’لگتا ہے بھٹو جاپان میں بھی ہوتے ہیں‘

پاکستان میں مرنیوالےبچے کیاپاکستانی نہیں ہیں؟انکوایساوی آئی پی پروٹوکول کیوں نہیں ملاجیسا طالبعلم کوجاپان میں مل رہاہے

ایک جاپانی ہیں جو ایک طالبہ کے لیے پوری ٹرین چلا رہے ہیں، اور ایک ہم ہیں جو چلتے ہوئے اسکول بند کردیتے ہیں۔

پرسوں مجھے ایک دوست کا فون آیا اور اس نے سلام دعا کرتے ہی مجھ سے پوچھ لیا، ''وہ جاپانی لڑکی کی خبر پڑھی تم نے؟'' میں نے پوچھا، ''بھائی کون سی خبر؟'' اس نے کہا، ''ارے وہی خبر کہ ایک لڑکی کے لئے ٹرین چلتی ہے''۔ میں نے کہا، ''ہاں نظر سے گذری تو تھی، اس میں کیا خاص بات ہے؟'' (اب اسے موقع مل گیا) اس نے طنزیہ لہجہ میں کہا،
''تم تو بڑے تعلیم کے علمبردار بنتے ہو! کبھی جھنگ میں اسکول بنوانے پر تلے ہوتے ہو! کبھی بجٹ بڑھانے کے لئے ٹوئیٹنگ کر رہے ہوتے ہو! ہر وقت ڈھائی کروڑ بچے، ڈھائی کروڑ بچے کر کے ہماری نیوز فیڈ بھر دیتے ہو، اور تمہیں اس واقعے کا نہیں پتہ؟ میں نے کہا بھائی غلطی ہوگئی پڑھ لیتا ہوں''۔

خیر میں نے وہ خبر پڑھی۔ آپ نے بھی پڑھ لی ہوگی؟ اگر نہیں پڑھی تو مختصراً بتا دیتا ہوں کہ اس میں ایسی کیا اہم بات تھی کہ تمام دنیا میں یہ خبر زبان ذدِ عام ہوچکی ہے۔ جاپان کے قصبے ہوکائیڈو Hokkaido میں پچھلے 3 سال سے ایک ٹرین کامی شراتا کی اسٹیشن Kami-Shirataki Station پر صرف ایک مسافر کے لئے آتی ہے اور یہ ٹرین صرف 2 دفعہ ہی اس قصبے سے گذرتی ہے۔ ایک صبح اپنے واحد مسافر کو اس کی منزل تک پہنچانے کے لئے اور پھر شام میں اسی مسافر کو اپنے پچھلے اسٹیشن پر اتارنے کے لئے۔ یہ مسافر ایک کالج کی طالبہ ہے جس کا نام کانا Kana ہے۔ چونکہ اس اسٹیشن پر مسافروں کی آمد و رفت ممعدوم ہوچکی تھی اس لئے محکمہ ریلوے نے اس ٹریک پر سے ٹرین روٹ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ اسٹیشن اب ایک طالبہ اپنے کالج جانے کے لئے استعمال کرتی ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک قوم کی اس بیٹی کی تعلیم مکمل نہیں ہوجاتی تب تک یہ ٹرین چلتی رہے گی۔

یہ خبر جاپان کے چینل سی سی ٹی وی نے ہی نشر کی تھی اور ان کے فیس بک اکاؤنٹ کی بدولت یہ وائرل ہوگئی تھی۔ اس خبر کو پڑھتے ہی تمام دنیا جاپان کی علم دوستی، خواتین اور طلبہ کے حقوق کی پاسداری اور گڈ گورننس کی معترف ہوگئی اور دل کھول کر جاپانی حکومت کو داد دی۔ کل رات جب یہ واقعہ میں نے اپنے ایک اور دوست کو سنایا تو اس نے فوراً کہا،
''لگتا ہے بھٹو جاپان میں بھی ہوتے ہیں''۔

میں یہ سن کر حیران رہ گیا۔ میں نے کہا کہ،
''یہ کیسی عجیب سی منطق ہے؟''

اس نے کہا،
''بھائی یہ تو وی وی آئی پی پروٹوکول کا چکر ہے۔ ایسی خدمت تو صرف زرداری، لغاری، ملِک، بھٹو، جتوئی، خان، چوہدری، اور مخدومین کے ہی زمرے میں آتی ہے۔ عام آدمی کو کوئی نہیں پوچھتا ہے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں لوگ کسی کو لفٹ تک نہیں دیتے ہیں۔ ایک لڑکی کے لئے ٹرین کیوں چل رہی ہے؟''

میں نے کہا،
''اس خبر میں ایسا تو کہیں نہیں لکھا تھا''۔

اب میرے دوست نے مزید وثوق کے ساتھ کہنا شروع کردیا۔
''یہ لڑکی ضرور کسی بڑے آدی کی بیٹی ہوگی''۔

مجھے بڑی تشویش ہوئی میں نے دوبارہ انٹرنیٹ پر جا کر اس واقعے کی تصدیق اور اپنے دوست کی دور کی کوڑی رد کردی۔ میں نے اسے دوبارہ سمجھایا کہ وہ ایک دور دراز علاقے کی رہائشی عام لڑکی ہے۔

وہ بھی بضد تھا۔ اس نے کہا،
''یا تو یہ لڑکی کسی سرمایہ دار کی بیٹی ہے، یا زمیندار کی۔''


میں نے پھر تردید کردی اور سمجھانا چاہا کہ یہ شہری کا حق ہے کہ ریاست اُس کے کام آئے۔ اسی کو عمرانی معاہدہ کہتے ہیں۔
''تو پھر یہ حق بسمہ کو کیوں نہ ملا؟''

اب میں لاجواب ہوچکا تھا۔ میرے دوست نے مزید کہا،
''تھر میں بسنے والوں کے بچے کیا انسان نہیں ہیں؟ شہری نہیں ہیں؟''

میں نے جواب دینا چاہا لیکن اس نے مجھے موقع نہ دیا،
''لاہور کے چلڈرن اسپتال میں مرنے والے کیا وہ پاکستانی شہری نہیں تھے؟ ان سب کو ایسا وی آئی پی پروٹوکول کیوں نہیں ملا جیسا جاپانی ایک عام شہری کو دے رہے ہیں؟ ہمارے ملک میں ایسی باتیں نہ کیا کرو خوامخواہ یاسیت پھیلتی ہے۔ بس سیاستدان اور ان کی اولادیں زندہ رہیں۔ اور ہم ان کی عیاشیوں کے اخراجات بھرتے رہیں۔ چلو اب چائے کے پیسے دو۔ سارا موڈ بگاڑ دیا ہے تم نے۔''

اپنے اس دوست کی باتیں سن کر میں بھی گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ ایک جاپانی ہیں ایک، صرف ایک شہری کے لیے پوری ٹرین چلا رہے ہیں تاکہ اس کو حصولِ علم میں دقت نہ ہو، اور ایک ہم ہیں، جو چلتے ہوئے اسکول بند کردیتے ہیں۔ چلتا ہوا سرکلر ریلوے بند کردیتے ہیں۔ اور ہر ایرے غیرے جس کے برتھ سرٹیفیکیٹ پر کسی سیاستدان یا وڈیرے، جاگیردار یا سرمایہ پرست کا نام لکھا ہو اس کے لئے لاکھوں شہریوں کو عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔

المیہ دیکھئے کہ جاپان میں اب بھی بادشاہت قائم ہے اور پاکستان جس کو باقاعدہ سیاسی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا تھا وہاں شہریوں کا حال رعیت سے بد تر ہے۔ ہم نے تو لگتا ہے لغت ہی قتل کر ڈالی ہے۔ منسٹر کا ترجمہ ملازم ہوتا ہے۔ ہم نے اس کو مطلق العنان ساہو کار بنا دیا ہے۔ بیورو کریٹ کا مطلب فقط سرکاری افسر اور پبلک سرونٹ کا مطلب تو سیدھا سیدھا عوام کا ملازم ہوتا ہے۔ ہم نے اس کا ترجمہ افسر شاہی نکالا ہے۔ مخدوم کا مطلب ہوتا ہے جس کی خدمت کی جائے۔ میری ناقص رائے کے مطابق تو اولیاء کرام خدمت کرواتے ہی نہیں تھے اور سلطانیِ جمہور میں شہری ہی اصل مخددومین ہوتے ہیں اور سیاتدان اور سرکاری ملازمین خدام۔ لیکن میرے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ جب تک عوام سیاسی ملوکیت کو قائم رکھے گی تب تک جالب کا یہ شعر ہمیں ہماری اوقات یاد دلاتا رہے گا،وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے

[poll id="891"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story