جی ایس پی پلس اور انسانی حقوق
گزشتہ کچھ عرصے سے ہم سن رہے ہیں کہ پاکستان نے جی ایس پی پلس کا مرتبہ حاصل کرلیا ہے
گزشتہ کچھ عرصے سے ہم سن رہے ہیں کہ پاکستان نے جی ایس پی پلس کا مرتبہ حاصل کرلیا ہے لیکن عوام کو اس کے بارے میں کوئی خاص آگاہی نہیں ہے۔ جی ایس پی سے مراد ''ترجیح کا عمومی نظام'' ہے۔ اس سے غربت کے خاتمے میں مدد ملتی ہے اور پائیدار ترقی اور اچھی حکمرانی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ یورپی منڈی میں درآمدی و برآمدی ڈیوٹی میں ترجیح ملنے کی بنیاد پر ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی تجارت میں بھرپور حصہ لے سکتے ہیں اور اپنی پائیدار ترقی اور غربت میں تخفیف کی حکمت عملی کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔
پاکستان کو جی ایس پی پلس کا مرتبہ یورپی یونین نے دیا ہے اور اس کی بدولت برآمدات پر عائد ہونے والی ڈیوٹی کم ہوجاتی ہے اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا آپ اسے ایک ترغیب یا تحریک کہہ سکتے ہیں۔
تاریخی طور پر جی ایس پی "Generalised System Preferences" کا مرتبہ حاصل کرنے کے لیے اہلیت کا معیار اقوام متحدہ کے ستائیس معاہدوں یا کنونشنز کا رکن ہونا اور ان پر عمل درآمدکرنا ہے۔ ان 27 میں سے 8 کنونشنز کا تعلق ماحولیاتی تحفظ، 8 کا مزدوروں کے حقوق، 7 کا انسانی حقوق، تین کا منشیات کی روک تھام اور ایک کا تعلق کرپشن یا بدعنوانی سے ہے۔ ان سارے کنونشنز کا تعلق بلاواسطہ یا بالواسطہ عورتوں سے بھی ہے۔کچھ تو براہ راست ان کی سماجی اور اقتصادی خودمختاری اور عورتوں کے خلاف امتیازکے خاتمے کی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی وزارت کے تحت ان میں سے چھ معاہدے آتے ہیں، یعنی بچوں کے حقوق کا کنونشنCRC، عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن CEDAW، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا معاہدہ (ICESCR)، شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR)اور اذیت رسانی یا ٹارچر اور سزا وتادیب کے دیگرغیرانسانی، ظالمانہ اور توہین آمیز طریقے کے خلاف کنونشن۔
پاکستان یورپی یونین کے جی ایس پی طریقے سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے یورپی یونین ہماری مصنوعات پر بیس فی صد کم ڈیوٹی عائد کرتا رہا ہے۔ اس ترجیحی سلوک کی بنیاد پر پاکستان کو یورپی یونین کی منڈی میں داخل ہونے کا موقع ملا اور ہم ایک فائدہ مند پوزیشن میں آگئے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستان دوسرا ملک ہے جسے بنگلہ دیش کے بعد یورپی یونین تک آزادانہ رسائی حاصل ہے۔ پاکستان کے اقتصادی تناظر میں پاکستان کے لیے یہ ایک نفع بخش موقع ہے کیونکہ یوں ہماری برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہو گا، سرمایہ کاری بڑھے گی، روزگارکے مواقعے پیدا ہوں گے، ادارے مضبوط ہوں گے اور پائیدار اقتصادی افزائش ہوگی۔
پاکستان کو اس سے پہلے MFN یعنی سب سے حمایت یافتہ قوم کا درجہ بھی حاصل تھا جس کی وجہ سے جراحی کے آلات، باسمتی چاول، مصالحوں، پنکھوں وغیرہ پر ڈیوٹی عاید نہیں کی جاتی تھی۔ محصولات یا ڈیوٹی کے حوالے سے خصوصی خود اختیار تجارتی ترجیحی اسکیم سے بھی پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے، لیکن اب جی ایس پی پلس اسکیم کی وجہ سے پاکستان کی ساری برآمدات ڈیوٹی فری قرار پائیں گی جن میں ٹیکسٹائل، چادریں، گارمنٹس، چمڑے کی اشیا ، جوتے، پلاسٹک، زرعی پیداوار اور محفوظ کیے ہوئے کھانے کی اشیا وغیرہ شامل ہیں۔
جیساکہ اوپر ذکر ہوا، یہ سارے فائدے اٹھانے کے لیے پاکستان کو اقوام متحدہ کے ستائیس معاہدوں پر عمل درآمدکرنا ہوگا اور یورپی یونین ہر دو سال بعد ان معاہدوں پر عمل درآمد کی صورت حال کا جائزہ لے گی۔عورتوں کے نقطہ نگاہ سے ان میں سب سے اہم معاہدہ عورتوں کے ساتھ ہر طرح کے امتیازکے خاتمے کا کنونشن CEDAW ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے اس معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینا سول سوسائٹی خاص طور پر عورت فاؤنڈیشن کی اولین ترجیح رہا ہے اور اس کے اراکین نے نیویارک میں سیڈا کے 38 ویں سیشن میں شرکت بھی کی تھی جس میں حکومت پاکستان نے اپنی ابتدائی، دوسری اور تیسری رپورٹ سیڈا کمیٹی کے سامنے 2007 میں پیش کی تھی، تب ہی سول سوسائٹی کی تین تنظیموں، عورت فاؤنڈیشن، شرکت گاہ اور نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس نے اس موقعے پر کمیٹی کے سامنے اپنی تحقیقات پیش کی تھیں۔
اس کے بعد کمیٹی نے حکومت پاکستان کو 2009 میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا۔ واضح رہے کہ حکومت اور این جی اوز کو اپنی رپورٹ ایک ساتھ پیش کرنی ہوتی ہے مگر حکومت پاکستان نے وعدے کے باوجود وقت پر رپورٹ پیش نہیں کی اور پھر 2011 میں اپنی رپورٹ پیش کی۔
ظاہر ہے پھر این جی اوز کی رپورٹ بھی اس سے پہلے پیش نہیں ہوسکتی تھی۔ بہرحال اس دوران میں سول سوسائٹی معلومات اور اعدادوشمار جمع کرتی رہی اور دسمبر 2013 میں اپنی متبادل رپورٹ جمع کرائی اور سیڈا کمیٹی کے 54 ویں سیشن میں شرکت کی جب کہ حکومت پاکستان نے پاکستانی عورتوں کے دن 12 فروری 2013 کوکمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی۔ جب کہ سول سوسائٹی نے حکومت کے سامنے بہت سی تجاویز پیش کیں۔
سول سوسائٹی کی رائے میں لسانی اور فرقہ وارانہ تنازعات کی وجہ سے عورتوں کے لیے عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوئی ہے، اس لیے حکومت پاکستان کو یو این کی قرارداد 1325 اور دیگر متعلقہ قراردادوں کے تحت عورتوں کے حقوق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت کو نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے جان ومال کی بھی حفاظت کرنی چاہیے اور ان کے خلاف ہونے والی مجرمانہ کارروائیوں کی روک تھام کرنی چاہیے۔ اندرون ملک اپنے گھروں سے بے دخل ہونے والوں کی آبادکاری اور بحالی کی جائے اور عورتوں کی ضروریات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے جان ومال کی حفاظت کی جائے۔ وقار نسواں کے قومی اور صوبائی کمیشنوں کی تجاویز پر چھ ماہ کے اندر اندر عمل درآمد کیا جائے۔ ان کمیشنوں کو خاطر خواہ وسائل فراہم کیے جائیں۔ تنازعات کے حل کے غیر رسمی اداروں کو ختم کیا جائے اور سارے متبادل قانونی نظاموں کو عدالتی نظام میں ضم کردیا جائے۔
بلدیاتی اداروں میں عورتوں کے لیے 33 فی صد نشستیں مخصوص کی جائیں جن پر براہ راست انتخاب ہو۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی عورتوں کا کوٹہ بڑھا کر 33 فی صدکردیا جائے۔ مخصوص نشستوں کے علاوہ براہ راست منتخب ہوکر آنے کے لیے عورتوں کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کرنے والے اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ بنیادی صحت کے یونٹ تک خواتین میڈیکولیگل آفیسرزکی رسائی کو یقینی بنایا جائے اور تشدد کا شکار خواتین کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے یعنی ایک ہی جگہ پولیس، میڈیکولیگل اور مشاورتی خدمات فراہم کی جائیں۔سیڈا اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں پر عمل کرکے ہی ہم یورپی یونین سے تجارتی فائدے اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستان کو جی ایس پی پلس کا مرتبہ یورپی یونین نے دیا ہے اور اس کی بدولت برآمدات پر عائد ہونے والی ڈیوٹی کم ہوجاتی ہے اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا آپ اسے ایک ترغیب یا تحریک کہہ سکتے ہیں۔
تاریخی طور پر جی ایس پی "Generalised System Preferences" کا مرتبہ حاصل کرنے کے لیے اہلیت کا معیار اقوام متحدہ کے ستائیس معاہدوں یا کنونشنز کا رکن ہونا اور ان پر عمل درآمدکرنا ہے۔ ان 27 میں سے 8 کنونشنز کا تعلق ماحولیاتی تحفظ، 8 کا مزدوروں کے حقوق، 7 کا انسانی حقوق، تین کا منشیات کی روک تھام اور ایک کا تعلق کرپشن یا بدعنوانی سے ہے۔ ان سارے کنونشنز کا تعلق بلاواسطہ یا بالواسطہ عورتوں سے بھی ہے۔کچھ تو براہ راست ان کی سماجی اور اقتصادی خودمختاری اور عورتوں کے خلاف امتیازکے خاتمے کی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی وزارت کے تحت ان میں سے چھ معاہدے آتے ہیں، یعنی بچوں کے حقوق کا کنونشنCRC، عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن CEDAW، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا معاہدہ (ICESCR)، شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR)اور اذیت رسانی یا ٹارچر اور سزا وتادیب کے دیگرغیرانسانی، ظالمانہ اور توہین آمیز طریقے کے خلاف کنونشن۔
پاکستان یورپی یونین کے جی ایس پی طریقے سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے یورپی یونین ہماری مصنوعات پر بیس فی صد کم ڈیوٹی عائد کرتا رہا ہے۔ اس ترجیحی سلوک کی بنیاد پر پاکستان کو یورپی یونین کی منڈی میں داخل ہونے کا موقع ملا اور ہم ایک فائدہ مند پوزیشن میں آگئے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستان دوسرا ملک ہے جسے بنگلہ دیش کے بعد یورپی یونین تک آزادانہ رسائی حاصل ہے۔ پاکستان کے اقتصادی تناظر میں پاکستان کے لیے یہ ایک نفع بخش موقع ہے کیونکہ یوں ہماری برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہو گا، سرمایہ کاری بڑھے گی، روزگارکے مواقعے پیدا ہوں گے، ادارے مضبوط ہوں گے اور پائیدار اقتصادی افزائش ہوگی۔
پاکستان کو اس سے پہلے MFN یعنی سب سے حمایت یافتہ قوم کا درجہ بھی حاصل تھا جس کی وجہ سے جراحی کے آلات، باسمتی چاول، مصالحوں، پنکھوں وغیرہ پر ڈیوٹی عاید نہیں کی جاتی تھی۔ محصولات یا ڈیوٹی کے حوالے سے خصوصی خود اختیار تجارتی ترجیحی اسکیم سے بھی پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے، لیکن اب جی ایس پی پلس اسکیم کی وجہ سے پاکستان کی ساری برآمدات ڈیوٹی فری قرار پائیں گی جن میں ٹیکسٹائل، چادریں، گارمنٹس، چمڑے کی اشیا ، جوتے، پلاسٹک، زرعی پیداوار اور محفوظ کیے ہوئے کھانے کی اشیا وغیرہ شامل ہیں۔
جیساکہ اوپر ذکر ہوا، یہ سارے فائدے اٹھانے کے لیے پاکستان کو اقوام متحدہ کے ستائیس معاہدوں پر عمل درآمدکرنا ہوگا اور یورپی یونین ہر دو سال بعد ان معاہدوں پر عمل درآمد کی صورت حال کا جائزہ لے گی۔عورتوں کے نقطہ نگاہ سے ان میں سب سے اہم معاہدہ عورتوں کے ساتھ ہر طرح کے امتیازکے خاتمے کا کنونشن CEDAW ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے اس معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینا سول سوسائٹی خاص طور پر عورت فاؤنڈیشن کی اولین ترجیح رہا ہے اور اس کے اراکین نے نیویارک میں سیڈا کے 38 ویں سیشن میں شرکت بھی کی تھی جس میں حکومت پاکستان نے اپنی ابتدائی، دوسری اور تیسری رپورٹ سیڈا کمیٹی کے سامنے 2007 میں پیش کی تھی، تب ہی سول سوسائٹی کی تین تنظیموں، عورت فاؤنڈیشن، شرکت گاہ اور نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس نے اس موقعے پر کمیٹی کے سامنے اپنی تحقیقات پیش کی تھیں۔
اس کے بعد کمیٹی نے حکومت پاکستان کو 2009 میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا۔ واضح رہے کہ حکومت اور این جی اوز کو اپنی رپورٹ ایک ساتھ پیش کرنی ہوتی ہے مگر حکومت پاکستان نے وعدے کے باوجود وقت پر رپورٹ پیش نہیں کی اور پھر 2011 میں اپنی رپورٹ پیش کی۔
ظاہر ہے پھر این جی اوز کی رپورٹ بھی اس سے پہلے پیش نہیں ہوسکتی تھی۔ بہرحال اس دوران میں سول سوسائٹی معلومات اور اعدادوشمار جمع کرتی رہی اور دسمبر 2013 میں اپنی متبادل رپورٹ جمع کرائی اور سیڈا کمیٹی کے 54 ویں سیشن میں شرکت کی جب کہ حکومت پاکستان نے پاکستانی عورتوں کے دن 12 فروری 2013 کوکمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی۔ جب کہ سول سوسائٹی نے حکومت کے سامنے بہت سی تجاویز پیش کیں۔
سول سوسائٹی کی رائے میں لسانی اور فرقہ وارانہ تنازعات کی وجہ سے عورتوں کے لیے عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوئی ہے، اس لیے حکومت پاکستان کو یو این کی قرارداد 1325 اور دیگر متعلقہ قراردادوں کے تحت عورتوں کے حقوق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت کو نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے جان ومال کی بھی حفاظت کرنی چاہیے اور ان کے خلاف ہونے والی مجرمانہ کارروائیوں کی روک تھام کرنی چاہیے۔ اندرون ملک اپنے گھروں سے بے دخل ہونے والوں کی آبادکاری اور بحالی کی جائے اور عورتوں کی ضروریات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے جان ومال کی حفاظت کی جائے۔ وقار نسواں کے قومی اور صوبائی کمیشنوں کی تجاویز پر چھ ماہ کے اندر اندر عمل درآمد کیا جائے۔ ان کمیشنوں کو خاطر خواہ وسائل فراہم کیے جائیں۔ تنازعات کے حل کے غیر رسمی اداروں کو ختم کیا جائے اور سارے متبادل قانونی نظاموں کو عدالتی نظام میں ضم کردیا جائے۔
بلدیاتی اداروں میں عورتوں کے لیے 33 فی صد نشستیں مخصوص کی جائیں جن پر براہ راست انتخاب ہو۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی عورتوں کا کوٹہ بڑھا کر 33 فی صدکردیا جائے۔ مخصوص نشستوں کے علاوہ براہ راست منتخب ہوکر آنے کے لیے عورتوں کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کرنے والے اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ بنیادی صحت کے یونٹ تک خواتین میڈیکولیگل آفیسرزکی رسائی کو یقینی بنایا جائے اور تشدد کا شکار خواتین کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے یعنی ایک ہی جگہ پولیس، میڈیکولیگل اور مشاورتی خدمات فراہم کی جائیں۔سیڈا اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں پر عمل کرکے ہی ہم یورپی یونین سے تجارتی فائدے اٹھا سکتے ہیں۔