کہیں دیر نہ ہو جائے
یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موت آہستہ آہستہ آپ کی طرف بڑھتی ہے
عجیب لوگوں کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ انھیں سمجھ ہی نہیں آتا کہ آہستہ آہستہ زہر کیسے ایک دو لوگوں کو نہیں بلکہ پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ انھیں طوفان وہ ہی لگتا ہے جو اچانک سے آئے اور سب کو تباہ و برباد کر دے۔
یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موت آہستہ آہستہ آپ کی طرف بڑھتی ہے، لیکن آپ اُسی لمحے کو موت سمجھتے ہیں جب روح، جسم کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ یہاں کسی کو فکر نہیں ہے کہ روز دوا نہ ملنے کی وجہ سے کتنے لوگ مر جاتے ہیں، مگر ایک آدمی بارش سے مر جائے تو خبر بن جاتی ہے۔ سیاست دان میڈیا پرآ کر تبصرے شروع کر دیں گے۔ یہاں اس قوم کو روز ایک ہیرو کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اُس کے لیے شرط یہ ہے کہ اُسے کیمرے کی آنکھ محفوظ کر لے۔ آپ دیکھیں یہاں ہم لوگ روز ایک ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے میں مصروف ہوتے ہیں اور اصل مسائل جوں کہ توں پڑے رہتے ہیں۔
یہاں کسی کو معلوم ہے کہ ہم پر ایک عذاب آہستہ آہستہ کس طرح سے نازل ہو چکا ہے؟ کسی کو ہوش ہی نہیں ہے کہ کیسے یہ عذاب ہماری نسلوں کو تباہ کرنے لگا ہے۔ اس پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا ہے؟
آئیے! تصویر کا بھیانک روپ دکھاتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی بیمار ہو چکی ہے۔ یہاں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین کی حالت کیا ہو رہی ہے۔ ملک کے بالائی علاقوں میں برف باری ہو رہی ہے۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ سردی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ گرم کپڑوں کے فیشن شوز ہو رہے ہیں اور دوسری طرف تصویر کچھ اور بتا رہی ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے کئی علاقے اور تقریبا بلوچستان کے اندر گزشتہ کئی سالوں سے بارش نہیں ہوئی ہے۔ میری مراد بارش سے ہے بوندا باندی سے نہیں۔ یہاں موسم گرما اور سخت ہو چکا ہے۔ مون سون یہاں پر سوکھ گیا ہے۔
آج کل کے بچوں کے سامنے وہ مشہور گانا کہ ''وہ دسمبر کا سماں'' بے کار ہو چکا ہے کیونکہ پورا دسمبر گزر گیا یہاں پر سردی نہیں آئی ہے۔ آدھا جنوری گزر چکا ہے لیکن اب تک گرم کپڑے نہیں نکلے ہیں۔ یہاں اکثر جگہوں پر پنکھے چل رہے ہوتے ہیں۔ موسم کی اس بے رحمی کی وجہ سے آدھی سے زائد آبادی بیمار ہو چکی ہے۔ بچوں میں کھانسی اور بخار ہے۔
ایک وائرس نے سب کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ یہاں ہر دوسرا شخص کھانس رہا ہے۔ موسم تبدیل ہو رہا ہے۔ یہاں اس تبدیلی کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ کہنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زیر زمین میٹھا پانی تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ کھارا پانی بھی اس قدر کھارا ہے کہ اُس میں نمک کے علاوہ کچھ اور محسوس نہیں ہوتا ہے۔ بالائی علاقوں میں سیلاب کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ گلیشیر پگھل رہے ہیں، اس لیے سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اوپر کی جانب پانی ہی پانی ہے یعنی یہ بھی اچھا نہیں ہے۔ دوسری طرف قحط کی صورتحال ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال سندھ میں تھر کی دی جا رہی ہے، مگر اس سے زیادہ بھیانک صورتحال اس وقت بلوچستان کی ہے۔ جہاں پانی کی دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
سمندر تیزی سے اوپر آ رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کا ہزاروں ایکڑ کا علاقہ اس وقت سمندر کی نذر ہو چکا ہے۔ اوپر سے ڈیلٹا میں پانی نہ آنے کی وجہ سے اچھی خاصی کاشت کے قابل زمین، بنجر ہو چکی ہے۔ اس مسئلے کو سمجھیں کہ کہیں پر پانی زیادہ ہو رہا ہے اور کہیں پر پانی غائب ہو چکا ہے۔ کہیں پر گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے اور کہیں سردی جان نہیں چھوڑ رہی ہے۔
کیا کسی کو فکر ہے کہ یہاں ہونے کیا جا رہا ہے، کیا کسی کو ہم پر رحم نہیں آتا ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے نے پاکستان میں اس حوالے سے سروے کرایا ہے۔
اس سروے میں پاکستان کے علاوہ خطے کے سات دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ پاکستان میں اکثریت کا خیال یہ ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے کوئی فکر نہیں ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اس خطے میں موسمی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو رہا ہے اور اس حوالے سے سب سے کم کام بھی پاکستان میں ہی ہو رہا ہے۔
سابقہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس حوالے سے ایک پالیسی کا بھی اعلان کیا تھا۔ جسے پاکستان کی پہلی موسمی پالیسی کہا گیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں فکر نہیں یہاں پر اس حوالے سے ایک وزارت بھی موجود ہے، مگر اُس کا کام کیا ہے؟ دنیا بھر میں اس حوالے سے اربوں ڈالر کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔
شاید اس کا مقصد بھی یہ ہی ہو، مگر کوئی پوچھے تو سہی کہ کراچی کے لوگ جس موسمی تبدیلی کا شکار ہے ان کا کیا ہو گا۔ بلوچستان میں لوگ قحط کی زد میں ہے ان کا کیا مستقبل ہے۔ خیبرپختون خوا جو سیلاب کی زد میں آ رہا ہے، ان کا کیا ہو گا۔ لاہور میں پانی کی قلت شروع ہو چکی ہے، اس کا علاج کس حکیم کے پاس ہے۔
پاکستان انسانی ترقی کے انڈکس پر شرم ناک پوزیشن پرکھڑا ہے۔ ہم ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جہاں افریقہ کے ممالک بھی نہیں ہے، اگر لوگوں کو آمدنی اور وسائل پر اختیار کے مطابق چار حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جس میں ایک درجہ غربت کے نیچے، غربت، متوسط اور اعلیٰ طبقہ ہو تو عالمی تنظیموں کے سروے کے مطابق سب سے زیادہ شرح غربت سے نیچے کے لوگوں کی ہے۔ یعنی پاکستان کی آبادی کا40 فیصد سے زائد غربت کی شرح سے نیچے ہے۔
موسمی تبدیلی کی وجہ سے ماہی گیروں کی زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ کئی علاقوں میں سیلاب اور کہیں پر کم بارش کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں حریت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ حکومت کی پالیسی اور حکومت کی نگاہ شاید ٹیکس پر زیادہ ہے لیکن زمینی حقائق بہت زیادہ تلخ ہو چکے ہیں۔ جنگلات میں موسمی تبدیلی اور مسلسل کٹاؤ کی وجہ سے کمی ہو رہی ہے۔
مصنوعی اور دکھاوے کی اسکیمیں کسی کام نہیں آ رہیں۔ کوئی لاکھوں درخت لگانے کی بات کر رہا ہے تو کوئی کروڑوں سے نیچے آنے کو تیار نہیں ہے، مگر اصل حقیقت یہ ہے کراچی سمیت سندھ کے سمندری علاقوں میں تیزی کے ساتھ تیمر کے درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ کچھ جگہوں پر قبضے ہو چکے ہیں اور کہیں پر لوگ آستین چڑھا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سندھ، پنجاب اور خیبر پختوانخوا میں جنگل کی کٹائی کے بعد زمینوں کے حصول کے لیے ''اعلیٰ'' لوگ دست و گریباں ہیں۔
کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذمے دار ہم نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہو رہے ہیں۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اس کے بعد اس خطے میں مالدیپ نقشے سے ہی غائب ہو جائے گا۔ دنیا کا درجہ حرارت ''دو'' ڈگری سیلسیس بڑھ جائے گا۔ اس کی ذمے داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ہے۔
اس کا ذمے تو ان ممالک کو لینا چاہیے کہ جنھوں نے ترقی کے نام پر ماحول کو خراب کر دیا۔ ان کا گریبان پکڑنا چاہیے جس نے جدت کے نام پر صنعتوں کا جال بچھا کر ہم سب کو دھند کی لپیٹ میں ڈال دیا۔ ابھی ہمارے وزیر اعظم بھی گئے تھے، وہاں جہاں سب اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے اختلاف اس میں اپنی جگہ موجود ہیں ۔
مگر ہمارا سوال یہ نہیں ہے کہ دنیا میں کون کون اس تباہی کا ذمے دار ہے۔ میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ کس نے کتنی کلورو اور فلورو گیس خارج کی۔ نہ ہی اس میں وقت ضایع کرنا چاہتا ہوں کہ پڑوس میں کس کے گھر کون سی دال بنی ہے۔ میرا تو اپنا مسئلہ ہے۔ کراچی میں موسمی تبدیلی کے واضح اشارے نظر آ رہے ہیں۔ خیبرپختوانخوا میں سیلاب نے آنکھیں کھول دیں۔ تھر اور بلوچستان میں پانی کی کمی آپ کی نظروں سے چھُپی ہوئی نہیں ہے۔
دنیا بھر میں لوگ سر جوڑ کر بیٹھ چکے ہیں کہ انھیں اپنے لوگوں کا تحفظ کس طرح کرنا ہے، لیکن یہاں کوئی شور ہی نہیں ہے۔ لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔ مختلف امراض بڑھ رہے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ ماہی گیر سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ کون عوام کو آگاہی دے گا کہ اس تبدیلی میں انھیں کیا کرنا ہے ۔ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں۔ وجوہات کا حل ڈھونڈنے کی بجائے بیمار کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ خطرناک اشاروں میں ہمیں سنبھل جانا چاہیے، ورنہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔
یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موت آہستہ آہستہ آپ کی طرف بڑھتی ہے، لیکن آپ اُسی لمحے کو موت سمجھتے ہیں جب روح، جسم کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ یہاں کسی کو فکر نہیں ہے کہ روز دوا نہ ملنے کی وجہ سے کتنے لوگ مر جاتے ہیں، مگر ایک آدمی بارش سے مر جائے تو خبر بن جاتی ہے۔ سیاست دان میڈیا پرآ کر تبصرے شروع کر دیں گے۔ یہاں اس قوم کو روز ایک ہیرو کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اُس کے لیے شرط یہ ہے کہ اُسے کیمرے کی آنکھ محفوظ کر لے۔ آپ دیکھیں یہاں ہم لوگ روز ایک ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے میں مصروف ہوتے ہیں اور اصل مسائل جوں کہ توں پڑے رہتے ہیں۔
یہاں کسی کو معلوم ہے کہ ہم پر ایک عذاب آہستہ آہستہ کس طرح سے نازل ہو چکا ہے؟ کسی کو ہوش ہی نہیں ہے کہ کیسے یہ عذاب ہماری نسلوں کو تباہ کرنے لگا ہے۔ اس پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا ہے؟
آئیے! تصویر کا بھیانک روپ دکھاتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی بیمار ہو چکی ہے۔ یہاں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین کی حالت کیا ہو رہی ہے۔ ملک کے بالائی علاقوں میں برف باری ہو رہی ہے۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ سردی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ گرم کپڑوں کے فیشن شوز ہو رہے ہیں اور دوسری طرف تصویر کچھ اور بتا رہی ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے کئی علاقے اور تقریبا بلوچستان کے اندر گزشتہ کئی سالوں سے بارش نہیں ہوئی ہے۔ میری مراد بارش سے ہے بوندا باندی سے نہیں۔ یہاں موسم گرما اور سخت ہو چکا ہے۔ مون سون یہاں پر سوکھ گیا ہے۔
آج کل کے بچوں کے سامنے وہ مشہور گانا کہ ''وہ دسمبر کا سماں'' بے کار ہو چکا ہے کیونکہ پورا دسمبر گزر گیا یہاں پر سردی نہیں آئی ہے۔ آدھا جنوری گزر چکا ہے لیکن اب تک گرم کپڑے نہیں نکلے ہیں۔ یہاں اکثر جگہوں پر پنکھے چل رہے ہوتے ہیں۔ موسم کی اس بے رحمی کی وجہ سے آدھی سے زائد آبادی بیمار ہو چکی ہے۔ بچوں میں کھانسی اور بخار ہے۔
ایک وائرس نے سب کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ یہاں ہر دوسرا شخص کھانس رہا ہے۔ موسم تبدیل ہو رہا ہے۔ یہاں اس تبدیلی کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ کہنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زیر زمین میٹھا پانی تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ کھارا پانی بھی اس قدر کھارا ہے کہ اُس میں نمک کے علاوہ کچھ اور محسوس نہیں ہوتا ہے۔ بالائی علاقوں میں سیلاب کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ گلیشیر پگھل رہے ہیں، اس لیے سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اوپر کی جانب پانی ہی پانی ہے یعنی یہ بھی اچھا نہیں ہے۔ دوسری طرف قحط کی صورتحال ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال سندھ میں تھر کی دی جا رہی ہے، مگر اس سے زیادہ بھیانک صورتحال اس وقت بلوچستان کی ہے۔ جہاں پانی کی دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
سمندر تیزی سے اوپر آ رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کا ہزاروں ایکڑ کا علاقہ اس وقت سمندر کی نذر ہو چکا ہے۔ اوپر سے ڈیلٹا میں پانی نہ آنے کی وجہ سے اچھی خاصی کاشت کے قابل زمین، بنجر ہو چکی ہے۔ اس مسئلے کو سمجھیں کہ کہیں پر پانی زیادہ ہو رہا ہے اور کہیں پر پانی غائب ہو چکا ہے۔ کہیں پر گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے اور کہیں سردی جان نہیں چھوڑ رہی ہے۔
کیا کسی کو فکر ہے کہ یہاں ہونے کیا جا رہا ہے، کیا کسی کو ہم پر رحم نہیں آتا ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے نے پاکستان میں اس حوالے سے سروے کرایا ہے۔
اس سروے میں پاکستان کے علاوہ خطے کے سات دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ پاکستان میں اکثریت کا خیال یہ ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے کوئی فکر نہیں ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اس خطے میں موسمی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو رہا ہے اور اس حوالے سے سب سے کم کام بھی پاکستان میں ہی ہو رہا ہے۔
سابقہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس حوالے سے ایک پالیسی کا بھی اعلان کیا تھا۔ جسے پاکستان کی پہلی موسمی پالیسی کہا گیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں فکر نہیں یہاں پر اس حوالے سے ایک وزارت بھی موجود ہے، مگر اُس کا کام کیا ہے؟ دنیا بھر میں اس حوالے سے اربوں ڈالر کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔
شاید اس کا مقصد بھی یہ ہی ہو، مگر کوئی پوچھے تو سہی کہ کراچی کے لوگ جس موسمی تبدیلی کا شکار ہے ان کا کیا ہو گا۔ بلوچستان میں لوگ قحط کی زد میں ہے ان کا کیا مستقبل ہے۔ خیبرپختون خوا جو سیلاب کی زد میں آ رہا ہے، ان کا کیا ہو گا۔ لاہور میں پانی کی قلت شروع ہو چکی ہے، اس کا علاج کس حکیم کے پاس ہے۔
پاکستان انسانی ترقی کے انڈکس پر شرم ناک پوزیشن پرکھڑا ہے۔ ہم ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جہاں افریقہ کے ممالک بھی نہیں ہے، اگر لوگوں کو آمدنی اور وسائل پر اختیار کے مطابق چار حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جس میں ایک درجہ غربت کے نیچے، غربت، متوسط اور اعلیٰ طبقہ ہو تو عالمی تنظیموں کے سروے کے مطابق سب سے زیادہ شرح غربت سے نیچے کے لوگوں کی ہے۔ یعنی پاکستان کی آبادی کا40 فیصد سے زائد غربت کی شرح سے نیچے ہے۔
موسمی تبدیلی کی وجہ سے ماہی گیروں کی زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ کئی علاقوں میں سیلاب اور کہیں پر کم بارش کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں حریت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ حکومت کی پالیسی اور حکومت کی نگاہ شاید ٹیکس پر زیادہ ہے لیکن زمینی حقائق بہت زیادہ تلخ ہو چکے ہیں۔ جنگلات میں موسمی تبدیلی اور مسلسل کٹاؤ کی وجہ سے کمی ہو رہی ہے۔
مصنوعی اور دکھاوے کی اسکیمیں کسی کام نہیں آ رہیں۔ کوئی لاکھوں درخت لگانے کی بات کر رہا ہے تو کوئی کروڑوں سے نیچے آنے کو تیار نہیں ہے، مگر اصل حقیقت یہ ہے کراچی سمیت سندھ کے سمندری علاقوں میں تیزی کے ساتھ تیمر کے درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ کچھ جگہوں پر قبضے ہو چکے ہیں اور کہیں پر لوگ آستین چڑھا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سندھ، پنجاب اور خیبر پختوانخوا میں جنگل کی کٹائی کے بعد زمینوں کے حصول کے لیے ''اعلیٰ'' لوگ دست و گریباں ہیں۔
کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذمے دار ہم نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہو رہے ہیں۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اس کے بعد اس خطے میں مالدیپ نقشے سے ہی غائب ہو جائے گا۔ دنیا کا درجہ حرارت ''دو'' ڈگری سیلسیس بڑھ جائے گا۔ اس کی ذمے داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ہے۔
اس کا ذمے تو ان ممالک کو لینا چاہیے کہ جنھوں نے ترقی کے نام پر ماحول کو خراب کر دیا۔ ان کا گریبان پکڑنا چاہیے جس نے جدت کے نام پر صنعتوں کا جال بچھا کر ہم سب کو دھند کی لپیٹ میں ڈال دیا۔ ابھی ہمارے وزیر اعظم بھی گئے تھے، وہاں جہاں سب اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے اختلاف اس میں اپنی جگہ موجود ہیں ۔
مگر ہمارا سوال یہ نہیں ہے کہ دنیا میں کون کون اس تباہی کا ذمے دار ہے۔ میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ کس نے کتنی کلورو اور فلورو گیس خارج کی۔ نہ ہی اس میں وقت ضایع کرنا چاہتا ہوں کہ پڑوس میں کس کے گھر کون سی دال بنی ہے۔ میرا تو اپنا مسئلہ ہے۔ کراچی میں موسمی تبدیلی کے واضح اشارے نظر آ رہے ہیں۔ خیبرپختوانخوا میں سیلاب نے آنکھیں کھول دیں۔ تھر اور بلوچستان میں پانی کی کمی آپ کی نظروں سے چھُپی ہوئی نہیں ہے۔
دنیا بھر میں لوگ سر جوڑ کر بیٹھ چکے ہیں کہ انھیں اپنے لوگوں کا تحفظ کس طرح کرنا ہے، لیکن یہاں کوئی شور ہی نہیں ہے۔ لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔ مختلف امراض بڑھ رہے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ ماہی گیر سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ کون عوام کو آگاہی دے گا کہ اس تبدیلی میں انھیں کیا کرنا ہے ۔ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں۔ وجوہات کا حل ڈھونڈنے کی بجائے بیمار کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ خطرناک اشاروں میں ہمیں سنبھل جانا چاہیے، ورنہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔