کمالِ رحمت
حضرت محمد مصطفیٰؐ کی حیات طیبہ ولادت سے بعثت اور بعثت سے رحلت تک بے شمار سیاسی واقعات کا مرقع ہے۔
ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے نزدیک آسان زندگی کے دو علیحدہ علیحدہ میدان ہیں ایک ہے مذہب، اخلاق اور روحانیت کا میدان جب کہ ایک ہے تمدن، تہذیب اور معاشرت کا میدان اور ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب انسانی تاریخ انسان میں صرف اور صرف ایک ہی ہیں اور وہ ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
اسلام کا بدترین دشمن، عیسائی مورخ ایچ جی ویلز اپنی معروف تاریخ عالم میں آنحضورؐ کے خطبہ حجۃ الوداع کا حوالہ دینے کے بعد یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا ''اگرچہ انسانی اخوت، مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمدؐ ہی تھے۔
جنھوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا۔''رحمۃ اللعالمینؐ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے جو دین بھیجا وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے، جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے ۔ اس دین کو ہمارے نبی کریمؐ نے ناصرف لوگوں کو بتایا اور سکھایا بلکہ ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کرکے دکھایا، لہٰذا جس طرح رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ بحیثیت ایک مزکی نفوس اور ایک معلم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے اسی طرح بحیثیت ایک ماہر سیاست اور مدبر کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰؐ کی حیات طیبہ ولادت سے بعثت اور بعثت سے رحلت تک بے شمار سیاسی واقعات کا مرقع ہے۔ اگر رسول اکرمؐ کی ولادت باسعادت اور اس کے بعد تاریخی ہستیوں، مدبروں اور مقتدر مذہبی رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ سردار قریش عبدالمطلب کے خانوادے میں دنیا کی اقوام کا واحد سردار پیدا ہوگا تو آپؐ کی ولادت سے قبل سیاست و قیادت کے عالمی مراکز قیصر و کسریٰ کی سپرپاور کے زوال کے تاریخی اظہار کی صورت اور خود آپؐ کی ولادت کے بعد یہ خیال تاریخی حقیقت بن گیا۔ علامہ سہیلی (ابو القاسم، عبدالرحمن بن عبداللہ، م 851ھ) ''روض الانف'' میں لکھتے ہیں کہ حضرت آمنہ پہلے دن ہی آنے والے واقعات کی روشنی کو دیکھ کر محسوس کرچکی تھیں، یہ روشنی آنے والے دور کی حکومت تھی اور مستقبل کی فتوحات کا نظارہ۔ تاریخی اور تاریخ ساز شخصیات کو جانچنے کے لیے تاریخ نے ہمیشہ تین سوال کیے:
۱۔اس شخصیت نے کام کیا کیا؟
۲۔کیا کوئی ضابطہ ٔ حیات دیا؟
۳۔اگر دیا تو اس کی فیض رسانی یا کمال کیا ہے؟
کام کے حوالے سے تاریخ نے پوچھا کہ حضور پاکؐ نے اپنے دور کی اصلاح کس حد تک کی اور بعد میں آنے والی نسلوں کو کیا کچھ دے گئے؟
تاریخ ہی بتاتی ہے کہ جس معاشرے میں نبی کریمؐ مبعوث ہوئے اس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ آپؐ نے زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں، انفرادی و اجتماعی اور قومی و بین الاقوامی سطح پر کل انسانیت کی اصلاح و رہنمائی فرمائی، آپؐ کی تعلیمات کی جامعیت سے انسانیت کا کوئی شعبہ خارج نہیں۔ آپؐ نے باقاعدہ ضابطہ حیات دیا اور اس ضابطہ حیات کا کمال ہر شعبہ حیات میں انسانیت کے لیے فیض رساں، ہمت افزا اور حیات بخش ہے۔پیغمبر اسلامؐ نے جو دین کل انسانیت کے سامنے پیش کیا وہ امن و سلامتی کا علم بردار دین ہے۔
یہ دنیا میں امن و آشتی، تحمل و رواداری اور باہمی اتفاق و ہمدردی کا داعی ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ اور مومن کہلانے کا وہ مستحق ہے جس کے شر سے لوگوں کے جان و مال امن میں ہوں۔ اسلام نے دنیا کو احترام و تحفظ آدمیت اور تکریم انسانیت کا درس دیا ہے۔ اس کے نزدیک کسی بیگناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کی ہلاکت کے مترادف ہے۔ اسلام میں جہاد وقتال کی مشروعیت بھی انسانی معاشرے میں فتنہ و فساد کے انسداد اور امن و سلامتی کی بحالی کے لیے ہے۔
آنحضرتؐ کی پوری حیات طیبہ انسانی معاشرے میں امن و سلامتی کے قیام اور فتنہ و فساد کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے۔ آنحضرتؐ کی مصالحانہ کاوشوں اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ معاہدوں کے انعقاد سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ آپؐ دنیا میں امن و سلامتی کا قیام چاہتے تھے۔ آپؐ کے غزوات بھی امن وتحفظ کے لیے تھے۔ جسے غیر مسلم مفکرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
اگر کبھی دوران جنگ بھی کوئی مصالحت کی صورت نظر آتی تو آپؐ اسے قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے اور مخالفین کے گزشتہ جرائم سے قطع نظر ان کے ساتھ نرم شرائط پر مصالحت فرما لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا عظیم اسلامی انقلاب لانے کے دوران انسانی جانوں کا ضیاع بہت ہی کم ہوا جب کہ اقوام عالم کی تاریخ میں کسی بھی جنگ میں ہزاروں انسانوں کا موت کے گھاٹ اترنا عام معمول رہا ہے۔
رسول انقلابؐ نے صرف 23 سال کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تربیت و تبلیغ سے پوری قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ قوم ایک بنیان مرصوص بن گئی اور قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا، آپؐ نے عرب جیسے ملک میں امن وعدل کی حکومت قائم فرمائی، قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں آپؐ کے انقلاب سے لرزاٹھیں، مشرکین و یہود آپؐ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے، سرکشوں کی اس طرح سرکوبی کی گئی کہ تمام انقلاب میں انسانی خون بہت کم بہا، نبی رحمتؐ سے قبل کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلاب میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا، لیکن نبی کریمؐ کے دست مبارک سے جو عظیم ترین انقلاب وقوع پذیر ہوا اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود ان نفوس کی تعداد چند سو سے زائد نہیں جو اس ساری جدوجہد کے دوران رحمۃ اللعالمینؐ کے ساتھیوں میں شہید ہوئے یا دشمنان اسلام میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
پورے انقلاب میں مخالف گروہ میں سے کسی کے ساتھ کبھی ناموس پر دست درازی کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا، آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج اور حقیقی روح کے مطابق آگے بڑھایا کہ آپؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے تین بڑے براعظموں میں اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص کی کمی محسوس نہ ہوئی۔ انقلاب محمدیؐ نبی رحمتؐ کا واحد کمال نہیں بلکہ حضورؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے جب کہ پوری سیرت نبویؐ امت کے لیے بہترین نمونہ اور مشعل راہ ہے، جس میں ناصرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کی ترقی و تعمیر اور فلاح و بہبود نیز امن و استحکام کا راز مضمر ہے۔
اسلامی نظریہ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں انقلاب پہلے پیدا کرتا ہے اور بعد میں پھر خارج میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں دوسرے خودساختہ نظریات کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ خارج میں تبدیلی کا منصوبہ تو پیش کرتے ہیں لیکن اندرون سے کوئی بحث نہیں کرتے جب کہ اسلام سب سے پہلے ایمان و اصلاح اور اللہ و رسولؐ کی محبت پر زور دیتا ہے اور جب یہ خصوصیات دل میں بسیرا کرلیتی ہیں تو فکر و نظر کا پیمانہ بدل جاتا ہے، سوچنے سمجھنے کے انداز میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے، رجحان اور نقطہ نظر تبدیل ہوجاتا ہے اور انسان کی پوری شخصیت میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے ایسا انقلاب جو حقیقی معنوں میں دنیا کو بدل دیتا ہے، ایسے ہی حقیقی انقلاب کی دنیا کو آج پھر ضرورت ہے۔ یہ انقلاب رحمت، نبی رحمتؐ کا خاص کمال رحمت ہے جس کے سامنے پوری انسانی تاریخ سربسجود ہے۔
اسلام کا بدترین دشمن، عیسائی مورخ ایچ جی ویلز اپنی معروف تاریخ عالم میں آنحضورؐ کے خطبہ حجۃ الوداع کا حوالہ دینے کے بعد یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا ''اگرچہ انسانی اخوت، مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمدؐ ہی تھے۔
جنھوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا۔''رحمۃ اللعالمینؐ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے جو دین بھیجا وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے، جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے ۔ اس دین کو ہمارے نبی کریمؐ نے ناصرف لوگوں کو بتایا اور سکھایا بلکہ ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کرکے دکھایا، لہٰذا جس طرح رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ بحیثیت ایک مزکی نفوس اور ایک معلم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے اسی طرح بحیثیت ایک ماہر سیاست اور مدبر کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰؐ کی حیات طیبہ ولادت سے بعثت اور بعثت سے رحلت تک بے شمار سیاسی واقعات کا مرقع ہے۔ اگر رسول اکرمؐ کی ولادت باسعادت اور اس کے بعد تاریخی ہستیوں، مدبروں اور مقتدر مذہبی رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ سردار قریش عبدالمطلب کے خانوادے میں دنیا کی اقوام کا واحد سردار پیدا ہوگا تو آپؐ کی ولادت سے قبل سیاست و قیادت کے عالمی مراکز قیصر و کسریٰ کی سپرپاور کے زوال کے تاریخی اظہار کی صورت اور خود آپؐ کی ولادت کے بعد یہ خیال تاریخی حقیقت بن گیا۔ علامہ سہیلی (ابو القاسم، عبدالرحمن بن عبداللہ، م 851ھ) ''روض الانف'' میں لکھتے ہیں کہ حضرت آمنہ پہلے دن ہی آنے والے واقعات کی روشنی کو دیکھ کر محسوس کرچکی تھیں، یہ روشنی آنے والے دور کی حکومت تھی اور مستقبل کی فتوحات کا نظارہ۔ تاریخی اور تاریخ ساز شخصیات کو جانچنے کے لیے تاریخ نے ہمیشہ تین سوال کیے:
۱۔اس شخصیت نے کام کیا کیا؟
۲۔کیا کوئی ضابطہ ٔ حیات دیا؟
۳۔اگر دیا تو اس کی فیض رسانی یا کمال کیا ہے؟
کام کے حوالے سے تاریخ نے پوچھا کہ حضور پاکؐ نے اپنے دور کی اصلاح کس حد تک کی اور بعد میں آنے والی نسلوں کو کیا کچھ دے گئے؟
تاریخ ہی بتاتی ہے کہ جس معاشرے میں نبی کریمؐ مبعوث ہوئے اس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ آپؐ نے زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں، انفرادی و اجتماعی اور قومی و بین الاقوامی سطح پر کل انسانیت کی اصلاح و رہنمائی فرمائی، آپؐ کی تعلیمات کی جامعیت سے انسانیت کا کوئی شعبہ خارج نہیں۔ آپؐ نے باقاعدہ ضابطہ حیات دیا اور اس ضابطہ حیات کا کمال ہر شعبہ حیات میں انسانیت کے لیے فیض رساں، ہمت افزا اور حیات بخش ہے۔پیغمبر اسلامؐ نے جو دین کل انسانیت کے سامنے پیش کیا وہ امن و سلامتی کا علم بردار دین ہے۔
یہ دنیا میں امن و آشتی، تحمل و رواداری اور باہمی اتفاق و ہمدردی کا داعی ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ اور مومن کہلانے کا وہ مستحق ہے جس کے شر سے لوگوں کے جان و مال امن میں ہوں۔ اسلام نے دنیا کو احترام و تحفظ آدمیت اور تکریم انسانیت کا درس دیا ہے۔ اس کے نزدیک کسی بیگناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کی ہلاکت کے مترادف ہے۔ اسلام میں جہاد وقتال کی مشروعیت بھی انسانی معاشرے میں فتنہ و فساد کے انسداد اور امن و سلامتی کی بحالی کے لیے ہے۔
آنحضرتؐ کی پوری حیات طیبہ انسانی معاشرے میں امن و سلامتی کے قیام اور فتنہ و فساد کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے۔ آنحضرتؐ کی مصالحانہ کاوشوں اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ معاہدوں کے انعقاد سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ آپؐ دنیا میں امن و سلامتی کا قیام چاہتے تھے۔ آپؐ کے غزوات بھی امن وتحفظ کے لیے تھے۔ جسے غیر مسلم مفکرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
اگر کبھی دوران جنگ بھی کوئی مصالحت کی صورت نظر آتی تو آپؐ اسے قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے اور مخالفین کے گزشتہ جرائم سے قطع نظر ان کے ساتھ نرم شرائط پر مصالحت فرما لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا عظیم اسلامی انقلاب لانے کے دوران انسانی جانوں کا ضیاع بہت ہی کم ہوا جب کہ اقوام عالم کی تاریخ میں کسی بھی جنگ میں ہزاروں انسانوں کا موت کے گھاٹ اترنا عام معمول رہا ہے۔
رسول انقلابؐ نے صرف 23 سال کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تربیت و تبلیغ سے پوری قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ قوم ایک بنیان مرصوص بن گئی اور قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا، آپؐ نے عرب جیسے ملک میں امن وعدل کی حکومت قائم فرمائی، قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں آپؐ کے انقلاب سے لرزاٹھیں، مشرکین و یہود آپؐ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے، سرکشوں کی اس طرح سرکوبی کی گئی کہ تمام انقلاب میں انسانی خون بہت کم بہا، نبی رحمتؐ سے قبل کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلاب میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا، لیکن نبی کریمؐ کے دست مبارک سے جو عظیم ترین انقلاب وقوع پذیر ہوا اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود ان نفوس کی تعداد چند سو سے زائد نہیں جو اس ساری جدوجہد کے دوران رحمۃ اللعالمینؐ کے ساتھیوں میں شہید ہوئے یا دشمنان اسلام میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
پورے انقلاب میں مخالف گروہ میں سے کسی کے ساتھ کبھی ناموس پر دست درازی کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا، آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج اور حقیقی روح کے مطابق آگے بڑھایا کہ آپؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے تین بڑے براعظموں میں اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص کی کمی محسوس نہ ہوئی۔ انقلاب محمدیؐ نبی رحمتؐ کا واحد کمال نہیں بلکہ حضورؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے جب کہ پوری سیرت نبویؐ امت کے لیے بہترین نمونہ اور مشعل راہ ہے، جس میں ناصرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کی ترقی و تعمیر اور فلاح و بہبود نیز امن و استحکام کا راز مضمر ہے۔
اسلامی نظریہ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں انقلاب پہلے پیدا کرتا ہے اور بعد میں پھر خارج میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں دوسرے خودساختہ نظریات کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ خارج میں تبدیلی کا منصوبہ تو پیش کرتے ہیں لیکن اندرون سے کوئی بحث نہیں کرتے جب کہ اسلام سب سے پہلے ایمان و اصلاح اور اللہ و رسولؐ کی محبت پر زور دیتا ہے اور جب یہ خصوصیات دل میں بسیرا کرلیتی ہیں تو فکر و نظر کا پیمانہ بدل جاتا ہے، سوچنے سمجھنے کے انداز میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے، رجحان اور نقطہ نظر تبدیل ہوجاتا ہے اور انسان کی پوری شخصیت میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے ایسا انقلاب جو حقیقی معنوں میں دنیا کو بدل دیتا ہے، ایسے ہی حقیقی انقلاب کی دنیا کو آج پھر ضرورت ہے۔ یہ انقلاب رحمت، نبی رحمتؐ کا خاص کمال رحمت ہے جس کے سامنے پوری انسانی تاریخ سربسجود ہے۔