خوش خبری باوردی و بارودی صدر چترال میں اتریں گے

عقل کہتی ہے کہ کائنات میں صرف چھ اطراف ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی ’’راستہ‘‘ نہیں ہے .

barq@email.com

آپ چاہیں تو پرانے زمانے کی کہانیوں کا وہ شہزادہ یا وہ شہزادی یا کوئی بھی وہ کردار بن سکتے ہیں جن کو کسی چیز یا جگہ کو دیکھ کر بیک وقت ہنسی بھی آ جاتی تھی اور رونا بھی آ جاتا تھا۔

بلکہ آپ کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ کہیں آنے جانے اور ہفت خوان یا طلسم ہوشربا وغیرہ سر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اخبار اٹھایئے اور وہ خبر تلاش کیجیے جو ہمارے سابق باوردی اور بارودی صدر مشرف سے متعلق ہے۔ خبر مظہر ہے کہ سابق باوردی اور بارودی صدر مشرف نے کہا ہے کہ وہ چترال سے الیکشن لڑیں گے کیونکہ پاکستان کے عوام کی حالت بہت ابتر ہو چکی ہے اور میں عوام کو ان حالات سے نکالنے کے لیے جلد پاکستان آؤں گا، یہ اعلان انھوں نے چترال میں منعقد ہونے والے پولو ٹورنامنٹ کے فائنل کے موقع پر دبئی سے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کیا اور چترال سے اپنی خصوصی محبت کا ذکر بھی کیا جس میں لواری ٹنل کی سرنگ کا بھی ذکر کیا۔

محترم سابق صدر نے گویا پاکستان کو ''بیچ میں'' پکڑنے کے بجائے اس مرتبہ ''کونے'' سے پکڑنے کا ارادہ کیا ہے۔ کچھ زیادہ سمجھ میں تو نہیں آ رہا ہے کہ آخر سارے پاکستان کو چھوڑ کر انھوں نے انتہائی شمالی کونے سے پاکستان پر ہلہ بولنے کا ارادہ کیوں کیا ہے، شاید اس لیے کہ وہ کمانڈو ہیں اور پہاڑی محاذ پر لڑنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ورنہ اگر وہ سیدھے سادے عام صدر رہے ہوتے اور باوردی و بارودی صدر نہ ہوتے تو سب سے بہتر مورچہ ان کے لیے ''گجرات'' ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اپنے دور میں گجرات پر زیادہ مہربان رہے تھے لیکن شاید چوہدریوں کے تلوں میں تیل نہ پا کر ان کو اپنا محاذ اتنی دور کھولنے کا فیصلہ کرنا پڑا، مراد شنواری کا ایک شعر ہے کہ

چم کے دجانان چہ مے خانی د رقیبا نوشوہ
مونگہ غریبانو ترے جونگڑے لرے جوڑے کڑے

یعنی محبوب کے محلے میں جب رقیبوں کی ''خانی'' ہو گئی تو ہم غریبوں نے اپنی جھگیاں بہت دور بسا لیں۔ یہ دنیا بھی کیا زبردست عبرت گاہ ہے ابھی کل ہی کی بات ہے بمقام اسلام آباد ایک تقریب ہو رہی تھی جس میں یہی پرویز مشرف صاحب اپنی ''کڑک'' وردی کو بارود میں بسائے اونچے سنگھاسن پر براجمان تھے۔ ایک صحافی نے ہمیں بتایا کہ اس تقریب میں پاکستان کے بڑے بڑے جغادری لیڈر موجود تھے جو باقاعدہ کسی گدی نشین مرشد کی طرح چیف ایگزیکٹو کے گھٹنے چھونے کے لیے قطاریں بنائے ہوئے تھے، باری باری آتے تھے اور گھٹنے چھو کر دین و دنیا کی سعادت حاصل کرتے جب کہ چیف ایگزیکٹو اپنی گردن میں اسٹیل کی راڈ لگائے ہوئے نیچے دیکھنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور اب بے چارے چترال کی پولو ٹیموں کو انعام دے کر اپنا پیر رکھنے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں

اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کارواں ہو کر

ویسے لگتا ہے انھوں نے بہت کچھ سیکھ بھی لیا ہے سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی طرح اپنے ابلاغ کے لیے ''ٹیلی فونک خطاب'' کا ذریعہ بڑا اچھا ڈھونڈا ہے اس میں نہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی اور ''رنگ'' چوکھا آتا ہے۔ غالباً اس لیے بھی کہ ٹیلی فون کی لہروں پر آنے والے خطابات کچھ تھوڑے بہت آسمانی بھی ہو جاتے ہیں جن کو پڑوسی ملک میں آکاش بانی اور ہماری اصطلاح میں آسمانی آواز یا ہاتف غیبی کہا جاتا ہے۔

چترال کے لوگ انتہائی شریف معصوم اور سادہ دل ہوتے ہیں اور شاید اس چیز کی توقع لے کر سابق صدر نے وہیں پر نزول اجلال فرمانا طے کیا ہو کہ نام ''چترال'' ہونے کے باوجود بے چارے چترالی سیاسی ''چترائی'' سے دور ہیں۔ خیر یہ تو بعد میں پتہ چلے گا کہ چترالی سابق صدر کی اس ''بارودی سرنگ'' کا شکار ہوتے ہیں یا بچ نکلتے ہیں لیکن جناب سابق صدر نے پورے پاکستان کے عوام کو بھی ''دانہ'' ڈالا ہے کہ وہ ان کو موجودہ مصیبتوں اور دکھوں سے نکالنے کے لیے آ رہے ہیں یعنی ان کا اپنا کوئی غرض یا مقصد نہیں ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں حبیب جالب نے فاطمہ جناح کے بارے میں کہا تھا

بچوں پر چلی گولی

ماں دیکھ کر یوں بولی
میں آتی ہوں میں آئی

اپنے سابق صدر کے بیاں سے بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے کہ ان سے عوام کی یہ حالت دیکھی نہیں جا سکتی اسی لیے وہ اپنا سارا عیش و آرام تیاگ کر ''نجات دہندگی'' کے لیے اترنے ہی والے ہیں، (Q) مسلم لیگ میں وہ دم خم نہیں رہا ورنہ وہ اپنے جوبن پر ہوتی تو وہ جنرل کے اس نزول اجلال کو اس ''نجات دہندے'' کا نزول قرار دیتی، جس کا ذکر تقریباً سارے مذاہب میں آیا ہے، مثلاً ہندی دھرم میں جب دنیا ساری دکھوں تکلیفوں اور فسادوں سے بھر جائے گی تو وشنو بھگوان اپنا دسواں ''اوتار'' لے کر ''کلکی اوتار'' کے روپ میں اتریں گے، وہ سفید لباس میں ملبوس سفید جھنڈا لہراتے ہوئے سفید گھوڑے پر سوار ہو کر آئیں گے اور اپنی سفید چمک سے ''ادھرم'' کا اندھیرا دور کر دیں گے اور ویدوں کی تعلیمات کو مکمل طور پر لاگو کر کے دنیا کو سورگ بنا دیں گے اور پھر ''گل یگ'' کا خاتمہ ہو کر ''ست یگ'' شروع ہو جائے گا ۔ یہاں تو چترال میں برف کی سفیدی بھی ایک نشانی ہے اور نجات دہندہ بھی خاکی وردی اتار کر ''سفید لباس'' پہن چکے ہیں لیکن بے چارے Q لیگ ہی نہیں رہی ہے تو یہ سب کون کرے

یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

کیوں کہ یاس کے سارے پرندے موسم بدلنے کے ساتھ ہی ''مراجعت'' کا سفر شروع کر چکے ہیں اکا دکا پرندے اگر باقی بھی ہیں تو وہ منقار زیر پر ہیں۔ جہاں تک پاکستان کے عوام کو مصیبتوں سے نکالنے کا سوال ہے تو یقیناً اس کے لیے بھی سابق صدر کے پاس کوئی نسخہ کیمیا ضرور ہو گا، ہو سکتا ہے کہ یہ وہی نسخہ ہو جو مولانا روم نے بتایا ہے مولانا روم نے کہا ہے کہ

عقل گوئد شش جہت است و دیگر راہ نیست
عشق گوئد کہ راہ است و رفتہ ام من بارہا

عقل کہتی ہے کہ کائنات میں صرف چھ اطراف ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی ''راستہ'' نہیں ہے لیکن عشق کہتا ہے کہ ''راستہ'' ہے اور اس راستے پر میں کئی بار آیا گیا ہوں، ہمیں بھی لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام کے موجودہ مسائل کا حل کوئی نہیں ہے کیوں کہ وہ ''مسائل'' ہی کے ذریعے ''مسائل'' حل کرنا چاہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ مسائل ہی تو ان کے اصل مسائل ہیں۔ جو اپنے آپ کو ''لیڈر'' کہتے ہیں اب ان سے چھٹکارا تو ممکن نہیں ہے اور جب تک ان سے چھٹکارا نہیں ملتا تب تک مسائل سے چھٹکارا کیسے ہو، چنانچہ یوں کہئے کہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ عوام میں نہ اتنی عقل ہے نہ ہمت کہ ایک دن مقرر کریں اور اس مقررہ دن پر اپنے ان چلتے پھرتے مسائل عرف لیڈروں کو ''جہاں ہے جیسے ہے'' کی بنیاد پر ٹھکانے لگا دیں اور اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے لیکن اگر سابق صدر کہتا ہے کہ ''راستہ'' ہے تو وہ صرف ایک ہی راستہ ہو سکتا ہے اور وہ راستہ غالب نے بتایا ہے کہ

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

یعنی عدم آباد کو فرار ہی وہ راستہ ہے اور شاید بارودی و باوردی سابق صدر کے پاس ایسا ہی کوئی نسخہ ہو سکتا ہے جس سے عوام اپنی موجودہ جان لیوا، غموں سے لبریز دکھوں سے بھری ہوئی اور مصیبتوں کی ماری ہوئی ''زندگی'' سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے اس کے سوا

چین اک پل نہیں اب کوئی حل نہیں
Load Next Story