وہ زندگی بھر قلم سے جہاد کرتا رہا
اس ڈرامے کی مقبولیت نے کمال احمد رضوی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔
وہ نہ صرف ایک فنکار تھا بلکہ فنکار میکر بھی تھا وہ نہ صرف ایک قلمکار تھا بلکہ ایک عظیم اداکار اور ہدایت کار بھی تھا۔ اس کا فن اور قلم قوم کی امانت تھا، وہ اپنے قلم سے زندگی بھر جہادکرتا رہا وہ نام و نہاد اشرافیہ اور معاشرے میں میرٹ کا قتل کرنے والوں سے قدم قدم پر لڑتا رہا۔اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری اس نے کبھی اپنے حوصلوں کوکمزور نہیں ہونے دیا۔
اسے اپنی اوائل عمری ہی سے معاشرے میں موجود ناانصافیوں سے نفرت تھی اس نے اپنے قلم کو ہتھیار بناکر معاشرے سے برائیوں کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔وہ لوگوں کو آئینہ دکھانے کا فن بھی جانتا تھا وہ باکمال شخص کمال احمد رضوی تھا۔ بے خوف اور بے باک تھا بعض لوگ اسے اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے منہ پھٹ بھی کہتے تھے، وہ برائی کو بغیر کسی لگی لپٹی کے برائی کہتا تھا اور مصلحت پسند لوگوں کو اس کی یہی بات بری لگتی تھی وہ جس معاشرے میں رہتا تھا۔
اس معاشرے کے بے ادب لوگوں کو ادب کا احساس دلانا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے اپنے آپ کو ادب کے دامن میں پروان چڑھایا۔ وہ شروع سے ہی ادب اور اسٹیج کا شیدائی رہا اس نے آغا حشر کاشمیری کے اسٹیج کو اپنی زندگی میں شامل کیا تھا اس نے سید امتیاز علی تاج کے ڈراموں کو دل سے محسوس کیا تھا، اس نے خواجہ معین الدین کے ڈراموں کو قریب سے دیکھا تھا وہ خود اسٹیج کے ڈراموں کا ایک نکھرا ہوا روپ تھا۔ اس نے اسٹیج ڈرامے کو دوام بخشا تھا، اس نے ڈرامے کی زندگی کو نئی توانائی بخشی تھی۔
برصغیر میں اسٹیج ڈرامے کا آغاز آغا حشر کاشمیری نے اپنے ڈراموں سے کیا تھا، آغا حشر مصنف، اداکار اور اپنے ڈراموں کے خود ہدایت کار بھی تھے ان کے ڈراموں 'رستم وسہراب' اور 'یہودی کی لڑکی' نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ آغاحشر نے ''یہودی کی لڑکی'' میں اپنے کردار کے مطابق حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اپنے تمام دانت نکلوا دیے تھے۔
پھر اس شہرہ آفاق ڈرامے کو ہندوستان کے مشہور فلمساز ہدایت کار و اداکار سہراب مودی نے فلم کے روپ میں بھی پیش کیا تھا، جسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔بعد میں کمال احمد رضوی نے اسٹیج ڈرامے کی روایت کو بڑی جانفشانی کے ساتھ آگے بڑھایا اور پھر ڈرامے کو اتنا عروج دیا کہ کمال احمد رضوی کا ڈرامہ عام لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنتا چلا گیا۔ کمال احمد رضوی نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا آغاز کراچی سے کیا پھر لاہورکے اسٹیج سے اپنا رشتہ جوڑ لیا، لاہور اسٹیج سے بحیثیت قلم کار، اداکار اور ہدایت کار اپنی گوناگوں صلاحیتوں کا لوہا منوایا پھر جب پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو کمال احمد رضوی نے لاہور ٹی وی سے ڈرامہ ''الف نون'' شروع کیا۔
اس ڈرامے کی مقبولیت نے کمال احمد رضوی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس ڈرامے میں کمال احمد رضوی نے اپنے ساتھ لاہور ریڈیو کے ایک فنکار رفیع خاورکو ننھا کا روپ دیا اور خودکو الن بنا کر پیش کیا۔ الن اور ننھا (الف نون) دو ایسے کردار بن کر ابھرے جنھوں نے ڈراموں کی ایک نئی تاریخ رقم کی، ''الف نون'' کا ہر ہفتے بڑی بے چینی کے ساتھ ناظرین انتظار کیا کرتے تھے اور جس دن یہ ڈرامہ آن ایئر ہوتا تھا تو بے شمار لوگ اپنے اپنے دفتروں اورکام کی جگہوں سے سرشام ہی یہ ڈرامہ دیکھنے کے لیے گھر آجاتے تھے اور گھرکی خواتین اپنے رات کے کھانے وقت سے پہلے ہی تیار کرکے ڈرامہ دیکھنے کے لیے خود کو فارغ کرلیا کرتی تھیں۔ اس ڈرامے کی مقبولیت نے ہر حد کو عبور کرلیا تھا اور یہ ڈرامہ نشر مکرر کے طور پر جب بھی پیش کیا گیا ہر بار پہلے سے زیادہ پسند کیا گیا اور یہی کمال احمد رضوی کے قلم کا کمال تھا۔
اب میں کمال احمد رضوی کی نجی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ یہ ہندوستان کے علاقے گیا سے 1951 میں ہجرت کر کے اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان آگئے تھے۔ کمال احمد رضوی کا بچپن بڑی تنہائی میں گزرا تھا۔ کمال احمد کوکھلونے کھیلنے کو نہیں مل سکے تھے، تو اس نے بچوں کی کتابیں پڑھنی شروع کردی تھیں۔ پھر جیسے جیسے شعور آتا گیا، عمر بڑھتی گئی کتابیں کمال احمد رضوی کی تنہائی کی ساتھی بنتی گئیں، پھر دنیا بھرکا ادب اس کی دلچسپی بن گیا۔ اس نے ٹالسٹائی سے لے کر اگاتھا کرسٹی اور شیکسپیئر تک بے شمار ادیبوں کو گھول کر پی لیا تھا اور جب کمال احمد رضوی نے اپنی عملی زندگی میں قدم رکھا تو ایک ادیب بن کر ہی رکھا۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے ادب کے ترجمے کیے ،کئی ادبی رسالوں سے وابستگی رہی۔
بچوں کے رسالے بھی نکالے اور پھر کچھ عرصے تک بی بی سی کی اردو سروس سے بھی اپنا رشتہ جوڑے رکھا مگر سیماب صفت شخصیت نے چین نہ لینے دیا اور وہ پھر اسٹیج کی طرف آگئے اور پھر سے ٹی وی ڈراموں کے لیے قلم اٹھالیا اس دوران ان کے لکھے ہوئے بے شمار ڈراموں نے لازوال شہرت حاصل کی جنھیں خاص طور پر مسٹر شیطان، بلاقی بدذات، چورمچائے شور، صاحب بی بی غلام، آپ کا مخلص اور ہم سب پاگل ناقابل فراموش ڈرامے گردانے جاتے ہیں اور عوامی مقبولیت میں اپنی ایک سند رکھتے ہیں۔ معاشرتی برائیوں کو جس طرح طشت ازبام کیا اور سرکاری اداروں میں کرپشن کو جس طرح بے نقاب کیا اس کا کریڈٹ صرف کمال احمد رضوی کے قلم ہی کو جاتا ہے ''سول ایوی ایشن'' کے بارے میں ایک ڈرامے کے ذریعے اس ادارے کی خامیوں کو بڑی خوبی کے ساتھ ایک بار اجاگر کیا گیا تھا۔
عوام میں اس ڈرامے کی بڑی پذیرائی ہوئی مگر ''سول ایوی ایشن'' کے اس وقت کے سربراہ اس ڈرامے کے آن ایئر کے بعد بڑے برہم ہوئے اور اپنے ادارے کی خامیوں کو دورکرنے کی بجائے ٹی وی کے پروڈیوسر اور اسکرپٹ انچارج مدبر رضوی کو خوب سنائی گئیں اور ان دونوں نے بڑی معافی تلافی کے بعد اپنی جان چھڑائی۔ ٹی وی کے پروڈیوسر کو آیندہ محتاط رہنے کی تلقین کردی گئی۔ لیکن کمال احمد رضوی نے اپنی روش نہیں بدلی وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بڑے غلط افراد اور بڑے اہم سرکاری اداروں کی غلط روش اور کرپشن پر بے دریغ لکھتے رہے اور ان اداروں کے سربراہان کو آئینہ دکھاتے رہے اکثر بیوروکریٹس کمال احمد رضوی کے قلم کے سامنے بے بس ہوکے رہ جاتے تھے۔
اس بات کا معاشرے کو تو کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا تھا مگر کمال احمد رضوی کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔ وہ کبھی بھی کسی بڑے افسر کی گڈبک میں نہیں رہے انھوں نے کبھی کسی وزیر یا مشیر کی چوکھٹ پر حاضری نہیں دی کیونکہ خوشامد اور چاپلوسی کمال احمد رضوی کی سرشت ہی میں نہیں تھی۔
میری بھی کمال احمد رضوی صاحب سے کراچی اور لاہور میں کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں، میں نے ان سے مل کر یہی اندازہ لگایا کہ کمال احمد رضوی بہت کم گو ہیں وہ بے مقصد گفتگوکسی صورت میں پسند نہیں کرتے تھے وہ اپنی پسند کے لوگوں سے بھی جب بیٹھ کر گفتگو کرتے تھے توگفتگو میں اختصار ہی سے کام لیتے تھے اور ایک بات یہ کہ وہ کسی کی بھی کوئی غلط بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ ترنت جواب دے دیا کرتے تھے، اگرکوئی برا مانتا ہے تو مانے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی ۔ میں نے ایک بار بڑے محتاط الفاظ میں رضوی صاحب سے پوچھا تھا۔جناب آپ ایک باکمال قلم کار اور بہترین ادیب ہیں پھر آپ فلمی دنیا میں اپنے قلم کا کمال دکھانے سے کیوں دور دور رہتے ہیں وہاں تو آپ کی بڑی ضرورت ہے۔
میری بات سن کر انھوں نے زہرخند کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا تھا۔ یونس میاں! فلمی دنیا کو میری ضرورت بالکل نہیں ہے۔ میں فلمی دنیا کو یا پھر یہ فلمی دنیا مجھے سوٹ نہیں کرتی۔ ہم جیسے قلم کاروں کے لیے فلمی دنیا ایک سراب ہے۔ فلمی دنیا میں دولت کے ساتھ جہالت کا عنصر زیادہ ہے میں تو لاہور میں رہتے ہوئے فلمی دنیا سے دور نہیں ہوں مگر فلمی دنیا مجھ سے کوسوں دور ہے۔کمال احمد رضوی سعادت حسن منٹو کے بعد دوسرے قلم کار تھے جو اپنی دنیا آپ بناتے تھے اور اسی میں مگن رہتے تھے انھوں نے اپنی انا کو مجروح کر کے معاشرہ سے کبھی کسی صورت میں نباہ نہیں کیا۔ انھوں نے جو بھی کام کیا سر اٹھا کے کیا کبھی سر جھکانے کا تصور بھی نہیں کیا۔ انھوں نے ہمیشہ ایک مثبت سوچ کے ساتھ قلم اٹھایا اور ایک مقصد کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی وہ ابتدا ہی سے ایک محنتی اور سیلف میڈ انسان تھے ان کی زندگی ساحر لدھیانوی کے اس شعر کی تفسیر تھی:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
انھیں اس بات کی کبھی پروا نہ ہوئی کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔کمال احمد رضوی کو اپنے انداز میں جینے کا ہنر آتا تھا اور وہ جب تک جیے خوب جیے خدا ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)
اسے اپنی اوائل عمری ہی سے معاشرے میں موجود ناانصافیوں سے نفرت تھی اس نے اپنے قلم کو ہتھیار بناکر معاشرے سے برائیوں کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔وہ لوگوں کو آئینہ دکھانے کا فن بھی جانتا تھا وہ باکمال شخص کمال احمد رضوی تھا۔ بے خوف اور بے باک تھا بعض لوگ اسے اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے منہ پھٹ بھی کہتے تھے، وہ برائی کو بغیر کسی لگی لپٹی کے برائی کہتا تھا اور مصلحت پسند لوگوں کو اس کی یہی بات بری لگتی تھی وہ جس معاشرے میں رہتا تھا۔
اس معاشرے کے بے ادب لوگوں کو ادب کا احساس دلانا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے اپنے آپ کو ادب کے دامن میں پروان چڑھایا۔ وہ شروع سے ہی ادب اور اسٹیج کا شیدائی رہا اس نے آغا حشر کاشمیری کے اسٹیج کو اپنی زندگی میں شامل کیا تھا اس نے سید امتیاز علی تاج کے ڈراموں کو دل سے محسوس کیا تھا، اس نے خواجہ معین الدین کے ڈراموں کو قریب سے دیکھا تھا وہ خود اسٹیج کے ڈراموں کا ایک نکھرا ہوا روپ تھا۔ اس نے اسٹیج ڈرامے کو دوام بخشا تھا، اس نے ڈرامے کی زندگی کو نئی توانائی بخشی تھی۔
برصغیر میں اسٹیج ڈرامے کا آغاز آغا حشر کاشمیری نے اپنے ڈراموں سے کیا تھا، آغا حشر مصنف، اداکار اور اپنے ڈراموں کے خود ہدایت کار بھی تھے ان کے ڈراموں 'رستم وسہراب' اور 'یہودی کی لڑکی' نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ آغاحشر نے ''یہودی کی لڑکی'' میں اپنے کردار کے مطابق حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اپنے تمام دانت نکلوا دیے تھے۔
پھر اس شہرہ آفاق ڈرامے کو ہندوستان کے مشہور فلمساز ہدایت کار و اداکار سہراب مودی نے فلم کے روپ میں بھی پیش کیا تھا، جسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔بعد میں کمال احمد رضوی نے اسٹیج ڈرامے کی روایت کو بڑی جانفشانی کے ساتھ آگے بڑھایا اور پھر ڈرامے کو اتنا عروج دیا کہ کمال احمد رضوی کا ڈرامہ عام لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنتا چلا گیا۔ کمال احمد رضوی نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا آغاز کراچی سے کیا پھر لاہورکے اسٹیج سے اپنا رشتہ جوڑ لیا، لاہور اسٹیج سے بحیثیت قلم کار، اداکار اور ہدایت کار اپنی گوناگوں صلاحیتوں کا لوہا منوایا پھر جب پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو کمال احمد رضوی نے لاہور ٹی وی سے ڈرامہ ''الف نون'' شروع کیا۔
اس ڈرامے کی مقبولیت نے کمال احمد رضوی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس ڈرامے میں کمال احمد رضوی نے اپنے ساتھ لاہور ریڈیو کے ایک فنکار رفیع خاورکو ننھا کا روپ دیا اور خودکو الن بنا کر پیش کیا۔ الن اور ننھا (الف نون) دو ایسے کردار بن کر ابھرے جنھوں نے ڈراموں کی ایک نئی تاریخ رقم کی، ''الف نون'' کا ہر ہفتے بڑی بے چینی کے ساتھ ناظرین انتظار کیا کرتے تھے اور جس دن یہ ڈرامہ آن ایئر ہوتا تھا تو بے شمار لوگ اپنے اپنے دفتروں اورکام کی جگہوں سے سرشام ہی یہ ڈرامہ دیکھنے کے لیے گھر آجاتے تھے اور گھرکی خواتین اپنے رات کے کھانے وقت سے پہلے ہی تیار کرکے ڈرامہ دیکھنے کے لیے خود کو فارغ کرلیا کرتی تھیں۔ اس ڈرامے کی مقبولیت نے ہر حد کو عبور کرلیا تھا اور یہ ڈرامہ نشر مکرر کے طور پر جب بھی پیش کیا گیا ہر بار پہلے سے زیادہ پسند کیا گیا اور یہی کمال احمد رضوی کے قلم کا کمال تھا۔
اب میں کمال احمد رضوی کی نجی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ یہ ہندوستان کے علاقے گیا سے 1951 میں ہجرت کر کے اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان آگئے تھے۔ کمال احمد رضوی کا بچپن بڑی تنہائی میں گزرا تھا۔ کمال احمد کوکھلونے کھیلنے کو نہیں مل سکے تھے، تو اس نے بچوں کی کتابیں پڑھنی شروع کردی تھیں۔ پھر جیسے جیسے شعور آتا گیا، عمر بڑھتی گئی کتابیں کمال احمد رضوی کی تنہائی کی ساتھی بنتی گئیں، پھر دنیا بھرکا ادب اس کی دلچسپی بن گیا۔ اس نے ٹالسٹائی سے لے کر اگاتھا کرسٹی اور شیکسپیئر تک بے شمار ادیبوں کو گھول کر پی لیا تھا اور جب کمال احمد رضوی نے اپنی عملی زندگی میں قدم رکھا تو ایک ادیب بن کر ہی رکھا۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے ادب کے ترجمے کیے ،کئی ادبی رسالوں سے وابستگی رہی۔
بچوں کے رسالے بھی نکالے اور پھر کچھ عرصے تک بی بی سی کی اردو سروس سے بھی اپنا رشتہ جوڑے رکھا مگر سیماب صفت شخصیت نے چین نہ لینے دیا اور وہ پھر اسٹیج کی طرف آگئے اور پھر سے ٹی وی ڈراموں کے لیے قلم اٹھالیا اس دوران ان کے لکھے ہوئے بے شمار ڈراموں نے لازوال شہرت حاصل کی جنھیں خاص طور پر مسٹر شیطان، بلاقی بدذات، چورمچائے شور، صاحب بی بی غلام، آپ کا مخلص اور ہم سب پاگل ناقابل فراموش ڈرامے گردانے جاتے ہیں اور عوامی مقبولیت میں اپنی ایک سند رکھتے ہیں۔ معاشرتی برائیوں کو جس طرح طشت ازبام کیا اور سرکاری اداروں میں کرپشن کو جس طرح بے نقاب کیا اس کا کریڈٹ صرف کمال احمد رضوی کے قلم ہی کو جاتا ہے ''سول ایوی ایشن'' کے بارے میں ایک ڈرامے کے ذریعے اس ادارے کی خامیوں کو بڑی خوبی کے ساتھ ایک بار اجاگر کیا گیا تھا۔
عوام میں اس ڈرامے کی بڑی پذیرائی ہوئی مگر ''سول ایوی ایشن'' کے اس وقت کے سربراہ اس ڈرامے کے آن ایئر کے بعد بڑے برہم ہوئے اور اپنے ادارے کی خامیوں کو دورکرنے کی بجائے ٹی وی کے پروڈیوسر اور اسکرپٹ انچارج مدبر رضوی کو خوب سنائی گئیں اور ان دونوں نے بڑی معافی تلافی کے بعد اپنی جان چھڑائی۔ ٹی وی کے پروڈیوسر کو آیندہ محتاط رہنے کی تلقین کردی گئی۔ لیکن کمال احمد رضوی نے اپنی روش نہیں بدلی وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بڑے غلط افراد اور بڑے اہم سرکاری اداروں کی غلط روش اور کرپشن پر بے دریغ لکھتے رہے اور ان اداروں کے سربراہان کو آئینہ دکھاتے رہے اکثر بیوروکریٹس کمال احمد رضوی کے قلم کے سامنے بے بس ہوکے رہ جاتے تھے۔
اس بات کا معاشرے کو تو کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا تھا مگر کمال احمد رضوی کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔ وہ کبھی بھی کسی بڑے افسر کی گڈبک میں نہیں رہے انھوں نے کبھی کسی وزیر یا مشیر کی چوکھٹ پر حاضری نہیں دی کیونکہ خوشامد اور چاپلوسی کمال احمد رضوی کی سرشت ہی میں نہیں تھی۔
میری بھی کمال احمد رضوی صاحب سے کراچی اور لاہور میں کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں، میں نے ان سے مل کر یہی اندازہ لگایا کہ کمال احمد رضوی بہت کم گو ہیں وہ بے مقصد گفتگوکسی صورت میں پسند نہیں کرتے تھے وہ اپنی پسند کے لوگوں سے بھی جب بیٹھ کر گفتگو کرتے تھے توگفتگو میں اختصار ہی سے کام لیتے تھے اور ایک بات یہ کہ وہ کسی کی بھی کوئی غلط بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ ترنت جواب دے دیا کرتے تھے، اگرکوئی برا مانتا ہے تو مانے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی ۔ میں نے ایک بار بڑے محتاط الفاظ میں رضوی صاحب سے پوچھا تھا۔جناب آپ ایک باکمال قلم کار اور بہترین ادیب ہیں پھر آپ فلمی دنیا میں اپنے قلم کا کمال دکھانے سے کیوں دور دور رہتے ہیں وہاں تو آپ کی بڑی ضرورت ہے۔
میری بات سن کر انھوں نے زہرخند کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا تھا۔ یونس میاں! فلمی دنیا کو میری ضرورت بالکل نہیں ہے۔ میں فلمی دنیا کو یا پھر یہ فلمی دنیا مجھے سوٹ نہیں کرتی۔ ہم جیسے قلم کاروں کے لیے فلمی دنیا ایک سراب ہے۔ فلمی دنیا میں دولت کے ساتھ جہالت کا عنصر زیادہ ہے میں تو لاہور میں رہتے ہوئے فلمی دنیا سے دور نہیں ہوں مگر فلمی دنیا مجھ سے کوسوں دور ہے۔کمال احمد رضوی سعادت حسن منٹو کے بعد دوسرے قلم کار تھے جو اپنی دنیا آپ بناتے تھے اور اسی میں مگن رہتے تھے انھوں نے اپنی انا کو مجروح کر کے معاشرہ سے کبھی کسی صورت میں نباہ نہیں کیا۔ انھوں نے جو بھی کام کیا سر اٹھا کے کیا کبھی سر جھکانے کا تصور بھی نہیں کیا۔ انھوں نے ہمیشہ ایک مثبت سوچ کے ساتھ قلم اٹھایا اور ایک مقصد کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی وہ ابتدا ہی سے ایک محنتی اور سیلف میڈ انسان تھے ان کی زندگی ساحر لدھیانوی کے اس شعر کی تفسیر تھی:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
انھیں اس بات کی کبھی پروا نہ ہوئی کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔کمال احمد رضوی کو اپنے انداز میں جینے کا ہنر آتا تھا اور وہ جب تک جیے خوب جیے خدا ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)