کھوئے ہوئے گدھے
آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے ایک دو ایسے مزید ریلیف عوام کو مل جائیں۔
سی این جی کی قیمت میں ریلیف حکومت بھی دے سکتی تھی لیکن وہ کیوں دیتی ، اسے تو بدنامیاں جمع کرنے کا شوق ہے۔
سی این جی کی قیمت میں کمی کا فیصلہ عدالت سے آیا اور حکومت نے اس پر عمل کر دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا فیصلہ نافذ کرنا ناممکن نہیں تھا خود فیصلہ کرنے کی صورت میں حکومت یہ دعویٰ کرسکتی تھی کہ اس نے عوام کو ریلیف دے دیا ہے۔ بہرحال اس نے فیصلے پر عمل کیا اور رکاوٹ بننے والی کمپنیوں کو لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی دے کر سیدھے راستے پر بھی ڈال دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ چاہے بھی تو کریڈٹ نہیں لے سکتی۔ کیونکہ عوام کے نزدیک یہ ریلیف تو عدالت نے دلوایا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ سی این جی کی قیمت میں 30 روپے کمی کی خبر عوام پر '' بجلی'' بن کر گری۔ بجلی بن کر گرنے کا محاورہ ہر اس خبر کیلیے استعمال ہوسکتا ہے جو لوگوں کے ہوش اڑا دے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں قیمتیں صرف چڑھنا جانتی ہوں، اترنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو اور انھیں ایک جگہ ٹھہرانا بھی ممکن نہ ہو، وہاں ایک دن اچانک یہ خبر آ جائے کہ سی این جی کی قیمت میں ایک نہیں، دو نہیں، پانچ نہیں، پورے تیس روپے کی کمی ہوگئی ہے تو عوا م کے ہوش نہ اڑیں تو اور کیا ہوگا۔
یہی ہوا، میں زیادہ نہیں لیکن چار پانچ واقف کاروں کے نام بتاسکتا ہوں جنھوں نے مجھے '' معتبر ذرائع'' سمجھ کر فون پر ایک نہیں، بار بار پوچھا کہ کیا واقعی سی این جی سستی ہو جائے گی؟ ایسا نہیں تھا کہ انھیں عدالتی فیصلے کی خبر پر شک تھا۔انھیں اس بات پر شک تھا کہ کیا اس فیصلے پر عمل ہوگا ۔ اس بے یقینی کی ایک وجہ تو ہمارے ملک کا مہنگائی کلچر ہے اور دوسری وجہ چند برس پہلے کا وہ عدالتی فیصلہ ہے جس میں چینی کی قیمت کم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
لیکن نتیجے کے طور پر چینی اور بھی مہنگی ہوگئی تھی۔ میں '' معتبر ذرائع'' ضرور ہوسکتاہوں لیکن اتنا بھی نہیں کہ غیب کی بات بتاسکوں۔ چنانچہ ہر فون پر یہی کہتا رہا کہ دیکھو کیا ہوتا ہے اور جو ہوا وہ خود میرے لیے بھی ناقابل یقین تھا۔ میرا خیال تھا کہ سی این جی بیچنے والے اداروں کے دبائو پر حکومت ڈھیر ہو جائے گی اور قیمت جوں کی توں رہے گی لیکن لگتا ہے ، حکومت اپنے آخری ہفتوں میں '' نڈر'' ہوگئی ہے۔ اس کی دو ٹوک دھمکی پر سی این جی کی فروخت سے انکاری پمپ مالکان نے اقرار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ یاد نہیں آ رہا کہ اس سے پہلے حکومت نے کبھی اپنی '' رٹ'' اس مضبوطی سے قائم کرنے کی کوشش کی ہو اور وہ کامیاب بھی ہوگئی ہو۔
سی این جی عوام کی معاشی زندگی پر براہ راست بھی اثر انداز ہوتی ہے اور بالواسطہ بھی۔ جو لوگ خود سی این جی استعمال کرتے ہیں، انھیں قیمت میں کمی کا براہ راست فائدہ ہوا اور جو لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں، انھیں بالواسطہ رعایت ملی۔ اس دور میں کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کام کاج کے عوض ملنے والی اجرت عملاً کم ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر لاہور کے مشرق سے کوئی مزدور یا ملازم لاہور کے مغرب کے کسی ادارے میں مزدوری یا نوکری کرتا ہے تو اسے بسیں اور ویگنیں بدل بدل کر آنا پڑتا ہے اور عمومی طور پر اسے ہر روز سو روپے یا اس سے بھی زیادہ کرایہ دینا پڑتا ہے۔
گویا مہینے کے تین ہزار۔ اب کم اجرت والے مزدوروں اور ملازموں کی ماہانہ تنخواہ اگر 8 ہزار روپے ہے تو وہ کرایہ کاٹنے کے بعد پانچ ہزار رہ جاتی ہے اور اگر بارہ ہزار ہے تو نو ہزار رہ جاتی ہے۔ تین چار سال پہلے صورتحال یہ تھی کہ آٹھ ہزار روپے تنخواہ لینے والوں کو ٹرانسپورٹ کی مد میں ماہانہ پانچ چھ سو روپے خرچ کرنا ہوتے تھے۔
اتفاق سے زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی استعمال کرتی ہے جس کے نتیجے میں فی الحال دو صوبوں نے کرایوں میں 30 فیصد کمی کر دی ہے۔ غریب آدمی کیلیے یہ کمی اتنی اہمیت رکھتی ہے ، یہ اسی سے پوچھ کر دیکھیے۔ یہ الگ بات ہے کہ غریبوں کو ملنے والا ریلیف روایتی کمہار کا قصہ یاد دلاتا ہے جو اپنی غربت پر بہت دکھی تھا اور دعا مانگتا تھا کہ اے خدا، مجھے بھی خوشی دکھا۔ سو اسے یہ خوشی انوکھے انداز میں ملی۔ ایک دن اس کا گدھا کھو گیا جو اس کی کل کائنات تھا۔ کمہاراتنا دکھی ہوا کہ زندگی سے مایوس ہوگیا اور باولا ہو کر گلیوں میں گھومنے لگا۔
تین چار دن بعد اس نے دیکھا کہ اسکی کھوئی ہوئی کائنات گلی کے موڑ پر سر جھکائے کھڑی ہے۔ یہ منظر گویا کمہار پر '' بجلی'' بن کر گرا۔ پہلے تو اسے یقین ہی نہ آیا، آنکھیں بار بار ملیں تو یقین آیا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے نہ خواب، سچ مچ اسی کا گدھا ہے۔ اب اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ زندگی مسکرا اٹھی، ہر طرف بہار آگئی، خدا نے اس کی دعا سن لی اور اسے خوشی دکھا دی۔ ٹرانسپورٹ کی مد میں عوام کو ملنے والا یہ ریلیف بھی ایسی ہی خوشی ہے۔ اس کے باوجود عوام کو حکومت یا سی این جی مالکان کا احسان مند ہونا چاہیے جنھوں نے پہلے قیمت بڑھائی پھر سپریم کورٹ کے کہنے پر کم کر دی اور اس طرح عوام پر خوشی کی بجلی گرا دی۔
آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے ایک دو ایسے مزید ریلیف عوام کو مل جائیں۔ حکومت چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا۔ بجلی اتنی مہنگی ہے اور حکومت نے بھی ایسی خبروں کی تردید نہیں کی جن میں بتایا جاتا ہے کہ وہ زائد بلنگ کر رہی ہے اور اسی طرح ڈیزل اور پٹرول کا معاملہ ہے جن کے بارے میں خبریں ہیں کہ 25، 20 روپے یا اس سے بھی زیادہ کی رقم فی لیٹر اضافی وصول کی جا رہی ہے۔ حکومت چاہے تو بجلی ، ڈیزل دونوں مدوں میں عوام پر دس دس روپے کمی کی دومزید بجلیاں گراسکتی ہے۔ عوام اپنے کھوئے ہوئے گدھے پا کر جہاں خدا کا شکر کریں گے وہاں حکومت کیلیے بھی دعا کریں گے اور الیکشن نزدیک ہیں، اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ عوام اپنی دعائوں کو ووٹ بنا کر حکومتی جماعت کے ڈبوں میں بھی ڈال دیں۔
حکومت ساڑھے چار برسوں میں وہ کچھ نہیں کرسکی جو وہ کرسکتی تھی۔ '' کیوں'' کی بحث میں جائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند ایک ہفتوں میں وہ بہت کچھ تو نہیں، کچھ نہ کچھ تو کر ہی سکتی ہے کہ جن کی وجہ سے عوام کو ان کے کھوئے ہوئے کچھ اور گدھے مل جائیں۔
یقین کیجیے ، یہ کھوئے ہوئے گدھے انتخابات کے دن حکومت کے لیے شاہی سواری بن سکتے ہیں۔
سی این جی کی قیمت میں کمی کا فیصلہ عدالت سے آیا اور حکومت نے اس پر عمل کر دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا فیصلہ نافذ کرنا ناممکن نہیں تھا خود فیصلہ کرنے کی صورت میں حکومت یہ دعویٰ کرسکتی تھی کہ اس نے عوام کو ریلیف دے دیا ہے۔ بہرحال اس نے فیصلے پر عمل کیا اور رکاوٹ بننے والی کمپنیوں کو لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی دے کر سیدھے راستے پر بھی ڈال دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ چاہے بھی تو کریڈٹ نہیں لے سکتی۔ کیونکہ عوام کے نزدیک یہ ریلیف تو عدالت نے دلوایا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ سی این جی کی قیمت میں 30 روپے کمی کی خبر عوام پر '' بجلی'' بن کر گری۔ بجلی بن کر گرنے کا محاورہ ہر اس خبر کیلیے استعمال ہوسکتا ہے جو لوگوں کے ہوش اڑا دے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں قیمتیں صرف چڑھنا جانتی ہوں، اترنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو اور انھیں ایک جگہ ٹھہرانا بھی ممکن نہ ہو، وہاں ایک دن اچانک یہ خبر آ جائے کہ سی این جی کی قیمت میں ایک نہیں، دو نہیں، پانچ نہیں، پورے تیس روپے کی کمی ہوگئی ہے تو عوا م کے ہوش نہ اڑیں تو اور کیا ہوگا۔
یہی ہوا، میں زیادہ نہیں لیکن چار پانچ واقف کاروں کے نام بتاسکتا ہوں جنھوں نے مجھے '' معتبر ذرائع'' سمجھ کر فون پر ایک نہیں، بار بار پوچھا کہ کیا واقعی سی این جی سستی ہو جائے گی؟ ایسا نہیں تھا کہ انھیں عدالتی فیصلے کی خبر پر شک تھا۔انھیں اس بات پر شک تھا کہ کیا اس فیصلے پر عمل ہوگا ۔ اس بے یقینی کی ایک وجہ تو ہمارے ملک کا مہنگائی کلچر ہے اور دوسری وجہ چند برس پہلے کا وہ عدالتی فیصلہ ہے جس میں چینی کی قیمت کم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
لیکن نتیجے کے طور پر چینی اور بھی مہنگی ہوگئی تھی۔ میں '' معتبر ذرائع'' ضرور ہوسکتاہوں لیکن اتنا بھی نہیں کہ غیب کی بات بتاسکوں۔ چنانچہ ہر فون پر یہی کہتا رہا کہ دیکھو کیا ہوتا ہے اور جو ہوا وہ خود میرے لیے بھی ناقابل یقین تھا۔ میرا خیال تھا کہ سی این جی بیچنے والے اداروں کے دبائو پر حکومت ڈھیر ہو جائے گی اور قیمت جوں کی توں رہے گی لیکن لگتا ہے ، حکومت اپنے آخری ہفتوں میں '' نڈر'' ہوگئی ہے۔ اس کی دو ٹوک دھمکی پر سی این جی کی فروخت سے انکاری پمپ مالکان نے اقرار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ یاد نہیں آ رہا کہ اس سے پہلے حکومت نے کبھی اپنی '' رٹ'' اس مضبوطی سے قائم کرنے کی کوشش کی ہو اور وہ کامیاب بھی ہوگئی ہو۔
سی این جی عوام کی معاشی زندگی پر براہ راست بھی اثر انداز ہوتی ہے اور بالواسطہ بھی۔ جو لوگ خود سی این جی استعمال کرتے ہیں، انھیں قیمت میں کمی کا براہ راست فائدہ ہوا اور جو لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں، انھیں بالواسطہ رعایت ملی۔ اس دور میں کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کام کاج کے عوض ملنے والی اجرت عملاً کم ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر لاہور کے مشرق سے کوئی مزدور یا ملازم لاہور کے مغرب کے کسی ادارے میں مزدوری یا نوکری کرتا ہے تو اسے بسیں اور ویگنیں بدل بدل کر آنا پڑتا ہے اور عمومی طور پر اسے ہر روز سو روپے یا اس سے بھی زیادہ کرایہ دینا پڑتا ہے۔
گویا مہینے کے تین ہزار۔ اب کم اجرت والے مزدوروں اور ملازموں کی ماہانہ تنخواہ اگر 8 ہزار روپے ہے تو وہ کرایہ کاٹنے کے بعد پانچ ہزار رہ جاتی ہے اور اگر بارہ ہزار ہے تو نو ہزار رہ جاتی ہے۔ تین چار سال پہلے صورتحال یہ تھی کہ آٹھ ہزار روپے تنخواہ لینے والوں کو ٹرانسپورٹ کی مد میں ماہانہ پانچ چھ سو روپے خرچ کرنا ہوتے تھے۔
اتفاق سے زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی استعمال کرتی ہے جس کے نتیجے میں فی الحال دو صوبوں نے کرایوں میں 30 فیصد کمی کر دی ہے۔ غریب آدمی کیلیے یہ کمی اتنی اہمیت رکھتی ہے ، یہ اسی سے پوچھ کر دیکھیے۔ یہ الگ بات ہے کہ غریبوں کو ملنے والا ریلیف روایتی کمہار کا قصہ یاد دلاتا ہے جو اپنی غربت پر بہت دکھی تھا اور دعا مانگتا تھا کہ اے خدا، مجھے بھی خوشی دکھا۔ سو اسے یہ خوشی انوکھے انداز میں ملی۔ ایک دن اس کا گدھا کھو گیا جو اس کی کل کائنات تھا۔ کمہاراتنا دکھی ہوا کہ زندگی سے مایوس ہوگیا اور باولا ہو کر گلیوں میں گھومنے لگا۔
تین چار دن بعد اس نے دیکھا کہ اسکی کھوئی ہوئی کائنات گلی کے موڑ پر سر جھکائے کھڑی ہے۔ یہ منظر گویا کمہار پر '' بجلی'' بن کر گرا۔ پہلے تو اسے یقین ہی نہ آیا، آنکھیں بار بار ملیں تو یقین آیا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے نہ خواب، سچ مچ اسی کا گدھا ہے۔ اب اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ زندگی مسکرا اٹھی، ہر طرف بہار آگئی، خدا نے اس کی دعا سن لی اور اسے خوشی دکھا دی۔ ٹرانسپورٹ کی مد میں عوام کو ملنے والا یہ ریلیف بھی ایسی ہی خوشی ہے۔ اس کے باوجود عوام کو حکومت یا سی این جی مالکان کا احسان مند ہونا چاہیے جنھوں نے پہلے قیمت بڑھائی پھر سپریم کورٹ کے کہنے پر کم کر دی اور اس طرح عوام پر خوشی کی بجلی گرا دی۔
آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے ایک دو ایسے مزید ریلیف عوام کو مل جائیں۔ حکومت چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا۔ بجلی اتنی مہنگی ہے اور حکومت نے بھی ایسی خبروں کی تردید نہیں کی جن میں بتایا جاتا ہے کہ وہ زائد بلنگ کر رہی ہے اور اسی طرح ڈیزل اور پٹرول کا معاملہ ہے جن کے بارے میں خبریں ہیں کہ 25، 20 روپے یا اس سے بھی زیادہ کی رقم فی لیٹر اضافی وصول کی جا رہی ہے۔ حکومت چاہے تو بجلی ، ڈیزل دونوں مدوں میں عوام پر دس دس روپے کمی کی دومزید بجلیاں گراسکتی ہے۔ عوام اپنے کھوئے ہوئے گدھے پا کر جہاں خدا کا شکر کریں گے وہاں حکومت کیلیے بھی دعا کریں گے اور الیکشن نزدیک ہیں، اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ عوام اپنی دعائوں کو ووٹ بنا کر حکومتی جماعت کے ڈبوں میں بھی ڈال دیں۔
حکومت ساڑھے چار برسوں میں وہ کچھ نہیں کرسکی جو وہ کرسکتی تھی۔ '' کیوں'' کی بحث میں جائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند ایک ہفتوں میں وہ بہت کچھ تو نہیں، کچھ نہ کچھ تو کر ہی سکتی ہے کہ جن کی وجہ سے عوام کو ان کے کھوئے ہوئے کچھ اور گدھے مل جائیں۔
یقین کیجیے ، یہ کھوئے ہوئے گدھے انتخابات کے دن حکومت کے لیے شاہی سواری بن سکتے ہیں۔