مغرب کا تصور آزادی اور ہم آخری حصہ
لیکن آزادی کی یہ حد ابھی جاری ہے اورمغرب ’آزادی‘ سے مزید فیض یاب ہونا چاہتا ہے
لیکن آزادی کی یہ حد ابھی جاری ہے اورمغرب 'آزادی' سے مزید فیض یاب ہونا چاہتا ہے اور اس کے مفکرین اس فکر میں مبتلا ہیں کہ مزید آزادی کیسے حاصل کی جائے؟ اس صدی کا ایک بڑا فلسفی ڈلیوز اپنی کتاب Anti Edipus میں لکھتا ہے کہ ابھی آزادی کہاں حاصل ہوئی ہے ابھی تو محرمات کا احترام باقی ہے، یعنی ابھی تک ماں بیٹا، باپ بیٹی، بہن بھائی کے رشتے قائم ہیں، ان رشتوں میں نکاح کی اجازت نہیں ہے یہ کیسی آزادی ہے؟
واضح رہے کہ فرانس دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جہاں انقلاب فرانس کے بعد محرمات سے نکاح کی اجازت دی گئی تھی لیکن جنوری 2010 کو فرانس نے آئینی ترمیم کے ذریعے اس کو جرم قرار دے دیا تھا۔
آزادی کے تصور کے حوالے سے Ishah Berlin نے اپنی کتاب Two concept of liberty دو اقسام بیان کی ہیں جو کہ عصر جدید میں بھی کارفرما ہیں۔ یہ کہتا ہے کہ رکاوٹوں کے خاتمے کے نتیجے میں جو آزادی میسر آتی ہے وہ منفی آزادی (Nagative Freedom) ہوتی ہے اورآزادی کا اجتماعی اظہار مثبت آزادی (Positive Freedom)ہوتی ہے۔
منفی آزادی کا تعلق فردکی نجی زندگی سے ہوتا ہے اور فرد کی نجی زندگی کا مطلب صرف اس کی ذات ہے۔ عالمی منشور حقوق انسانی کے تحت فرد کی نجی زندگی کا مطلب ''I'' ہے جب کہ اس کے اہل وعیال اس کی اجتماعی زندگی میں شامل نہیں، نیز اس کے اہل وعیال پر حقوق وآزادی کا اطلاق مثبت آزادی کے تحت ہوگا کیونکہ ہر شخص اپنی نجی اورانفرادی زندگی میں خود ارادیت(Self Determination) کا حامل ہے۔ اسی طرح اس کے ماں باپ، بیوی اور بچے بھی اپنی نجی وانفرادی زندگی میں حق خودارادیت کے حامل ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کرسکتے، اس لیے ایک فرد اپنے بیوی ، بچوں پر بھی اپنا خیر مسلط نہیں کرسکتا ، یوں عالمی منشور انسانی کے تحت کوئی باپ اپنے بیٹے اور بیٹی کو شراب پینے، زنا کرنے، نائٹ کلب جانے سے نہیں روک سکتا نہ ہی انھیں نماز پڑھنے یا پردہ کرنے پر مجبورکرسکتا ہے نیز نہ ہی بزرگوں کا کہنا ماننے پر مجبور کرسکتا ہے۔
آزادی کی حدود وقیود کے حوالے سے اس کی پیمائش ممکن نہیں ہے نہ ہی اس کو کسی پیمانے سے ناپا جاسکتا ہے۔آزادی میں اضافہ صرف رکاوٹوں کے خاتمے سے ہوتا ہے یوں لامتناہی رکاوٹوں کے خاتمے سے لامتناہی آزادی حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے زیادہ آزاد سمجھے جاتے ہیں کہ جہاں رکاوٹیں کم ہوتی ہیں۔اس لیے رکاوٹوں کا خاتمہ کسی حادثےevent کے نتیجے میں نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک پروسس (process) ہوگا جس کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوتی رہے گی اور یہ تسلسل ہمیشہ جاری رہے گا، یعنی جیسے جیسے رکاوٹوں کی نشاندھی ہوتی رہے گی ویسے ویسے آزادی کے دائرہ کار (spare) میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ رکاوٹ درحقیقت کچھ نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف انسانی فکرکو''آزادی کے زیر اثر '' لے آنے کا نام ہے مثلاً کوئی شخص بخوشی اپنے بزرگ کی خدمت کرتا ہے یہ بزرگ اس کے لیے رکاوٹ متصور نہیں ہوگا لیکن اگر وہ مذکورہ تصور آزادی اختیار کر لے گا تو پھر یہ بزرگ اس کی آزادی میں رکاوٹ متصورکیا جانے لگے گا۔
رکاوٹوں کے بغیر (یعنی آزاد معاشرے میں) فرد کسی دوسرے پر انحصار نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کوجواب دہ ہوتا ہے نہ ریاست کو ، نہ ماں باپ، خاندان کو، نہ معاشرے کو، نہ اخلاقیات کو اور نہ ہی مذہب کو کیونکہ وہ حق خودارادیت کا حامل ہوتا ہے۔ آزادی کا وضاحتی اصول (defining principal) یہ ہے کہ ایک فرد خود مختارانہ طور پر اپنی زندگی کا منصوبہ خود طے کرسکتا ہے۔
آزادی کی جہتوں کو سمجھنے سے پہلے آزادی کے نجی دائرہ کار (private spare) اور اجتماعی دائرہ کار (public spare) سمجھنا ضروری ہے۔ آزادی کے نجی دائرہ کار کے تحت فرد اپنی زندگی میں آزاد ہے خواہ اسے شراب پینے سے ڈاکٹر نے منع ہی کیوں نہ کیا ہو، وہ جب چاہے اپنی مرضی سے شراب نوشی کرسکتا ہے اور جتنی چاہے کرسکتا ہے لیکن اس کو شراب پی کرگاڑی چلانے کی آزادی نہ ہوگی کیونکہ وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے سے دوسروں کی آزادی میں مداخلت کا باعث بن سکتا ہے مثلاً کسی حادثے میں کسی کو زخمی کرسکتا ہے یا ہلاک کرسکتا ہے۔
یہ عمل دوسرے کی آزادی کو چھیننے کے مترادف ہوگا کیونکہ اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کی اجتماعی زندگی وآزادی میں بغیر اجازت و رضا کے دخل دینا دوسرے شخص کی نجی آزادی و زندگی میں مداخلت کرنا ہے جوکہ قابل سزا جرم ہے۔ یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرے، اپنا پیشہ منتخب کرے اور اس پر عمل کرے،کہیں بھی بغیر اجازت کے آ اور جا سکے۔
روایتی اور مذہبی تہذیبوں میں آزادی بطور صلاحیت استعمال ہوتی تھی آزادی کو اقدار کی سطح پر کوئی اہمیت حاصل نہ تھی یعنی فرد کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی ہوتی تھی وہ بھی مشروط اور فرد جب خیر یا شر میںسے کوئی ایک اختیارکرتا تھا تو وہ ان کے تحت ہی زندگی گزارتا تھا مثلاً جب کوئی فرد اپنی آزادی سے خیرزدہ زندگی کو اختیار کرتا تھا تو خیر کو اپنے مذہب وشریعت کے طابع کر دیتا تھا۔ اسی طرح اگرکوئی فرد ایک خیرزدہ زندگی کو چھوڑ کر ایک شرزدہ زندگی گزارتا تو یہ بھی بطور صلاحیت کا استعمال تھا کیونکہ اسے خدا نے یا معاشرتی، مذہبی، خاندانی اتھارٹی نے اس کے لاشعور میں یہ بٹھا دیا تھا کہ اگر وہ شرکو اختیار کرے گا تو اسے بطور شر ہی اختیار کرے گا نہ کہ اس کو خیر کے طور پر اختیار کرے گا۔
ماضی کی تہذیبوں کے برعکس مغربی تصور آزادی میں ایسے اعمال وفکر جس کے نتیجے میں موجودہ آزادی کم ہو جائے یا اس میں رکاوٹ آئے وہ غلط، قابل گرفت اور شیطانی عمل ہے۔ ایسے فرد کے اعمال نفسیاتی اور پاگل پن پر مبنی ہے چنانچہ اس کی اصلاح ، علاج اور درستگی کی ذمے داری معاشرے، میڈیا اور بالخصوص ریاست کی ہے جس کے لیے ریاست جبرکا استعمال کرنا، قانوناً درست عمل ہوگاتاکہ ایک غیر رکاوٹی آزادی یعنی مطلق آزادی کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے۔چنانچہ اس تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مغرب میں گینز ورلڈ ریکارڈ بک میںمغربی افراد طرح طرح کے خیر تخلیق کرکے ریکارڈ بنارہے ہیں مثلاً ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ افرادکا برائی کرنا یا ہزاروں افراد کا کھلے میدان میں برہنہ جمع ہوکر ریس لگانے کا ریکارڈ وغیرہ۔
آیئے! غورکریں مغرب کے نزدیک آزادی کاکیا تصورہے اورکیا ہم اس کو اپنانا پسند کریں گے؟
واضح رہے کہ فرانس دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جہاں انقلاب فرانس کے بعد محرمات سے نکاح کی اجازت دی گئی تھی لیکن جنوری 2010 کو فرانس نے آئینی ترمیم کے ذریعے اس کو جرم قرار دے دیا تھا۔
آزادی کے تصور کے حوالے سے Ishah Berlin نے اپنی کتاب Two concept of liberty دو اقسام بیان کی ہیں جو کہ عصر جدید میں بھی کارفرما ہیں۔ یہ کہتا ہے کہ رکاوٹوں کے خاتمے کے نتیجے میں جو آزادی میسر آتی ہے وہ منفی آزادی (Nagative Freedom) ہوتی ہے اورآزادی کا اجتماعی اظہار مثبت آزادی (Positive Freedom)ہوتی ہے۔
منفی آزادی کا تعلق فردکی نجی زندگی سے ہوتا ہے اور فرد کی نجی زندگی کا مطلب صرف اس کی ذات ہے۔ عالمی منشور حقوق انسانی کے تحت فرد کی نجی زندگی کا مطلب ''I'' ہے جب کہ اس کے اہل وعیال اس کی اجتماعی زندگی میں شامل نہیں، نیز اس کے اہل وعیال پر حقوق وآزادی کا اطلاق مثبت آزادی کے تحت ہوگا کیونکہ ہر شخص اپنی نجی اورانفرادی زندگی میں خود ارادیت(Self Determination) کا حامل ہے۔ اسی طرح اس کے ماں باپ، بیوی اور بچے بھی اپنی نجی وانفرادی زندگی میں حق خودارادیت کے حامل ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کرسکتے، اس لیے ایک فرد اپنے بیوی ، بچوں پر بھی اپنا خیر مسلط نہیں کرسکتا ، یوں عالمی منشور انسانی کے تحت کوئی باپ اپنے بیٹے اور بیٹی کو شراب پینے، زنا کرنے، نائٹ کلب جانے سے نہیں روک سکتا نہ ہی انھیں نماز پڑھنے یا پردہ کرنے پر مجبورکرسکتا ہے نیز نہ ہی بزرگوں کا کہنا ماننے پر مجبور کرسکتا ہے۔
آزادی کی حدود وقیود کے حوالے سے اس کی پیمائش ممکن نہیں ہے نہ ہی اس کو کسی پیمانے سے ناپا جاسکتا ہے۔آزادی میں اضافہ صرف رکاوٹوں کے خاتمے سے ہوتا ہے یوں لامتناہی رکاوٹوں کے خاتمے سے لامتناہی آزادی حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے زیادہ آزاد سمجھے جاتے ہیں کہ جہاں رکاوٹیں کم ہوتی ہیں۔اس لیے رکاوٹوں کا خاتمہ کسی حادثےevent کے نتیجے میں نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک پروسس (process) ہوگا جس کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوتی رہے گی اور یہ تسلسل ہمیشہ جاری رہے گا، یعنی جیسے جیسے رکاوٹوں کی نشاندھی ہوتی رہے گی ویسے ویسے آزادی کے دائرہ کار (spare) میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ رکاوٹ درحقیقت کچھ نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف انسانی فکرکو''آزادی کے زیر اثر '' لے آنے کا نام ہے مثلاً کوئی شخص بخوشی اپنے بزرگ کی خدمت کرتا ہے یہ بزرگ اس کے لیے رکاوٹ متصور نہیں ہوگا لیکن اگر وہ مذکورہ تصور آزادی اختیار کر لے گا تو پھر یہ بزرگ اس کی آزادی میں رکاوٹ متصورکیا جانے لگے گا۔
رکاوٹوں کے بغیر (یعنی آزاد معاشرے میں) فرد کسی دوسرے پر انحصار نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کوجواب دہ ہوتا ہے نہ ریاست کو ، نہ ماں باپ، خاندان کو، نہ معاشرے کو، نہ اخلاقیات کو اور نہ ہی مذہب کو کیونکہ وہ حق خودارادیت کا حامل ہوتا ہے۔ آزادی کا وضاحتی اصول (defining principal) یہ ہے کہ ایک فرد خود مختارانہ طور پر اپنی زندگی کا منصوبہ خود طے کرسکتا ہے۔
آزادی کی جہتوں کو سمجھنے سے پہلے آزادی کے نجی دائرہ کار (private spare) اور اجتماعی دائرہ کار (public spare) سمجھنا ضروری ہے۔ آزادی کے نجی دائرہ کار کے تحت فرد اپنی زندگی میں آزاد ہے خواہ اسے شراب پینے سے ڈاکٹر نے منع ہی کیوں نہ کیا ہو، وہ جب چاہے اپنی مرضی سے شراب نوشی کرسکتا ہے اور جتنی چاہے کرسکتا ہے لیکن اس کو شراب پی کرگاڑی چلانے کی آزادی نہ ہوگی کیونکہ وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے سے دوسروں کی آزادی میں مداخلت کا باعث بن سکتا ہے مثلاً کسی حادثے میں کسی کو زخمی کرسکتا ہے یا ہلاک کرسکتا ہے۔
یہ عمل دوسرے کی آزادی کو چھیننے کے مترادف ہوگا کیونکہ اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کی اجتماعی زندگی وآزادی میں بغیر اجازت و رضا کے دخل دینا دوسرے شخص کی نجی آزادی و زندگی میں مداخلت کرنا ہے جوکہ قابل سزا جرم ہے۔ یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرے، اپنا پیشہ منتخب کرے اور اس پر عمل کرے،کہیں بھی بغیر اجازت کے آ اور جا سکے۔
روایتی اور مذہبی تہذیبوں میں آزادی بطور صلاحیت استعمال ہوتی تھی آزادی کو اقدار کی سطح پر کوئی اہمیت حاصل نہ تھی یعنی فرد کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی ہوتی تھی وہ بھی مشروط اور فرد جب خیر یا شر میںسے کوئی ایک اختیارکرتا تھا تو وہ ان کے تحت ہی زندگی گزارتا تھا مثلاً جب کوئی فرد اپنی آزادی سے خیرزدہ زندگی کو اختیار کرتا تھا تو خیر کو اپنے مذہب وشریعت کے طابع کر دیتا تھا۔ اسی طرح اگرکوئی فرد ایک خیرزدہ زندگی کو چھوڑ کر ایک شرزدہ زندگی گزارتا تو یہ بھی بطور صلاحیت کا استعمال تھا کیونکہ اسے خدا نے یا معاشرتی، مذہبی، خاندانی اتھارٹی نے اس کے لاشعور میں یہ بٹھا دیا تھا کہ اگر وہ شرکو اختیار کرے گا تو اسے بطور شر ہی اختیار کرے گا نہ کہ اس کو خیر کے طور پر اختیار کرے گا۔
ماضی کی تہذیبوں کے برعکس مغربی تصور آزادی میں ایسے اعمال وفکر جس کے نتیجے میں موجودہ آزادی کم ہو جائے یا اس میں رکاوٹ آئے وہ غلط، قابل گرفت اور شیطانی عمل ہے۔ ایسے فرد کے اعمال نفسیاتی اور پاگل پن پر مبنی ہے چنانچہ اس کی اصلاح ، علاج اور درستگی کی ذمے داری معاشرے، میڈیا اور بالخصوص ریاست کی ہے جس کے لیے ریاست جبرکا استعمال کرنا، قانوناً درست عمل ہوگاتاکہ ایک غیر رکاوٹی آزادی یعنی مطلق آزادی کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے۔چنانچہ اس تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مغرب میں گینز ورلڈ ریکارڈ بک میںمغربی افراد طرح طرح کے خیر تخلیق کرکے ریکارڈ بنارہے ہیں مثلاً ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ افرادکا برائی کرنا یا ہزاروں افراد کا کھلے میدان میں برہنہ جمع ہوکر ریس لگانے کا ریکارڈ وغیرہ۔
آیئے! غورکریں مغرب کے نزدیک آزادی کاکیا تصورہے اورکیا ہم اس کو اپنانا پسند کریں گے؟