افغانستان پرعملی مسائل … پانچواں حصہ
شاہ عبداللہ کے عہدِ اقتدارکے دوران سعودی عرب نے ایسی حکمتِ عملی کو جاری رکھا ہے۔
QUETTA:
شاہ عبداللہ کے عہدِ اقتدارکے دوران سعودی عرب نے ایسی حکمتِ عملی کو جاری رکھا ہے، جسے جارحانہ خارجہ پالیسی قراردیا جاسکتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب نے اہم سٹرٹیجک معاملات (یمن، عراق، صومالیہ، فلسطین، لبنان، شام وغیرہ) میں شامل ہونے کی سعی کی ہے، جس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ سعودی عرب اپنے مفادات کے لیے دوسری ریاستوں پر انحصار نہیں کر سکتا۔
سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ پہلے ہی 50کروڑ ڈالر سے زائد افغانستان پر خرچ کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سعودی عناصرکی جانب سے افغانستان تک امداد پہنچ رہی ہے، جس کے باعث سعودی عرب سے افغانستان کو ملنے والی مجموعی معاشی امدادکا تعین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب وقتاً فوقتاً افغان حکومت اور طالبان اورطالبان کے ناراض دھڑوں کے درمیان صلح کے لیے سرگرم رہا ہے۔
سعودی خارجہ پالیسی کو عمومی طور پراندرونی سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔یہ یقین پایا جاتا ہے کہ خارجہ معاملات سے متعلق سعودی خفیہ ایجنسی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ شہزادہ مقرین بن عبدالعزیز افغانستان کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سارے دوسرے سعودی ادارے بھی افغانستان کے معاملات میں عمل دخل رکھتے ہیں۔ وزارت داخلہ، افغانستان اور القاعدہ کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔اس وقت وزارت کے سربراہ شہزادہ نائف ہیں۔ سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اور وزارت خارجہ بھی افغان پالیسی کی تشکیل کے عمل میں شامل ہیں، اگرچہ اِن کا کردار محدود ہے۔ مزید برآں سعودی مذہبی رہنماؤں نے مسلم دنیا پرگہرا اثرورسوخ برقراررکھا ہوا ہے اور افغانستان اس سے الگ نہیں ہے۔
سعودی عرب کے لیے افغانستان میں مصروف عمل چار اہم ممالک اور گروہوں میں امریکا، ایران، پاکستان اور افغانستان کی بہت ساری سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔امریکا،سعودی عرب کا اہم ترین اتحادی ہے اور امریکا اور سعودی عرب نے شاذونادر ہی خارجہ پالیسی کے ضمن میں اعلانیہ طور پر ایک دوسرے سے متصادم رائے کا اظہار کیا ہے۔ تاہم جنوبی ایشیاء کے حوالے سے امریکی اور سعودی پالیسیاں ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہیں۔ سعودی عرب کی افغانستان کے کچھ معاملات میں امریکا کے برعکس واجبی سی دلچسپی ہے۔
سعودی عرب کا افغانستان کے تناظر میں بنیادی مقصد طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان مفاہمت ہے، لیکن امریکا کی زیادہ دلچسپی افغانستان تک پہنچنے والے غیرقانونی فنڈز میں ہے۔اس کے ساتھ ہی امریکا کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا سعودی خارجہ پالیسی کا اہم ترین عنصر ہے، اور یہ تبدیل نہیں ہوگا۔سعودی عرب ، خطے اور مسلم دنیا میں ایران کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں شیعہ اور فارسی قومیتوں کے خلاف مخالفت پر مبنی جذبات بھی شامل ہیں۔ سعودی پالیسیاں اس غیرحقیقی خوف کے تحت تشکیل پاتی ہیں کہ امریکا، سعودی عرب کی قیمت پر ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرسکتا ہے۔
سعودی عرب کا اہم ترین اتحادی اور اُس کی پالیسی میں شامل ایک اور اہم ملک پاکستان ہے۔ سعودی عرب کے افغانستان سے وابستہ مفادات، پاکستان کے مفادات کے مماثل دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب،افغانستان کی بہت ساری سیاسی جماعتوںکو بھی اہمیت دیتا ہے اورمستقبل میں انھیں مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گا۔
سعودی عرب کی جانب سے طالبان کے معتدل عناصرکی حمایت، امریکا کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔سعودی عرب کو طالبان حکومت سے زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب اپنا کردار تبدیل کرے، جس سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوسکتی ہے۔
سعودی عرب، افغانستان میں جاری جنگ اور سعودی مخالف عسکریت پسندوں اور القاعدہ کا خاتمہ چاہتا ہے۔یہ مقصد بڑی حد تک امریکا اوراتحادیوں کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے۔ تاہم افغان حکومت کی حتمی ہیئت اوراس کا مختلف معاملات پرکردار تضادات کی وجہ بن سکتا ہے۔اس ضمن میں سعودی عرب اور امریکا کے لیے خوش کن نوعیت کے نتائج، ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
وسطی ایشیاء کی پانچوں ریاستیں اپنا قومی تحفظ افغانستان میں ہونے والی جنگ کے نتائج سے وابستہ کرتی ہیں کیونکہ افغانستان یا پاکستان سے اُبھرنے والی دہشت گردی کی لہر، اُن کے ملک تک پہنچ سکتی ہے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل تینوںریاستیں تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان اس ضمن میں زیادہ فکرمند ہیں۔ یہ سب ممالک چاہتے ہیں کہ عالمی اتحاد کوکامیابی حاصل ہو۔
ان ممالک کے رہنما جہاں یہ تصوکرتے ہیںکہ وہ خطرے کی زد میں ہیں، وہاںاتحادیوں کی سرگرمیوں میں شمولیت سے حاصل ہونے والے فوائدکو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔اگرچہ وہ یہ اَمر پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے روس کے ساتھ تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ازبکستان، تاجکستان اورکرغیزستان نے نیٹوکو فضائی اڈے کرائے پر دیے ہیں۔قازقستان، ترکمانستان اورکرغیزستان، نیٹو کو غیر تباہ کن سامان کی نقل وحرکت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ترکمانستان جس نے اپنی خارجہ پالیسی میں ' مثبت غیر جانبداریت' کا مظاہرہ کیا ہے، ایساف کی عسکری سرگرمیوں کے لیے براہِ راست مدد فراہم نہیں کرے گا، لیکن اس نے انسانی بنیادوں پر سامان کی نقل وحرکت اورجہازوں کی ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت دی ہے۔
ان پانچوں ممالک کو افغانستان سے آنے والی منشیات کے باعث بھی مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث خطے میں منظم جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔وسطیٰ ایشیائی ریاستیں،افغانستان میں القاعدہ اورطالبان کی مستقل موجودگی سے پیدا ہونے والے خطرات کے درمیان فرق روا رکھ رہی ہیں۔ وہ موخرالذکر قوت کے بارے میں محسوس کرتی ہیں کہ وہ اُس سے عالمی اتحاد کی مدد کے بغیر بھی نپٹ سکتی ہیں۔
وہ ریاستیں جن کی سرحد افغانستان سے متصل ہے، وہ ہمسایہ ملک میں ہونے والے اقدامات کو اپنے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ ترکمانستان کو افغانستان میں ہونے والے اقدامات سے زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ نوے کی دہائی میں سپرامراد نیا زوف کی حکومت نے طالبان اقتدارکو تسلیم کرلیا تھا ۔ نیا زوف اس قابل ہونا چاہتا تھا کہ پورے افغانستان میں قدرتی گیس برآمد کرسکے۔ترکمانستان اور افغانستان کی طویل سرحد ایک دوسرے سے متصل ہے چنانچہ اُس کی ترجیحات میں مغربی افغانستان کے رہنماؤں کے ساتھ بہتر تعلقات کو برقرار رکھنا بھی شامل ہے۔
ازبکستان کی افغانستان سے متصل سرحد زیادہ طویل نہیں ہے اور ازبک حکومت اس کی بہتر طور پر نگرانی کر رہی ہے تاہم ازبک حکومت کو تاجکستان کی افغانستان سے متصل سرحد سے خطرہ ہے کیوں کہ وہاں سے منشیات کی بھاری مقدار اور بڑی تعداد میں دہشت گردازبک ریاست تک پہنچ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
شاہ عبداللہ کے عہدِ اقتدارکے دوران سعودی عرب نے ایسی حکمتِ عملی کو جاری رکھا ہے، جسے جارحانہ خارجہ پالیسی قراردیا جاسکتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب نے اہم سٹرٹیجک معاملات (یمن، عراق، صومالیہ، فلسطین، لبنان، شام وغیرہ) میں شامل ہونے کی سعی کی ہے، جس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ سعودی عرب اپنے مفادات کے لیے دوسری ریاستوں پر انحصار نہیں کر سکتا۔
سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ پہلے ہی 50کروڑ ڈالر سے زائد افغانستان پر خرچ کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سعودی عناصرکی جانب سے افغانستان تک امداد پہنچ رہی ہے، جس کے باعث سعودی عرب سے افغانستان کو ملنے والی مجموعی معاشی امدادکا تعین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب وقتاً فوقتاً افغان حکومت اور طالبان اورطالبان کے ناراض دھڑوں کے درمیان صلح کے لیے سرگرم رہا ہے۔
سعودی خارجہ پالیسی کو عمومی طور پراندرونی سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔یہ یقین پایا جاتا ہے کہ خارجہ معاملات سے متعلق سعودی خفیہ ایجنسی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ شہزادہ مقرین بن عبدالعزیز افغانستان کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سارے دوسرے سعودی ادارے بھی افغانستان کے معاملات میں عمل دخل رکھتے ہیں۔ وزارت داخلہ، افغانستان اور القاعدہ کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔اس وقت وزارت کے سربراہ شہزادہ نائف ہیں۔ سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ اور وزارت خارجہ بھی افغان پالیسی کی تشکیل کے عمل میں شامل ہیں، اگرچہ اِن کا کردار محدود ہے۔ مزید برآں سعودی مذہبی رہنماؤں نے مسلم دنیا پرگہرا اثرورسوخ برقراررکھا ہوا ہے اور افغانستان اس سے الگ نہیں ہے۔
سعودی عرب کے لیے افغانستان میں مصروف عمل چار اہم ممالک اور گروہوں میں امریکا، ایران، پاکستان اور افغانستان کی بہت ساری سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔امریکا،سعودی عرب کا اہم ترین اتحادی ہے اور امریکا اور سعودی عرب نے شاذونادر ہی خارجہ پالیسی کے ضمن میں اعلانیہ طور پر ایک دوسرے سے متصادم رائے کا اظہار کیا ہے۔ تاہم جنوبی ایشیاء کے حوالے سے امریکی اور سعودی پالیسیاں ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہیں۔ سعودی عرب کی افغانستان کے کچھ معاملات میں امریکا کے برعکس واجبی سی دلچسپی ہے۔
سعودی عرب کا افغانستان کے تناظر میں بنیادی مقصد طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان مفاہمت ہے، لیکن امریکا کی زیادہ دلچسپی افغانستان تک پہنچنے والے غیرقانونی فنڈز میں ہے۔اس کے ساتھ ہی امریکا کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا سعودی خارجہ پالیسی کا اہم ترین عنصر ہے، اور یہ تبدیل نہیں ہوگا۔سعودی عرب ، خطے اور مسلم دنیا میں ایران کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں شیعہ اور فارسی قومیتوں کے خلاف مخالفت پر مبنی جذبات بھی شامل ہیں۔ سعودی پالیسیاں اس غیرحقیقی خوف کے تحت تشکیل پاتی ہیں کہ امریکا، سعودی عرب کی قیمت پر ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرسکتا ہے۔
سعودی عرب کا اہم ترین اتحادی اور اُس کی پالیسی میں شامل ایک اور اہم ملک پاکستان ہے۔ سعودی عرب کے افغانستان سے وابستہ مفادات، پاکستان کے مفادات کے مماثل دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب،افغانستان کی بہت ساری سیاسی جماعتوںکو بھی اہمیت دیتا ہے اورمستقبل میں انھیں مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گا۔
سعودی عرب کی جانب سے طالبان کے معتدل عناصرکی حمایت، امریکا کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔سعودی عرب کو طالبان حکومت سے زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب اپنا کردار تبدیل کرے، جس سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوسکتی ہے۔
سعودی عرب، افغانستان میں جاری جنگ اور سعودی مخالف عسکریت پسندوں اور القاعدہ کا خاتمہ چاہتا ہے۔یہ مقصد بڑی حد تک امریکا اوراتحادیوں کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے۔ تاہم افغان حکومت کی حتمی ہیئت اوراس کا مختلف معاملات پرکردار تضادات کی وجہ بن سکتا ہے۔اس ضمن میں سعودی عرب اور امریکا کے لیے خوش کن نوعیت کے نتائج، ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
وسطی ایشیاء کی پانچوں ریاستیں اپنا قومی تحفظ افغانستان میں ہونے والی جنگ کے نتائج سے وابستہ کرتی ہیں کیونکہ افغانستان یا پاکستان سے اُبھرنے والی دہشت گردی کی لہر، اُن کے ملک تک پہنچ سکتی ہے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل تینوںریاستیں تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان اس ضمن میں زیادہ فکرمند ہیں۔ یہ سب ممالک چاہتے ہیں کہ عالمی اتحاد کوکامیابی حاصل ہو۔
ان ممالک کے رہنما جہاں یہ تصوکرتے ہیںکہ وہ خطرے کی زد میں ہیں، وہاںاتحادیوں کی سرگرمیوں میں شمولیت سے حاصل ہونے والے فوائدکو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔اگرچہ وہ یہ اَمر پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے روس کے ساتھ تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ازبکستان، تاجکستان اورکرغیزستان نے نیٹوکو فضائی اڈے کرائے پر دیے ہیں۔قازقستان، ترکمانستان اورکرغیزستان، نیٹو کو غیر تباہ کن سامان کی نقل وحرکت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ترکمانستان جس نے اپنی خارجہ پالیسی میں ' مثبت غیر جانبداریت' کا مظاہرہ کیا ہے، ایساف کی عسکری سرگرمیوں کے لیے براہِ راست مدد فراہم نہیں کرے گا، لیکن اس نے انسانی بنیادوں پر سامان کی نقل وحرکت اورجہازوں کی ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت دی ہے۔
ان پانچوں ممالک کو افغانستان سے آنے والی منشیات کے باعث بھی مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث خطے میں منظم جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔وسطیٰ ایشیائی ریاستیں،افغانستان میں القاعدہ اورطالبان کی مستقل موجودگی سے پیدا ہونے والے خطرات کے درمیان فرق روا رکھ رہی ہیں۔ وہ موخرالذکر قوت کے بارے میں محسوس کرتی ہیں کہ وہ اُس سے عالمی اتحاد کی مدد کے بغیر بھی نپٹ سکتی ہیں۔
وہ ریاستیں جن کی سرحد افغانستان سے متصل ہے، وہ ہمسایہ ملک میں ہونے والے اقدامات کو اپنے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ ترکمانستان کو افغانستان میں ہونے والے اقدامات سے زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ نوے کی دہائی میں سپرامراد نیا زوف کی حکومت نے طالبان اقتدارکو تسلیم کرلیا تھا ۔ نیا زوف اس قابل ہونا چاہتا تھا کہ پورے افغانستان میں قدرتی گیس برآمد کرسکے۔ترکمانستان اور افغانستان کی طویل سرحد ایک دوسرے سے متصل ہے چنانچہ اُس کی ترجیحات میں مغربی افغانستان کے رہنماؤں کے ساتھ بہتر تعلقات کو برقرار رکھنا بھی شامل ہے۔
ازبکستان کی افغانستان سے متصل سرحد زیادہ طویل نہیں ہے اور ازبک حکومت اس کی بہتر طور پر نگرانی کر رہی ہے تاہم ازبک حکومت کو تاجکستان کی افغانستان سے متصل سرحد سے خطرہ ہے کیوں کہ وہاں سے منشیات کی بھاری مقدار اور بڑی تعداد میں دہشت گردازبک ریاست تک پہنچ رہے ہیں۔
(جاری ہے)