ناجائز
شریف کی تعریف تو امیر ہی کرتے ہیں مگر چھوٹے کو صاحب کی بیٹی کا شراپ پی کر رقص کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
کچرے کا ڈبہ اور گھنگرو۔ یہ دو یادیں تھیں اس کے بچپن کی اور کچھ یاد نہیں رہا۔ 13 سال کا اصغر ہمیشہ اسی معمے میں رہا کہ وہ تھا کون؟ آیا کہاں سے؟ ماں کون تھی؟ باپ کون تھا؟ ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو کچرے کے ڈبوں کے بیچ پایا۔ روز باقی آوارہ بچوں اور کتوں سے چھین کر روٹی کھانا اس کی زندگی کا واحد مقصد ٹھہرا۔
ہاں البتہ اگر کبھی کسی پاس سے جاتی گاڑی یا بس سے موسیقی کی آواز آتی تو اس کے دماغ میں گھنگرو بجنے لگتے۔ پتہ نہیں کیوں؟ یہ آواز اس نے کہاں اور کیونکر سنی تھی۔ کچھ یاد نہیں پڑتا تھا۔ ایک موٹی سی آنٹی کہتی تھیں کہ اِس کی ماں گشتی تھی تو وہ بھی کچرا ہوگیا۔ مگر اسے تو کچھ یاد نہیں تھا، ماں کیسی ہوتی ہے؟ کیسی دِکھتی ہے؟ کیسے پیار کرتی ہے؟ ماں تو ماں ہوتی ہے مگر پھر وہ کچرے کا ڈبہ، وہ گھنگرو اور اور کچھ یاد آتا ہی نہیں تھا۔
کچرے میں ملنے والی کاپی، کتابوں اور پنسل سے وہ کچھ کچھ پڑھنا سیکھ گیا تھا۔ شام کو وہ پاس والی کوٹھی میں کتوں کی رکھوالی اور انہیں کھلانے پلانے جاتا تو وہاں چوکیدار سے بھی کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا۔ صاحب جی غصے کے تیز تھے مگر عموماً ملک سے باہر ہی رہتے۔ ان کی سیکریٹری اُن کے ساتھ ہی جاتیں۔ میم صاحب یوں تو خوب گھریلو خاتون تھیں مگر صاحب کے جاتے ہی ان کا وقت اپنے دوستوں کے ساتھ ہی گزرتا۔ دن بھی اور رات بھی۔ چھوٹے کی ذمہ داری کتوں اور کتوں کی مالک صاحب جی کی بیٹی پر آتی۔
صاحب جی کی بیٹی، جنہیں وہ چھوٹی میم صاحب پکارتا، کا اٹھنا بیٹھنا شریف لڑکوں میں نہ تھا۔ خیر شریف کی تعریف تو امیر ہی کرتے ہیں۔ مگر چھوٹے کو رقص کرنے والے شراب میں دھت لوگ شریف نہ لگتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں سے چل رہا تھا۔ اسے ان سب کا گھلنا ملنا عجیب سا لگتا۔ ایک انوکھی بے چینی ہوتی مگر وہ اسے نام نہ دے پاتا۔ پھر اچانک یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ بڑی میم صاحب چھوٹی میم صاحب کے ساتھ کہیں چلی گئیں۔ ایک رات ان کا ڈرائیور چھوٹے کی جھگی میں آیا اور اُسے ساتھ لے گیا۔
چھوٹا جب واپس آیا تو اس کی گود میں سات دن کی بچی تھی اور جیب میں ڈھیر سارے نوٹ۔ وہ خوشی سے کبھی نوٹوں کو دیکھتا تو کبھی اس معصوم سی بچی کو۔ اسے بڑی خوشی تھی کے اب کچھ روز تو کم از کم کتوں سے چھین کر نہیں کھانا پڑے گا۔
آج وہ سونے کے لئے لیٹا توایسا لگا جیسے کہ اسکی یاداشت واپس آگئی ہو اس نے وہیں کچرے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے دعا کو ہاتھ اُٹھائے۔ اے مالکِ دو جہاں، یا ذولجلالِ ولااکرام، تو تو سب کا خدا ہے۔ ان پر رحم کر جو دوسروں کی بھول سے کچرا کہلائے۔ اُن پہ رحم کر جو بے قصور دھتکارے گئے۔ انہیں اَمان دے جنہیں امان والوں نے بے امان کر دیا۔
اُن پر کرم کر جن کے کانوں سے گھنگرو کی گونج چمٹ جائے۔ اِس بچی کا خیال رکھ اور مجھے ہمت دے کہ اب دو کتوں سے کھانا چھیننا پڑے گا۔ تو سارے نیکوں کی سنتا ہے آج ہم جیسوں کی بھی سن لے۔ کچرا ہی سہی تیرے پاس نہ آئیں تو جائیں کہاں؟ آج ان کی لاج رکھ جن کی کوئی لاج نہیں۔
''آمین''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ہاں البتہ اگر کبھی کسی پاس سے جاتی گاڑی یا بس سے موسیقی کی آواز آتی تو اس کے دماغ میں گھنگرو بجنے لگتے۔ پتہ نہیں کیوں؟ یہ آواز اس نے کہاں اور کیونکر سنی تھی۔ کچھ یاد نہیں پڑتا تھا۔ ایک موٹی سی آنٹی کہتی تھیں کہ اِس کی ماں گشتی تھی تو وہ بھی کچرا ہوگیا۔ مگر اسے تو کچھ یاد نہیں تھا، ماں کیسی ہوتی ہے؟ کیسی دِکھتی ہے؟ کیسے پیار کرتی ہے؟ ماں تو ماں ہوتی ہے مگر پھر وہ کچرے کا ڈبہ، وہ گھنگرو اور اور کچھ یاد آتا ہی نہیں تھا۔
کچرے میں ملنے والی کاپی، کتابوں اور پنسل سے وہ کچھ کچھ پڑھنا سیکھ گیا تھا۔ شام کو وہ پاس والی کوٹھی میں کتوں کی رکھوالی اور انہیں کھلانے پلانے جاتا تو وہاں چوکیدار سے بھی کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا۔ صاحب جی غصے کے تیز تھے مگر عموماً ملک سے باہر ہی رہتے۔ ان کی سیکریٹری اُن کے ساتھ ہی جاتیں۔ میم صاحب یوں تو خوب گھریلو خاتون تھیں مگر صاحب کے جاتے ہی ان کا وقت اپنے دوستوں کے ساتھ ہی گزرتا۔ دن بھی اور رات بھی۔ چھوٹے کی ذمہ داری کتوں اور کتوں کی مالک صاحب جی کی بیٹی پر آتی۔
صاحب جی کی بیٹی، جنہیں وہ چھوٹی میم صاحب پکارتا، کا اٹھنا بیٹھنا شریف لڑکوں میں نہ تھا۔ خیر شریف کی تعریف تو امیر ہی کرتے ہیں۔ مگر چھوٹے کو رقص کرنے والے شراب میں دھت لوگ شریف نہ لگتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں سے چل رہا تھا۔ اسے ان سب کا گھلنا ملنا عجیب سا لگتا۔ ایک انوکھی بے چینی ہوتی مگر وہ اسے نام نہ دے پاتا۔ پھر اچانک یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ بڑی میم صاحب چھوٹی میم صاحب کے ساتھ کہیں چلی گئیں۔ ایک رات ان کا ڈرائیور چھوٹے کی جھگی میں آیا اور اُسے ساتھ لے گیا۔
چھوٹا جب واپس آیا تو اس کی گود میں سات دن کی بچی تھی اور جیب میں ڈھیر سارے نوٹ۔ وہ خوشی سے کبھی نوٹوں کو دیکھتا تو کبھی اس معصوم سی بچی کو۔ اسے بڑی خوشی تھی کے اب کچھ روز تو کم از کم کتوں سے چھین کر نہیں کھانا پڑے گا۔
آج وہ سونے کے لئے لیٹا توایسا لگا جیسے کہ اسکی یاداشت واپس آگئی ہو اس نے وہیں کچرے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے دعا کو ہاتھ اُٹھائے۔ اے مالکِ دو جہاں، یا ذولجلالِ ولااکرام، تو تو سب کا خدا ہے۔ ان پر رحم کر جو دوسروں کی بھول سے کچرا کہلائے۔ اُن پہ رحم کر جو بے قصور دھتکارے گئے۔ انہیں اَمان دے جنہیں امان والوں نے بے امان کر دیا۔
اُن پر کرم کر جن کے کانوں سے گھنگرو کی گونج چمٹ جائے۔ اِس بچی کا خیال رکھ اور مجھے ہمت دے کہ اب دو کتوں سے کھانا چھیننا پڑے گا۔ تو سارے نیکوں کی سنتا ہے آج ہم جیسوں کی بھی سن لے۔ کچرا ہی سہی تیرے پاس نہ آئیں تو جائیں کہاں؟ آج ان کی لاج رکھ جن کی کوئی لاج نہیں۔
''آمین''
اگلے دن جھگیوں میں میلے کا سماں تھا۔ ہر کوئی نئے ''کچرے'' کو دیکھنے آرہا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔