ہندوستان فتح کرنے والے انگریزوں کا دیس
اسکاٹ لینڈصدیوں سے علم و دانش، کلچر، تجارت اورجہاز سازی کا مرکزرہا ہے
اسکاٹ لینڈصدیوں سے علم و دانش، کلچر، تجارت اورجہاز سازی کا مرکزرہا ہے، یہاں کے باشندے پر خلوص، گرمجوش، مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ شجاعت اور بہادری میں بھی پورے یورپ میں بے مثال سمجھے جاتے ہیں۔
برٹش کونسل کی اعلیٰ پائے کی مُنتظم مسز نشاط ریاض چونکہ فنّی ترقّی (skill development) میں اسکاٹ لینڈ کی کامیابیوں سے آگاہ تھیں اس لیے انھوں نے پاکستانی وفد کے پروگرام میں اسکاٹ لینڈ بھی شامل کر رکھا تھا اور ایک پورا دن (سوموار) اسکاٹ لینڈ کے سکل ڈویلپمنٹ کے ادارے کے وزٹ کے لیے مخصوص تھا۔ ہم ہفتے کی شام کو ہی گلاسگو پہنچ گئے اور اس کے مشہور تاریخی سینٹرل رائل ہوٹل میں ڈیرے ڈال دیے ۔
داخل ہوتے ہی دیوار پر لگے ہوئے کتبے پر نظر پڑی تو لکھا تھا 'برطانیہ میں ٹیلیویژن کی نشریات سب سے پہلے اسی ہوٹل میں دیکھی اور سنی گئیں'۔ یہ پڑھکر ایک ساتھی نے تاریخ کے مزید اوراق کھولنا شروع کیے اوربتایا کہ بہت سی اہم چیزیں یہاں کے باشندوں نے ایجاد کیں مثلاً ریڈیو، بجلی کا بلب، ریلوے انجن، ٹیلیویژن پھر کچھ اور تاریخی حقائق سے نوازا جانے لگا۔ یہ بھی وہیں معلوم ہوا کہ برِّصغیر پر انگریز وں کے قبضے کی بنیاد رکھنے اور راہ ہموار کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی یہیں قائم ہوئی تھی۔
اسکاٹش چونکہ بہادر اور جنگجو بھی ہیں اسلیے ھندوستان کے اہم اور مشکل ترین معرکوں میں انھیں بھیجا جاتا تھا۔ ھندوستان آکر مقامی حکمرانوں سے بزورِ شمشیر ان کی ریاستیں چھین کر برطانیہ کے زیر نگیں کرنے کا زیادہ کریڈٹ اسکاٹ لینڈ کے جنگجوؤں کو جاتا ہے۔ ہمارے ہوٹل کا ایک دروازہ مرکزی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھُلتا تھا اسلیے مسافروں کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہوٹل کے کمروں کے سامنے گیلری اس قدر چوڑی تھی کہ بقولِ قاسم شاہ وہاںپرآسانی سے کبڈی کھیلی جاسکتی تھی۔
گلاسگو کے برفیلے موسم سے سب نے ڈرا رکھا تھا اس لیے روس سے خریدی ہوئی انتہائی گرم ٹوپی پہن کر ہوٹل سے باہر نکلا تو ہر چیز اندازے اور تصّور سے مختلف نکلی ۔ سردی نہیںتھی، میٹھی میٹھی پھوار تھی اورچاروں طرف حسن کی بہار تھی۔ موسم، لوگ اور شہر سب کچھ اتنا مسحورکُن تھا کہ دیکھنے والا مبہوت ہوجائے ۔ بلا شبہ اسکاٹ لینڈانگلستان کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے۔
صنعتی انقلاب نے اسکاٹ لینڈ کو تجارت، صنعت اور علم و دانش کا پاورہاؤس بنادیا، یہاں تک کہ معروف فرانسیسی مفکّر وولٹیئر کو کہنا پڑا کہ "we look to scotland for all our ideas of civilization" (انسانی تہذیب کے متعلق اپنے تمام نظریات کے سلسلے میں ہم رہنمائی کے لیے اسکاٹ لینڈ کی طرف دیکھتے ہیں)۔
گلاسگو کامطلب سبزوادی ہے، اس سرسبز اور خوبصورت وادی میں آنے اور جانے کے لیے تین انٹر نیشنل ائرپورٹ ہیں اورشہر میں سولہ کلومیٹر کے اندر چار بین الاقوامی معیا ر کی یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں 1800 میں دنیا کی پہلی میونسپل پولیس فورس قائم ہوگئی تھی۔
گلاسگو میں پاکستانی قونصل جنرل احسن رضا شاہ کو ہماری آمد کی اطلاع مل چکی تھی لہٰذا انھوں نے قونصلیٹ میں ہی کچھ منتخب پاکستانیوں کو اکٹھا کیا اور نومبر (جوکہ مفکّرِ پاکستان علامہ اقبالؒ کی سالگرہ کا مہینہ ہے) کے حوالے سے راقم کو "پاکستان کی موجودہ صورتِ حال اور علامہ اقبالؒ کا پیغام" کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ سامعین ، قدیم و جدید فلسفوں اور علوم پر عبور رکھنے والے شاعرِ بے مثل کے ایک ایک شعر کی تازگی اور تاثیر سے محظوظ ہوتے رہے۔
سوال و جواب کی نشست بھی خاصی طویل رہی۔ چائے پر بھی پاکستانی خواتین و حضرات سے گپ شپ اور تبادلہء خیال ہوتا رہا۔ وہیں پاکستان سے تعلق رکھنے والی برٹش پارلیمنٹ کی ممبر تسمینہ شیخ اور ان کے شوہر سے بھی ملاقات ہوئی۔ سامعین نے علامہ اقبالؒ کے یومِ پیدائش کی چھٹی ختم کرنے پر دکھ کا اظہار کیا اور اکثریت نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو پاکستان کی سیاست کی بجائے برطانیہ کی سیاست میں حصّہ لینا چاہیے اور پاکستانی کمیونیٹی کے اندر نفاق پیدا کرنے والی کسی سرگرمی کا حصّہ نہیں بنناچاہیے۔
کچھ سامعین نے سوال و جواب کے دوران کہا کہ ''کچھ پاکستانی کرکٹرز کی حرکتوں کی وجہ سے یہاں برطانیہ میں پوری پاکستانی کمیونٹی بے عزّت ہوئی اور ہمیں لوگوں کے طعنے سہنے پڑے مگر جب وہ مجرم یہاں سے جیلیں کاٹ کر پاکستان گئے تو آپ نے پھر انھیں گلے لگا لیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا پوری قوم کا سرجھکانے والوں کو پھر سے سرپر بٹھا لینا جائز تھا''؟ سوال بالکل درست تھے اور مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ کرکٹ بورڈ کی میجر سرجری کی ضرورت ہے اور وہاں فیصلہ سازی کا اختیار اُن لوگوں کے پاس ہونا چاہیے جنھیں پیسوں سے زیادہ ملک کی عزّت عزیز ہو۔
محفل میں زیادہ تر پڑھے لکھے اور خوشحال افراد تھے جس سے بھی بات کی اس کے دل میں ملک کے لیے محبت اور درد کا بے پناہ جذبہ محسوس ہوا۔ وہیں،اسکاٹ لینڈ میں چالیس سال سے مقیم دانشور اور صحافی طاہر انعام شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی تو ملتے ہی کہنے لگے '' آپ سے ملنے کابڑا شوق تھا، ہم تو پاکستان آکر آپ سے ملنے کا پروگرام بنارہے تھے'' میں نے کہا میں خو دآپ سے ملنے اسکاٹ لینڈ حاضر ہوگیا ہوں، طاہر انعام کے علاوہ سیدھی سپاہیانہ سوچ رکھنے والے میجر ماجد، اقبالؒ کے شیدائی ڈاکٹر گِل صاحب اور ُشستہ اطوارنوجوان شہریار سے مل کر اور تقوّیت ہوئی۔
انھوں نے تقاضا کیا کہ ''قونصلیٹ کی تقریب سے پوری طرح 'تشفی ' نہیں ہوئی لہٰذا بہت سے دوست آپ کے ساتھ ایک اور نشست رکھنا چاہتے ہیں''۔ پروگرام کے مطابق جب ہم سکل ڈویلپمنٹ کی تمام بریفنگز سے فارغ ہوئے تو میجر ماجد اور طاہر شیخ صاحب ہمیں لینے آگئے اور مختصر وقت میں اہم مقامات کی میجر صاحب نے انتہائی جنگی بنیادوں پر سیر کرائی۔ سب سے پہلے وہ ہمیں شہر سے باہر تازہ پانی کی جھیل لاک لیمنڈ(Loch Lomone) دکھانے لے گئے یہ خوبصورت جھیل 24میل لمبی اور 5میل چوڑی ہے اور اسکا پانی نہایت شفاف ہے۔
اسی جھیل پر ایک خوبصورت اور تاریخی ہوٹل ہے جس میں (امریکی صدر اور پاکستانی وزیرِاعظم بے نظیر سمیت) دنیا کے تمام مشاہیر قیام پذیر رہے ہیں، انتہائی روح پرور نظارہ دیکھ کر ہمارا دل بھی ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے مچل اُٹھا مگر کرایہ معلوم کیا تو اُلٹے پاؤں بھاگنا پڑا۔ مشہور ہے کہ اس جھیل میں کوئی افسانوی بلا رہتی ہے جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی شوقین مزاج لوگ اپنے کیمروں کے ساتھ یہاں پوری پوری رات گزار دیتے ہیں، اس کے علاوہ دریائے کلائیڈ کے کنارے نئے تعمیر کردہ گلاسگو ٹاور اور سائینس میوزیم دیکھے ، یہیں پر Bell Bridgeہے۔ جب کوئی بڑا جہاز آتا ہے تو یہ پُل درمیان میں سے گھوم کر دوسری طرف چلا جاتا ہے اور جہاز آسانی سے گزر جاتا ہے۔
واپسی پر گلاسگو یونیورسٹی کی قدیم عمارت دیکھنے گئے جوگوتھک فنِ تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ یہ یونیورسٹی 1451 میں بنی تھی، برّ صغیر سے میڈیکل کے طلباء وطالبات پوسٹ گریجویشن کے لیے زیادہ تر اسی یونیورسٹی میں آتے ھیں۔ آخر میں مسلم کمیونٹی کی طرف سے تعمیر کی گئی انتہائی خوبصورت مسجد اور کمیونٹی ہال (جس میں آٹھ سو افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہے) دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ مختلف رنگ ونسل کے مسلمان بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ علماء سے قرآن سیکھ رہے تھے۔ آخر میں کچھ مزید دوستوں کے ساتھ ایک اور نشست ہوئی۔
اتوار کو ہوٹل سے باہر نکل کر دیکھا تو کرسمس کی تیا ریاں زوروں پر تھیں، بازاروں میں جشن کا سماں تھا ہر چوک میں مجمع لگا ہوا تھا جہاںکچھ لوگ رقص کنا ں تھے ۔گلاسگو کے دکاندار لندن کے دکانداروں سے زیادہ خوش اخلاق نظر آئے۔ جس سے بھی بات کی وہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا حامی نکلا۔ اسی لیے اسکاٹش نیشنل پارٹی نے لیبر پارٹی کو رونددیا ہے اور یہاں سے کلین سویپ کیا ہے۔
تین روز قیام کے بعد واپسی کے لیے ہوٹل سے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے تو اس سحر انگیز شہر کی جدائی سے دل بجھنے لگا۔ ویگن کا اسکاٹش ڈرائیور زندہ دل تھا، میں نے پوچھا انگلینڈ کے ساتھ رہنا ہے یا علیحدہ ہونا ہے؟ کہنے لگا '' آزادی کے لیے میں کئی بار خود جلوسوں میں شامل ہوچکا ہوں ۔ اگلے ریفرینڈم میں یقیناً اسکاٹ لینڈ آزاد ہوگا''۔
میں نے کہا ''مجھے لگتا ہے آپ نئے ملک کے وزیرِ ٹرانسپورٹ ہونگے، دیکھیں وزیربن کر ہمیں پہچان لینا اور جب ہم پاکستان سے ملنے آئیںتو ملاقات کا وقت بھی عنایت کردینا''۔ مستقبل کے وزیر نے خوشی سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ''آپ سے ملکر بہت خوشی ہوئی ہے 'آپ کے منہ میں پیزا و برگر' وزیرِ ٹرانسپورٹ بننے سے دوفائدے تو ہونگے'' میں نے پوچھا وہ کیا؟ کہنے لگا ''ٹرانسپورٹ بھی اپنی ہوگی اور پولیس والے بھی کچھ لحاظ کریں گے''۔
خصوصی نوٹ:بڑے دکھ کے ساتھ قارئین سے شئیر کر رہا ہوں کہ ملک کی سول بیوروکریسی (جس کی ساکھ پہلے ہی بہت گِر چکی ہے) اب مزیدکمزور ہوگی کہ آج ایک اُجلے کردار کا روشن ضمیر اور بہادرسول سرونٹ پینتیس سال کی شاندار اور قابلِ رشک ایننگزکھیل کر رخصت ہورہا ہے ۔ دیانتداری، پیشہ ورانہ قابلیت اور جرأتمندی (فیڈرل سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی )برادرم سیرت اصغر کے وہ امتیازی اوصاف تھے جن سے افسران اور حکمران سب واقف تھے۔
ان ہی اوصاف کی بناء پر نگران وزیرِاعظم بابا کھوسو انھیں ایک مہینہ بھی برداشت نہ کرسکا۔ سیکریٹریٹ کے کمیٹی روموں اور اعلیٰ سطح اجلاسوں میں نوکری بازی کے تقاضوں سے بے نیاز، پیشہ ورانہ دیانت اور ضمیر کی قوت اور جرأت سے کی گئی سچی اور کھری باتوں کی گونج اب کہاں سنائی دے گی؟ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس درویش صفت بھائی، بھابھی صاحبہ اور ان کے بچوں کو ہمیشہ خوش رکھّے۔
برٹش کونسل کی اعلیٰ پائے کی مُنتظم مسز نشاط ریاض چونکہ فنّی ترقّی (skill development) میں اسکاٹ لینڈ کی کامیابیوں سے آگاہ تھیں اس لیے انھوں نے پاکستانی وفد کے پروگرام میں اسکاٹ لینڈ بھی شامل کر رکھا تھا اور ایک پورا دن (سوموار) اسکاٹ لینڈ کے سکل ڈویلپمنٹ کے ادارے کے وزٹ کے لیے مخصوص تھا۔ ہم ہفتے کی شام کو ہی گلاسگو پہنچ گئے اور اس کے مشہور تاریخی سینٹرل رائل ہوٹل میں ڈیرے ڈال دیے ۔
داخل ہوتے ہی دیوار پر لگے ہوئے کتبے پر نظر پڑی تو لکھا تھا 'برطانیہ میں ٹیلیویژن کی نشریات سب سے پہلے اسی ہوٹل میں دیکھی اور سنی گئیں'۔ یہ پڑھکر ایک ساتھی نے تاریخ کے مزید اوراق کھولنا شروع کیے اوربتایا کہ بہت سی اہم چیزیں یہاں کے باشندوں نے ایجاد کیں مثلاً ریڈیو، بجلی کا بلب، ریلوے انجن، ٹیلیویژن پھر کچھ اور تاریخی حقائق سے نوازا جانے لگا۔ یہ بھی وہیں معلوم ہوا کہ برِّصغیر پر انگریز وں کے قبضے کی بنیاد رکھنے اور راہ ہموار کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی یہیں قائم ہوئی تھی۔
اسکاٹش چونکہ بہادر اور جنگجو بھی ہیں اسلیے ھندوستان کے اہم اور مشکل ترین معرکوں میں انھیں بھیجا جاتا تھا۔ ھندوستان آکر مقامی حکمرانوں سے بزورِ شمشیر ان کی ریاستیں چھین کر برطانیہ کے زیر نگیں کرنے کا زیادہ کریڈٹ اسکاٹ لینڈ کے جنگجوؤں کو جاتا ہے۔ ہمارے ہوٹل کا ایک دروازہ مرکزی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھُلتا تھا اسلیے مسافروں کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہوٹل کے کمروں کے سامنے گیلری اس قدر چوڑی تھی کہ بقولِ قاسم شاہ وہاںپرآسانی سے کبڈی کھیلی جاسکتی تھی۔
گلاسگو کے برفیلے موسم سے سب نے ڈرا رکھا تھا اس لیے روس سے خریدی ہوئی انتہائی گرم ٹوپی پہن کر ہوٹل سے باہر نکلا تو ہر چیز اندازے اور تصّور سے مختلف نکلی ۔ سردی نہیںتھی، میٹھی میٹھی پھوار تھی اورچاروں طرف حسن کی بہار تھی۔ موسم، لوگ اور شہر سب کچھ اتنا مسحورکُن تھا کہ دیکھنے والا مبہوت ہوجائے ۔ بلا شبہ اسکاٹ لینڈانگلستان کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے۔
صنعتی انقلاب نے اسکاٹ لینڈ کو تجارت، صنعت اور علم و دانش کا پاورہاؤس بنادیا، یہاں تک کہ معروف فرانسیسی مفکّر وولٹیئر کو کہنا پڑا کہ "we look to scotland for all our ideas of civilization" (انسانی تہذیب کے متعلق اپنے تمام نظریات کے سلسلے میں ہم رہنمائی کے لیے اسکاٹ لینڈ کی طرف دیکھتے ہیں)۔
گلاسگو کامطلب سبزوادی ہے، اس سرسبز اور خوبصورت وادی میں آنے اور جانے کے لیے تین انٹر نیشنل ائرپورٹ ہیں اورشہر میں سولہ کلومیٹر کے اندر چار بین الاقوامی معیا ر کی یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں 1800 میں دنیا کی پہلی میونسپل پولیس فورس قائم ہوگئی تھی۔
گلاسگو میں پاکستانی قونصل جنرل احسن رضا شاہ کو ہماری آمد کی اطلاع مل چکی تھی لہٰذا انھوں نے قونصلیٹ میں ہی کچھ منتخب پاکستانیوں کو اکٹھا کیا اور نومبر (جوکہ مفکّرِ پاکستان علامہ اقبالؒ کی سالگرہ کا مہینہ ہے) کے حوالے سے راقم کو "پاکستان کی موجودہ صورتِ حال اور علامہ اقبالؒ کا پیغام" کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ سامعین ، قدیم و جدید فلسفوں اور علوم پر عبور رکھنے والے شاعرِ بے مثل کے ایک ایک شعر کی تازگی اور تاثیر سے محظوظ ہوتے رہے۔
سوال و جواب کی نشست بھی خاصی طویل رہی۔ چائے پر بھی پاکستانی خواتین و حضرات سے گپ شپ اور تبادلہء خیال ہوتا رہا۔ وہیں پاکستان سے تعلق رکھنے والی برٹش پارلیمنٹ کی ممبر تسمینہ شیخ اور ان کے شوہر سے بھی ملاقات ہوئی۔ سامعین نے علامہ اقبالؒ کے یومِ پیدائش کی چھٹی ختم کرنے پر دکھ کا اظہار کیا اور اکثریت نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو پاکستان کی سیاست کی بجائے برطانیہ کی سیاست میں حصّہ لینا چاہیے اور پاکستانی کمیونیٹی کے اندر نفاق پیدا کرنے والی کسی سرگرمی کا حصّہ نہیں بنناچاہیے۔
کچھ سامعین نے سوال و جواب کے دوران کہا کہ ''کچھ پاکستانی کرکٹرز کی حرکتوں کی وجہ سے یہاں برطانیہ میں پوری پاکستانی کمیونٹی بے عزّت ہوئی اور ہمیں لوگوں کے طعنے سہنے پڑے مگر جب وہ مجرم یہاں سے جیلیں کاٹ کر پاکستان گئے تو آپ نے پھر انھیں گلے لگا لیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا پوری قوم کا سرجھکانے والوں کو پھر سے سرپر بٹھا لینا جائز تھا''؟ سوال بالکل درست تھے اور مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ کرکٹ بورڈ کی میجر سرجری کی ضرورت ہے اور وہاں فیصلہ سازی کا اختیار اُن لوگوں کے پاس ہونا چاہیے جنھیں پیسوں سے زیادہ ملک کی عزّت عزیز ہو۔
محفل میں زیادہ تر پڑھے لکھے اور خوشحال افراد تھے جس سے بھی بات کی اس کے دل میں ملک کے لیے محبت اور درد کا بے پناہ جذبہ محسوس ہوا۔ وہیں،اسکاٹ لینڈ میں چالیس سال سے مقیم دانشور اور صحافی طاہر انعام شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی تو ملتے ہی کہنے لگے '' آپ سے ملنے کابڑا شوق تھا، ہم تو پاکستان آکر آپ سے ملنے کا پروگرام بنارہے تھے'' میں نے کہا میں خو دآپ سے ملنے اسکاٹ لینڈ حاضر ہوگیا ہوں، طاہر انعام کے علاوہ سیدھی سپاہیانہ سوچ رکھنے والے میجر ماجد، اقبالؒ کے شیدائی ڈاکٹر گِل صاحب اور ُشستہ اطوارنوجوان شہریار سے مل کر اور تقوّیت ہوئی۔
انھوں نے تقاضا کیا کہ ''قونصلیٹ کی تقریب سے پوری طرح 'تشفی ' نہیں ہوئی لہٰذا بہت سے دوست آپ کے ساتھ ایک اور نشست رکھنا چاہتے ہیں''۔ پروگرام کے مطابق جب ہم سکل ڈویلپمنٹ کی تمام بریفنگز سے فارغ ہوئے تو میجر ماجد اور طاہر شیخ صاحب ہمیں لینے آگئے اور مختصر وقت میں اہم مقامات کی میجر صاحب نے انتہائی جنگی بنیادوں پر سیر کرائی۔ سب سے پہلے وہ ہمیں شہر سے باہر تازہ پانی کی جھیل لاک لیمنڈ(Loch Lomone) دکھانے لے گئے یہ خوبصورت جھیل 24میل لمبی اور 5میل چوڑی ہے اور اسکا پانی نہایت شفاف ہے۔
اسی جھیل پر ایک خوبصورت اور تاریخی ہوٹل ہے جس میں (امریکی صدر اور پاکستانی وزیرِاعظم بے نظیر سمیت) دنیا کے تمام مشاہیر قیام پذیر رہے ہیں، انتہائی روح پرور نظارہ دیکھ کر ہمارا دل بھی ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے مچل اُٹھا مگر کرایہ معلوم کیا تو اُلٹے پاؤں بھاگنا پڑا۔ مشہور ہے کہ اس جھیل میں کوئی افسانوی بلا رہتی ہے جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی شوقین مزاج لوگ اپنے کیمروں کے ساتھ یہاں پوری پوری رات گزار دیتے ہیں، اس کے علاوہ دریائے کلائیڈ کے کنارے نئے تعمیر کردہ گلاسگو ٹاور اور سائینس میوزیم دیکھے ، یہیں پر Bell Bridgeہے۔ جب کوئی بڑا جہاز آتا ہے تو یہ پُل درمیان میں سے گھوم کر دوسری طرف چلا جاتا ہے اور جہاز آسانی سے گزر جاتا ہے۔
واپسی پر گلاسگو یونیورسٹی کی قدیم عمارت دیکھنے گئے جوگوتھک فنِ تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ یہ یونیورسٹی 1451 میں بنی تھی، برّ صغیر سے میڈیکل کے طلباء وطالبات پوسٹ گریجویشن کے لیے زیادہ تر اسی یونیورسٹی میں آتے ھیں۔ آخر میں مسلم کمیونٹی کی طرف سے تعمیر کی گئی انتہائی خوبصورت مسجد اور کمیونٹی ہال (جس میں آٹھ سو افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہے) دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ مختلف رنگ ونسل کے مسلمان بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ علماء سے قرآن سیکھ رہے تھے۔ آخر میں کچھ مزید دوستوں کے ساتھ ایک اور نشست ہوئی۔
اتوار کو ہوٹل سے باہر نکل کر دیکھا تو کرسمس کی تیا ریاں زوروں پر تھیں، بازاروں میں جشن کا سماں تھا ہر چوک میں مجمع لگا ہوا تھا جہاںکچھ لوگ رقص کنا ں تھے ۔گلاسگو کے دکاندار لندن کے دکانداروں سے زیادہ خوش اخلاق نظر آئے۔ جس سے بھی بات کی وہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا حامی نکلا۔ اسی لیے اسکاٹش نیشنل پارٹی نے لیبر پارٹی کو رونددیا ہے اور یہاں سے کلین سویپ کیا ہے۔
تین روز قیام کے بعد واپسی کے لیے ہوٹل سے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے تو اس سحر انگیز شہر کی جدائی سے دل بجھنے لگا۔ ویگن کا اسکاٹش ڈرائیور زندہ دل تھا، میں نے پوچھا انگلینڈ کے ساتھ رہنا ہے یا علیحدہ ہونا ہے؟ کہنے لگا '' آزادی کے لیے میں کئی بار خود جلوسوں میں شامل ہوچکا ہوں ۔ اگلے ریفرینڈم میں یقیناً اسکاٹ لینڈ آزاد ہوگا''۔
میں نے کہا ''مجھے لگتا ہے آپ نئے ملک کے وزیرِ ٹرانسپورٹ ہونگے، دیکھیں وزیربن کر ہمیں پہچان لینا اور جب ہم پاکستان سے ملنے آئیںتو ملاقات کا وقت بھی عنایت کردینا''۔ مستقبل کے وزیر نے خوشی سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ''آپ سے ملکر بہت خوشی ہوئی ہے 'آپ کے منہ میں پیزا و برگر' وزیرِ ٹرانسپورٹ بننے سے دوفائدے تو ہونگے'' میں نے پوچھا وہ کیا؟ کہنے لگا ''ٹرانسپورٹ بھی اپنی ہوگی اور پولیس والے بھی کچھ لحاظ کریں گے''۔
خصوصی نوٹ:بڑے دکھ کے ساتھ قارئین سے شئیر کر رہا ہوں کہ ملک کی سول بیوروکریسی (جس کی ساکھ پہلے ہی بہت گِر چکی ہے) اب مزیدکمزور ہوگی کہ آج ایک اُجلے کردار کا روشن ضمیر اور بہادرسول سرونٹ پینتیس سال کی شاندار اور قابلِ رشک ایننگزکھیل کر رخصت ہورہا ہے ۔ دیانتداری، پیشہ ورانہ قابلیت اور جرأتمندی (فیڈرل سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی )برادرم سیرت اصغر کے وہ امتیازی اوصاف تھے جن سے افسران اور حکمران سب واقف تھے۔
ان ہی اوصاف کی بناء پر نگران وزیرِاعظم بابا کھوسو انھیں ایک مہینہ بھی برداشت نہ کرسکا۔ سیکریٹریٹ کے کمیٹی روموں اور اعلیٰ سطح اجلاسوں میں نوکری بازی کے تقاضوں سے بے نیاز، پیشہ ورانہ دیانت اور ضمیر کی قوت اور جرأت سے کی گئی سچی اور کھری باتوں کی گونج اب کہاں سنائی دے گی؟ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس درویش صفت بھائی، بھابھی صاحبہ اور ان کے بچوں کو ہمیشہ خوش رکھّے۔