غیر فطری انداز زندگی
کوئی زمانہ تھا جب زندگی خوبصورت، پرسکون اور فطری تقاضوں کے قریب تر تھی
کوئی زمانہ تھا جب زندگی خوبصورت، پرسکون اور فطری تقاضوں کے قریب تر تھی، مگر جیسے جیسے وقت بدلتا گیا، زندگی میں جدت آتی رہی۔ یہ جدت کھانوں سے لے کر، گھر میں استعمال ہونے والی مختلف مصنوعات میں نظر آنے لگی۔ زندگی غیر فطری انداز اور معنویت سے اپنا فطری حسن کھو بیٹھی۔ یہ تبدیلیاں غیر محسوس طریقے سے ہماری زندگیوں کا حصہ بنتی چلی گئیں۔
جن کی وجہ سے انسانی صحت، ذہن اور رویے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ آج ہمارے روزمرہ کے معمولات کیمیائی اثر اور تابکاری شعاعوں سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سہل پسندی اور آسائش کی فراوانی ہے۔ پہلے ہم جو کام ہاتھ سے کرتے تھے، اب وہ بوجھ مشینیں اٹھاتی ہیں۔ ان الیکٹرک مشینوں سے نکلنے والی تابکاری شعاعیں، کس طرح ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں، ہم اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ بے خبری قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جتنا بے خبر رہے وہ اتنا ہی خوش رہتا ہے۔
مگر یہ خوشی عارضی ہے۔
ہمارے گھروں میں زیادہ تر بلب جلتے ہیں۔ جس کے منفی اثرات سر درد سے لے کر بے چینی تک ہمارے مزاجوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ فلیٹ سسٹم اور طرز تعمیرات کی وجہ سے، گھر ہوا یا روشنی کے رخ پر کم ہوتے ہیں، مگر وہ گھر جہاں روشنی اور ہوا کا اچھا گزر ہے، مصنوعی روشنیوں اور ہوا کے عادی ہو چکے ہیں۔
سورج کی روشنی، تازہ ہوا اور فطری خوشبو سے محروم ہماری زندگی، بہت سی بیماریوں کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کہا جاتا ہے کہ تقریباً Synthetic 72,000 کیمیکل استعمال کیے جانے لگے۔ یہ کیمیائی اجزا، کھانے سے لے کر افزائش حسن اور گھر کی صفائی میں روز مرہ کے معمولات کا حصہ بنے۔
قدیم زمانے سے گھرکی صفائی، مچھر، کیڑے مکوڑوں کے لیے، نیم کا پانی استعمال ہوا کرتا تھا، برتن و کپڑوں کے لیے سوڈا، لیموں، نمک، سفید سرکہ وغیرہ سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوتے، مچھروں کے لیے لیمن بام، نیم، لیونڈر، پودینہ، بید مشک کے پتے یا تیل استعمال ہوا کرتا تھا۔ بال دھونے کے لیے آملے، ریٹھے، سیکاکائی، نیم کے پتوں کا پانی، ملتانی مٹی وغیرہ بالوں کو گھنا، سیاہ و چمکدار رکھتے۔ آج مارکیٹ میں مختلف شیمپوز، کنڈیشنر اور تیل دستیاب ہیں۔ چھوٹے بچوں کے بال سفید ہو رہے ہیں۔ ہمیں فقط مہنگی مصنوعات استعمال کرنی ہیں۔ چاہے ان میں شامل کیمیکل ہمارے جسم کی کیمسٹری سے ملتے ہیں یا نہیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔
یورپ یا ایشیا کی مختلف تہذیبیں، آج بھی افزائش حسن کے لیے شہد، عرق گلاب، لیموں، سفید سرکہ، بالائی، سمندری نمک، میووں کے چھلکوں یا گودے سے استفادہ کرتی ہیں۔ جدید دنیا دواؤں، مہنگی مصنوعات اور غیر فطری طریقوں کے نقصانات سے عاجز ہو کے فطری اجزا کی طرف لوٹ چکی ہے۔ مگر ہم اس تبدیلی سے واقف نہیں ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہاتھ دھونے کے لیے صابن کو موثر سمجھا جاتا تھا، مگر اب اس کی جگہ Sanitisers نے لے لی ہے۔ یہ زیادہ تر سفر یا آفسز میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ لوشن ہاتھ پر لگانے کے بعد صابن کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن اس کی حقیقت بھی سن لیجیے۔ سینیٹائزر میں الکحل، Triclosan و دیگر غیر صحت بخش اجزا شامل کیے جاتے ہیں۔ اشیا کو محفوظ کرنے کے اجزا Phthalates اور Parabens انسانی ہارمونز کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ہاتھ کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والے اس لوشن میں Bisphenol A کیمیکل استعمال ہوتا ہے جسے BPA کہا جاتا ہے۔ یہ انڈوکرائن سسٹم کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ گلینڈز کا مجموعہ ہے، جو ہارمونز کو پیدا کرنے کے ساتھ میٹابولزم کو فعال رکھتا ہے۔ لہٰذا بی پی اے کی وجہ سے کینسر، دل کی بیماریاں، بانجھ پن، ذیابیطس وغیرہ کے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہ کیمیکل پلاسٹک کو سخت کرنے اور پلاسٹک کی تمام اشیا میں پایا جاتا ہے۔ پانی کی بوتلوں، کین فوڈ اور ڈرنکس، ہوا مٹی، اور پانی میں شامل ہونے کی وجہ سے، ہمارے جسم میں بی پی اے90 فیصد موجود ہوتا ہے۔ حالانکہ امریکا کی بڑی کمپنیاں، بچوں کی دودھ کی بوتلوں، پلاسٹک کے کپ اور غذا کے ڈبوں میں اس کیمیکل کا استعمال نہیں کر رہی ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ مضر صحت نہیں ہے۔
مگر جدید تحقیق نے ثابت کر دیا کہ اس کے غلط اثرات دماغ، رویوں، نومولود بچوں و بڑے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو پلاسٹک کے تھرموس اور لنچ باکسز کے بجائے اسٹیل سے بنی اشیا کو ترجیح دینا چاہیے۔ اب زیادہ تر پانی کے لیے شیشے یا اسٹیل کی بوتلیں استعمال کی جاتی ہیں۔ پلاسٹک کے برتنوں کی جگہ اسٹیل شیشے یا چینی کے برتن زیادہ موثر سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر پلاسٹک کے ڈبوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ مائیکرو ویو میں استعمال کیے جا سکتے ہیں، مگر یہ مضر صحت ہیں۔
مارکیٹ میں بچوں کے مختلف اقسام کے کھانے کی اشیا دستیاب ہیں۔ ان ٹافیز، جیلیز اور جوسز میں کیمیائی اجزا شامل ہوتے ہیں جو اندھے پن، معدے کی بیماریوں و دیگر پیچیدگیوں کی وجہ بنتے ہیں۔ مرچوں کے ذائقے سے بنی مزیدار قسم کی جیلی نے ہزارہا بچوں کو معدے کی بیماریوں کا شکار بنا دیا۔ نہ والدین دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے کیا کھا رہے ہیں اور نہ ہی صحت و غذا کے متعلقہ شعبے کوئی جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ کس طرح نئی نسل ذہنی و جسمانی طور پر غیر فعال ہو رہی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق بچوں کے جوسز جن کی تقریباً 16 کے قریب اقسام بتائی گئی ہیں۔ بچوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کا زیادہ استعمال کینسر کو دعوت دیتا ہے۔ حتیٰ کہ منرل واٹر کی بوتلیں تک غیر معیاری قرار دی جا چکی ہیں۔ دنیا بھر میں نلکوں کا پانی بوائل کر کے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں منرل واٹر کی صنعت دن بہ دن فروغ پا رہی ہے۔ جگہ جگہ واٹر پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ یہ پانی کس قدر محفوظ ہے کوئی نہیں جانتا۔ ملک میں بڑے بڑے پلازہ بن رہے ہیں۔
شاپنگ پلازہ دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ غیر ملکی غذا کے ریسٹورنٹ اور امپورٹڈ اشیا کی فراوانی ہے، لیکن نہیں ہے تو صاف پینے کا پانی جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بہر کیف غیر فطری انداز زندگی براہ راست جگر کو متاثر کر رہا ہے اور جگر کی بیماریوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
کئی خطرناک قسم کے مشروبات ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مثال ڈائٹ سوڈا جس میں خطرناک مٹھاس (جسے Aspartame کہا جاتا ہے) جو ذیابیطس، جذباتی ہیجان، نظر کی کمزوری، کانوں میں آوازیں وغیرہ جیسی بیماریوں کا محرک بنتی ہے۔
یہ تمام تر چیزیں جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں، ہم ان سے مکمل طور پر پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ البتہ ان اشیا کا استعمال کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ متبادل راستے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ تاکہ کم سے کم منفی اثرات ذہن و جسم پر اثرانداز ہو سکیں۔ صحت مند جسم، مضبوط ذہن و روحانی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے برسر پیکار ہم یقینی طور پر، خود کو زہر آلود کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے مضر اثرات کم کرنے کے طریقے کو Detoxification کہتے ہیں یعنی یہ جسم میں شامل کیمیائی زہر دور کرنے کا عمل ہے۔ جس میں پیدل چلنا، جسمانی مشق، یوگا، سانس کی مشقیں، سلاد، سبزیاں، میوہ، گرین مٹی، فائبر (ریشے دار اشیا) کا استعمال بہتر حل فراہم کر سکتا ہے۔
ناقص غذا اور ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ انسان اپنا دشمن خود ہے۔ جب تک ہم ذاتی سمجھداری کو نہیں اپناتے، اس وقت تک صحت مند و خوشگوار زندگی ہمارے لیے خواب بنی رہے گی۔
جن کی وجہ سے انسانی صحت، ذہن اور رویے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ آج ہمارے روزمرہ کے معمولات کیمیائی اثر اور تابکاری شعاعوں سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سہل پسندی اور آسائش کی فراوانی ہے۔ پہلے ہم جو کام ہاتھ سے کرتے تھے، اب وہ بوجھ مشینیں اٹھاتی ہیں۔ ان الیکٹرک مشینوں سے نکلنے والی تابکاری شعاعیں، کس طرح ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں، ہم اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ بے خبری قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جتنا بے خبر رہے وہ اتنا ہی خوش رہتا ہے۔
مگر یہ خوشی عارضی ہے۔
ہمارے گھروں میں زیادہ تر بلب جلتے ہیں۔ جس کے منفی اثرات سر درد سے لے کر بے چینی تک ہمارے مزاجوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ فلیٹ سسٹم اور طرز تعمیرات کی وجہ سے، گھر ہوا یا روشنی کے رخ پر کم ہوتے ہیں، مگر وہ گھر جہاں روشنی اور ہوا کا اچھا گزر ہے، مصنوعی روشنیوں اور ہوا کے عادی ہو چکے ہیں۔
سورج کی روشنی، تازہ ہوا اور فطری خوشبو سے محروم ہماری زندگی، بہت سی بیماریوں کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کہا جاتا ہے کہ تقریباً Synthetic 72,000 کیمیکل استعمال کیے جانے لگے۔ یہ کیمیائی اجزا، کھانے سے لے کر افزائش حسن اور گھر کی صفائی میں روز مرہ کے معمولات کا حصہ بنے۔
قدیم زمانے سے گھرکی صفائی، مچھر، کیڑے مکوڑوں کے لیے، نیم کا پانی استعمال ہوا کرتا تھا، برتن و کپڑوں کے لیے سوڈا، لیموں، نمک، سفید سرکہ وغیرہ سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوتے، مچھروں کے لیے لیمن بام، نیم، لیونڈر، پودینہ، بید مشک کے پتے یا تیل استعمال ہوا کرتا تھا۔ بال دھونے کے لیے آملے، ریٹھے، سیکاکائی، نیم کے پتوں کا پانی، ملتانی مٹی وغیرہ بالوں کو گھنا، سیاہ و چمکدار رکھتے۔ آج مارکیٹ میں مختلف شیمپوز، کنڈیشنر اور تیل دستیاب ہیں۔ چھوٹے بچوں کے بال سفید ہو رہے ہیں۔ ہمیں فقط مہنگی مصنوعات استعمال کرنی ہیں۔ چاہے ان میں شامل کیمیکل ہمارے جسم کی کیمسٹری سے ملتے ہیں یا نہیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔
یورپ یا ایشیا کی مختلف تہذیبیں، آج بھی افزائش حسن کے لیے شہد، عرق گلاب، لیموں، سفید سرکہ، بالائی، سمندری نمک، میووں کے چھلکوں یا گودے سے استفادہ کرتی ہیں۔ جدید دنیا دواؤں، مہنگی مصنوعات اور غیر فطری طریقوں کے نقصانات سے عاجز ہو کے فطری اجزا کی طرف لوٹ چکی ہے۔ مگر ہم اس تبدیلی سے واقف نہیں ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہاتھ دھونے کے لیے صابن کو موثر سمجھا جاتا تھا، مگر اب اس کی جگہ Sanitisers نے لے لی ہے۔ یہ زیادہ تر سفر یا آفسز میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ لوشن ہاتھ پر لگانے کے بعد صابن کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن اس کی حقیقت بھی سن لیجیے۔ سینیٹائزر میں الکحل، Triclosan و دیگر غیر صحت بخش اجزا شامل کیے جاتے ہیں۔ اشیا کو محفوظ کرنے کے اجزا Phthalates اور Parabens انسانی ہارمونز کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ہاتھ کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والے اس لوشن میں Bisphenol A کیمیکل استعمال ہوتا ہے جسے BPA کہا جاتا ہے۔ یہ انڈوکرائن سسٹم کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ گلینڈز کا مجموعہ ہے، جو ہارمونز کو پیدا کرنے کے ساتھ میٹابولزم کو فعال رکھتا ہے۔ لہٰذا بی پی اے کی وجہ سے کینسر، دل کی بیماریاں، بانجھ پن، ذیابیطس وغیرہ کے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہ کیمیکل پلاسٹک کو سخت کرنے اور پلاسٹک کی تمام اشیا میں پایا جاتا ہے۔ پانی کی بوتلوں، کین فوڈ اور ڈرنکس، ہوا مٹی، اور پانی میں شامل ہونے کی وجہ سے، ہمارے جسم میں بی پی اے90 فیصد موجود ہوتا ہے۔ حالانکہ امریکا کی بڑی کمپنیاں، بچوں کی دودھ کی بوتلوں، پلاسٹک کے کپ اور غذا کے ڈبوں میں اس کیمیکل کا استعمال نہیں کر رہی ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ مضر صحت نہیں ہے۔
مگر جدید تحقیق نے ثابت کر دیا کہ اس کے غلط اثرات دماغ، رویوں، نومولود بچوں و بڑے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو پلاسٹک کے تھرموس اور لنچ باکسز کے بجائے اسٹیل سے بنی اشیا کو ترجیح دینا چاہیے۔ اب زیادہ تر پانی کے لیے شیشے یا اسٹیل کی بوتلیں استعمال کی جاتی ہیں۔ پلاسٹک کے برتنوں کی جگہ اسٹیل شیشے یا چینی کے برتن زیادہ موثر سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر پلاسٹک کے ڈبوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ مائیکرو ویو میں استعمال کیے جا سکتے ہیں، مگر یہ مضر صحت ہیں۔
مارکیٹ میں بچوں کے مختلف اقسام کے کھانے کی اشیا دستیاب ہیں۔ ان ٹافیز، جیلیز اور جوسز میں کیمیائی اجزا شامل ہوتے ہیں جو اندھے پن، معدے کی بیماریوں و دیگر پیچیدگیوں کی وجہ بنتے ہیں۔ مرچوں کے ذائقے سے بنی مزیدار قسم کی جیلی نے ہزارہا بچوں کو معدے کی بیماریوں کا شکار بنا دیا۔ نہ والدین دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے کیا کھا رہے ہیں اور نہ ہی صحت و غذا کے متعلقہ شعبے کوئی جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ کس طرح نئی نسل ذہنی و جسمانی طور پر غیر فعال ہو رہی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق بچوں کے جوسز جن کی تقریباً 16 کے قریب اقسام بتائی گئی ہیں۔ بچوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کا زیادہ استعمال کینسر کو دعوت دیتا ہے۔ حتیٰ کہ منرل واٹر کی بوتلیں تک غیر معیاری قرار دی جا چکی ہیں۔ دنیا بھر میں نلکوں کا پانی بوائل کر کے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں منرل واٹر کی صنعت دن بہ دن فروغ پا رہی ہے۔ جگہ جگہ واٹر پلانٹ لگائے گئے ہیں۔ یہ پانی کس قدر محفوظ ہے کوئی نہیں جانتا۔ ملک میں بڑے بڑے پلازہ بن رہے ہیں۔
شاپنگ پلازہ دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ غیر ملکی غذا کے ریسٹورنٹ اور امپورٹڈ اشیا کی فراوانی ہے، لیکن نہیں ہے تو صاف پینے کا پانی جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بہر کیف غیر فطری انداز زندگی براہ راست جگر کو متاثر کر رہا ہے اور جگر کی بیماریوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
کئی خطرناک قسم کے مشروبات ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مثال ڈائٹ سوڈا جس میں خطرناک مٹھاس (جسے Aspartame کہا جاتا ہے) جو ذیابیطس، جذباتی ہیجان، نظر کی کمزوری، کانوں میں آوازیں وغیرہ جیسی بیماریوں کا محرک بنتی ہے۔
یہ تمام تر چیزیں جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں، ہم ان سے مکمل طور پر پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ البتہ ان اشیا کا استعمال کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ متبادل راستے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ تاکہ کم سے کم منفی اثرات ذہن و جسم پر اثرانداز ہو سکیں۔ صحت مند جسم، مضبوط ذہن و روحانی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے برسر پیکار ہم یقینی طور پر، خود کو زہر آلود کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے مضر اثرات کم کرنے کے طریقے کو Detoxification کہتے ہیں یعنی یہ جسم میں شامل کیمیائی زہر دور کرنے کا عمل ہے۔ جس میں پیدل چلنا، جسمانی مشق، یوگا، سانس کی مشقیں، سلاد، سبزیاں، میوہ، گرین مٹی، فائبر (ریشے دار اشیا) کا استعمال بہتر حل فراہم کر سکتا ہے۔
ناقص غذا اور ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ انسان اپنا دشمن خود ہے۔ جب تک ہم ذاتی سمجھداری کو نہیں اپناتے، اس وقت تک صحت مند و خوشگوار زندگی ہمارے لیے خواب بنی رہے گی۔