اختر مینگل کے توجہ طلب چھ نکات
کسی بھی فوجی حکومت کے لئے ریاست اس کا جغرافیہ ہوتا ہے اور وہ جمود کو برقرار رکھنے کی محافظ ہوتی ہے۔
مینگل کے چھ نکات کا بغورجائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ زیادہ تر اُن ماورائے آئین اقدامات کے خلاف ہیںجو ہماری سرکردہ ایجنسیاں خفیہ اورظاہری طریقے سے کر رہی ہیں۔
انھوں نے بلوچوں کے لیے ویسے ہی بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا جیسے کہ ہر پاکستانی کے لئے آئین میں فراہم کیے گئے ہیں۔کیا یہ بات کہنا حد سے تجاوز ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔لیکن اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو امریکی سی آئی اے اور بھارتی ر ا چلا رہی ہے۔چنانچہ بلوچستان میں آپریشن روکنے کے لئے کہنا غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے مترادف ہے۔وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ بلوچستان کو شدید اختلاف کے ساتھ وفاق میں نہیں رکھا جا سکتا۔اس قسم کے واقعات میں ریاستی تشدد صرف تشدد کو ہی جنم دیتا ہے۔
کسی بھی فوجی حکومت کے لئے ریاست اس کا جغرافیہ ہوتا ہے اور وہ جمود کو برقرار رکھنے کی محافظ ہوتی ہے۔اس کے برعکس تاریخ نے ہمیں دوسری بات بتائی ہے۔ریاست درحقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس میں رضا کارانہ طور پر رہتے ہیں۔زور زبردستی سے لوگوں کو اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔اسٹیبلشمنٹ دلیل دیتی ہے کہ مٹھی بھر علیحدگی پسند،بلوچ عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ان کا دعویٰ ہے کہ 70بڑے قبائل کے90فیصد بلوچ اور بلوچستان کے پختون ان کی حمایت نہیں کرتے۔جنرل ضیا الحق کی حکومت نے قبائل کے اندر ان کی مختلف شاخوں میں پھوٹ پیدا کر کے ہر طاقت ور قبیلے کو تقسیم کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔
بعض صورتوں میں یہ تقسیم پہلے سے موجود تھی۔ایجنسیوں نے ان دراڑوں کو اور گہرا کرنے کے لئے کام کیا۔آج بگٹی بٹے ہوئے ہیں۔یہ سب براہمداغ بگٹی کے ساتھ نہیں ہیں،جنھوں نے زیورچ میں جلا وطنی اختیار کر رکھی ہے۔یہ دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔اکبر بگٹی کی زندگی ہی میں بگٹیوں کی ایک شاخ کلپروں کے ان کے ساتھ شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور اس مطلق العنان نواب نے انھیں گھروں سے بے دخل کر دیا تھا۔فوج کی حمایت سے اکبر بگٹی کے ایک اور پوتے کو سردار بنا دیا گیا۔
مری بھی منقسم ہیں۔ مریوں کے ایک ذیلی قبیلے بجارانیوں کی سرپرستی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی جاتی ہے اور انھیں اکثر اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں دیکھا جاتا ہے۔جسٹس خدا بخش مری کو قتل کردیا گیا تھا۔ان کے لواحقین الزام لگاتے ہیں کہ یہ قتل خیر بخش مری کے حکم پر ہوا تھا جو تحریک آزادی کے انتہائی محترم لیڈروں میں سے ایک ہیں۔
سردار عطا اللہ قابل احترام اور ضعیف انسان ہیں ۔جب بھی ضرورت پڑی مینگلوں کے پاس سرداری کی نشست کے لئے امیدوار موجود ہے۔ایک اپنے تئیں جلا وطن لیڈر ظفر بلوچ کہتے ہیں کہ'' اسٹیبلشمنٹ'' نے'' سردار عطا اللہ کے خلاف ایک مشتعل مینگل عسکریت پسند گروپ کی مدد کی ہے'' اس پاکستان نواز دھڑے کو دفاع ِ بلوچستان کہاجاتا ہے ۔اس گروپ کی قیادت شفیق الرحمان کرتے ہیں جو مشرف دورکے وزیر نصیر مینگل کے صاحبزادے ہیں۔غالباً اسی خدشے کی وجہ سے کہ ان کی غیر موجودگی میں رحمان، قبیلے کی سرداری کا دعویٰ کر سکتے ہیں،اختر مینگل نے آخری کوشش کے طور پر یہ مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ'' آئی ایس آئی اور ایم آئی کے قائم کردہ تمام ڈیتھ اسکواڈ ختم کر دیے جائیں۔'' اختر مینگل کی پاکستان واپسی سے قبل، تحریک آزادی کے لئے کام کرنے والے اپنے تئیں جلاطن ظفر بلوچ نے لندن میں ایک اتفاقیہ ملاقات میں مجھے بتایا کہ سردار عطا اللہ نے وزیر اعظم گیلانی کو کہا تھا کہ اگر حکومت اختر کی واپسی چاہتی ہے تو ایجنسیوں کو شفیق کے عسکریت پسند گروپ کی حمایت ترک کر دینی چاہیے اور یہ یقین دلایا جائے کہ اختر کو بے نظیر کی طرح قتل نہیں کیا جائے گا۔
اگر اسٹیبلشمنٹ کے اس دعوے کو مان بھی لیا جائے کہ90فیصد بلوچ قبائل اس کے ساتھ ہیں اور''آزادی '' کے دلفریب نعرے سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ وحشیانہ طاقت استعمال کرنے کی بجائے اس65سال پرانے مسئلے کو مہذب انداز میں حل کرنے سے کیوں خوفزدہ ہے؟کینیڈا میں کیوبک کے باشندے آزادی چاہتے ہیںفرانسیسی زبان بولنے والے ان لوگوں میں سے آج تک کوئی غائب نہیں ہوا،نہ کسی تشدد زدہ لاش کو وحشیانہ طریقے سے پھینکا گیا اور نہ کینیڈا کی حکومت نے کوئی فوجی آپریشن کیا۔انھوں نے ریفرنڈم پر آمادگی ظاہر کی جو ہم سرکاری طور پر کشمیر کے لئے تجویز کر چکے ہیں۔
وہ بھی ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ۔اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔اور برطانوی حکومت اسکاٹ باشندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی بجائے2014 میں ر یفرنڈم کرانے کے لئے تیارہے۔ پاکستانی کیوں زیادہ مہذب نہیں ہو سکتے؟اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے فیصلے سویلین حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔اسلام آباد کو معلوم ہے کہ اگرچہ قبائلی عمائدین اس کے ساتھ ہیں مگر بلوچ نوجوان آزادی اور اپنی سرزمین اور سمندری وسائل پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔یہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اپنی تربیت کی وجہ سے جغرافیائی و تزویراتی حوالے سے سوچتی ہے۔جب افغانستان میں وہاں کی سوشلسٹ حکومت کی مدد کے لئے روسی فوج آئی تو پاکستان کی فوجی حکومت کو یہ وہم ہو گیا کہ روسیوں کا اصل مقصد بلوچستان کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے۔اب یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانسان سے فارغ ہونے کے بعد امریکی بلوچستان کے گرم پانیوں پر کنٹرول چاہیں گے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ امریکی ،چین کے توانائی کے راستوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔مشرق میں چین کے گرد حصار اور خلیج فارس/عرب کو کنٹرول کرنے کا عظیم امریکی منصوبہ یاد کیجیے۔اس کھیل میں بلوچستان کا سمندر اور قدرتی وسائل اہم ہیں،اس خطے کے لوگوں کی کسے پرواہ ہے جو محسوس کرتے ہیں کہ انھیں محکوم بنایا جا رہا ہے اور استحصال کا شکار ہیں۔امریکہ اور اس کے چہیتے سعودی عرب کے لئے ایران کے خلاف اڈے کے طور پر بھی بلوچستان اہمیت کا حامل ہے۔
صحیح راستے پر چلنے سے گریزاں پاکستان ایک بار پھرتوانائی کی گزرگاہوں کے لئے اس کشمکش میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کا آرزو مند ہے،مگر اپنے دو اتحادیوں۔ امریکہ اور چین میں توازن قائم رکھنے میں مشکل محسوس کر رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ 'ناقابل بھروسہ امریکی اتحادیوں' کے بجائے چین کا ساتھ دینا چاہتی ہے۔چنانچہ اسے خوف ہے کہ جو آزادی کی بات کررہا ہے وہ امریکہ بھارت اتحاد کے مفادات کی خدمت کر رہا ہے۔جہاں تک بلوچستان کا معاملہ ہے یہ صرف 7-8ملین لوگوں کا سوال ہے۔اختر مینگل جو چاہتے ہیں وہ دے دیا جائے۔اپنے قدرتی وسائل پر انھیں مکمل کنٹرول دے دینا چاہیے اس طرح آپ کو ایک پر امن صوبہ اور مضبوط تر پاکستان مل جائے گا۔
انھوں نے بلوچوں کے لیے ویسے ہی بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا جیسے کہ ہر پاکستانی کے لئے آئین میں فراہم کیے گئے ہیں۔کیا یہ بات کہنا حد سے تجاوز ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔لیکن اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو امریکی سی آئی اے اور بھارتی ر ا چلا رہی ہے۔چنانچہ بلوچستان میں آپریشن روکنے کے لئے کہنا غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے مترادف ہے۔وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ بلوچستان کو شدید اختلاف کے ساتھ وفاق میں نہیں رکھا جا سکتا۔اس قسم کے واقعات میں ریاستی تشدد صرف تشدد کو ہی جنم دیتا ہے۔
کسی بھی فوجی حکومت کے لئے ریاست اس کا جغرافیہ ہوتا ہے اور وہ جمود کو برقرار رکھنے کی محافظ ہوتی ہے۔اس کے برعکس تاریخ نے ہمیں دوسری بات بتائی ہے۔ریاست درحقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس میں رضا کارانہ طور پر رہتے ہیں۔زور زبردستی سے لوگوں کو اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔اسٹیبلشمنٹ دلیل دیتی ہے کہ مٹھی بھر علیحدگی پسند،بلوچ عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ان کا دعویٰ ہے کہ 70بڑے قبائل کے90فیصد بلوچ اور بلوچستان کے پختون ان کی حمایت نہیں کرتے۔جنرل ضیا الحق کی حکومت نے قبائل کے اندر ان کی مختلف شاخوں میں پھوٹ پیدا کر کے ہر طاقت ور قبیلے کو تقسیم کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔
بعض صورتوں میں یہ تقسیم پہلے سے موجود تھی۔ایجنسیوں نے ان دراڑوں کو اور گہرا کرنے کے لئے کام کیا۔آج بگٹی بٹے ہوئے ہیں۔یہ سب براہمداغ بگٹی کے ساتھ نہیں ہیں،جنھوں نے زیورچ میں جلا وطنی اختیار کر رکھی ہے۔یہ دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔اکبر بگٹی کی زندگی ہی میں بگٹیوں کی ایک شاخ کلپروں کے ان کے ساتھ شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور اس مطلق العنان نواب نے انھیں گھروں سے بے دخل کر دیا تھا۔فوج کی حمایت سے اکبر بگٹی کے ایک اور پوتے کو سردار بنا دیا گیا۔
مری بھی منقسم ہیں۔ مریوں کے ایک ذیلی قبیلے بجارانیوں کی سرپرستی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی جاتی ہے اور انھیں اکثر اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں دیکھا جاتا ہے۔جسٹس خدا بخش مری کو قتل کردیا گیا تھا۔ان کے لواحقین الزام لگاتے ہیں کہ یہ قتل خیر بخش مری کے حکم پر ہوا تھا جو تحریک آزادی کے انتہائی محترم لیڈروں میں سے ایک ہیں۔
سردار عطا اللہ قابل احترام اور ضعیف انسان ہیں ۔جب بھی ضرورت پڑی مینگلوں کے پاس سرداری کی نشست کے لئے امیدوار موجود ہے۔ایک اپنے تئیں جلا وطن لیڈر ظفر بلوچ کہتے ہیں کہ'' اسٹیبلشمنٹ'' نے'' سردار عطا اللہ کے خلاف ایک مشتعل مینگل عسکریت پسند گروپ کی مدد کی ہے'' اس پاکستان نواز دھڑے کو دفاع ِ بلوچستان کہاجاتا ہے ۔اس گروپ کی قیادت شفیق الرحمان کرتے ہیں جو مشرف دورکے وزیر نصیر مینگل کے صاحبزادے ہیں۔غالباً اسی خدشے کی وجہ سے کہ ان کی غیر موجودگی میں رحمان، قبیلے کی سرداری کا دعویٰ کر سکتے ہیں،اختر مینگل نے آخری کوشش کے طور پر یہ مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ'' آئی ایس آئی اور ایم آئی کے قائم کردہ تمام ڈیتھ اسکواڈ ختم کر دیے جائیں۔'' اختر مینگل کی پاکستان واپسی سے قبل، تحریک آزادی کے لئے کام کرنے والے اپنے تئیں جلاطن ظفر بلوچ نے لندن میں ایک اتفاقیہ ملاقات میں مجھے بتایا کہ سردار عطا اللہ نے وزیر اعظم گیلانی کو کہا تھا کہ اگر حکومت اختر کی واپسی چاہتی ہے تو ایجنسیوں کو شفیق کے عسکریت پسند گروپ کی حمایت ترک کر دینی چاہیے اور یہ یقین دلایا جائے کہ اختر کو بے نظیر کی طرح قتل نہیں کیا جائے گا۔
اگر اسٹیبلشمنٹ کے اس دعوے کو مان بھی لیا جائے کہ90فیصد بلوچ قبائل اس کے ساتھ ہیں اور''آزادی '' کے دلفریب نعرے سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ وحشیانہ طاقت استعمال کرنے کی بجائے اس65سال پرانے مسئلے کو مہذب انداز میں حل کرنے سے کیوں خوفزدہ ہے؟کینیڈا میں کیوبک کے باشندے آزادی چاہتے ہیںفرانسیسی زبان بولنے والے ان لوگوں میں سے آج تک کوئی غائب نہیں ہوا،نہ کسی تشدد زدہ لاش کو وحشیانہ طریقے سے پھینکا گیا اور نہ کینیڈا کی حکومت نے کوئی فوجی آپریشن کیا۔انھوں نے ریفرنڈم پر آمادگی ظاہر کی جو ہم سرکاری طور پر کشمیر کے لئے تجویز کر چکے ہیں۔
وہ بھی ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ۔اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔اور برطانوی حکومت اسکاٹ باشندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی بجائے2014 میں ر یفرنڈم کرانے کے لئے تیارہے۔ پاکستانی کیوں زیادہ مہذب نہیں ہو سکتے؟اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے فیصلے سویلین حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔اسلام آباد کو معلوم ہے کہ اگرچہ قبائلی عمائدین اس کے ساتھ ہیں مگر بلوچ نوجوان آزادی اور اپنی سرزمین اور سمندری وسائل پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔یہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اپنی تربیت کی وجہ سے جغرافیائی و تزویراتی حوالے سے سوچتی ہے۔جب افغانستان میں وہاں کی سوشلسٹ حکومت کی مدد کے لئے روسی فوج آئی تو پاکستان کی فوجی حکومت کو یہ وہم ہو گیا کہ روسیوں کا اصل مقصد بلوچستان کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے۔اب یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانسان سے فارغ ہونے کے بعد امریکی بلوچستان کے گرم پانیوں پر کنٹرول چاہیں گے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ امریکی ،چین کے توانائی کے راستوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔مشرق میں چین کے گرد حصار اور خلیج فارس/عرب کو کنٹرول کرنے کا عظیم امریکی منصوبہ یاد کیجیے۔اس کھیل میں بلوچستان کا سمندر اور قدرتی وسائل اہم ہیں،اس خطے کے لوگوں کی کسے پرواہ ہے جو محسوس کرتے ہیں کہ انھیں محکوم بنایا جا رہا ہے اور استحصال کا شکار ہیں۔امریکہ اور اس کے چہیتے سعودی عرب کے لئے ایران کے خلاف اڈے کے طور پر بھی بلوچستان اہمیت کا حامل ہے۔
صحیح راستے پر چلنے سے گریزاں پاکستان ایک بار پھرتوانائی کی گزرگاہوں کے لئے اس کشمکش میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کا آرزو مند ہے،مگر اپنے دو اتحادیوں۔ امریکہ اور چین میں توازن قائم رکھنے میں مشکل محسوس کر رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ 'ناقابل بھروسہ امریکی اتحادیوں' کے بجائے چین کا ساتھ دینا چاہتی ہے۔چنانچہ اسے خوف ہے کہ جو آزادی کی بات کررہا ہے وہ امریکہ بھارت اتحاد کے مفادات کی خدمت کر رہا ہے۔جہاں تک بلوچستان کا معاملہ ہے یہ صرف 7-8ملین لوگوں کا سوال ہے۔اختر مینگل جو چاہتے ہیں وہ دے دیا جائے۔اپنے قدرتی وسائل پر انھیں مکمل کنٹرول دے دینا چاہیے اس طرح آپ کو ایک پر امن صوبہ اور مضبوط تر پاکستان مل جائے گا۔