زرعی منظر نامہ پر ایک نظر
یہ کھلی حقیقت ہے کہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اور ملک کی ستر فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے
یہ کھلی حقیقت ہے کہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اور ملک کی ستر فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ یہی ستر فی صد آبادی جوکہ زراعت سے وابستہ ہے لا تعداد مسائل سے دو چار ہے۔ ہم بات کررہے ہیں زراعت سے وابستہ چھوٹے کسانوں وکھیت مزدوری کرنے والے محنت کشوں کی۔
قبل اس کے کہ ہم چھوٹے کسانوں کے مسائل پر بات کریں مناسب ہوگا کہ کھیت میں مزدوری کرنے والے محنت کشوں کے مسائل کی بات کی جائے یہ وہ طبقہ ہے جوکہ اس وقت سے جبر کا شکار ہے جب سے جاگیرداری نظام وجود میں آیا ہے۔ اگرچہ زراعت کی تمام تر پیداوار اسی کھیت مزدوری کرنے والے محنت کشوں کی مرہون منت ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام تر محنت کرنے، زمین کا سینہ چیر کر اناج پیدا کرنے ودیگر اجناس پیدا کرنے والا کس کیفیت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے کہ گویا اسی کھیت مزدور محنت کش طبقے کو اپنی ہی محنت سے تیار ہونے والی اجناس سے محروم کردیاگیا ہے۔
یہ طبقہ تمام تر غذائی اشیا اپنی محنت سے پیدا کرنے کے باوجود خود پیٹ بھرکر غذا نہیں کھاسکتا ،کیوں کہ اس طبقے کواس کی سخت ترین محنت کا جو معاوضہ ملتا ہے وہ انتہائی قلیل ہوتا ہے جوکہ اکثر زرعی اجناس کی شکل میں اس طبقے کو ملتا ہے جب کہ دنیا بھر کے لیے پوشاک تیار کرنے والی جنس یعنی کپاس پیدا کرنے والا یہ محنت کش طبقہ خود اچھی پوشاک سے گویا محروم کردیاگیا ہے کیوں کہ پوشاک کے نام سے یہ طبقہ جو لباس زیب تن کیے ہوتا ہے اسے تن ڈھانپنا ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
خوب صورت پوشاک نہیں اگرچہ صنعتی تعلقات کے قانون SIR-2013 کے تحت ان محنت کشوں کو صنعتی مزدورکے مساوی حقوق حاصل ہیں مگر یہ سب قانون کی کتابوں میں تو ہے مگر عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا اور یہ طبقہ قانون میں دیے گئے حقوق سے اسی طرح محروم ہے جس طرح صنعتی مزدوروں کی اکثریت ان حقوق سے محروم ہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھیت مزدور محنت کش طبقے کو ان کے قانونی حقوق دیے جائیں جن سے وہ صدیوں سے محروم ہے تاکہ یہ محنت کش طبقہ حقیقی زندگی گزار سکے وہ زندگی نہیں جوکہ عصر حاضر میں ان محنت کشوں کے لیے ایک بوجھ بن چکی ہے۔
اب ہم ذکرکریںگے چھوٹے کسانوں کے مسائل کا، چھوٹا کسان وہ ہوتا ہے جوکہ دو چار یا چھ آٹھ ایکڑ زمین کا مالک ہوتا ہے اگرچہ ہرکسان ایک قطہ اراضی کا خود مالک ہوتا ہے مگر اس کے باوجود یہ کسان انگنت مسائل سے دو چار ہوتا ہے ان مسائل کی تفصیلات کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بھی بیان کیا جائے تو کچھ اس طرح ہے۔
اول اس کسان سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود اسے جعلی کھاد دے دی جاتی ہے یہ کھاد وہی کردار ادا کرتی ہے جوکہ جعلی دوا اگر انسان کو دی جائے تو اس بیمار انسان کے لیے بے سود ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات، ان جعلی ادویات کا توقعات کے برعکس اثر ہوتا ہے یہی کیفیت اس جعلی کھاد کی ہوتی ہے یعنی کھاد کے استعمال سے کسان کی تمام محنت غارت اور اس کی فصل ٹھیک طرح سے نشوونما پانے سے قاصر جب کہ یہی کیفیت زرعی بیج کے معاملے میں ہے یعنی رقم کی وصولی پوری مگر کسان کو اس رقم کے عوض ملنے والا بیج ناقص نتیجہ وہی کسان کی پورے سیزن کی محنت ودیگر اخراجات سب مٹی کے ساتھ ملکر مٹی اور کسان کے نصیب میں رہ جاتا ہے کف افسوس ملنا ۔ سوئم جو مسئلہ کسان کو درپیش ہوتا وہ ہے پانی کا۔ یعنی پانی پر مکمل اجارہ داری ہوتی ہے علاقے کے بڑے زمیندار کی جس کا اثر ورسوخ علاقے کے تھانہ وکچہری سے لے کر حکومتی ایوانوں تک ہوتا ہے اور پانی ملتا ہے وارہ بندی سے چنانچہ پانی کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ جب زمیندار کے کھیتوں کو پانی دینا مقصود ہو تو اس سوراخ کو اینٹیں لگاکرکشادہ کرلیا جاتا ہے جس سوراخ سے نہر سے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔
مقصد زیادہ پانی کا حصول ہوتا ہے اور یہ سب ہوتا ہے محکمہ زراعت کے ملازمین سے ملی بھگت سے جب کہ اس صورت میں نہر کے آخری حصے والی زمین تک پانی کی رسائی یا تو ناممکن ہوجاتی ہے یا پھر کم دباؤ کے باعث آخری حصے والی زمینوں کو انتہائی قلیل مقدار میں پانی حاصل ہوتا ہے جب کہ آخری حصے پر آباد زمینیں ہوتی ہیں چھوٹے کسانوں کی، جب کہ اس برس ستم بھی ہوا ہے کہ سکھر بیراج سے نکلنے والی نارا کینال کو قبل از وقت بند کردیاگیا ہے۔
جس کے باعث سندھ کے ایک بڑے حصے پر کاشت کی گئی فصلوں کو شدید خطرات لاحق ہیں جوکہ پانی کی قلت کے باعث پیدا ہوئے ہیں جب کہ ان کسانوں کی فصلوں کو بیوپاری کوشش کرتا ہے کہ قلیل داموں پر حاصل کرسکے اور تیار فصل حاصل کرنے کے بعد ان کسانوں کی فصل کی رقم کی ادائیگی میں بے وجہ تاخیر کی جاتی ہے ۔
جس کے باعث کسانوں کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں کیونکہ ان کسانوں نے کھاد و بیج کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ اگر کھاد و بیج کی رقم وقت پر ادا نہ کریں تو پھر اصل رقم کے ساتھ ان کو سود کی رقم بھی ادا کرنا پڑے، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک بھر میں کسانوں کی سخت محنت سے تیار ہونے والی فصلوں کی قیمتیں بھی یکساں نہیں ہیں، جس میں سب سے بڑی مثال ہے گنا، جوکہ پنجاب میں شوگر ملوں کو ملتا ہے، 182 روپے فی من جب کہ اندرون سندھ اس گنے کی قیمت ہے 172 روپے فی من گویا گنے کی قیمت کے معاملے میں سندھ کا کسان 10 روپے فی من خسارے میں ہے یہ 172 روپے گنے کی قیمت بھی مقرر کی گئی ہے۔
جنوری 2016ء کے آغاز میں جب کہ شوگر ملوں میں گنے کی کریشنگ کا آغاز ہوچکا تھا اکتوبر 2015 میں گویا شوگر ملوں کو پورا پورا موقع دیا گیا کہ وہ سندھ کے ان غریب کسانوں کا خوب استحصال کرسکیں اور یہ کارنامہ ہے سندھ سرکار کا۔ جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام دوست حکومت ہے، چنانچہ اپنے ان ہی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اندرون سندھ کے کسانوں نے بھرپور احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا اور مرد و زن کثیر تعداد میں جمع ہوئے ، حیدر بخش جتوئی چوک، حیدرآباد میں دن تھا اتوار کا تاریخ تھی 10 جنوری 2016 حیدر بخش جتوئی چوک سے یہ مرد و زن ریلی کی شکل میں پہنچے، پریس کلب حیدرآباد جہاں پہنچ کر اس ریلی نے جلسہ عام کی شکل اختیار کی جہاں سندھ ایگری کلچر، جنرل ورکرز، CBA جس کے زیر اہتمام یہ ریلی نکالی گئی تھی کے رہنماؤں نے حاضرین سے پرجوش خطابات کیے جن میں علی احمد پنہور، خائل، فیض، لال بخش، لالن، مشتاق علی شان، نامور مزدور رہنما ناصر منصور، ممتاز خاتون، سماجی رہنما محترمہ زہرا خان وغیرہ شامل تھے۔
ان رہنماؤں نے اپنے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ کھیت مزدور محنت کشوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کسانوں کے تمام مسائل حل کیے جائیں۔ بالخصوص گنے کی قیمت پنجاب کے مساوی کرنے پر زور دیاگیا تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ حکومت وفاقی ہو یا صوبائی حکومتیں لوگوں کے احتجاج کا انتظار کرنے سے قبل ہی ان کے جائزوقانونی حقوق کی پاسداری کریں تو مناسب ہوگا بصورت دیگر بڑھتا ہوا عوامی دباؤ کوئی اوررخ بھی اختیارکرسکتا ہے۔
قبل اس کے کہ ہم چھوٹے کسانوں کے مسائل پر بات کریں مناسب ہوگا کہ کھیت میں مزدوری کرنے والے محنت کشوں کے مسائل کی بات کی جائے یہ وہ طبقہ ہے جوکہ اس وقت سے جبر کا شکار ہے جب سے جاگیرداری نظام وجود میں آیا ہے۔ اگرچہ زراعت کی تمام تر پیداوار اسی کھیت مزدوری کرنے والے محنت کشوں کی مرہون منت ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام تر محنت کرنے، زمین کا سینہ چیر کر اناج پیدا کرنے ودیگر اجناس پیدا کرنے والا کس کیفیت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے کہ گویا اسی کھیت مزدور محنت کش طبقے کو اپنی ہی محنت سے تیار ہونے والی اجناس سے محروم کردیاگیا ہے۔
یہ طبقہ تمام تر غذائی اشیا اپنی محنت سے پیدا کرنے کے باوجود خود پیٹ بھرکر غذا نہیں کھاسکتا ،کیوں کہ اس طبقے کواس کی سخت ترین محنت کا جو معاوضہ ملتا ہے وہ انتہائی قلیل ہوتا ہے جوکہ اکثر زرعی اجناس کی شکل میں اس طبقے کو ملتا ہے جب کہ دنیا بھر کے لیے پوشاک تیار کرنے والی جنس یعنی کپاس پیدا کرنے والا یہ محنت کش طبقہ خود اچھی پوشاک سے گویا محروم کردیاگیا ہے کیوں کہ پوشاک کے نام سے یہ طبقہ جو لباس زیب تن کیے ہوتا ہے اسے تن ڈھانپنا ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
خوب صورت پوشاک نہیں اگرچہ صنعتی تعلقات کے قانون SIR-2013 کے تحت ان محنت کشوں کو صنعتی مزدورکے مساوی حقوق حاصل ہیں مگر یہ سب قانون کی کتابوں میں تو ہے مگر عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا اور یہ طبقہ قانون میں دیے گئے حقوق سے اسی طرح محروم ہے جس طرح صنعتی مزدوروں کی اکثریت ان حقوق سے محروم ہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھیت مزدور محنت کش طبقے کو ان کے قانونی حقوق دیے جائیں جن سے وہ صدیوں سے محروم ہے تاکہ یہ محنت کش طبقہ حقیقی زندگی گزار سکے وہ زندگی نہیں جوکہ عصر حاضر میں ان محنت کشوں کے لیے ایک بوجھ بن چکی ہے۔
اب ہم ذکرکریںگے چھوٹے کسانوں کے مسائل کا، چھوٹا کسان وہ ہوتا ہے جوکہ دو چار یا چھ آٹھ ایکڑ زمین کا مالک ہوتا ہے اگرچہ ہرکسان ایک قطہ اراضی کا خود مالک ہوتا ہے مگر اس کے باوجود یہ کسان انگنت مسائل سے دو چار ہوتا ہے ان مسائل کی تفصیلات کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بھی بیان کیا جائے تو کچھ اس طرح ہے۔
اول اس کسان سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود اسے جعلی کھاد دے دی جاتی ہے یہ کھاد وہی کردار ادا کرتی ہے جوکہ جعلی دوا اگر انسان کو دی جائے تو اس بیمار انسان کے لیے بے سود ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات، ان جعلی ادویات کا توقعات کے برعکس اثر ہوتا ہے یہی کیفیت اس جعلی کھاد کی ہوتی ہے یعنی کھاد کے استعمال سے کسان کی تمام محنت غارت اور اس کی فصل ٹھیک طرح سے نشوونما پانے سے قاصر جب کہ یہی کیفیت زرعی بیج کے معاملے میں ہے یعنی رقم کی وصولی پوری مگر کسان کو اس رقم کے عوض ملنے والا بیج ناقص نتیجہ وہی کسان کی پورے سیزن کی محنت ودیگر اخراجات سب مٹی کے ساتھ ملکر مٹی اور کسان کے نصیب میں رہ جاتا ہے کف افسوس ملنا ۔ سوئم جو مسئلہ کسان کو درپیش ہوتا وہ ہے پانی کا۔ یعنی پانی پر مکمل اجارہ داری ہوتی ہے علاقے کے بڑے زمیندار کی جس کا اثر ورسوخ علاقے کے تھانہ وکچہری سے لے کر حکومتی ایوانوں تک ہوتا ہے اور پانی ملتا ہے وارہ بندی سے چنانچہ پانی کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ جب زمیندار کے کھیتوں کو پانی دینا مقصود ہو تو اس سوراخ کو اینٹیں لگاکرکشادہ کرلیا جاتا ہے جس سوراخ سے نہر سے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔
مقصد زیادہ پانی کا حصول ہوتا ہے اور یہ سب ہوتا ہے محکمہ زراعت کے ملازمین سے ملی بھگت سے جب کہ اس صورت میں نہر کے آخری حصے والی زمین تک پانی کی رسائی یا تو ناممکن ہوجاتی ہے یا پھر کم دباؤ کے باعث آخری حصے والی زمینوں کو انتہائی قلیل مقدار میں پانی حاصل ہوتا ہے جب کہ آخری حصے پر آباد زمینیں ہوتی ہیں چھوٹے کسانوں کی، جب کہ اس برس ستم بھی ہوا ہے کہ سکھر بیراج سے نکلنے والی نارا کینال کو قبل از وقت بند کردیاگیا ہے۔
جس کے باعث سندھ کے ایک بڑے حصے پر کاشت کی گئی فصلوں کو شدید خطرات لاحق ہیں جوکہ پانی کی قلت کے باعث پیدا ہوئے ہیں جب کہ ان کسانوں کی فصلوں کو بیوپاری کوشش کرتا ہے کہ قلیل داموں پر حاصل کرسکے اور تیار فصل حاصل کرنے کے بعد ان کسانوں کی فصل کی رقم کی ادائیگی میں بے وجہ تاخیر کی جاتی ہے ۔
جس کے باعث کسانوں کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں کیونکہ ان کسانوں نے کھاد و بیج کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ اگر کھاد و بیج کی رقم وقت پر ادا نہ کریں تو پھر اصل رقم کے ساتھ ان کو سود کی رقم بھی ادا کرنا پڑے، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک بھر میں کسانوں کی سخت محنت سے تیار ہونے والی فصلوں کی قیمتیں بھی یکساں نہیں ہیں، جس میں سب سے بڑی مثال ہے گنا، جوکہ پنجاب میں شوگر ملوں کو ملتا ہے، 182 روپے فی من جب کہ اندرون سندھ اس گنے کی قیمت ہے 172 روپے فی من گویا گنے کی قیمت کے معاملے میں سندھ کا کسان 10 روپے فی من خسارے میں ہے یہ 172 روپے گنے کی قیمت بھی مقرر کی گئی ہے۔
جنوری 2016ء کے آغاز میں جب کہ شوگر ملوں میں گنے کی کریشنگ کا آغاز ہوچکا تھا اکتوبر 2015 میں گویا شوگر ملوں کو پورا پورا موقع دیا گیا کہ وہ سندھ کے ان غریب کسانوں کا خوب استحصال کرسکیں اور یہ کارنامہ ہے سندھ سرکار کا۔ جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام دوست حکومت ہے، چنانچہ اپنے ان ہی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اندرون سندھ کے کسانوں نے بھرپور احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا اور مرد و زن کثیر تعداد میں جمع ہوئے ، حیدر بخش جتوئی چوک، حیدرآباد میں دن تھا اتوار کا تاریخ تھی 10 جنوری 2016 حیدر بخش جتوئی چوک سے یہ مرد و زن ریلی کی شکل میں پہنچے، پریس کلب حیدرآباد جہاں پہنچ کر اس ریلی نے جلسہ عام کی شکل اختیار کی جہاں سندھ ایگری کلچر، جنرل ورکرز، CBA جس کے زیر اہتمام یہ ریلی نکالی گئی تھی کے رہنماؤں نے حاضرین سے پرجوش خطابات کیے جن میں علی احمد پنہور، خائل، فیض، لال بخش، لالن، مشتاق علی شان، نامور مزدور رہنما ناصر منصور، ممتاز خاتون، سماجی رہنما محترمہ زہرا خان وغیرہ شامل تھے۔
ان رہنماؤں نے اپنے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ کھیت مزدور محنت کشوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کسانوں کے تمام مسائل حل کیے جائیں۔ بالخصوص گنے کی قیمت پنجاب کے مساوی کرنے پر زور دیاگیا تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ حکومت وفاقی ہو یا صوبائی حکومتیں لوگوں کے احتجاج کا انتظار کرنے سے قبل ہی ان کے جائزوقانونی حقوق کی پاسداری کریں تو مناسب ہوگا بصورت دیگر بڑھتا ہوا عوامی دباؤ کوئی اوررخ بھی اختیارکرسکتا ہے۔