سینیٹ کا انقلابی فیصلہ
اسی دوران سپریم کورٹ نے اس پابندی کو قانونی جواز فراہم کیا۔
ایوانِ بالا سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے رولنگ دی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونینوں پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اور اب تک ہے، وہ غیر قانونی ہے۔ سابق طالب علم رہنما نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد نے مشترکہ طور پر اس پابندی کے خاتمے کے لیے قرارداد پیش کی تھی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ اب سینیٹ کی ذیلی کمیٹی اس معاملے پر غور کرے گی۔ طلبہ یونینوں پر پابندی جنرل ضیاء الحق کے دور میں لگی۔
اسی دوران سپریم کورٹ نے اس پابندی کو قانونی جواز فراہم کیا۔ 1988ء میں جب پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت قائم ہوئی تو انھوں نے پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور پر عمل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے طلبہ یونینوں پر پابندی کے خاتمے کا عزم کیا تھا مگر یہ عزم حقیقی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008ء میں قائم ہوئی تو منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کیا، مگر اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے ابلاغ ہوا کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں اس تجویز پر عملدرآمد کو خطرناک قرار دیا گیا، اور معاملہ فائلوں میں دب گیا۔ منتخب طلبہ یونین کا ادارہ طالب علموں میں برداشت، محنت، مقابلے اور جمہوری اندازِ فکر کے ارتقاء کے لیے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ برٹش حکومت نے جب یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی تو محدود آزادی کے ساتھ طلبہ یونین کی بنیاد رکھی۔ سرسید کی قائم کردہ مسلم علیگڑھ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے سربراہ وائس چانسلر ہوتے تھے اور منتخب نائب صدر اور ان کی کابینہ طلبہ سرگرمیوں کو منظم کرتی تھی۔ اس زمانے میں کانگریس اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کمیونسٹ پارٹی کی اپنی ذیلی تنظیمیں تھیں۔
پاکستان بننے کے بعد کراچی اور ڈھاکا طلبہ تحریکوں کے بڑے مرکز رہے۔ کراچی میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ان کی حامی طلبہ یونین نے نئے کالجوں اور کراچی میں یونیورسٹیوں کے قیام، فیسوں اور بسوں کے کرایوں میں رعایت کے لیے 8 جنوری 1953ء کو پہلی تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں طلبہ کو جو رعایتیں حاصل ہوئیں وہ گزشتہ صدی کے اختتام تک طلبہ کو حاصل رہیں۔ کراچی کی منتخب طلبہ یونینوں کی تنظیم انٹرکالجیٹ باڈی (ICB) نے 1963ء میں تین سالہ ڈگری کورس کے خاتمے کے لیے مہم چلائی۔
اس تحریک کو منظم کرنے میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ این ایس ایف اور دیگر منتخب طلبہ یونینوں نے 1968ء میں فوجی آمر جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک شروع کی تھی جس میں سیاسی جماعتیں، مزدور، کسان، اساتذہ اور خواتین کی تنظیمیں شامل ہوئیں اور جنرل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے 1972ء میں بنیادی تعلیمی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات کے تحت نئے یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت اب طالب علموں کو اپنے صدر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔
یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی یہ ذمے داری قرار پائی کہ وہ یونیورسٹی اور ملحقہ کالجوں میں مقررہ وقت پر انتخابات منعقد کرائے۔ ہر منتخب یونین کا تحریری آئین نافذ ہوا۔ منتخب عہدیداروں کے علاوہ منتخب کونسل بھی وجود میں آئیں۔ یونین کے آئین کے تحت تمام جماعتوں میں پاس ہونے والے فائنل ایئر کے طالب علم کو صدر، تیسرے درجے تک بغیر کسی وقفے کے پاس ہونے والے طالب علم کو سیکریٹری جنرل اور دوسرے درجے میں پاس ہونے والے طالب علم کو جوائنٹ سیکریٹری کے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا گیا۔ منتخب عہدیداروں کو منتخب کونسلوں کے سامنے اپنا بجٹ پیش کرنے اور سالانہ پروگرام منظور کرانے کا پابند کیا گیا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں امیدواروں کو اپنا منشور پیش کرنے کے لیے پروجیکشن میٹنگ منعقد کی جاتی تھیں۔
ان پروجیکشن میٹنگ میں طلبہ کی یونینوں کے امیدوار اپنی صلاحیتوں کو آزماتے تھے اور اپنی خوبصورت تقاریر کے ذریعے طلبہ کے ووٹ حاصل کرتے تھے، چند امیدوار منتخب عہدوں پر کامیاب ہوتے اور باقی شکست کھا جاتے۔ انتخابات کے اختتام کے دوسرے دن تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں زور پکڑ جاتیں۔ ہارنے اور جیتنے والے نتائج کو قبول کرتے، طلبہ کو اپنے خیالات کو پیش کرنے کے علاوہ مخالف امیدواروں کے خیالات کو سننے اور انھیں مثبت انداز میں برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا۔ طالب علموں میں ابتدائی کلاسوں سے انتخابات کے نتائج کو مخالف نظریات رکھنے والوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم پر توجہ دینے کا بھی احساس اجاگر ہوتا۔ مختلف طلبہ تنظیمیں سارا سال ہوشیار طالب علموں کی تلاش میں رہتیں اور یہ کوشش ہوتی کہ ذہین طالب علموں کو مختلف عہدوں کے لیے نامزد کیا جائے۔
اس زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کا زور تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ، این ایس ایف اور پروگریسو فرنٹ وغیرہ کے درمیان مقابلہ ہوتا۔ ان تنظیموں سے وابستہ کارکن پمفلٹ اور پوسٹر وغیرہ شایع کرتے، کتابچہ تحریر کرتے، خوبصورت سلوگن تخلیق کیے جاتے۔ یوں طلبہ کی تربیت ہوتی۔ اس دور میں بہت سے اچھے طالب علم یونینوں کے عہدیدار منتخب ہوئے۔ ان میں حسین نقی، فتحیاب علی خان، ڈاکٹر خورشید حسین، جاوید ہاشمی، سردار رحیم، حسین حقانی، حسن فیروز، ڈاکٹر مصباح الدین، رفیق پٹیل، ڈاکٹر محمود غزنوی اور ڈاکٹر شکیل فاروقی جیسے بہت سے کارکن شامل ہیں۔ ان طلبہ تنظیموں کی تربیت اور طلبہ یونین کے انتخابات کے عمل سے بہت سے ایسے طالب علم تربیت یافتہ ہوئے جنہوں نے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ میر حاصل بزنجو، الطاف حسین، جاوید ہاشمی اور ڈاکٹر احسن اقبال وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
بعض یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونینوں کا منفی استعمال ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے خلاف فضاء ہموار کرنے کا موقع ملا، مگر اسلامی جمعیت طلبہ اور ترقی پسند طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سابق کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس زمانے میں انتخابات کے دوران جھگڑے دن کے ایک بجے تک ہوتے تھے پھر سب لوگ ان جھگڑوں کو بھول جاتے تھے۔
مخالف نظریات کا پرچار کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے والے ساتھ کھانا کھاتے، ہاسٹلوں میں ساتھ رہتے اور عملی زندگی میں آنے کے بعد ماضی کے مخالفین آج بھی اچھے دوستوں کی طرح ملتے ہیں اور کبھی موقع ملتا ہے تو یونیورسٹی کے جھگڑوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین کے ادارے پر پابندی لگا دی گئی مگر طلبہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ طلبہ تنظیم اور منتخب طلبہ یونین کے درمیان فرق کو آنے والے نسلیں بھول گئیں۔ طلبہ تنظیمیں بعض یونیورسٹیوں میں مافیا بن گئیں۔ اب کوئی بھی نوجوان کسی طلبہ تنظیم کا عہدیدار بن کر انتظامیہ کو بلیک میل کرتا ہے اور وہ طالب علموں کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔ کراچی یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم جو اب یونیورسٹی میں استاد ہیں کا کہنا ہے کہ اب طلبہ تنظیمیں طالب علموں کے مسائل پر جدوجہد نہیں کرتیں، وہ اپنے کارکنوں کے غیر قانونی فوائد کو اپنی جدوجہد کی بنیاد بناتی ہیں۔
اب طلبہ تنظیمیں یہ کوشش کرتی ہیں کہ یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات اور تعلیمی بورڈ پر ان کا قبضہ ہو، یوں نقل کرانے، جعلی دستاویز، جعلی داخلوں اور اساتذہ کی امتحانات کے شفاف انعقاد کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں ان تنظیموں کے کارکن ملوث ہوتے ہیں۔ نوجوان عملی زندگی میں آنے تک مخالف ماحول کو خوشگوار ماحول میں گزارنے کے تجربہ سے محروم رہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ طلبہ میں برداشت کی کمی کی ایک وجہ منتخب یونین کے ادارے کا خاتمہ بھی ہے۔
سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے اس وقت کے سیاسی رہنماؤں سے انٹرویو لیے تھے اور ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی، مگر جونیجو حکومت کے خاتمے کے بعد یہ معاملہ داخلِ دفتر ہو گیا تھا۔ اب سینیٹ نے انتہائی اہم مسئلے پر توجہ دی ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہ قانون وفاق اور صوبوں کی سطح پر بننے ضروری ہیں۔ اب یونیورسٹیوں اور کالجوں کی ہیت تبدیل ہو چکی ہے۔ غیر سرکاری کالج اور یونیورسٹیاں تعلیم کے شعبے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس وقت وفاق کو صوبوں کے ساتھ مل کر ایک جامع قانون کی تیاری کے لیے مشاورت کا عمل شروع کرنا چاہیے۔
اس مشاورت میں سیاسی جماعتوں، وائس چانسلر، اساتذہ اور طلبہ کی تنظیموں، تعلیم اور بنیادی حقوق کے لیے سرکردہ غیر سرکاری تنظیموں کو شامل کرنا چاہیے۔ طلبہ یونین کے ادارے کی اب وہ شکل نہیں ہو سکتی جو 80 ء کی دہائی تک تھی۔ اب اس کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت ہونی چاہیے اور یہ ادارہ غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی قائم ہونا چاہیے۔ بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ اور امریکا کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنما بے نظیر بھٹو اور عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدور منتخب ہو چکے ہیں۔ جدید تقاضوں کے مطابق قانون سازی سے طلبہ یونین کا ادارہ طالب علموں میں جمہوری رویہ کو اجاگر کر سکتا ہے۔ سینیٹ نے انتہائی اہم مسئلے پر توجہ دی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سینیٹ میں موجود تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر قرارداد کی حمایت کی ہے۔ اسی بناء پر امید کی جا سکتی ہے کہ 30سال بعد یہ ادارہ دوبارہ قائم ہو گا۔
اسی دوران سپریم کورٹ نے اس پابندی کو قانونی جواز فراہم کیا۔ 1988ء میں جب پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت قائم ہوئی تو انھوں نے پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور پر عمل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے طلبہ یونینوں پر پابندی کے خاتمے کا عزم کیا تھا مگر یہ عزم حقیقی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008ء میں قائم ہوئی تو منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کیا، مگر اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے ابلاغ ہوا کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں اس تجویز پر عملدرآمد کو خطرناک قرار دیا گیا، اور معاملہ فائلوں میں دب گیا۔ منتخب طلبہ یونین کا ادارہ طالب علموں میں برداشت، محنت، مقابلے اور جمہوری اندازِ فکر کے ارتقاء کے لیے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ برٹش حکومت نے جب یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی تو محدود آزادی کے ساتھ طلبہ یونین کی بنیاد رکھی۔ سرسید کی قائم کردہ مسلم علیگڑھ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے سربراہ وائس چانسلر ہوتے تھے اور منتخب نائب صدر اور ان کی کابینہ طلبہ سرگرمیوں کو منظم کرتی تھی۔ اس زمانے میں کانگریس اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کمیونسٹ پارٹی کی اپنی ذیلی تنظیمیں تھیں۔
پاکستان بننے کے بعد کراچی اور ڈھاکا طلبہ تحریکوں کے بڑے مرکز رہے۔ کراچی میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ان کی حامی طلبہ یونین نے نئے کالجوں اور کراچی میں یونیورسٹیوں کے قیام، فیسوں اور بسوں کے کرایوں میں رعایت کے لیے 8 جنوری 1953ء کو پہلی تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں طلبہ کو جو رعایتیں حاصل ہوئیں وہ گزشتہ صدی کے اختتام تک طلبہ کو حاصل رہیں۔ کراچی کی منتخب طلبہ یونینوں کی تنظیم انٹرکالجیٹ باڈی (ICB) نے 1963ء میں تین سالہ ڈگری کورس کے خاتمے کے لیے مہم چلائی۔
اس تحریک کو منظم کرنے میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ این ایس ایف اور دیگر منتخب طلبہ یونینوں نے 1968ء میں فوجی آمر جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک شروع کی تھی جس میں سیاسی جماعتیں، مزدور، کسان، اساتذہ اور خواتین کی تنظیمیں شامل ہوئیں اور جنرل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے 1972ء میں بنیادی تعلیمی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات کے تحت نئے یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت اب طالب علموں کو اپنے صدر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔
یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی یہ ذمے داری قرار پائی کہ وہ یونیورسٹی اور ملحقہ کالجوں میں مقررہ وقت پر انتخابات منعقد کرائے۔ ہر منتخب یونین کا تحریری آئین نافذ ہوا۔ منتخب عہدیداروں کے علاوہ منتخب کونسل بھی وجود میں آئیں۔ یونین کے آئین کے تحت تمام جماعتوں میں پاس ہونے والے فائنل ایئر کے طالب علم کو صدر، تیسرے درجے تک بغیر کسی وقفے کے پاس ہونے والے طالب علم کو سیکریٹری جنرل اور دوسرے درجے میں پاس ہونے والے طالب علم کو جوائنٹ سیکریٹری کے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا گیا۔ منتخب عہدیداروں کو منتخب کونسلوں کے سامنے اپنا بجٹ پیش کرنے اور سالانہ پروگرام منظور کرانے کا پابند کیا گیا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں امیدواروں کو اپنا منشور پیش کرنے کے لیے پروجیکشن میٹنگ منعقد کی جاتی تھیں۔
ان پروجیکشن میٹنگ میں طلبہ کی یونینوں کے امیدوار اپنی صلاحیتوں کو آزماتے تھے اور اپنی خوبصورت تقاریر کے ذریعے طلبہ کے ووٹ حاصل کرتے تھے، چند امیدوار منتخب عہدوں پر کامیاب ہوتے اور باقی شکست کھا جاتے۔ انتخابات کے اختتام کے دوسرے دن تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں زور پکڑ جاتیں۔ ہارنے اور جیتنے والے نتائج کو قبول کرتے، طلبہ کو اپنے خیالات کو پیش کرنے کے علاوہ مخالف امیدواروں کے خیالات کو سننے اور انھیں مثبت انداز میں برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا۔ طالب علموں میں ابتدائی کلاسوں سے انتخابات کے نتائج کو مخالف نظریات رکھنے والوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم پر توجہ دینے کا بھی احساس اجاگر ہوتا۔ مختلف طلبہ تنظیمیں سارا سال ہوشیار طالب علموں کی تلاش میں رہتیں اور یہ کوشش ہوتی کہ ذہین طالب علموں کو مختلف عہدوں کے لیے نامزد کیا جائے۔
اس زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کا زور تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ، این ایس ایف اور پروگریسو فرنٹ وغیرہ کے درمیان مقابلہ ہوتا۔ ان تنظیموں سے وابستہ کارکن پمفلٹ اور پوسٹر وغیرہ شایع کرتے، کتابچہ تحریر کرتے، خوبصورت سلوگن تخلیق کیے جاتے۔ یوں طلبہ کی تربیت ہوتی۔ اس دور میں بہت سے اچھے طالب علم یونینوں کے عہدیدار منتخب ہوئے۔ ان میں حسین نقی، فتحیاب علی خان، ڈاکٹر خورشید حسین، جاوید ہاشمی، سردار رحیم، حسین حقانی، حسن فیروز، ڈاکٹر مصباح الدین، رفیق پٹیل، ڈاکٹر محمود غزنوی اور ڈاکٹر شکیل فاروقی جیسے بہت سے کارکن شامل ہیں۔ ان طلبہ تنظیموں کی تربیت اور طلبہ یونین کے انتخابات کے عمل سے بہت سے ایسے طالب علم تربیت یافتہ ہوئے جنہوں نے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ میر حاصل بزنجو، الطاف حسین، جاوید ہاشمی اور ڈاکٹر احسن اقبال وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
بعض یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونینوں کا منفی استعمال ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے خلاف فضاء ہموار کرنے کا موقع ملا، مگر اسلامی جمعیت طلبہ اور ترقی پسند طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سابق کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس زمانے میں انتخابات کے دوران جھگڑے دن کے ایک بجے تک ہوتے تھے پھر سب لوگ ان جھگڑوں کو بھول جاتے تھے۔
مخالف نظریات کا پرچار کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے والے ساتھ کھانا کھاتے، ہاسٹلوں میں ساتھ رہتے اور عملی زندگی میں آنے کے بعد ماضی کے مخالفین آج بھی اچھے دوستوں کی طرح ملتے ہیں اور کبھی موقع ملتا ہے تو یونیورسٹی کے جھگڑوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین کے ادارے پر پابندی لگا دی گئی مگر طلبہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ طلبہ تنظیم اور منتخب طلبہ یونین کے درمیان فرق کو آنے والے نسلیں بھول گئیں۔ طلبہ تنظیمیں بعض یونیورسٹیوں میں مافیا بن گئیں۔ اب کوئی بھی نوجوان کسی طلبہ تنظیم کا عہدیدار بن کر انتظامیہ کو بلیک میل کرتا ہے اور وہ طالب علموں کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔ کراچی یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم جو اب یونیورسٹی میں استاد ہیں کا کہنا ہے کہ اب طلبہ تنظیمیں طالب علموں کے مسائل پر جدوجہد نہیں کرتیں، وہ اپنے کارکنوں کے غیر قانونی فوائد کو اپنی جدوجہد کی بنیاد بناتی ہیں۔
اب طلبہ تنظیمیں یہ کوشش کرتی ہیں کہ یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات اور تعلیمی بورڈ پر ان کا قبضہ ہو، یوں نقل کرانے، جعلی دستاویز، جعلی داخلوں اور اساتذہ کی امتحانات کے شفاف انعقاد کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں ان تنظیموں کے کارکن ملوث ہوتے ہیں۔ نوجوان عملی زندگی میں آنے تک مخالف ماحول کو خوشگوار ماحول میں گزارنے کے تجربہ سے محروم رہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ طلبہ میں برداشت کی کمی کی ایک وجہ منتخب یونین کے ادارے کا خاتمہ بھی ہے۔
سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے اس وقت کے سیاسی رہنماؤں سے انٹرویو لیے تھے اور ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی، مگر جونیجو حکومت کے خاتمے کے بعد یہ معاملہ داخلِ دفتر ہو گیا تھا۔ اب سینیٹ نے انتہائی اہم مسئلے پر توجہ دی ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہ قانون وفاق اور صوبوں کی سطح پر بننے ضروری ہیں۔ اب یونیورسٹیوں اور کالجوں کی ہیت تبدیل ہو چکی ہے۔ غیر سرکاری کالج اور یونیورسٹیاں تعلیم کے شعبے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس وقت وفاق کو صوبوں کے ساتھ مل کر ایک جامع قانون کی تیاری کے لیے مشاورت کا عمل شروع کرنا چاہیے۔
اس مشاورت میں سیاسی جماعتوں، وائس چانسلر، اساتذہ اور طلبہ کی تنظیموں، تعلیم اور بنیادی حقوق کے لیے سرکردہ غیر سرکاری تنظیموں کو شامل کرنا چاہیے۔ طلبہ یونین کے ادارے کی اب وہ شکل نہیں ہو سکتی جو 80 ء کی دہائی تک تھی۔ اب اس کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت ہونی چاہیے اور یہ ادارہ غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی قائم ہونا چاہیے۔ بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ اور امریکا کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنما بے نظیر بھٹو اور عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدور منتخب ہو چکے ہیں۔ جدید تقاضوں کے مطابق قانون سازی سے طلبہ یونین کا ادارہ طالب علموں میں جمہوری رویہ کو اجاگر کر سکتا ہے۔ سینیٹ نے انتہائی اہم مسئلے پر توجہ دی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سینیٹ میں موجود تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر قرارداد کی حمایت کی ہے۔ اسی بناء پر امید کی جا سکتی ہے کہ 30سال بعد یہ ادارہ دوبارہ قائم ہو گا۔