طلبا کی فکری خشک سالی کی نصف صدی
ہر طرف یہ شور ہے کہ معیار تعلیم گر رہا ہے، اساتذہ کے اپنے طلبا سے تعلیمی رشتے ٹوٹ رہے ہیں
ہر طرف یہ شور ہے کہ معیار تعلیم گر رہا ہے، اساتذہ کے اپنے طلبا سے تعلیمی رشتے ٹوٹ رہے ہیں، اساتذہ کے اپنے طلبا کے سالانہ جشن کی رسم باقی نہ رہی، مشاعرے، بیت بازی کے پروگرام، مباحثے، انٹرکالجیٹ، ٹرافیوں کی آمد و رفت، کھیلوں کے پروگرام ، ہفتہ طلبا کی رسم جاتی رہی، اس کے علاوہ غریب طلبا کے لیے فیسوں میں کمی کی درخواستیں غائب ہو چکیں، صرف کاروباری رشتوں کا احیا، دوستی اور بھائی چارے کا طلسم ٹوٹ گیا۔ ایک سمسٹر کی فیس کم و بیش 50 ہزار کا زرکثیر، یہ عام طالب علم کہاں سے لائے؟ حکومت بے پرواہ۔ یہاں تک کہ صورتحال یہ ہے کہ اگر بس چلتا تو ملک کو بھی کسی ملک کو فروخت کر دیا جاتا۔
12 جنوری کو سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کے اس بیان کو دیکھ کر حیرت ہوئی جس میں انھوں نے فرمایا کہ طلبا یونینز پر پابندی آئین کے خلاف ہے، اس ضمن میں آئین کی آرٹیکل 17 کی شق نمبر ایک کا حوالہ دیا۔ محسوس یہ ہوا کہ تمام لوگوں نے تو سفارش کو مثبت قرار دیا، لیکن شاہی سید تحفظات رکھتے ہیں، حالانکہ طلبا تحریک تو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں فعال کردار ادا کر چکی ہے جس نے قیام پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی آواز سے آواز ملائی۔ خود شاہی سید کا یہ عمل سابق نیشنل عوامی پارٹی کے برعکس ہے، بہرصورت خود پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن نہ ان کے تابع ہے نہ ان کے کہنے پر عمل کرتی ہے۔
اس لیے یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ یوں عملی طور پر طلبا یونین تو موجود ہے مگر وہ اب طالب علموں کی ترجمان نہیں بلکہ وہ سیاسی تنظیموں کا بغل بچہ بن کے رہ گئی ہیں، اپنے طلبا مفاد سے کوسوں دور ہیں۔ البتہ سیاسی مفاد کے لیے متحرک ہیں جب یہ انجمنیں کالج اور یونی ورسٹی کی نمایندگی کریںگی تو طلبا مفاد اولیت پر گامزن ہو گا اور سیاسی مفاد دوئم۔ اگر ایسا نہ ہوتا کہ طالب علموں کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں میں ان کی افادیت نہ ہوتی تو آکسفورڈ اور کیمبرج میں طلبا انتخابات کبھی نہ ہوتے، ہر چیز میں تو مغرب کی پیروی مگر اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی ہے مگر عملاً سیاسی عمل پر پابندی نہیں کیونکہ سوچ پر پابندی ناممکنات میں سے ہے۔ لہٰذا اس عمل سے جو اسٹوڈنٹس یونین کے مثبت پہلو تھے وہ تو آج کل موجود نہیں، صرف منفی پہلو تعلیمی اداروں میں نمایاں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیلز مارکیٹنگ میں تو طلبا آگے بڑھ رہے ہیں مگر فکری اور غیر نصابی تعمیری پہلو ان کی زندگی میں نہیں ہے کیوں کہ کردار نہیں رہا۔ اس لیے کہ حکومتوں نے خود طلبا کو اس سے دور رکھا جب کہ مدارس کے طلبا کا غلط یا صحیح اپنا کردار موجود رہا۔ عملی طور پر دائیں بازو یا بائیں بازو کا عالمی سطح پر یا ملکی سطح پر کوئی کردار نمایاں نہ تھا۔
کبھی یہ طلبا (ن) لیگ کے ساتھی نظر آئے تو کبھی عمران خان کے۔ مگر طلبا کے مقاصد اور ان کا لائحہ عمل ساتھ لے کر نہیں نمایاں ہوئے حالانکہ کراچی کے طلبا کبھی ویتنام کی جنگ میں نمایاں تھے تو کبھی لوممبا (Lumamba) تو کبھی مارٹن لوتھر، تو کبھی جبلپور کے مسلم کش فسادات پر تو کبھی فلسطین کے دوش بدوش، لہٰذا طالب علموں کی غیر سیاسی نگاہ سے حکومتیں خوش رہیں۔ آخر آج اگر طلبا یونینز ہوتیں تو کوئی ان کا لائحہ عمل ہوتا اور کوئی نظریہ بھی، ان طلبا یونینوں کا وجود ایک نظریاتی قوت بھی ہوتا تھا۔
ماضی میں کراچی کی سطح پر مختلف کالجوں کی یونینوں کے نتیجے میں ایک انٹر کالجیٹ باڈی ہوتی تھی، اس کا چیئرمین ہوتا تھا، بالکل ایسے ہی جیسے میئر کا انتخاب ہوتا تھا اسی طرز پر اس کا اثر ہوتا تھا۔ کیا کسی کو یاد ہے یا نہیں؟ یاد ہے کہ ایک ایسا وقت کراچی پر آیا تھا جب پورے ملک میں 2 سالہ ڈگری کورس تھا مگر کراچی میں 3 سالہ کورس تھا جس کو این ایس ایف نے ختم کرایا جن دنوں راقم این ایس ایف کا صدر تھا۔
بسوں کا کرایہ نصف کرایا گیا، سیاسی پارٹیوں سے زائد طلبا کے جلوس میں عوام کی شرکت تھی مگر مجال ہے کہ کوئی زبردستی چندہ کا تصور ہو یہ اساتذہ کا اثر اور علم اور تہذیب ودوستی کا رواج مگر نصف صدی کی مسلسل پستی کے بعد حکومت کو بھی خیال آیا، خاص طور سے رضا ربانی کی جانب سے طلبا کے مفاد میں یہ ایک عمل، گو کہ ابھی اس میں پیش رفت باقی ہے۔ طلبا میں بھی رفتہ رفتہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ یہ ان کے حقوق کا ایک اہم پہلو ہے ۔
گزشتہ اتوار 10 جنوری کو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اجتماعی طور پر کوشش کی اور نظریاتی طور پر ہم خیال طلبا تنظیموں کے ایک اجلاس 8 جنوری 1953ء کے شہیدوں کی رعایت سے پی ایم اے ہاؤس کراچی میں منعقد کیا گیا۔
اس کا تمام تر سہرا سابق اسٹوڈنٹس رہنما مومن خان مومن کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ انھوں نے کشمیر، گلگت بلتستان سے لے کر کوئٹہ تک کے طلبا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ایک منزل کی سمت ان کا رویہ تمام طبقاتی در طبقاتی تعلیم کا نظام عروج پر ہے طلبا رہنماؤں کا اس کے خلاف اعلان جہاد، تمام تفصیل تو بتانے کا صفحہ متحمل نہیں۔ البتہ مختصراً یہ بتانا تھا کہ جن طلبا تنظیموں نے شرکت کی ان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، عزیز بلوچ، محمد خان، کامران بیگ، اس کے علاوہ این ایس ایف کے صابر علی حیدر، سلیم اسد منگری اور جام شورو یونیورسٹی سے طلبا کا وفد اور کراچی طلبا جلسے کی صدارت محترمہ حمیدہ گھانگرو جو نذیر عباسی شہید کی اہلیہ تھیں۔ انھوں نے طلبا اتحاد اور طبقاتی شعور پر زور دیا۔ امید ہے کہ اگر طلبا نے متحد ہو کر طلبا یونینز کی بحالی پر زور دیا تو یقینا اسٹوڈنٹس یونین بحال ہوں گی، پھر تعلیمی اداروں سے شعور کی شمعیں جلد روشن ہوں گی۔
12 جنوری کو سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کے اس بیان کو دیکھ کر حیرت ہوئی جس میں انھوں نے فرمایا کہ طلبا یونینز پر پابندی آئین کے خلاف ہے، اس ضمن میں آئین کی آرٹیکل 17 کی شق نمبر ایک کا حوالہ دیا۔ محسوس یہ ہوا کہ تمام لوگوں نے تو سفارش کو مثبت قرار دیا، لیکن شاہی سید تحفظات رکھتے ہیں، حالانکہ طلبا تحریک تو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں فعال کردار ادا کر چکی ہے جس نے قیام پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی آواز سے آواز ملائی۔ خود شاہی سید کا یہ عمل سابق نیشنل عوامی پارٹی کے برعکس ہے، بہرصورت خود پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن نہ ان کے تابع ہے نہ ان کے کہنے پر عمل کرتی ہے۔
اس لیے یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ یوں عملی طور پر طلبا یونین تو موجود ہے مگر وہ اب طالب علموں کی ترجمان نہیں بلکہ وہ سیاسی تنظیموں کا بغل بچہ بن کے رہ گئی ہیں، اپنے طلبا مفاد سے کوسوں دور ہیں۔ البتہ سیاسی مفاد کے لیے متحرک ہیں جب یہ انجمنیں کالج اور یونی ورسٹی کی نمایندگی کریںگی تو طلبا مفاد اولیت پر گامزن ہو گا اور سیاسی مفاد دوئم۔ اگر ایسا نہ ہوتا کہ طالب علموں کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں میں ان کی افادیت نہ ہوتی تو آکسفورڈ اور کیمبرج میں طلبا انتخابات کبھی نہ ہوتے، ہر چیز میں تو مغرب کی پیروی مگر اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی ہے مگر عملاً سیاسی عمل پر پابندی نہیں کیونکہ سوچ پر پابندی ناممکنات میں سے ہے۔ لہٰذا اس عمل سے جو اسٹوڈنٹس یونین کے مثبت پہلو تھے وہ تو آج کل موجود نہیں، صرف منفی پہلو تعلیمی اداروں میں نمایاں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیلز مارکیٹنگ میں تو طلبا آگے بڑھ رہے ہیں مگر فکری اور غیر نصابی تعمیری پہلو ان کی زندگی میں نہیں ہے کیوں کہ کردار نہیں رہا۔ اس لیے کہ حکومتوں نے خود طلبا کو اس سے دور رکھا جب کہ مدارس کے طلبا کا غلط یا صحیح اپنا کردار موجود رہا۔ عملی طور پر دائیں بازو یا بائیں بازو کا عالمی سطح پر یا ملکی سطح پر کوئی کردار نمایاں نہ تھا۔
کبھی یہ طلبا (ن) لیگ کے ساتھی نظر آئے تو کبھی عمران خان کے۔ مگر طلبا کے مقاصد اور ان کا لائحہ عمل ساتھ لے کر نہیں نمایاں ہوئے حالانکہ کراچی کے طلبا کبھی ویتنام کی جنگ میں نمایاں تھے تو کبھی لوممبا (Lumamba) تو کبھی مارٹن لوتھر، تو کبھی جبلپور کے مسلم کش فسادات پر تو کبھی فلسطین کے دوش بدوش، لہٰذا طالب علموں کی غیر سیاسی نگاہ سے حکومتیں خوش رہیں۔ آخر آج اگر طلبا یونینز ہوتیں تو کوئی ان کا لائحہ عمل ہوتا اور کوئی نظریہ بھی، ان طلبا یونینوں کا وجود ایک نظریاتی قوت بھی ہوتا تھا۔
ماضی میں کراچی کی سطح پر مختلف کالجوں کی یونینوں کے نتیجے میں ایک انٹر کالجیٹ باڈی ہوتی تھی، اس کا چیئرمین ہوتا تھا، بالکل ایسے ہی جیسے میئر کا انتخاب ہوتا تھا اسی طرز پر اس کا اثر ہوتا تھا۔ کیا کسی کو یاد ہے یا نہیں؟ یاد ہے کہ ایک ایسا وقت کراچی پر آیا تھا جب پورے ملک میں 2 سالہ ڈگری کورس تھا مگر کراچی میں 3 سالہ کورس تھا جس کو این ایس ایف نے ختم کرایا جن دنوں راقم این ایس ایف کا صدر تھا۔
بسوں کا کرایہ نصف کرایا گیا، سیاسی پارٹیوں سے زائد طلبا کے جلوس میں عوام کی شرکت تھی مگر مجال ہے کہ کوئی زبردستی چندہ کا تصور ہو یہ اساتذہ کا اثر اور علم اور تہذیب ودوستی کا رواج مگر نصف صدی کی مسلسل پستی کے بعد حکومت کو بھی خیال آیا، خاص طور سے رضا ربانی کی جانب سے طلبا کے مفاد میں یہ ایک عمل، گو کہ ابھی اس میں پیش رفت باقی ہے۔ طلبا میں بھی رفتہ رفتہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ یہ ان کے حقوق کا ایک اہم پہلو ہے ۔
گزشتہ اتوار 10 جنوری کو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اجتماعی طور پر کوشش کی اور نظریاتی طور پر ہم خیال طلبا تنظیموں کے ایک اجلاس 8 جنوری 1953ء کے شہیدوں کی رعایت سے پی ایم اے ہاؤس کراچی میں منعقد کیا گیا۔
اس کا تمام تر سہرا سابق اسٹوڈنٹس رہنما مومن خان مومن کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ انھوں نے کشمیر، گلگت بلتستان سے لے کر کوئٹہ تک کے طلبا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ایک منزل کی سمت ان کا رویہ تمام طبقاتی در طبقاتی تعلیم کا نظام عروج پر ہے طلبا رہنماؤں کا اس کے خلاف اعلان جہاد، تمام تفصیل تو بتانے کا صفحہ متحمل نہیں۔ البتہ مختصراً یہ بتانا تھا کہ جن طلبا تنظیموں نے شرکت کی ان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، عزیز بلوچ، محمد خان، کامران بیگ، اس کے علاوہ این ایس ایف کے صابر علی حیدر، سلیم اسد منگری اور جام شورو یونیورسٹی سے طلبا کا وفد اور کراچی طلبا جلسے کی صدارت محترمہ حمیدہ گھانگرو جو نذیر عباسی شہید کی اہلیہ تھیں۔ انھوں نے طلبا اتحاد اور طبقاتی شعور پر زور دیا۔ امید ہے کہ اگر طلبا نے متحد ہو کر طلبا یونینز کی بحالی پر زور دیا تو یقینا اسٹوڈنٹس یونین بحال ہوں گی، پھر تعلیمی اداروں سے شعور کی شمعیں جلد روشن ہوں گی۔