں ابھرنے والے اس نئے سیاسی تنائو کومحسوس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی بجاطور پر یہ سمجھ رہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اورتحریک انصاف کے درمیان سیاسی ٹکرائو کی صورت میں دائیں بازو کا ووٹ تقسیم ہوگا،جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے لیے گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔اس لیے پنجاب میں ایسی قیادت کو سامنے لایا جائے جو جوڑ توڑ کی ماہر ہو اور پارٹی کے لیے راہ ہموار کرسکے۔ویسے بھی پیپلز پارٹی کوئی نظریاتی جماعت نہیںہے،بلکہ کئی دہائیوں سے صرف انتخابی سیاست کر رہی ہے۔ اس لیے اس کے سامنے صرف ایک ہی ہدف ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
اس مرحلے پر صدر آصف علی زرداری کی صلاحیتوںکاجائزہ نہ لینا زیادتی ہے۔بے شک وہ بھٹو مرحوم اور محترمہ کی طرح کرشماتی شخصیت نہیںہیں۔لیکن انھیں زندگی کے تلخ حقائق کا خاصا تجربہ ہے۔جیل میں مختلف قسم کے لوگوں سے رابطے اور ایوان اقتدار میں ہونے والی ریشہ دوانیوں نے ان کے تجربات میں وسیع اضافہ کیا ہے۔وہ نظریاتی طور پر بھی کسی فکری رجحان سے وابستہ نہیں ہیں،لیکن اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ معاملات کو معروضیت کی آنکھ سے دیکھنے کی اہلیت بہرحال رکھتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ وہ پارٹی کو دیہی کے ساتھ اربن ووٹرز کے لیے بھی قابل قبول بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے سندھ میں قوم پرستوں کی تمام تر مخالفتوں اور مزاحمت کے باوجود ایم کیو ایم کا ہاتھ سختی سے تھاما ہوا ہے۔ پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کو الگ نہیں ہونے دیا ہے۔اب وہ پنجاب میں پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس نئی صورتحال میں کئی سینئر اور پارٹی کے قدیمی کارکنوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پنجاب میں پارٹی کی قیادت میاں منظور وٹو کو سوپنا،اسی سوچ کی عکاس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نئی پنجابی مڈل کلاس کے تصورات اور ترجیحات پرکس حد تک پوری اترتی ہے اور مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ٹکرائو سے کس حد تک فائدہ اٹھاتی ہے۔ میاں منظور وٹو نے ناصر باغ میں جلسہ کرکے 45سال پرانی تاریخ کو دہرانے کی کوشش تو ضرورکی ہے، مگرکیا وہ اس دورکا سیاسی منظرنامہ واپس لانے میں کامیاب ہوسکیں گے؟جس کی بظاہربہت کم توقع ہے۔مگر پھر بھی فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔