یاد کے کنارے
الحمراء آرٹ کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عطا محمد خاں جو خود بھی خوش کلام شاعر اور کئی کتب کے مصنف ہیں
اپنے اردگرد ناشکروں کا ہجوم دیکھ کر مجھے توقیر احمد شریفی کے اشعار یاد آ رہے ہیں۔
جو بھی سوچا وہ سب ملا مجھ کو
جو نہ مانگا ہوا عطا مجھ کو
میں خوش نصیب ہوں اس نے عطا کیا ہے مجھے
وہ رنگ جس کی حقیقت سے آشنا بھی نہ تھا
اور پھر شہر نبیؐ میں کھڑے ہوئے دست دعا اٹھائے یہ سوچ کہ:
کھڑا ہوں در پہ مگر مانگنے کی تاب نہیں
فقیر کیسا ہوں آتا نہیں صدا دینا
شریفی نے در خالق پہ دستک دی تو مالک کا جواب آ گیا
لے کے فریاد پہنچیں ہوائیں مری
میرے خالق نے سن لیں صدائیں مری
غم کے بادل چھٹے' اک سویرا ہوا
دور کیں اس نے ساری بلائیں مری
نعت کے مزید چند شعر
جب مدینے کو مرا شوق نظر جائے گا
بخت رحمت کے سمندر میں اتر جائے گا
ان ؐ کی رحمت کے حوالے مری کشتی ہو گی
میری ہستی سے سبھی خوف و خطر جائے گا
در نبی پر ہوں ہاتھ باندھے
اب اس سے افضل قیام کیا ہو
حصول رحمت کا اس سے بڑھ کر
اے دل بتا اہتمام کیا ہو
فقیر ہوں انؐ کے خادموں کا
ان ہی کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہوں
شمار کر لیں وہ خادموں میں
تو اس سے بڑھ کر مقام کیا ہو
وہ حمدیہ اور نعتیہ اشعار جن سے اس کالم کی ابتدا کی گئی ہے ان کی سلاست' گہرائی' جازبیت' خوبصورتی اور بے ساختگی متقاضی ہے کہ قارئین کو شاعر کے جذبۂ عبودیت اور عشق رسول ؐ سے متعارف کرانے کے بعد بتایا جائے کہ میرا ان سے حقیقی تعارف ان کی بیاض ''یاد کے کنارے'' کی رونمائی پر ہوا اور کتاب پر اظہار خیال کی تحریک ان ہی اشعار میں پائے جانے والی شدت جذبات کی وجہ سے ہوئی۔
توقیر صاحب نے مجھے ٹیلیفون کر کے اپنی کتاب کی رونمائی کی تقریب پر مدعو کیا تھا جب میں ا لحمرا آرٹس کونسل کے ہال نمبر 3 میں بروقت پہنچا تو خلا ف معمول و توقع نصف ہال بھر چکا تھا اور سامعین جوق در جوق آتے جا رہے تھے۔ اس ہال میں بہت سی ایسی تقریبات دیکھیں جن میں بمشکل سو سوا سو افراد وہ بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد بڑے آرام سے آتے ہیں لیکن یہ توقیر صاحب کی شخصیت کا اعجاز تھا یا ان کے کلام کی شہرت کہ ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔
الحمراء آرٹ کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عطا محمد خاں جو خود بھی خوش کلام شاعر اور کئی کتب کے مصنف ہیں کرسیٔ صدارت پر متمکن ہوئے تو شریفی کی شخصیت اور شاعری پر اظہار خیال کرنے کے لیے مقررین ریحانہ سلہری' نرگس ناہید' حکیم سلیم اختر ملک' خالد شریف ' ڈاکٹر صغریٰ صدف' سید حسن عسکری کاظمی' سعود عثمانی' حسین مجروح' اعتبار ساجد' خالد سجاد احمد' محمود ظفر اقبال ہاشمی کو بلانے کے لیے اسٹیج پر صوفیہ بیدار جن کے ذمے نظامت تھی موجود رہیں جو مختصراً تعارفی کلمات کی شیرینی بھی بکھیرتی رہیں۔
اب غزل کے اشعار کی طرف آتے ہیں۔
سلے ہوئے ہیں مرے ہونٹ ایک وعدے سے
اسی گھڑی کا مجھے انتظار کرنے دے
ہم اپنے جسم سے اب زندگی اتار چکے
سبھی کو شوق سے توقیر وار کرنے دے
راستے بھی خفا ہوئے توقیر
ان پہ جائیں تو گھر نہیں آتا
اب کس کو مرے ناز اٹھانے کی پڑی ہے
ملنے کو جسے باد صبا تک نہیں آتی
اب گاؤں ہی توقیر کا ویران پڑا ہے
جس راہ پڑیں کوئی بلا تک نہیں آتی
آنکھوں میں وہاں دید کا سورج نہیں اگتا
پلکوں سے جہاں نیند اٹھائی نہیں جاتی
اتنا کچھ باندھ لیا اور خبر پل کی نہیں
وقت آیا تو یہ سامان کدھر جائے گا
لاکھ سجدے بھی کیے ایک نہ مانی اس نے
میرے اندر کا یہ حیوان کدھر جائے گا
روح رکھی گئی ہے رہن میری
زندگی کیا ادہار دے گی مجھے
یہ کس کے خوف نے مجھ پر گرا دیا ہے مجھے
میں جل رہا تھا یہ کس نے بجھا دیا ہے مجھے
نفرتیں سب در و دیوار کے باہر رکھ کر
اک دیا پھر سے محبت کا جلایا جائے
پھینک کر تلخیٔ اظہار کے اسباب کہیں
اس سے آگے کا سبق سب کو بتایا جائے
یوں تو لکھتا ہوں بہت شوق سے قصے سارے
پھر انھیں آپ ہی اشکوں سے مٹا دیتا ہوں
یہ جو دیوار کا سایہ ہی بڑھے جاتا ہے
اب تو سوچا ہے یہ دیوار گرا دیتا ہوں
تو قیر احمد شریفی پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہے اس کی شاعری پر لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ وہ ایک طویل عرصہ تک روزگار کے سلسلہ میں سرزمین مقدس میں قیام کے علاوہ جاتا آتا بھی رہا اسی لیے مجھے اس کے نعتیہ اشعار خاص طور پر پسند ہیں اور شاعری کے بارے میں سوچ رکھتا ہوں کہ
شعر بھی اک طرح کا ہے الہام
آتے رہتے ہیں قدسیوں کے پیام
مجموعہ کلام ''یاد کے کنارے'' ماورا پبلشرز نے شائع کی ہے اس کی تزئین اور اہتمام اشاعت خالد شریف کے ہاتھوں ہونے کی وجہ سے کتاب اشاعت کے ہر معیار پر پورا اترتی ہے۔ شریفی صاحب کی خواہش پر ان کا ایک اور شعر سنیے
خدا کرے کہ وہ نیکی تلاش کر پاؤں
جو پل صراط سے آساں گزار دے مجھ کو
جو بھی سوچا وہ سب ملا مجھ کو
جو نہ مانگا ہوا عطا مجھ کو
میں خوش نصیب ہوں اس نے عطا کیا ہے مجھے
وہ رنگ جس کی حقیقت سے آشنا بھی نہ تھا
اور پھر شہر نبیؐ میں کھڑے ہوئے دست دعا اٹھائے یہ سوچ کہ:
کھڑا ہوں در پہ مگر مانگنے کی تاب نہیں
فقیر کیسا ہوں آتا نہیں صدا دینا
شریفی نے در خالق پہ دستک دی تو مالک کا جواب آ گیا
لے کے فریاد پہنچیں ہوائیں مری
میرے خالق نے سن لیں صدائیں مری
غم کے بادل چھٹے' اک سویرا ہوا
دور کیں اس نے ساری بلائیں مری
نعت کے مزید چند شعر
جب مدینے کو مرا شوق نظر جائے گا
بخت رحمت کے سمندر میں اتر جائے گا
ان ؐ کی رحمت کے حوالے مری کشتی ہو گی
میری ہستی سے سبھی خوف و خطر جائے گا
در نبی پر ہوں ہاتھ باندھے
اب اس سے افضل قیام کیا ہو
حصول رحمت کا اس سے بڑھ کر
اے دل بتا اہتمام کیا ہو
فقیر ہوں انؐ کے خادموں کا
ان ہی کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہوں
شمار کر لیں وہ خادموں میں
تو اس سے بڑھ کر مقام کیا ہو
وہ حمدیہ اور نعتیہ اشعار جن سے اس کالم کی ابتدا کی گئی ہے ان کی سلاست' گہرائی' جازبیت' خوبصورتی اور بے ساختگی متقاضی ہے کہ قارئین کو شاعر کے جذبۂ عبودیت اور عشق رسول ؐ سے متعارف کرانے کے بعد بتایا جائے کہ میرا ان سے حقیقی تعارف ان کی بیاض ''یاد کے کنارے'' کی رونمائی پر ہوا اور کتاب پر اظہار خیال کی تحریک ان ہی اشعار میں پائے جانے والی شدت جذبات کی وجہ سے ہوئی۔
توقیر صاحب نے مجھے ٹیلیفون کر کے اپنی کتاب کی رونمائی کی تقریب پر مدعو کیا تھا جب میں ا لحمرا آرٹس کونسل کے ہال نمبر 3 میں بروقت پہنچا تو خلا ف معمول و توقع نصف ہال بھر چکا تھا اور سامعین جوق در جوق آتے جا رہے تھے۔ اس ہال میں بہت سی ایسی تقریبات دیکھیں جن میں بمشکل سو سوا سو افراد وہ بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد بڑے آرام سے آتے ہیں لیکن یہ توقیر صاحب کی شخصیت کا اعجاز تھا یا ان کے کلام کی شہرت کہ ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔
الحمراء آرٹ کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عطا محمد خاں جو خود بھی خوش کلام شاعر اور کئی کتب کے مصنف ہیں کرسیٔ صدارت پر متمکن ہوئے تو شریفی کی شخصیت اور شاعری پر اظہار خیال کرنے کے لیے مقررین ریحانہ سلہری' نرگس ناہید' حکیم سلیم اختر ملک' خالد شریف ' ڈاکٹر صغریٰ صدف' سید حسن عسکری کاظمی' سعود عثمانی' حسین مجروح' اعتبار ساجد' خالد سجاد احمد' محمود ظفر اقبال ہاشمی کو بلانے کے لیے اسٹیج پر صوفیہ بیدار جن کے ذمے نظامت تھی موجود رہیں جو مختصراً تعارفی کلمات کی شیرینی بھی بکھیرتی رہیں۔
اب غزل کے اشعار کی طرف آتے ہیں۔
سلے ہوئے ہیں مرے ہونٹ ایک وعدے سے
اسی گھڑی کا مجھے انتظار کرنے دے
ہم اپنے جسم سے اب زندگی اتار چکے
سبھی کو شوق سے توقیر وار کرنے دے
راستے بھی خفا ہوئے توقیر
ان پہ جائیں تو گھر نہیں آتا
اب کس کو مرے ناز اٹھانے کی پڑی ہے
ملنے کو جسے باد صبا تک نہیں آتی
اب گاؤں ہی توقیر کا ویران پڑا ہے
جس راہ پڑیں کوئی بلا تک نہیں آتی
آنکھوں میں وہاں دید کا سورج نہیں اگتا
پلکوں سے جہاں نیند اٹھائی نہیں جاتی
اتنا کچھ باندھ لیا اور خبر پل کی نہیں
وقت آیا تو یہ سامان کدھر جائے گا
لاکھ سجدے بھی کیے ایک نہ مانی اس نے
میرے اندر کا یہ حیوان کدھر جائے گا
روح رکھی گئی ہے رہن میری
زندگی کیا ادہار دے گی مجھے
یہ کس کے خوف نے مجھ پر گرا دیا ہے مجھے
میں جل رہا تھا یہ کس نے بجھا دیا ہے مجھے
نفرتیں سب در و دیوار کے باہر رکھ کر
اک دیا پھر سے محبت کا جلایا جائے
پھینک کر تلخیٔ اظہار کے اسباب کہیں
اس سے آگے کا سبق سب کو بتایا جائے
یوں تو لکھتا ہوں بہت شوق سے قصے سارے
پھر انھیں آپ ہی اشکوں سے مٹا دیتا ہوں
یہ جو دیوار کا سایہ ہی بڑھے جاتا ہے
اب تو سوچا ہے یہ دیوار گرا دیتا ہوں
تو قیر احمد شریفی پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہے اس کی شاعری پر لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ وہ ایک طویل عرصہ تک روزگار کے سلسلہ میں سرزمین مقدس میں قیام کے علاوہ جاتا آتا بھی رہا اسی لیے مجھے اس کے نعتیہ اشعار خاص طور پر پسند ہیں اور شاعری کے بارے میں سوچ رکھتا ہوں کہ
شعر بھی اک طرح کا ہے الہام
آتے رہتے ہیں قدسیوں کے پیام
مجموعہ کلام ''یاد کے کنارے'' ماورا پبلشرز نے شائع کی ہے اس کی تزئین اور اہتمام اشاعت خالد شریف کے ہاتھوں ہونے کی وجہ سے کتاب اشاعت کے ہر معیار پر پورا اترتی ہے۔ شریفی صاحب کی خواہش پر ان کا ایک اور شعر سنیے
خدا کرے کہ وہ نیکی تلاش کر پاؤں
جو پل صراط سے آساں گزار دے مجھ کو