جہاں فرشتے بھی قدم رکھتے ڈرتے ہیں

اس دور میں جب مسلم دنیا کو شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے ناسور کھوکھلا اور کمزور کر چکے ہیں

اس دور میں جب مسلم دنیا کو شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے ناسور کھوکھلا اور کمزور کر چکے ہیں، ایسے وقت میں عالم اسلام کے دو بڑے اہم اور بااثر ممالک کا آپس میں بِھڑ جانا بلاشبہ قابل تشویش ہے۔

ویسے تو اس کے بے شمار نقصانات ہیں لیکن سب سے قابل ذکر یہ امر ہے کہ اس لڑائی کے باعث ان دونوں ممالک کی توجہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے سے ہٹ گئی ہے۔ جب گزشتہ سال دسمبر میں سعودی عرب کے وزیر دفاع نے 34 ممالک پر مشتمل اتحاد بنانے کا اعلان کیا جس کا بنیادی مقصد ''دہشت گرد عناصر/ تنظیموں'' کا مقابلہ کرنا ہے تو بہت سے ممالک جو اس اتحاد میں شامل تھے' وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے۔ مزید برآں ایران اور شام' جو کہ سعودی عرب کے مخالف گروہ کا حصہ ہیں، ان کو اس اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ ''داعش'' ان سب کا مشترکہ دشمن ہے۔

اسی طرح پاکستان بھی اس اتحاد میں اپنی شمولیت کا اعلان سن کر حیران رہ گیا۔ اس کے نتیجے میں سیاسی منظرنامے پر ہلچل برپا ہو گئی۔ سب نے اس سوال کو اٹھایا کہ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اس فیصلے سے کیوں بے خبر رکھا کہ وہ داعش کے خلاف سعودی اتحاد میں شامل ہو رہی ہے۔ ریاض اور تہران کے تعلقات 1979ء سے ہی سرد مہری کا شکار ہیں جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا۔ موجودہ بحران نے اس وقت سر اٹھایا جب سعودی عرب نے نامور شیعہ عالم ''شیخ نمر باقر النمر'' کا سر قلم کر دیا۔اس کا ایران کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ جوں جوں صورت حال مزید خراب ہو رہی ہے' پاکستان میں اعلیٰ سعودی وفود کی آمد کا سلسلہ بڑھ گیا ہے جو ظاہری طور پر پاکستان کی ہمدردیاں اپنی جانب مائل کرنے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔

سعودی وزیر دفاع کے معاون نے پہلا دورہ کیا جس کے بعد وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر پاکستان میں تشریف لے آئے۔ بعدازاں نہایت بارسوخ سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان بھی پہنچ گئے۔ پاکستان کو لگ بھگ ایسی ہی صورت حال کا سامنا پچھلے سال مارچ میں بھی کرنا پڑا جب سعودی عرب چاہتا تھا کہ پاکستان یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف اپنی فوج بھیجے اور انھوں نے یکطرفہ طور پر سعودی عرب کی قیادت میں بننے والی گیارہ رکنی قومی اتحاد میں پاکستان کا نام بھی شامل کر دیاتاہم ہم نے بڑی نرمی سے انکار کر دیا۔ سعودیوں کی طرف سے ناراضی کا مظاہرہ کیا گیا جب کہ ہمارے زیادہ قریبی دوستوں جیسے یو اے ای وغیرہ کی طرف سے ناراضی ظاہر کی گئی ۔

پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ نہایت بہترین تعلقات قائم ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پاکستان نہایت محتاط طرز عمل اختیار کرے۔ ہم اس اتحاد میں کئی وجوہ کی بنا پر شامل نہیں ہو سکتے۔ تاہم ہمیں ان دونوں ملکوں کی طرف سے افغانستان میں سیاسی حمایت کی ضرورت ہے۔ ہمارے حکمران ذاتی طور پر بوجوہ سعودی عرب کے ممنون احسان ہیں لیکن ایران کی ہمارے ساتھ سرحدیں مشترک ہیں۔ آخر کیا ضرورت ہے کہ ہم ایک اور محاذ کھول لیں۔ جونہی ایران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی' ہمیں گیس پائپ لائن کے ذریعے توانائی کی کمی پوری کرنے کا موقع ملے گا۔


یمن میں سعودی قیادت میں مداخلت کی گئی۔ وہ ایک کم مدتی معاملہ تھا لیکن صورت حال سلجھنے کے بجائے اور زیادہ گمبھیر ہو گئی جس کا انجام نگاہوں سے دور ہے۔ یہ سعودیوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے بلکہ ان تمام ملکوں کے لیے بھی جو جنگی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں جنوبی سرحد پر سعودی عرب کے جو فوجی مستقل طور پر متعین ہیں' ان پر یمن کی طرف سے اب باقاعدہ حملے شروع ہو گئے ہیں۔

اس لڑائی میںسب سے زیادہ خرچہ سعودی عرب اور یو اے ای کا ہو رہا ہے کیونکہ گزشتہ دو سال کے دوران 30 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے گئے ہیں اور کم از 25 ارب ڈالر کے قرضے معاف کر دیے گئے ہیں لیکن مصر نے پیادہ فوجی دستے بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ اسکو وہ تجربہ یاد آ گیا ہے جو اسے 1960ء کے عشرے میں ہوا جب حوثیوں کے ساتھ 5,4 سالہ لڑائی کے دوران اس کے 55000 فوجی مارے گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اب یمن میں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنی بحریہ کو تعینات کرنے کا کردار سنبھالا ہے تا کہ آبنائے باب المندب کو حوثیوں کے قبضے میں جانے سے بچایا جائے۔

اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے مراسم بہت گہرے اور بہت پرانے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت نے بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ہم لڑاکا فوجی سعودی عرب میں نہیں بھیجیں گے۔ لہٰذا سعودیہ کے حق میں یا ایرانیوں کے حق میں مظاہرے کرنے سے یہ خطرناک مسئلہ حل نہیں ہو گا' مزید برآں پاکستان خود اندرون ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جس میں کہ اس کے ہزاروں فوجی شہید ہو چکے ہیں جب کہ عام سویلین کی شہادتوں کا کوئی شمار ہی نہیں۔

پاکستان اب اپنی سرحدوں سے باہر کسی اور جنگ میں شریک ہونے کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا لہٰذا اگر پاکستان کو کسی اتحاد میں شامل ہونا ہی ہے تو اس کا کردار انٹیلی جنس کا تبادلہ' انسداد دہشت گردی کی تربیت اور اس قسم کی دیگر سرگرمیوں میں شرکت ہونی چاہیے۔ جہاں تک سعودی عرب کی زمینی حدود کی حفاظت کا تعلق ہے تو پاکستان اپنے عزم پر قائم ہے البتہ پاکستان کے لیے اپنے قومی مفاد کی دیگر ہر چیز پر فوقیت ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کو اس بات کی داد دینی چاہیے کہ سعودی وزیر شہزادہ محمد بن سلمان کو مصالحت کرانے کی پیش کش کی ہے اور یہی یقین دہانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کرائی ہے اور کہا ہے کہ سلطنت کو کسی خطرے کی صورت میں پاکستان سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو گا۔ میاں نواز شریف نے شہزادہ محمد بن سلمان کو یاد دہانی کرائی کہ او آئی سی کو متحرک کیا جائے جس کے اراکین میں ایران اور سعودی عرب دونوں شامل ہیں۔ پاکستان نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب جس اتحاد کا اعلان کر رہا ہے وہ او آئی سی میں پہلے سے ہی موجود ہے۔

ایک متوازن سوچ رکھتے ہوئے بلاشبہ پاکستان فرقہ واریت اور جغرافیائی' سیاسی چپقلش کا موثر مقابلہ کر سکتا ہے۔ سیاسی' جغرافیائی اور معاشی امور کے ساتھ ساتھ مذہبی حساس معاملات سے قطع نظر پاکستان کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد کرے جس میں فرقہ واریت کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ لہٰذا پاکستان کو قیام امن کی کوشش میں اپنا مصالحانہ کردار ادا کرناچاہیے اور توقع کی جانی چاہیے کہ سعودی عرب اور یو اے ای وسیع تناظر میں صورت حال کا جائزہ لیں گے۔ پاکستان ایک بڑے نازک مقام پرہے لہٰذا اسے ایسی جگہ قدم نہیں رکھنا چاہیے جہاں قدم رکھنے سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں البتہ بے وقوف اور احمق لوگ بلا سوچے سمجھے وہاں کود پڑتے ہیں۔
Load Next Story