دور کی عینک اتاریں اور نزدیک کی لگا لیں
آپا کے پوتے کے عقیقے کا موقع تھا، کافی عرصے سے خاندان میں کوئی تقریب نہ ہوئی تھی
آپا کے پوتے کے عقیقے کا موقع تھا، کافی عرصے سے خاندان میں کوئی تقریب نہ ہوئی تھی سو ' تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے ' کے پیش نظر قریبی خاندان سے لگ بھگ سب کو مدعو کیا گیا تھا مگر کچھ دھند نے اور کچھ نصف خاندان کے گھروں میں موسمی اثرات سے متاثرہ کسی نہ کسی مریض کی موجودگی کے باعث بہت لوگ نہ پہنچ سکے اور یوں متوقع تعداد سے بہت کم لوگوں نے شرکت کی۔
کھانا کافی مقدار میں بچ گیا، سب کی روانگی کے وقت آپا ہر کسی کو پیکٹ بنا بنا کر، منتیں ترلے کر کے کھانا ہمراہ دے رہی تھیں کہ کھانا سنبھالنا مشکل تھا۔ جو بھی کھانا ساتھ لے کر جانے میں کوئی حجت کرتا اور کہتا کہ کسی غریب کو دے دیں تو آپا کہتیں '' شہروں میں یہی تو مسئلہ ہے کہ کس کو اس طرح بچا ہوا کھانا دیں، کہاں اتنی دور یتیم خانے میں کھانا بھیجیں، کون جا کر غریب بستیوں کے باہر اس سردی اور دھند میں رات کو کھانا بانٹ کر آئے؟ وغیرہ ''
'' گھر پر استعمال کر لیں آپا، سردی کا موسم ہے، کافی دن تک کھانا چل جائے گا!! ''
'' ارے کہاں دیگوں کا پکا ہوا کھانا ایک دو دن کے بعد کھانے کے قابل رہتا ہے!! '' آپا فوراً جواز دیتیں اور پیکٹ بنا بنا کر مہمانوں کے ہمراہ جانے کے باوجود گھر پر کافی مقدار میں کھانا بچ گیا تھا۔ بچے ہوا کھانا رکھنے کی جگہ نہ فرج میں تھی نہ فریزر میں سو کافی کھانا رات بھر کے لیے کچن ہی میں پڑا رہا، کیونکہ اس غضب کی سردی میں کھانا خراب نہ ہوتا۔ صبح ناشتے میں بھی قیام کرنیوالے مہمانوں کو وہی کھانا دیا گیا تھا، گھر کے ہی لوگ تھے سو کسی کو برا محسوس نہ ہوا، اس کے بعد بھی کافی کھانا کچن کے شیلفوں پر دھرا تھا اور ہم سب تاسف سے اسے دیکھ رہے تھے۔
'' گاؤں میں ہوتے تو کئی غریب غرباء کو پیٹ بھر کر کھانے کو مل جاتا! '' آپا کو بار بار دکھ ہو رہا تھا، بہر حال ہم ناشتے کے بعد اجازت لے کر رخصت ہوئے، گاڑی ان کے گیٹ سے نکلی تو اس وقت مجھے ایک ریڑھی کے پاس ایک نوجوان کھڑا نظر آیا، اس نے تھوڑی دیر پہلے ہی گھر کی اطلاعی گھنٹی بجائی تھی ، جس وقت ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ رہے تھے اور اسے گھر کے اندر سے لا کر کسی نے اس کوکوڑے کے لفافے پکڑائے تھے، اب وہی نوجوان ان لفافوں کو اپنی ریڑھی پر رکھ کر کھول کر کھڑا ان میں سے کچھ چن رہا تھا، ان چنی ہوئی چیزوں کو وہ اپنے دوسرے ہاتھ میں پکڑے سفید شاپر میں ڈال رہا تھا۔
میں نے غور کیا تو کھانے پینے کی چیزیں تھیں، میں نے گاڑی رکوا لی، باہر نکل کر اسے کوڑے میں سے کھانے پینے کی چیزیں چننے سے روکا اور واپس اندر جا کر کچن کے شیلف پر پڑے کھانے میں سے اسے کھانا لا کر دیا۔...'' آپا آپ کے گھرمیں اس کی طرح کا اور کون کون سا آدمی آتا ہے جسے آپ کھانا دے سکتی ہیں؟ '' میں نے ان سے سوال کیا۔...'' اس طرح تو کبھی سوچا ہی نہیں میں نے '' انھوں نے سوچتے ہوئے کہا، '' اخبار والا اور پھردودھ والا آتا ہے، یہ کوڑا اٹھانے والا ہے پھر اس کی ماں گھر پر صفائی کرنے آتی ہے، ڈاکیہ کبھی کبھار آتا ہے، مالی ہے، کالونی کا چوکیدار ہے۔
کپڑے دھونیوالی مائی ہے '' وہ سوچ سوچ کر گنوانے لگیں۔ ...'' بس آپا پھر تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں، یہی وہ سارے مستحقین ہیں اس سارے بچے ہوئے کھانے کے ، جس کی فکر میں آپ دبلی ہو رہی ہیں۔ انھیں کھانا دیں، یہ اپنے بچوںکے لیے اپنے گھروں میں لے جائیں، جن بستیوں اور علاقوں میں یہ رہتے ہیں، ان کے ارد گرد سب ان ہی جیسے لوگ بستے ہیں، انھیں فالتو کھانا دیں کہ وہ اپنے ارد گرد بسنے والوں کو بھی دیں۔غریب لوگوں کے دل بڑے ہوتے ہیں۔
ان میں سے جس کو بھی آپ کھانا دیں گی وہ نہ صرف خود آپ کو دعائیں دے گا بلکہ وہ اپنے ارد گرد میں سے جس کسی کو بھی آپ کی طرف سے کھانا دے گا، وہ بھی آپ کو دعائیں دے گا! '' میںنے آپا کو تجویز دی اور وہ میری بہت ممنون تھیں۔ایک آپا ہی نہیں، یہ ہم سب کا مسئلہ ہے، ہمیں لگتا ہے کہ جس چیز کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، وہ کسی کے بھی کام کی نہیں ہے، مجھے خود بارہا ایسا تجربہ ہوا کہ میں نے جب بھی کوئی بے کار چیز کوڑے دان میں پھینکی مثلا پرانی سی ڈی، پلاسٹک کے پرانے پیالے، مختلف اشیاء کی پیکنگ کے گتے کے ڈبے، مشروبات کی خالی بوتلیں، ڈسپوزایبل نپکن وغیرہ، ملازمین میں سے جب کوئی پوچھتا ہے، '' باجی کیا میں یہ اپنے بچوں کے کھیلنے کے لیے گھر لے جانے کے لیے لے جاؤں ؟ ''
'' بیٹا! کمپیوٹر کے پرانے کی بورڈ سے تمہارے بچے کیا کھیلیں گے؟ سی ڈی بالکل بے کار ہیں ، ان پر تو خراشیں پڑی ہوئی ہیں '' میں نے حیرت سے پوچھا۔...'' نئی اور انوکھی سی چیز ہے باجی، بچے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے '' اس نے کہا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ان کے بچے کس طرح ان غیر متعلقہ چیزوں کو دیکھ کر بھی خوش ہوجاتے ہیں، ہم تو اپنے بچوں کو خوش کر نے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جاتے ہیںاور ان غریبوں کے بچے کیسے آسانی سے خوش ہو جاتے ہیں، کہاں سے ان کے دلوں میں اتنی قناعت آ جاتی ہے؟
یہ سوچ لینا کہ شہروں میں زکوۃ، عطیات ، خیرات یا صدقات کے لیے مستحقین نہیں ملتے، غلط ہے... ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے، بہت محنت اور مشقت کی ضرورت ہے نہ ہی چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتا ہے، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، ذرا سا سر جھکائیں تو اپنے سے نیچے، خود سے کم مراعات یافتہ، کم آمدنی والے، ایک ایک دن کو مشقت کی طرح گزارنے والے کئی لوگ مل جاتے ہیں، ہمارے گھروں کے ملازمین ہوں یا ہمارے گھروں میں آنے والے سرکاری کم تنخواہ پانے والے لوگ، جیسے چوکیدار، مالی، ڈاکیہ وغیرہ، جن کی چادر اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سر ڈھانکیں تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں اور پاؤں پر کھینچیں تو سر ننگا، ان لوگوں کو ہمارے گھروں میں رزق کی فراوانی اور اس کی بے حرمتی ہوتے ہوئے دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہو گا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ جو رزق کی حرمت سے واقف نہیں ہوتے، وہ اسے کوڑے دانوں میں پھینک دیتے ہیں، اگر کسی انسان کو بچا ہوا کھانا دینے میں قباحت محسوس ہوتی ہو تو اللہ کی باقی مخلوقات مثلا چرند پرند وغیرہ کو ہی کھانا دے دیں، وہ بھی آپ کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
پرانے زمانے میں امام مسجد، مسجد کے خدمت گار اور محلے کے چوکیدار محلے کے ہر گھر کے فرد کی طرح ہوتے تھے، محلے میں باری سے یا ہر گھر سے ہر روز انھیں کھانے کو کچھ نہ کچھ دیا جاتا تھا، کسی امام مسجد کی کوئی تنخواہ نہ ہوتی تھی ، اس کی اور اس کے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی ذمے داری اہل محلہ پر عائد ہوتی تھی۔ ماہ رمضان میں سحری کے لیے جگانے کے لیے آنے والوں کو بھی ہر گھر سے مہینہ بھر کچھ نہ کچھ دیا جاتا تھا اور پھر عید سے پہلے اسے عیدی کے نام پر بہت کچھ مل جاتا تھا۔ اب ہم رزق کو کوڑے میں پھینک دیتے ہیں مگر اسے سلیقے سے کسی جاندار کے جسم کی غذا نہیں بننے دیتے، کوڑے کے ڈھیروں سے چن چن کر کھاتے ہوئے معصوم فرشتوں جیسے بچوں کو دیکھ کر کئی دن تک اپنی کھانے کی میز پر کھانا کھاتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
آپس میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں تو جہاں ہم ملکی سیاست، دنیا کے کئی اہم مسائل ، جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، میڈیا، فلم ، ڈرامہ، حکومت اور کئی ایسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، وہاں کیا ہم اپنے خاندان میں سے اور ارد گرد بسنے والے ان مستحق لوگوں کے مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر گفتگو نہیں کر سکتے جو ان کے لیے بہت بڑے ہیں مگر ہم میں انھیں حل کرنے کی سکت اور اہلیت ہوتی ہے، صرف نیت درکار ہوتی ہے! ہماری ذرا سی کاوش کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر سکتی ہے، دوسروں کو خوشی دینے سے جو خوشی ملتی ہے اس سے روح تک سرشار ہوتی ہے، دنیا سنوارنے کو ہم اتنا کچھ کرتے ہیں، عمر میں کہیں نہ کہیں وہ مقام ضرور آتا ہے جب انسان کو عاقبت سنوارنے کی ضرورت محسوس ہونی چاہیے۔دینے کا ارادہ اور نیت مصمم ہو تو مستحقین ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں، دور کی عینک اتاریں اور نزدیک کی لگا لیں، آپ کا کام آسان ہو جائے گا!
کھانا کافی مقدار میں بچ گیا، سب کی روانگی کے وقت آپا ہر کسی کو پیکٹ بنا بنا کر، منتیں ترلے کر کے کھانا ہمراہ دے رہی تھیں کہ کھانا سنبھالنا مشکل تھا۔ جو بھی کھانا ساتھ لے کر جانے میں کوئی حجت کرتا اور کہتا کہ کسی غریب کو دے دیں تو آپا کہتیں '' شہروں میں یہی تو مسئلہ ہے کہ کس کو اس طرح بچا ہوا کھانا دیں، کہاں اتنی دور یتیم خانے میں کھانا بھیجیں، کون جا کر غریب بستیوں کے باہر اس سردی اور دھند میں رات کو کھانا بانٹ کر آئے؟ وغیرہ ''
'' گھر پر استعمال کر لیں آپا، سردی کا موسم ہے، کافی دن تک کھانا چل جائے گا!! ''
'' ارے کہاں دیگوں کا پکا ہوا کھانا ایک دو دن کے بعد کھانے کے قابل رہتا ہے!! '' آپا فوراً جواز دیتیں اور پیکٹ بنا بنا کر مہمانوں کے ہمراہ جانے کے باوجود گھر پر کافی مقدار میں کھانا بچ گیا تھا۔ بچے ہوا کھانا رکھنے کی جگہ نہ فرج میں تھی نہ فریزر میں سو کافی کھانا رات بھر کے لیے کچن ہی میں پڑا رہا، کیونکہ اس غضب کی سردی میں کھانا خراب نہ ہوتا۔ صبح ناشتے میں بھی قیام کرنیوالے مہمانوں کو وہی کھانا دیا گیا تھا، گھر کے ہی لوگ تھے سو کسی کو برا محسوس نہ ہوا، اس کے بعد بھی کافی کھانا کچن کے شیلفوں پر دھرا تھا اور ہم سب تاسف سے اسے دیکھ رہے تھے۔
'' گاؤں میں ہوتے تو کئی غریب غرباء کو پیٹ بھر کر کھانے کو مل جاتا! '' آپا کو بار بار دکھ ہو رہا تھا، بہر حال ہم ناشتے کے بعد اجازت لے کر رخصت ہوئے، گاڑی ان کے گیٹ سے نکلی تو اس وقت مجھے ایک ریڑھی کے پاس ایک نوجوان کھڑا نظر آیا، اس نے تھوڑی دیر پہلے ہی گھر کی اطلاعی گھنٹی بجائی تھی ، جس وقت ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ رہے تھے اور اسے گھر کے اندر سے لا کر کسی نے اس کوکوڑے کے لفافے پکڑائے تھے، اب وہی نوجوان ان لفافوں کو اپنی ریڑھی پر رکھ کر کھول کر کھڑا ان میں سے کچھ چن رہا تھا، ان چنی ہوئی چیزوں کو وہ اپنے دوسرے ہاتھ میں پکڑے سفید شاپر میں ڈال رہا تھا۔
میں نے غور کیا تو کھانے پینے کی چیزیں تھیں، میں نے گاڑی رکوا لی، باہر نکل کر اسے کوڑے میں سے کھانے پینے کی چیزیں چننے سے روکا اور واپس اندر جا کر کچن کے شیلف پر پڑے کھانے میں سے اسے کھانا لا کر دیا۔...'' آپا آپ کے گھرمیں اس کی طرح کا اور کون کون سا آدمی آتا ہے جسے آپ کھانا دے سکتی ہیں؟ '' میں نے ان سے سوال کیا۔...'' اس طرح تو کبھی سوچا ہی نہیں میں نے '' انھوں نے سوچتے ہوئے کہا، '' اخبار والا اور پھردودھ والا آتا ہے، یہ کوڑا اٹھانے والا ہے پھر اس کی ماں گھر پر صفائی کرنے آتی ہے، ڈاکیہ کبھی کبھار آتا ہے، مالی ہے، کالونی کا چوکیدار ہے۔
کپڑے دھونیوالی مائی ہے '' وہ سوچ سوچ کر گنوانے لگیں۔ ...'' بس آپا پھر تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں، یہی وہ سارے مستحقین ہیں اس سارے بچے ہوئے کھانے کے ، جس کی فکر میں آپ دبلی ہو رہی ہیں۔ انھیں کھانا دیں، یہ اپنے بچوںکے لیے اپنے گھروں میں لے جائیں، جن بستیوں اور علاقوں میں یہ رہتے ہیں، ان کے ارد گرد سب ان ہی جیسے لوگ بستے ہیں، انھیں فالتو کھانا دیں کہ وہ اپنے ارد گرد بسنے والوں کو بھی دیں۔غریب لوگوں کے دل بڑے ہوتے ہیں۔
ان میں سے جس کو بھی آپ کھانا دیں گی وہ نہ صرف خود آپ کو دعائیں دے گا بلکہ وہ اپنے ارد گرد میں سے جس کسی کو بھی آپ کی طرف سے کھانا دے گا، وہ بھی آپ کو دعائیں دے گا! '' میںنے آپا کو تجویز دی اور وہ میری بہت ممنون تھیں۔ایک آپا ہی نہیں، یہ ہم سب کا مسئلہ ہے، ہمیں لگتا ہے کہ جس چیز کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، وہ کسی کے بھی کام کی نہیں ہے، مجھے خود بارہا ایسا تجربہ ہوا کہ میں نے جب بھی کوئی بے کار چیز کوڑے دان میں پھینکی مثلا پرانی سی ڈی، پلاسٹک کے پرانے پیالے، مختلف اشیاء کی پیکنگ کے گتے کے ڈبے، مشروبات کی خالی بوتلیں، ڈسپوزایبل نپکن وغیرہ، ملازمین میں سے جب کوئی پوچھتا ہے، '' باجی کیا میں یہ اپنے بچوں کے کھیلنے کے لیے گھر لے جانے کے لیے لے جاؤں ؟ ''
'' بیٹا! کمپیوٹر کے پرانے کی بورڈ سے تمہارے بچے کیا کھیلیں گے؟ سی ڈی بالکل بے کار ہیں ، ان پر تو خراشیں پڑی ہوئی ہیں '' میں نے حیرت سے پوچھا۔...'' نئی اور انوکھی سی چیز ہے باجی، بچے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے '' اس نے کہا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ان کے بچے کس طرح ان غیر متعلقہ چیزوں کو دیکھ کر بھی خوش ہوجاتے ہیں، ہم تو اپنے بچوں کو خوش کر نے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جاتے ہیںاور ان غریبوں کے بچے کیسے آسانی سے خوش ہو جاتے ہیں، کہاں سے ان کے دلوں میں اتنی قناعت آ جاتی ہے؟
یہ سوچ لینا کہ شہروں میں زکوۃ، عطیات ، خیرات یا صدقات کے لیے مستحقین نہیں ملتے، غلط ہے... ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے، بہت محنت اور مشقت کی ضرورت ہے نہ ہی چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتا ہے، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، ذرا سا سر جھکائیں تو اپنے سے نیچے، خود سے کم مراعات یافتہ، کم آمدنی والے، ایک ایک دن کو مشقت کی طرح گزارنے والے کئی لوگ مل جاتے ہیں، ہمارے گھروں کے ملازمین ہوں یا ہمارے گھروں میں آنے والے سرکاری کم تنخواہ پانے والے لوگ، جیسے چوکیدار، مالی، ڈاکیہ وغیرہ، جن کی چادر اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سر ڈھانکیں تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں اور پاؤں پر کھینچیں تو سر ننگا، ان لوگوں کو ہمارے گھروں میں رزق کی فراوانی اور اس کی بے حرمتی ہوتے ہوئے دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہو گا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ جو رزق کی حرمت سے واقف نہیں ہوتے، وہ اسے کوڑے دانوں میں پھینک دیتے ہیں، اگر کسی انسان کو بچا ہوا کھانا دینے میں قباحت محسوس ہوتی ہو تو اللہ کی باقی مخلوقات مثلا چرند پرند وغیرہ کو ہی کھانا دے دیں، وہ بھی آپ کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
پرانے زمانے میں امام مسجد، مسجد کے خدمت گار اور محلے کے چوکیدار محلے کے ہر گھر کے فرد کی طرح ہوتے تھے، محلے میں باری سے یا ہر گھر سے ہر روز انھیں کھانے کو کچھ نہ کچھ دیا جاتا تھا، کسی امام مسجد کی کوئی تنخواہ نہ ہوتی تھی ، اس کی اور اس کے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی ذمے داری اہل محلہ پر عائد ہوتی تھی۔ ماہ رمضان میں سحری کے لیے جگانے کے لیے آنے والوں کو بھی ہر گھر سے مہینہ بھر کچھ نہ کچھ دیا جاتا تھا اور پھر عید سے پہلے اسے عیدی کے نام پر بہت کچھ مل جاتا تھا۔ اب ہم رزق کو کوڑے میں پھینک دیتے ہیں مگر اسے سلیقے سے کسی جاندار کے جسم کی غذا نہیں بننے دیتے، کوڑے کے ڈھیروں سے چن چن کر کھاتے ہوئے معصوم فرشتوں جیسے بچوں کو دیکھ کر کئی دن تک اپنی کھانے کی میز پر کھانا کھاتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
آپس میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں تو جہاں ہم ملکی سیاست، دنیا کے کئی اہم مسائل ، جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، میڈیا، فلم ، ڈرامہ، حکومت اور کئی ایسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، وہاں کیا ہم اپنے خاندان میں سے اور ارد گرد بسنے والے ان مستحق لوگوں کے مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر گفتگو نہیں کر سکتے جو ان کے لیے بہت بڑے ہیں مگر ہم میں انھیں حل کرنے کی سکت اور اہلیت ہوتی ہے، صرف نیت درکار ہوتی ہے! ہماری ذرا سی کاوش کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر سکتی ہے، دوسروں کو خوشی دینے سے جو خوشی ملتی ہے اس سے روح تک سرشار ہوتی ہے، دنیا سنوارنے کو ہم اتنا کچھ کرتے ہیں، عمر میں کہیں نہ کہیں وہ مقام ضرور آتا ہے جب انسان کو عاقبت سنوارنے کی ضرورت محسوس ہونی چاہیے۔دینے کا ارادہ اور نیت مصمم ہو تو مستحقین ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں، دور کی عینک اتاریں اور نزدیک کی لگا لیں، آپ کا کام آسان ہو جائے گا!