پاکستان اسٹیل کوبحالی کیلیے 30ارب روپے درکار
پاکستان اسٹیل کی بحالی اور ترقی کے لیے 25 اپریل2014 کو 18 ارب50 کروڑ روپے منظور کیے گئے تھے
پاکستان اسٹیل کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے منظور شدہ مالیاتی پیکیج کے برعکس چھوٹی چھوٹی قسطیں جاری کرنے کے باعث مطلوبہ پیداواری اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔
پاکستان اسٹیل کی بحالی اور ترقی کے لیے 25 اپریل2014 کو 18 ارب50 کروڑ روپے منظور کیے گئے تھے، اس کے مطابق 12 ارب50 کروڑ روپے کی پہلی قسط مئی 2014 کے پہلے ہفتے میں ملنا تھی لیکن تاخیر سے 22 مئی کو صرف 4 ارب 20 کروڑ روپے جاری کیے گئے جس میں ملازمین کو 3 ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کرنا تھی لیکن پہلی خام لوہا درآمد کرنے کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
اگست2014 میں مالیاتی پیکیج کی جو قسط ملی اس سے لیٹر آف کریڈٹ کھولا گیا جبکہ مالیاتی پیکیج کے تحت جولائی 2014 سے پیداواری ہدف 20 فیصد مقرر کردیا گیا تھا اور خام لوہا ستمبر2014 کے آخری دنوں میں درآمد کیا جاسکا یعنی مالیاتی پیکیج کے4 ماہ بعد خام لوہے کی درآمد کو بحال کیا جاسکا۔
اقتصادی و معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لحاظ سے پاکستان اسٹیل کے 20 فیصد پیداواری ہدف کا شمار جولائی کے بجائے اکتوبر 2014 سے شروع ہونا چاہیے تھا، اس مشکل ترین صورتحال کے باوجود پاکستان اسٹیل کے انجینئرز اور ہنرمندوں نے اکتوبر2014 سے پیداوارمیں اضافہ شروع کردیا، جنوری 2015 میں50 فیصد پیداوار حاصل کی جارہی تھی کہ 7 جنوری کو گیس پریشر میں کمی کردی گئی۔
12مارچ2015 کو 65 فیصد پیداوار حاصل کرنے میں پاکستان اسٹیل کامیاب ہوئی تو گیس پریشر کم کردیا گیا، 10 جون 2015 کو گیس پریشر میں انتہائی کمی کردی گئی اوراب پریشر میں اس انتہائی کمی کو 7 ماہ بیت چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اسٹیل کے 20 سے زائد مربوط پیداواری کارخانوں کی پیداوار رکی ہوئی ہے جس سے پیداوار میں ماہانہ تقریباً 2 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اسٹیل کے اہم ترین کارخانوں بلاسٹ فرنس، اسٹیل میکنگ ڈپارٹمنٹ، کوک اوون بیٹریز پلانٹ اور تھرمل پاور پلانٹ کے علاوہ دیگر پیداواری کارخانوں کی مشینری و آلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس کا علیحدہ نقصان اربوں روپے میں ہوگا، صورتحال برقرار رہی تو ان کارخانوں کی ریپیئر اینڈ مینٹی نینس کے لیے 3 سے4 سال لیں گے اور10 سے 15 ارب روپے اخراجات آئیں گے۔
ماہرین کے مطابق آج گیس بحال کرنے پر بھی پیداوار شروع کرنے کے لیے 2 سے3 ماہ درکار ہوں گے،پاکستان اسٹیل کو نجی مالکان کے حوالے کرنے کی بجائے پبلک سیکٹر میں رہتے ہوئے 30 ارب روپے بطور قرض یا ایکویٹی کی بنیاد پر پاکستان اسٹیل کو یکمشت رقم فراہم کردی جائے تو 3 برس میں پاکستان اسٹیل کو نہ صرف اَپ گریڈیشن کے مرحلے سے گزار کر 11 لاکھ میٹرک ٹن سے15 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ پیداواری گنجائش کا حامل ادارہ بنانا ہی دوررس اور بہترین فیصلہ ہوگا۔
پاکستان اسٹیل کی بحالی اور ترقی کے لیے 25 اپریل2014 کو 18 ارب50 کروڑ روپے منظور کیے گئے تھے، اس کے مطابق 12 ارب50 کروڑ روپے کی پہلی قسط مئی 2014 کے پہلے ہفتے میں ملنا تھی لیکن تاخیر سے 22 مئی کو صرف 4 ارب 20 کروڑ روپے جاری کیے گئے جس میں ملازمین کو 3 ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کرنا تھی لیکن پہلی خام لوہا درآمد کرنے کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
اگست2014 میں مالیاتی پیکیج کی جو قسط ملی اس سے لیٹر آف کریڈٹ کھولا گیا جبکہ مالیاتی پیکیج کے تحت جولائی 2014 سے پیداواری ہدف 20 فیصد مقرر کردیا گیا تھا اور خام لوہا ستمبر2014 کے آخری دنوں میں درآمد کیا جاسکا یعنی مالیاتی پیکیج کے4 ماہ بعد خام لوہے کی درآمد کو بحال کیا جاسکا۔
اقتصادی و معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لحاظ سے پاکستان اسٹیل کے 20 فیصد پیداواری ہدف کا شمار جولائی کے بجائے اکتوبر 2014 سے شروع ہونا چاہیے تھا، اس مشکل ترین صورتحال کے باوجود پاکستان اسٹیل کے انجینئرز اور ہنرمندوں نے اکتوبر2014 سے پیداوارمیں اضافہ شروع کردیا، جنوری 2015 میں50 فیصد پیداوار حاصل کی جارہی تھی کہ 7 جنوری کو گیس پریشر میں کمی کردی گئی۔
12مارچ2015 کو 65 فیصد پیداوار حاصل کرنے میں پاکستان اسٹیل کامیاب ہوئی تو گیس پریشر کم کردیا گیا، 10 جون 2015 کو گیس پریشر میں انتہائی کمی کردی گئی اوراب پریشر میں اس انتہائی کمی کو 7 ماہ بیت چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اسٹیل کے 20 سے زائد مربوط پیداواری کارخانوں کی پیداوار رکی ہوئی ہے جس سے پیداوار میں ماہانہ تقریباً 2 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اسٹیل کے اہم ترین کارخانوں بلاسٹ فرنس، اسٹیل میکنگ ڈپارٹمنٹ، کوک اوون بیٹریز پلانٹ اور تھرمل پاور پلانٹ کے علاوہ دیگر پیداواری کارخانوں کی مشینری و آلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس کا علیحدہ نقصان اربوں روپے میں ہوگا، صورتحال برقرار رہی تو ان کارخانوں کی ریپیئر اینڈ مینٹی نینس کے لیے 3 سے4 سال لیں گے اور10 سے 15 ارب روپے اخراجات آئیں گے۔
ماہرین کے مطابق آج گیس بحال کرنے پر بھی پیداوار شروع کرنے کے لیے 2 سے3 ماہ درکار ہوں گے،پاکستان اسٹیل کو نجی مالکان کے حوالے کرنے کی بجائے پبلک سیکٹر میں رہتے ہوئے 30 ارب روپے بطور قرض یا ایکویٹی کی بنیاد پر پاکستان اسٹیل کو یکمشت رقم فراہم کردی جائے تو 3 برس میں پاکستان اسٹیل کو نہ صرف اَپ گریڈیشن کے مرحلے سے گزار کر 11 لاکھ میٹرک ٹن سے15 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ پیداواری گنجائش کا حامل ادارہ بنانا ہی دوررس اور بہترین فیصلہ ہوگا۔