انٹر نیٹ کی قیمت
جس طرح انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا ہر آن اور ہر لمحے بڑھتا چلا جا رہا ہے، اِسی طرح ڈیٹا سینٹرز بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ بعض چیزوں کی قیمت آنے والی نسلیں تک ادا کرتی رہتی ہیں۔ انٹر نیٹ کا استعمال بھی ایسا ہی ہے جس کی قیمت ہماری آنے والی نسلیں تک چُکاتی رہیں گی۔
عمومی طور پر انٹرنیٹ کے استعمال کو مفید اور بے ضرر سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اتنا بے ضرر اور مفید بھی نہیں ہے جتنا کہ ہمیں باور کروا دیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی جو مخفی قیمت ہے اس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انٹر نیٹ پر موجود معلومات، تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ آپ تک کہاں سے پہنچتی ہیں؟ ٹیٹرا بائٹس میں جمع یہ خزانہ آخر رکھا کہاں جاتا ہے؟ بڑے بڑے سرکاری اور نجی اداروں کے ریکارڈ، یہاں تک کہ پوری پوری آن لائن لائبریریاں موجود ہیں۔ یوٹیوب وغیرہ کے ویڈیو کے ذخائر، آخر یہ سب کہاں اسٹور ہوتے ہیں؟ یہ تمام تر خزانہ بڑے بڑے اداروں کے قائم کردہ وسیع و عریض ''ڈیٹا سینٹرز'' میں جمع ہوتا ہے۔ یہاں موجود بڑے بڑے '' سَروَر'' ہر وقت ڈیٹا پروسس کرنے میں جُتے رہتے ہیں۔ ایک اوسط ڈیٹا سینٹر میں 20 ہزار تک ''سرور'' لگے ہوتے ہیں۔ اب ظاہر ہے اتنے بہت سارے اور بڑے بڑے '' سَروَر'' بغیر بجلی کے تو چل نہیں سکتے۔
اِن عظیم الجُثہ ڈیٹا سینٹرز کو اپنے '' سَروَرز'' ہمہ وقت متحرک رکھنے کے لیے بجلی چاہیے، نیز اِن '' سَروَرز'' کو ٹھنڈا رکھنے والا نظام مسلسل اور مستقل چلاتے رکھنے کے لیے بھی بلا انقطاع بجلی درکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زائد ڈیٹا سینٹرز موجود ہیں۔ ادارے اپنے مصالح کی بنا پر ڈیٹا سینٹرز کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے آپ کے اندازوں اور تصور سے بھی بڑے ڈیٹا سینٹرز کو کام کرتے رہنے کے لیے بہت زیادہ بجلی چاہیے ہوتی ہے۔ ایک اوسط درجے کا ڈیٹا سینٹر ایک چھوٹے شہر میں استعمال ہونے والی مجموعی بجلی سے بھی زیادہ بجلی خرچ کرتا ہے۔
یہ بجلی کوئلہ جلا کر تیار ہوتی ہے۔ اِس عمل سے روزانہ ٹنوں کے حساب سے زمینی فضا کو زہر آلود کیا جا رہا ہے۔ ماحولیات کے سائنس دانوں نے ڈیٹا سینٹرز کوcarcinogens اور greenhouse gases کے ذریعے زمین کی بالائی فضا کو تباہ کرنے والے ذرایع میں اولین قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا سینٹر ز اور دیگر صنعتیں اگر اِسی رفتار سے زمین کو اور زمین کی بالائی فضا کو زہر آلود کرتے رہے تو بہت جلد یہاں جانداروں کے لیے سانس لینا بھی محال ہو جائے گا۔ امریکا کی ''سلیکون ویلی'' کا دیو مالائی خاکہ تو ہر کمپیوٹر پروگرامر کے ذہن میں ہوتا ہے لیکن یہ ہر ایک کے علم میں نہیں کہ اس سلیکون ویلی کے زیادہ تر ڈیٹا سینٹرز امریکی حکومت کی Toxic Air Contaminant Inventory پر آ چکے ہیں۔
ورجینیا اور الینوئس میں درجنوں ڈیٹا سینٹرز پر آلودگی پھیلانے کی بنا پر جرمانے لگ چکے ہیں۔ AMAZONکا صرف نارتھ ورجینیا کا ڈیٹا سینٹر 3 برس میں 24 سے زائد بے قائدگیوں کا مرتکب پایا گیا۔ مجموعی طور پر AMAZON پر 55 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ عائد ہونا تھا۔ جو کئی مہینے کی تگ و دو کے بعد 261638 ڈالر ادا کیا گیا۔ کیا ہمیشہ کے لیے زمین کو آلودہ کر دینے کی قیمت ڈھائی یا تین لاکھ ڈالر ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب کس سے لیا جائے؟ انٹرنیٹ کے صارفین سے؟ حکومتوں سے یا حماقتِ متحدہ سے؟
ڈیٹا سینٹرز میں بجلی کا ضیاع بھی بے تحاشا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ِگرڈ سے آنے والی تمام تر بجلی درست استعمال ہو رہی ہو۔ یہ براہ راست نتیجہ ہے ہمہ وقت اور ہر لمحے سرگرمی کا۔ ''گوگل'' ہو یا'' یاہوُ'' یا'' یوٹیوب'' کوئی بھی ادارہ لمحاتی بندش کا بھی تصور نہیں کر سکتا۔ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے بجلی کا زیادہ تر حصہ''ڈیٹا پراسسنگ'' کے بجائے دیگر لوازمات پر صرف ہو جاتا ہے۔ ڈیٹا پراسسنگ کے عمل کو مسلسل رکھنے کے لیے بجلی کی بلا اِنقطاع فراہمی نہایت ضروری ہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے اداروں کو کبھی ناکام نہ ہونے والا backup درکار ہوتا ہے۔
جس کے لیے ڈیزل کے بڑے بڑے جنریٹر اور بڑی بڑی بیٹریاں لگائی جاتی ہیں۔ دھاتی بیٹریوں اور ڈیزل جنریٹرز کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود 30 لاکھ سے زائد ڈیٹا سینٹرز کتنی آلودگی پھیلاتے ہیں اندازہ کیا ہی جا سکتا ہے۔ یہاں یہ خیال مت کیجیے گا کہ چوں کہ اُن ممالک میں بجلی کم جاتی ہے، لہٰذا جنریٹر وغیرہ کم ہی استعمال میں آتے ہوں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ جنریٹرز اور بیٹریوں کو جلد جلد چلاتے رکھنا پڑتا ہے تا کہ بوقتِ ضرورت دھوکا نہ ہو۔
جس طرح انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا ہر آن اور ہر لمحے بڑھتا چلا جا رہا ہے، اِسی طرح ڈیٹا سینٹرز بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جتنا ڈیٹا سینٹرز بڑے ہو رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اُسی رفتار سے زمینی ماحولیات کو یہ زہر آلود کرتے جا رہے ہیں۔ اگر آج یہ زہر فشانی بند ہو جائے تب بھی اس کے اثرات زمینی فضا سے زائل ہونے میں ماہرین کے اندازے کے مطابق کم از کم نصف صدی درکار ہو گی، اور نصف صدی بعد بھی کچھ آلودگیاں برقرار رہ جائیں گی۔ یہ اور دیگر وجوہات ہیں جن کی بنا پر ادارے اپنے ڈیٹا سینٹرز کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انڈسٹری کے ایک سینئر ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہThis is an industry's dirty secret, and no one wants to be the first to say mea culpa
آج انٹر نیٹ کے فوائد گنوانے والے آزادی اظہار اور اطلاعات تک رسائی کے حق کی بات تو کرتے ہیں لیکن انٹر نیٹ سے پھیلنے والی ماحولیاتی تباہی اور آلودگی کے لاینحل مسئلے کو گول کر جاتے ہیں۔ ڈیٹا سینٹرز ماحولیات کو دہرا نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک نقصان تو اُنہیں درکار بجلی کی تیاری سے ہے، دوسرے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والا ہر ہر واٹ حرارت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے مزید بجلی یعنی مزید آلودگی اور مزید حرارت درکار ہوتی ہے۔ زمینی تباہی کا یہ نہ کم ہونے والا، نہ ہی تھمنے والاوہ سلسلہ ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ڈیٹا سینٹرز اپنے ''سرورز'' اور دیگر آلات کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کا بھی بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مائیکرو سافٹ کے سینٹ اینٹونیو کا ڈیٹا سینٹر 80 لاکھ گیلن سے زائد پانی ماہانہ بنیادوں پر استعمال کرتا ہے۔ یعنی کم و بیش ڈھائی لاکھ گیلن پانی روزانہ۔ جب کہ حال یہ ہے کہ باقی دنیا کو تو چھوڑیں امریکا میں U.S. drought monitor کے مطابق 48 امریکی ریاستیں پانی کی شدید قلت بلکہ قحط کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں تازہ اور پینے لائق پانی کے ذخائر جس تیزی سے صنعتیں ہڑپتی جا رہی ہیں اس نے ایک خطرناک صورت حال کو جنم دیا ہے۔
منافع بٹورنے والی کمپنیاں اور حکومتیں اس خطرناک صورتِ حال سے پوری طرح باخبر ہیں لیکن کوئی بھی انٹرنیٹ کی ہمہ وقت متحرک دنیا پر کسی قسم کی کوئی قدغن لگانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، خواہ اُس کی قیمت خود انسان اور یہ زمین ہی کیوں نہ ہو۔
عمومی طور پر انٹرنیٹ کے استعمال کو مفید اور بے ضرر سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اتنا بے ضرر اور مفید بھی نہیں ہے جتنا کہ ہمیں باور کروا دیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی جو مخفی قیمت ہے اس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انٹر نیٹ پر موجود معلومات، تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ آپ تک کہاں سے پہنچتی ہیں؟ ٹیٹرا بائٹس میں جمع یہ خزانہ آخر رکھا کہاں جاتا ہے؟ بڑے بڑے سرکاری اور نجی اداروں کے ریکارڈ، یہاں تک کہ پوری پوری آن لائن لائبریریاں موجود ہیں۔ یوٹیوب وغیرہ کے ویڈیو کے ذخائر، آخر یہ سب کہاں اسٹور ہوتے ہیں؟ یہ تمام تر خزانہ بڑے بڑے اداروں کے قائم کردہ وسیع و عریض ''ڈیٹا سینٹرز'' میں جمع ہوتا ہے۔ یہاں موجود بڑے بڑے '' سَروَر'' ہر وقت ڈیٹا پروسس کرنے میں جُتے رہتے ہیں۔ ایک اوسط ڈیٹا سینٹر میں 20 ہزار تک ''سرور'' لگے ہوتے ہیں۔ اب ظاہر ہے اتنے بہت سارے اور بڑے بڑے '' سَروَر'' بغیر بجلی کے تو چل نہیں سکتے۔
اِن عظیم الجُثہ ڈیٹا سینٹرز کو اپنے '' سَروَرز'' ہمہ وقت متحرک رکھنے کے لیے بجلی چاہیے، نیز اِن '' سَروَرز'' کو ٹھنڈا رکھنے والا نظام مسلسل اور مستقل چلاتے رکھنے کے لیے بھی بلا انقطاع بجلی درکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زائد ڈیٹا سینٹرز موجود ہیں۔ ادارے اپنے مصالح کی بنا پر ڈیٹا سینٹرز کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے آپ کے اندازوں اور تصور سے بھی بڑے ڈیٹا سینٹرز کو کام کرتے رہنے کے لیے بہت زیادہ بجلی چاہیے ہوتی ہے۔ ایک اوسط درجے کا ڈیٹا سینٹر ایک چھوٹے شہر میں استعمال ہونے والی مجموعی بجلی سے بھی زیادہ بجلی خرچ کرتا ہے۔
یہ بجلی کوئلہ جلا کر تیار ہوتی ہے۔ اِس عمل سے روزانہ ٹنوں کے حساب سے زمینی فضا کو زہر آلود کیا جا رہا ہے۔ ماحولیات کے سائنس دانوں نے ڈیٹا سینٹرز کوcarcinogens اور greenhouse gases کے ذریعے زمین کی بالائی فضا کو تباہ کرنے والے ذرایع میں اولین قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا سینٹر ز اور دیگر صنعتیں اگر اِسی رفتار سے زمین کو اور زمین کی بالائی فضا کو زہر آلود کرتے رہے تو بہت جلد یہاں جانداروں کے لیے سانس لینا بھی محال ہو جائے گا۔ امریکا کی ''سلیکون ویلی'' کا دیو مالائی خاکہ تو ہر کمپیوٹر پروگرامر کے ذہن میں ہوتا ہے لیکن یہ ہر ایک کے علم میں نہیں کہ اس سلیکون ویلی کے زیادہ تر ڈیٹا سینٹرز امریکی حکومت کی Toxic Air Contaminant Inventory پر آ چکے ہیں۔
ورجینیا اور الینوئس میں درجنوں ڈیٹا سینٹرز پر آلودگی پھیلانے کی بنا پر جرمانے لگ چکے ہیں۔ AMAZONکا صرف نارتھ ورجینیا کا ڈیٹا سینٹر 3 برس میں 24 سے زائد بے قائدگیوں کا مرتکب پایا گیا۔ مجموعی طور پر AMAZON پر 55 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ عائد ہونا تھا۔ جو کئی مہینے کی تگ و دو کے بعد 261638 ڈالر ادا کیا گیا۔ کیا ہمیشہ کے لیے زمین کو آلودہ کر دینے کی قیمت ڈھائی یا تین لاکھ ڈالر ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب کس سے لیا جائے؟ انٹرنیٹ کے صارفین سے؟ حکومتوں سے یا حماقتِ متحدہ سے؟
ڈیٹا سینٹرز میں بجلی کا ضیاع بھی بے تحاشا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ِگرڈ سے آنے والی تمام تر بجلی درست استعمال ہو رہی ہو۔ یہ براہ راست نتیجہ ہے ہمہ وقت اور ہر لمحے سرگرمی کا۔ ''گوگل'' ہو یا'' یاہوُ'' یا'' یوٹیوب'' کوئی بھی ادارہ لمحاتی بندش کا بھی تصور نہیں کر سکتا۔ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے بجلی کا زیادہ تر حصہ''ڈیٹا پراسسنگ'' کے بجائے دیگر لوازمات پر صرف ہو جاتا ہے۔ ڈیٹا پراسسنگ کے عمل کو مسلسل رکھنے کے لیے بجلی کی بلا اِنقطاع فراہمی نہایت ضروری ہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے اداروں کو کبھی ناکام نہ ہونے والا backup درکار ہوتا ہے۔
جس کے لیے ڈیزل کے بڑے بڑے جنریٹر اور بڑی بڑی بیٹریاں لگائی جاتی ہیں۔ دھاتی بیٹریوں اور ڈیزل جنریٹرز کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود 30 لاکھ سے زائد ڈیٹا سینٹرز کتنی آلودگی پھیلاتے ہیں اندازہ کیا ہی جا سکتا ہے۔ یہاں یہ خیال مت کیجیے گا کہ چوں کہ اُن ممالک میں بجلی کم جاتی ہے، لہٰذا جنریٹر وغیرہ کم ہی استعمال میں آتے ہوں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ جنریٹرز اور بیٹریوں کو جلد جلد چلاتے رکھنا پڑتا ہے تا کہ بوقتِ ضرورت دھوکا نہ ہو۔
جس طرح انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا ہر آن اور ہر لمحے بڑھتا چلا جا رہا ہے، اِسی طرح ڈیٹا سینٹرز بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جتنا ڈیٹا سینٹرز بڑے ہو رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اُسی رفتار سے زمینی ماحولیات کو یہ زہر آلود کرتے جا رہے ہیں۔ اگر آج یہ زہر فشانی بند ہو جائے تب بھی اس کے اثرات زمینی فضا سے زائل ہونے میں ماہرین کے اندازے کے مطابق کم از کم نصف صدی درکار ہو گی، اور نصف صدی بعد بھی کچھ آلودگیاں برقرار رہ جائیں گی۔ یہ اور دیگر وجوہات ہیں جن کی بنا پر ادارے اپنے ڈیٹا سینٹرز کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انڈسٹری کے ایک سینئر ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہThis is an industry's dirty secret, and no one wants to be the first to say mea culpa
آج انٹر نیٹ کے فوائد گنوانے والے آزادی اظہار اور اطلاعات تک رسائی کے حق کی بات تو کرتے ہیں لیکن انٹر نیٹ سے پھیلنے والی ماحولیاتی تباہی اور آلودگی کے لاینحل مسئلے کو گول کر جاتے ہیں۔ ڈیٹا سینٹرز ماحولیات کو دہرا نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک نقصان تو اُنہیں درکار بجلی کی تیاری سے ہے، دوسرے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والا ہر ہر واٹ حرارت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے مزید بجلی یعنی مزید آلودگی اور مزید حرارت درکار ہوتی ہے۔ زمینی تباہی کا یہ نہ کم ہونے والا، نہ ہی تھمنے والاوہ سلسلہ ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ڈیٹا سینٹرز اپنے ''سرورز'' اور دیگر آلات کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کا بھی بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مائیکرو سافٹ کے سینٹ اینٹونیو کا ڈیٹا سینٹر 80 لاکھ گیلن سے زائد پانی ماہانہ بنیادوں پر استعمال کرتا ہے۔ یعنی کم و بیش ڈھائی لاکھ گیلن پانی روزانہ۔ جب کہ حال یہ ہے کہ باقی دنیا کو تو چھوڑیں امریکا میں U.S. drought monitor کے مطابق 48 امریکی ریاستیں پانی کی شدید قلت بلکہ قحط کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں تازہ اور پینے لائق پانی کے ذخائر جس تیزی سے صنعتیں ہڑپتی جا رہی ہیں اس نے ایک خطرناک صورت حال کو جنم دیا ہے۔
منافع بٹورنے والی کمپنیاں اور حکومتیں اس خطرناک صورتِ حال سے پوری طرح باخبر ہیں لیکن کوئی بھی انٹرنیٹ کی ہمہ وقت متحرک دنیا پر کسی قسم کی کوئی قدغن لگانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، خواہ اُس کی قیمت خود انسان اور یہ زمین ہی کیوں نہ ہو۔