تائیوان کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کو فتح سائی انگ ون پہلی خاتون صدر منتخب
ڈی پی پی نے انتخابات میں 60 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ حکمران جماعت کومن تنگ کو 30 فیصدووٹ ملے۔
ISLAMABAD:
تائیوان میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت کے 70 سالہ دور کا خاتمہ ہوگیا ہے جب کہ اپوزیشن جماعت کی رہنما سائی انگ ون انتخابات میں کامیابی کے بعد پہلی خاتون صدرمنتخب ہوگئی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق تائیوان میں ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن جماعت ڈیمو کریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی)نے واضح کامیابی حاصل کرلی ہے جس کے بعد پارٹی کی سربراہ سائی انگ ون کے ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوگئی ہیں جب کہ حکمران جماعت نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ ''ڈی پی پی'' نے انتخابات میں 60 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ حکمران جماعت ''کومن تنگ'' کو 30 فیصدووٹ ملے۔ شکست تسلیم کرتے ہوئے حکمران جماعت کے سربراہ ایرک چو کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت انتخابات میں ہار چکی ہے اور وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں کیوں کہ ہم اپنے ووٹرز کو قائل کرنے میں ناکام رہے جب کہ وہ اس فتح پر ان ون کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
فاتح جماعت کی سربراہ اور نومنتخب صدر انگ ون نے 2008 میں اپنی جماعت کی چیئروومن کی حیثت سے ذمہ داری لی تاہم 2012 میں ہونے والے انتخابات میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ان کی مقبولیت مسلسل بڑھتی رہی اور حالیہ انتخابات میں انہیں کامیابی ملی۔
تائیوان میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت کے 70 سالہ دور کا خاتمہ ہوگیا ہے جب کہ اپوزیشن جماعت کی رہنما سائی انگ ون انتخابات میں کامیابی کے بعد پہلی خاتون صدرمنتخب ہوگئی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق تائیوان میں ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن جماعت ڈیمو کریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی)نے واضح کامیابی حاصل کرلی ہے جس کے بعد پارٹی کی سربراہ سائی انگ ون کے ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوگئی ہیں جب کہ حکمران جماعت نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ ''ڈی پی پی'' نے انتخابات میں 60 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ حکمران جماعت ''کومن تنگ'' کو 30 فیصدووٹ ملے۔ شکست تسلیم کرتے ہوئے حکمران جماعت کے سربراہ ایرک چو کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت انتخابات میں ہار چکی ہے اور وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں کیوں کہ ہم اپنے ووٹرز کو قائل کرنے میں ناکام رہے جب کہ وہ اس فتح پر ان ون کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
فاتح جماعت کی سربراہ اور نومنتخب صدر انگ ون نے 2008 میں اپنی جماعت کی چیئروومن کی حیثت سے ذمہ داری لی تاہم 2012 میں ہونے والے انتخابات میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ان کی مقبولیت مسلسل بڑھتی رہی اور حالیہ انتخابات میں انہیں کامیابی ملی۔