بالآخر وہ وقت آگیا جس کا انتظار تھا
عامر کے پاس سوائے اپنی پرفارمنس کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جس سے وہ اپنے ناقدین کی توپوں کے دہانے موڑ پائیں۔
KARACHI:
بالآخر وہ وقت آ ہی گیا جب محمد عامر ایک مرتبہ پھر سے گرین شرٹ پہنے میدان میں اُترچکے ہیں۔ میں پہلے ہی دن سے اس حق میں ہوں کہ غلطی تسلیم کرنے کے بعد عامر کو ایک اور موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ جب ایک انسان جرم بھی کرے تو معاشرہ سزا کے بعد اسے قبول کرنے پر معاشرتی طور پر مجبور ہوتا ہے تو پھر جب ایک انسان غلطی کا اعتراف بھی کرلے تو پھر کیسے اس کی غلطی کو جرم کا درجہ دے کر اس پر کھیلوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کیے جا سکتے ہیں؟
اب عامر زندگی کی 23 بہاریں دیکھ چکا ہے۔ جب اگست 2010ء میں وہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا شکار بنا تو اس وقت اس کی عمر بردباری کی حدود سے کوسوں دور تھی۔ نوجوانی میں شہرت کی بلندی پر پہنچنے کی وجہ سے اس کے قدم ڈگمگا گئے اور پھر اس نے اپنی غلطی بھی تسلیم کی۔ مجھے آج بھی عامر کی معافی کے الفاظ یاد ہیں کہ،
آج محمد عامر نیوزی لینڈ کی سر زمین پہ قدم رکھ چکے ہیں۔ نیوزی لینڈ جانے سے پہلے بھی عامر کو پہاڑ سر کرنا پڑے۔ اظہر علی اور حفیظ کو اپنے حق میں منانا پڑا اور اُن سے معافی بھی مانگی۔ اس کے علاوہ دوسرا سب سے اہم مرحلہ یہ تھا کہ اسے اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا تھا کہ وہ دوبارہ سے قومی ٹیم میں جگہ بنانے کا اہل ہے۔ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ (بی پی ایل) میں اس کی پرفارمنس نے ناقدین کو حیران کردیا کہ کیسے ایک شخص 5 سال کھیل سے دور رہ کر بھی وہی پرانی فارم واپس حاصل کر سکتا ہے۔
عامر نے بی پی ایل میں 14 وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ وہ مثبت طور پر خاموش کرکٹر نظر آیا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اِس وقت اُس پر شدید دباؤ بھی ہے کہ وہ ایک نیا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کا دورہ عامر کے لیے ایک طرح سے اس کے کرکٹ کیرئیر کا آغاز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ جس طرح کی ٹھوکر عامر نے کھائی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ٹھوکر کے بعد کم لوگ ہی سنبھل پاتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے بولنگ کوچ دمتری مسکرہینس (Dimitri Mascarenhas) سے جب عامر کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب نہایت ہی دانشمندانہ تھا کہ وہ عامر کے حوالے سے کسی غیر ضروری بحث میں الجھنے کے بجائے اس کی باؤلنگ سے نمٹنے کا سوچ رہے ہیں۔
6 ماہ کی قید سے لے کر دوبارہ سے پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل ہونے تک محمد عامر نہ صرف شہہ سرخیوں میں رہے ہیں بلکہ بے پناہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ چاہے اظہر اور حفیظ کے موقف کی صورت میں ہوں یا پھر ویزا حاصل کرنے کے حوالے سے، مغربی میڈیا کا خوف ہو یا میدان میں تماشائیوں کی جانب سے فقرے کسنے کا عمل، ان تمام مشکلات کے باوجود عامر کے پاس صرف اِن تمام تر مخالفت اور مشکلات کو بھرپور جواب دینے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اچھی کارکردگی۔
صرف اپنی بولنگ سے ہی وہ مغربی میڈیا کو یارکر مار سکتے ہیں اور کرکٹ مبصرین کی رائے اپنے بارے میں ہموار کرسکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ محمد عامر کو اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنے رویے سے بھی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا ہوگا۔ یہ امر بھی ذہن نشین لازم بہرحال رکھنا ہوگا کہ عامر کو کہ اگر ان کو عالمی میڈیا یا تماشائیوں کی طرف سے کسی تنقیدی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس میں نہ ہی قصور میڈیا کا ہے نہ ہی تماشائیوں کا، یہ ان کی اپنی ایک غلطی تھی جس کو اپنے دامن سے الگ کرنا ہے۔
اس حقیقت میں ہرگز دو رائے نہیں کہ آج ایڈن پارک میں کھیلے جانے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں محمد عامر کو ایک بڑی آزمائش کا سامنا ہے۔ اگر وہ اس آزمائش سے سنبھلنے میں کامیاب رہے تو دنیا ان کو ایک کھلاڑی کے روپ میں قبول کرنے میں بھی ہرگز تامل سے کام نہیں لے گی۔ محمد عامر یقیناً اب خود سمجھدار ہیں لہذا اتنا کہنا ہی کافی رہے گا کہ ،
[poll id="893"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
بالآخر وہ وقت آ ہی گیا جب محمد عامر ایک مرتبہ پھر سے گرین شرٹ پہنے میدان میں اُترچکے ہیں۔ میں پہلے ہی دن سے اس حق میں ہوں کہ غلطی تسلیم کرنے کے بعد عامر کو ایک اور موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ جب ایک انسان جرم بھی کرے تو معاشرہ سزا کے بعد اسے قبول کرنے پر معاشرتی طور پر مجبور ہوتا ہے تو پھر جب ایک انسان غلطی کا اعتراف بھی کرلے تو پھر کیسے اس کی غلطی کو جرم کا درجہ دے کر اس پر کھیلوں کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کیے جا سکتے ہیں؟
اب عامر زندگی کی 23 بہاریں دیکھ چکا ہے۔ جب اگست 2010ء میں وہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا شکار بنا تو اس وقت اس کی عمر بردباری کی حدود سے کوسوں دور تھی۔ نوجوانی میں شہرت کی بلندی پر پہنچنے کی وجہ سے اس کے قدم ڈگمگا گئے اور پھر اس نے اپنی غلطی بھی تسلیم کی۔ مجھے آج بھی عامر کی معافی کے الفاظ یاد ہیں کہ،
''میں پاکستان میں سب سے معافی مانگتا ہوں اور ان سے بھی جن کے لیے کرکٹ اہم ہے''۔
آج محمد عامر نیوزی لینڈ کی سر زمین پہ قدم رکھ چکے ہیں۔ نیوزی لینڈ جانے سے پہلے بھی عامر کو پہاڑ سر کرنا پڑے۔ اظہر علی اور حفیظ کو اپنے حق میں منانا پڑا اور اُن سے معافی بھی مانگی۔ اس کے علاوہ دوسرا سب سے اہم مرحلہ یہ تھا کہ اسے اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا تھا کہ وہ دوبارہ سے قومی ٹیم میں جگہ بنانے کا اہل ہے۔ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ (بی پی ایل) میں اس کی پرفارمنس نے ناقدین کو حیران کردیا کہ کیسے ایک شخص 5 سال کھیل سے دور رہ کر بھی وہی پرانی فارم واپس حاصل کر سکتا ہے۔
عامر نے بی پی ایل میں 14 وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ وہ مثبت طور پر خاموش کرکٹر نظر آیا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اِس وقت اُس پر شدید دباؤ بھی ہے کہ وہ ایک نیا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کا دورہ عامر کے لیے ایک طرح سے اس کے کرکٹ کیرئیر کا آغاز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ جس طرح کی ٹھوکر عامر نے کھائی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ٹھوکر کے بعد کم لوگ ہی سنبھل پاتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے بولنگ کوچ دمتری مسکرہینس (Dimitri Mascarenhas) سے جب عامر کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب نہایت ہی دانشمندانہ تھا کہ وہ عامر کے حوالے سے کسی غیر ضروری بحث میں الجھنے کے بجائے اس کی باؤلنگ سے نمٹنے کا سوچ رہے ہیں۔
6 ماہ کی قید سے لے کر دوبارہ سے پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل ہونے تک محمد عامر نہ صرف شہہ سرخیوں میں رہے ہیں بلکہ بے پناہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ چاہے اظہر اور حفیظ کے موقف کی صورت میں ہوں یا پھر ویزا حاصل کرنے کے حوالے سے، مغربی میڈیا کا خوف ہو یا میدان میں تماشائیوں کی جانب سے فقرے کسنے کا عمل، ان تمام مشکلات کے باوجود عامر کے پاس صرف اِن تمام تر مخالفت اور مشکلات کو بھرپور جواب دینے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اچھی کارکردگی۔
صرف اپنی بولنگ سے ہی وہ مغربی میڈیا کو یارکر مار سکتے ہیں اور کرکٹ مبصرین کی رائے اپنے بارے میں ہموار کرسکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ محمد عامر کو اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنے رویے سے بھی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا ہوگا۔ یہ امر بھی ذہن نشین لازم بہرحال رکھنا ہوگا کہ عامر کو کہ اگر ان کو عالمی میڈیا یا تماشائیوں کی طرف سے کسی تنقیدی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس میں نہ ہی قصور میڈیا کا ہے نہ ہی تماشائیوں کا، یہ ان کی اپنی ایک غلطی تھی جس کو اپنے دامن سے الگ کرنا ہے۔
اس حقیقت میں ہرگز دو رائے نہیں کہ آج ایڈن پارک میں کھیلے جانے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں محمد عامر کو ایک بڑی آزمائش کا سامنا ہے۔ اگر وہ اس آزمائش سے سنبھلنے میں کامیاب رہے تو دنیا ان کو ایک کھلاڑی کے روپ میں قبول کرنے میں بھی ہرگز تامل سے کام نہیں لے گی۔ محمد عامر یقیناً اب خود سمجھدار ہیں لہذا اتنا کہنا ہی کافی رہے گا کہ ،
''عامر۔۔۔ سنبھلنا''۔
[poll id="893"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔