وادیٔ پھنڈر

یہاں کے لوگ مہمان کی خاطر مدارت کو فخر کا باعث سمجھتے ہیں‘ گلگت کی سحر انگیزوادی کے سفر کی روداد

یہاں کے لوگ مہمان کی خاطر مدارت کو فخر کا باعث سمجھتے ہیں‘ گلگت کی سحر انگیزوادی کے سفر کی روداد ۔ فوٹو : فائل

گرمی کا موسم یہاں نہیں آتا، کیونکہ یہ حسین وادی سطح سمندر سے 9855 فٹ بلند ہے۔ یوں سمجھیں گرمیاں یہاں سے کترا کرنکل جاتی ہیں یوں تو وطن کا ہر خطہ خوبصورت ہے۔

ساحل سمندر کے نیلگوں پانیوں سے لے کرگلگت و چترال کے برف پوش پہاڑوں تک ہر منظر آپ کو دعوت نظارہ دیتا ہے لیکن پاکستان کے شمالی علاقہ جات اپنی بے مثال خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ان علاقوں کی پُر سکون فضاء سے فیض یاب ہونا برسوں سے ہمارے معمول کا حصہ رہا ہے اور اب تک ایسے 42 سفر ہمارے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔

یہاں کے لوگ بہت پُر امن، مہمان نواز اور شائستہ ہیں۔ بے شمار چھوٹی بڑی وادیاں اس خطہء زمین کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر وادی دلکشی میں اپنا الگ مقام اور پہچان رکھتی ہے۔ کوئی وادی سطح سمندر سے زیادہ بلند ہے کوئی کم اس لیے کہیں سیب زیادہ پیدا ہوتا ہے تو کہیں انگور اور خوبانی کی فراوانی ہے، کہیں سردیوں میں برف باری زیادہ ہوتی ہے تو کہیں کم۔

یہاں ذکر ہے وادی پھنڈر کا جہاں رنگ بدلتی خوبصورت جھیل پھنڈر آپ کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔ وادی پھنڈر گلگت کے ضلع غذر کی تحصیل گوپس کا علاقہ ہے۔ وادی پھنڈر پہنچنے کے لیے آپ کو پہلے گلگت شہر پہنچنا ہوتا ہے۔



راولپنڈی سے ایبٹ آباد اور ہزارہ سے ہوتے ہوئے آپ شاہراہ ریشم پر سفر کریں گے جہاں دنیا کے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان بہتا شیر دریا (دریائے سندھ) آپ کا ہمرکاب ہوگا۔ آپ بشام، کوہستان واسو اور چیلاس سے ہوتے ہوئے شمالی علاقوں کے سب سے بڑے شہر گلگت پہنچتے ہیں۔ گلگت شہر پہنچنے سے پہلے آپ کو وہ بے مثال مقام نظر آتا ہے جہاں دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں، یہاں کوہ ہندوکش، کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے عظیم پہاڑی سلسلے ایک دوسرے سے سر جوڑے کھڑے ہیں۔

گلگت شہر کے چاروں طرف قراقرم کے بلند و بالا پہاڑ ایستادہ ہیں' یہاں میدانوں والی گرمی نہیں ہے' بلکہ موسم خاصا خوشگوار رہتاہے۔ جب ہم گلگت پہنچے تو بازار میں انگور سیب اور انار بہت سستے داموں بک رہے تھے۔ بازاروں میں چہل پہل تھی۔ گلگت شہر بہت خوبصورت ہے شہر کے ساتھ ساتھ دریائے گلگت بہہ رہا ہے بلکہ اب تو دریا کے پار بھی کافی آبادی ہوچکی ہے۔ یوں سمجھیے کہ دریا اب گلگت شہر کے تقریباً وسط میں ہے اور آر پار جانے کے لیے پرانے لکڑی کے جھولتے ہوئے پل اور جدید پل بنے ہوئے ہیں۔

وادیء پھنڈر جانے کے لیے گلگت سے ہر قسم کی ٹرانسپورٹ میسر ہے۔ ٹیکسی کسی بھی وقت سفر کے لئے میسر ہے اور کم وقت میں منزل پر پہنچا سکتی ہے۔ ویگن بھی تقریباً تمام وادیوں میں جاتی ہے۔ پھنڈر والی ویگن میں سوار ہوا اور ویگن روانہ ہو گئی۔ گلگت سے پھنڈر تک آپ غذر کی خوبصورت وادیوں پونیال اور گوپس سے گزریں گے ان خوبصورت وادیوں کا حال آئیندہ پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ گوپس میں عام طور پر ڈرائیور حضرات ضرور گاڑی ٹھہراتے ہیں۔

دوپہر کا کھانا گوپس کے ایک ہوٹل میں کھایا پھر چائے وغیرہ پی کر پھنڈر کی دلکش وادی کے لیے روانہ ہوگئے۔ ویگن میں گلگت سے پھنڈر تک تقریباً 6 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ البتہ اپنی گاڑی ہو تو ظاہر ہے سفر جلد کٹ جاتا ہے۔ پھنڈر چترال روڈ پر واقع ہے۔ یہی سڑک شیندور ٹاپ سے گزر کر وادی چترال میں داخل ہوجاتی ہے۔

شیندور ٹاپ 12500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہی وہ خوبصورت درہ ہے جہاں پر کافی کھلی جگہ موجود ہے یہاں ایک طرف گلیشیئر پھیلے ہوئے ہیں، ایک چھوٹی سی خوبصورت جھیل ہے جس کا نیلگوں پانی جھلملاتا ہے۔ دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ بھی ہے جہاں ہر سال موسم گرما میں شیندور میلہ لگتا ہے۔ ملک بھر سے پولو کھیلنے والی ٹیمیں یہاں آتی ہیں، خاص طور پر گلگت اور چترال کی ٹیمیں بہت مشہور ہیں۔ اسی شیندور ٹاپ پر چترال اور گلگت کی سرحدیں ملتی ہیں۔



جب پھنڈر پہنچے تو ستمبر کا مہینہ تھا یعنی موسم سرما شروع ہوچکا تھا۔ گندم کٹ چُکی تھی تھریشر بھوسے سے گندم الگ کرنے کے کام پر لگے تھے۔ گندم کے کھیت دور سے خاکستری پٹیوں کی طرح نظر آتے تھے۔ کہیں کہیں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں سرسبز کھیتوں میں بیٹھی آلو کھود کھود کر نکال رہی تھیں۔ کہیں کہیں مکئی کی فصل بھی نظرآتی تھی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ خزاں کا موسم شروع ہونے والا ہے۔

سنٹر پھنڈر تقریباً 5/6 کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ میرے مقامی دوست وادی پھنڈر میں منتظر تھے۔ دوران سفر ہر 15/20 منٹ کے بعد فون پر پوچھا جاتا تھا کہ ''ویگن کہاں پہنچی؟''۔ P.T.D.C ہوٹل جھیل پھنڈر کے بالکل قریب واقع پہاڑی پر ایستادہ ہے، اور یہیں سے سنٹر پھنڈر شروع ہوجاتا ہے۔ جگہ جگہ لوگ اپنے گھروں کے قریب ویگن رکوا کر اتر تے جاتے ہیں۔

ایک جگہ ویگن رُکی تو دو لڑکے ڈرائیور کو مقامی زبان میں پوچھنے لگے کہ پنجاب کا کوئی مہمان ہے؟ اس سے پہلے کہ ڈرائیور بولتا، میں نے جھٹ سے جواب دیا ''ہاں، میں ہوں''۔یہ سُن کر لڑکوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، کہنے لگے، ''آپ کے انتظار میں کافی ویگنیں چیک کرچکے ہیں''۔

بہت گرمجوشی اور خوشی سے ملے، قریب ہی ان کا گھرتھا وہاں ان کے والدین میرا انتظار کررہے تھے۔ میرے کمرے کو انہوں نے خوب سجایا ہوا تھا ہر تکیے بیڈ سیٹ اور پردوں پر ہاتھ سے کشیدہ کاری کی ہوئی تھی۔ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد سردی بڑھنے لگی۔ پہلے دروازہ بند کیا گیا پھر کمبل اوڑھ لیا گیا، دن خوشگوار ہوتا ہے لیکن رات کو سردی بڑھ جاتی ہے۔ میرے میزبان کمبل کے ساتھ نیا لحاف بھی رکھ گئے۔ شاید رات کو ضرورت پڑے رات ایک بجے سردی کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی میرا جسم سردی سے کانپ رہا تھا، تب وہ لحاف میرے کام آیا۔

یہاں کے لوگ بہت ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ صرف پھنڈر ہی نہیں پورے گلگت، بلتستان، چترال اور دیگر پہاڑی علاقوں کے لوگ عام طور پر ملنسار اور مہمان نواز ہوتے ہیں۔ باہر سے ان وادیوں میں آنے والے سیاح کو مہمان کے نام سے پکارتے ہیں۔ دوسرے دن ناشتہ سے فارغ ہوکر میرے میزبان نے مجھے بتایا کہ ان کے کزن وغیرہ اور کچھ دوسرے رشتہ دار ملنے کے لیے آنے والے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے، مجھے بہت خلوص و محبت سے ملے بہت خوش ہوئے۔ سب نے مجھے اپنے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی اور ساتھ تاکید بھی کردی کہ ضرور آنا ہے۔

ان میں سے اکثر حاضر سروس فوجی تھے یا پھر ریٹائرڈ فوجی، پھنڈر کے لوگوں کی اکثریت کا پیشہ فوجی ملازمت ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ پھنڈر کے 80% لوگوں کا پیشہ فوجی ملازمت ہے۔ وادی میں سردی کی وجہ سے موسم گرما مختصر ہوتا ہے، صرف ایک فصل ہوتی ہے۔ موسم بہار مئی کے شروع میں اس علاقے کے در پر دستک دیتا ہے اور ستمبر کے آخر تک کھیتوں سے فصل اُٹھا لی جاتی ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف جمنا شروع ہوجاتی ہے اور سردی ہر طرف اپنے جھنڈے گاڑنا شروع کردیتی ہے۔



ان حالات میں روزگار کا حصول خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ لوگ فوج کی ملازمت کو پسند بھی کرتے ہیں، ملک کے بہت وفادار اور ملک و قوم سے محبت کرنے والے بہادر لوگ ہیں۔ اگر گھر کا سربراہ گھر میں ہوگا تو فوج سے ریٹائرڈ ہوگا اور اس کے دو یا تین بیٹے ہوں گے جو سب کے سب فوج میں ہوں گے یا پھر ایک فرد گھر میں کھیتی باڑی اور مال مویشی سنبھالنے کا کام کرتا ہے باقی بھائی فوج میں ہوں گے۔ یہ دلیر اور بہادر لوگ وطن کی خاطر اپنی زندگی قربان کردیتے ہیں۔

پھنڈر شہیدوں کی سرزمین بھی ہے۔ ہر گاؤں میں سڑک کے ساتھ جگہ جگہ آپ کو شہیدوں کی قبروں پر پاکستان کا پرچم لہراتا ہوا ملے گا۔ شہیدوں کی خوبصورت قبریں بنائی جاتی ہیں۔ ساتھ قومی پرچم اونچے بانس پر لہراتا ہوا ملے گا۔ قبروں پر رُک کر فاتحہ خوانی کی۔ اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کے درجات اور بلند کرے جنہوں نے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے، ان میں سے اکثر کی عمریں 20/25 سال کے درمیان تھیں کارگل کے محاذ پر جنگ میں اگلے مورچوں میں شہید ہوئے۔


لوگوں کا رہن سہن، سماجی و معاشرتی ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔ عموماً پورا خاندان اکٹھا رہتا ہے، سب ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، بعض دفعہ ایک ہی گھر میں بھائی ان کی اولاد ماں باپ سب کی تعداد 25/30 تک بھی ہوجاتی ہے۔ آپس میں بہت پیار محبت سے رہتے ہیں، بڑوں کا حکم مانتے ہیں۔ اگر خاندان زیادہ بڑا ہے اورگھر چھوٹا محسوس ہوتا ہو تو سب بھائی مل کر اپنے بڑے بھائی کے لیے علیحدہ مکان تعمیر کرتے ہیں اور بھائی کو ہنسی خوشی علیحدہ کرتے ہیں۔

علیحدہ ہونے کے بعد بھی اپنے بہن بھائیوں سے خلوص و محبت پہلے کی طرح برقرار رکھتے ہیں اس طرح باری آنے پر سب بھائی مشترکہ طور پر دوسرے بھائی کے لیے گھر بناتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ایک دن اکیلا ہی گاؤں کے اندر گھومنے چلاگیا تو دیکھا کہ اکثر گھروں کی بیرونی دیوار ہی نہیں، پتہ چلا کہ بیرونی دیوار کی ضرورت ہی نہیں ہے اردگرد رہنے والے سب اپنے رشتہ دار یا جان پہچان والے ہیں باہر کا کوئی آدمی وہاں نہیں رہتا، لوگ

صدیوں سے نسل درنسل ان علاقوں میں رہ رہے، سب ایک دوسرے کا ادب اور لحاظ کرتے ہیں۔ چوری چکاری بالکل نہیں ہے، لڑائی جھگڑا یہ لوگ نہیں کرتے ہر طرف امن اور چین ہے تو پھر بیرونی چاردیواری کی کیا ضرورت ہے؟



میں گاؤں میں اکیلا ہی گھوم رہا تھا جو بھی ملتا سلام میں پہل کرتا، صرف سلام ہی نہیں، اکثر لوگ مجھے کہتے تھوڑی دیر ہمارے گھر تشریف لائیے، چائے پی کر جائیے گا، یہ لوگ زبانی کلامی ہی نہیں کہتے بعض جگہ پر مجھے بے حد اصرار کرکے روک لیا گیا اور چائے پی کر پھر جانے دیا حتیٰ کہ سکولوں کے بچے بچیاں بھی سلام کرکے گزرتے ہیں۔

ایک گلی جو دریا کے بالکل کنارے پر سے گزر رہی تھی دوسری طرف لوگوں کے گھر تھے بیرونی دیوار تو ویسے نہیں ہوتی میں چلتے چلتے اچانک ایک گھر کے صحن میں پہنچ گیا کیونکہ آگے وہ گلی بند ہوجاتی تھی، گھر کا سربراہ اپنے بال بچوں کو لے کر باہر قالین بچھا کر خوش گپیوں میں مصروف تھا، میں سٹپٹا گیا کہ گھر والے کیا کہیں گے' میں اچانک گھبرا کر واپس پلٹا کہ گھر والے کی آواز آئی جناب آپ واپس کیوں جارہے تھے۔

میں نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ گلی آپ کے صحن میں آکر ختم ہوجاتی ہے وہ ہنسا اور کہنے لگا پھر کیا ہے آپ ہمارے مہمان ہیں۔ یہ گھر بھی آپ کا ہے اس نے مجھے اصرار کرکے اپنے خاندان کے ہمراہ قالین پر بٹھالیا پھر میرے لیے چائے اور دیگر بہت سی چیزیں لے آیا۔ اور دور تک مجھے چھوڑنے ساتھ آیا۔ اس گھر کا سربراہ بھی فوجی تھا اور ایک ماہ کی چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ ہماری اب بھی فون پر اکثر گپ شپ ہوتی رہتی ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیں۔

فوجی جوانوں نے چونکہ بڑے بڑے شہر دیکھے ہوتے ہیں بلکہ بعض تو دوسرے ممالک میں بھی اقوام متحدہ کی فوج میں شامل ہوکر جاتے رہتے ہیں اس لیے تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جگہ جگہ سرکاری اور پرائیویٹ سکول موجود ہیں۔ بچوںکی ایک بڑی تعداد بڑے شوق سے تعلیم حاصل کررہی ہے۔ لڑکیاں بھی شوق سے اسکول جاتی ہیں اور پھر کالج میں بھی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

گلگت بلتستان اور چترال میں پولو بہت شوق سے کھیلا جاتا ہے۔ ہر وادی میں پولو گراؤنڈ موجود ہیں جہاں مقامی ٹیمیں پولو کھیلتی رہتی ہیں۔ پھر شیندور یا گلگت شہر کے بڑے پولو ٹورنامنٹ میں شرکت کرتی ہیں۔ سنٹر پھنڈر میں بھی پولو گراؤنڈ موجود ہیں جہاں لوگ اپنا شوق پورا کرتے ہیں اور اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

پہاڑی علاقوں میں ہے دریا اور ندی نالے جھاگ اُڑاتے بہت تیز رفتاری سے بہتے ہیںلیکن وادی پھنڈر میں دریا بالکل پُرسکون انداز میں بہتاہے۔ وادی کے اردگرد اونچے اونچے پہاڑ ہیں لیکن دریا بہت ہی وقار کے سات دھیمی چال سے آگے بڑھتا ہے۔ دریا کا یہ موڈ صرف پھنڈر کے 5/6 کلو میٹر کے علاقے میں ہی نظر آتا ہے۔ قدرت نے یہاں زمین کی ڈھلان بہت معمولی رکھی ہے جس کی وجہ سے پانی آہستہ پُرسکون انداز میں بہتا ہے۔

کناروں پر یا دریا کے اندر کوئی پتھر دکھائی نہیں دیتا۔ کناروں پر صرف ریتلی زمین ہے جہاں گھر بنے ہوئے ہیں، کٹاؤ یا سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں۔ اگر دریا میں پانی بارشوں کے دنوں میں زیادہ ہوجائے تو کناروں تک آجاتا ہے۔ زمین کا کٹاؤ نہیں ہوتا کیونکہ پانی میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ دریا کے اندر چند جگہوں پر چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں جن میں قدرتی طور پر سبزہ اور درخت ہیں جو بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ دریا میں برفانی پانیوں میں رہنے والی ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے جسے لوگ بہت شوق سے پکڑتے ہیں۔



وادی پھنڈر کا ذکر پھنڈر جھیل کی بات کہیبغیر ادھورا ہے۔ پہاڑی پر بنے ہوئے P.T.D.C ہوٹل کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں وہیں ایک پیالے کی مانند پھنڈر جھیل ہے۔ لوگ دور دور سے پھنڈر جھیل دیکھنے کھینچے چلے آتے ہیں۔ دریا بھی جھیل کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہی دریا جھیل کو پانی سے لبالب بھر کر رکھتا ہے۔ البتہ موسم سرما میں جب دریا کا پانی بہت کم رہ جاتا ہے تو جھیل اور دریا میں تھوڑا سا فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے لیکن یہ جدائی عارضی ہوتی ہے۔ جونہی گرمیوں کا آغاز ہوتا ہے اور اردگرد برفانی تودے گلیشیئر پگھلتے ہیں تو دریا اور جھیل پھر مل جاتے ہیں۔

موسم سرما چونکہ بہت سخت ہوتا ہے، ہر طرف برف ہی برف ہوتی ہے تو جھیل کا پانی بھی جم جاتا ہے اور اس کے اوپر والی تہہ اتنی موٹی ہوتی ہے کہ جھیل ایک وسیع برفانی میدان کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور علاقے کے نوجوان یہاں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ جھیل کے ایک طرف کچی سڑک بنی ہوئی ہے۔ آپ اوپر والی پکی سڑک کو چھوڑ کر نیچے بالکل جھیل کے کنارے پر آجائیے تو آپ کی سیر کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔ بعض دفعہ مجھے جھیل کا پانی سبز یا گہرا سبز نظر آیا۔

دریا کا پانی بھی بالکل صاف شفاف ہے اور یہ بھی مجھے ہلکا سبز یا گہرا سبز نظر آیا ایک دفعہ میں نے دیکھا تو جھیل کا پانی مجھے نیلا دکھائی دیا۔ میں نے یہ سوچا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے یا پھر یہ دریا اور جھیل دن کے مختلف اوقات میں اپنا رنگ بدلتے رہتے ہیں اور جب میں نے جھیل کی تصویر بنائی تو پانی کا رنگ گہرا نیلا نظر آیا۔ غالباً زیادہ دھوپ بادل یا ہلکی دھوپ کی وجہ سے یہ پانی اپنا رنگ بدل لیتا ہے۔

وادی میں قدرتی مناظر کو خوبصورت بنانے میں ایک درخت کا بڑا کردار ہے جسے یہاں کے لوگ ''سفیدہ'' کہتے ہیں لیکن یہ پنجاب والا سفیدہ نہیں ہے' میں اسے ''سپیدار'' لکھوں گا یہ درخت بالکل تیرکی طرح سیدھا ہوتا ہے اگرچہ اس کی شاخیں بھی ہوتی ہیں لیکن یہ چھوٹی ہوتی ہیں اور تنے کے ساتھ ساتھ ہی ہوتی ہیں لوگ یہ درخت ہر جگہ لگاتے ہیں اور قطاروں میں لگا ہوا یہ اونچا سبز درخت بہت دور سے ہی نظر آنے لگتا ہے۔ سپیدار کے یہ درخت صرف زیادہ اونچائی والے علاقوں میں ہی ہوتا ہے وادی یاسین۔ پھنڈر میں یہ درخت عام ہے قیمتی بھی ہے لوگ اپنا گھر بنانے میں اسے استعمال کرتے ہیں۔

وادی پونیال یا گلگت شہر کے قریب والی وادیوں میں یہ درخت نظر نہیں آیا، وادی پھنڈر سے آگے اور شیذور ٹاپ سے پہلے بھی کئی گاؤں آباد ہیں۔ یہ علاقہ پھنڈر سے زیادہ اونچائی پر واقع ہے۔ اگر آپ کی ٹانگوں میں دم خم ہے تو پھر ''ہندراپ'' گاؤں سے اوپر پہاڑوں میں ایک خوبصورت جھیل ہے جس میں برفانی لذیذ مچھلی ٹراؤٹ کی بہتات ہے لیکن اس جھیل پر پہنچنے کے لیے آپ کو تین گھنٹے پیدل چلنا پڑے گا اور ایک گاؤں ''لنگر'' کے اوپر پہاڑوں میں ایک جھیل ہے جس کا نام ''کھوکش جھیل'' ہے لیکن اس کا سفر بھی گاؤں سے دو تین گھنٹے پیدل مسافت پر ہے۔

اگر ہمت اور شوق اور لگن ہو تو رنگ بدلتے پانی کی ان خوبصورت جھیلوں کو بھی ضرور دیکھیے۔ مچھلی پکڑیے لیکن خیال رہے کہ محکمہ فشریز والوں سے مچھلی پکڑنے کا پرمٹ ضرور حاصل کریں۔ ان جھیلوں پر اگر رات گزارنا ہو تو کمبل، خیمہ اور گرم کپڑے لازمی درکار ہوں گے۔ اگر نہیں تو پھر صبح جائیے اور شام کو واپس آجائیے۔ لیکن پھر بھی گرم کپڑے جیکٹ وغیرہ پہن کر جائیے کیونکہ زیادہ بلندی کی وجہ سے یہاں دن کو بھی سردی ہوتی ہے۔ البتہ رات زیادہ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ یہ بھی خیال رہے یہ میں گرمیوں کے موسم کی بات کررہا ہوں۔ موسم سرما میں تو ان جھیلوں پر جانے کا تصور بھی محال ہے۔



وزیراعظم نواز شریف صاحب اور دلکش وادی پھنڈر
وادی پھنڈر میں ایک بات بہت مشہور ہے کہ جب وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے پچھلے دور حکومت میں پھنڈر آئے تھے تو اس کی خوبصورتی اور دلکشی دیکھ کر انہوں نے کہا تھا کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں یہاں اپنا گھر بناؤں۔ اب یہ بات پھنڈر والے بہت فخر سے دوسرے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارا پھنڈر اس قدر خوبصورت ہے کہ میاں نواز شریف بھی یہاں رہنا اور اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے مختلف لوگوں سے پوچھا کہ وہ کس جگہ اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں تو ایک شخص نے بتایا کہ یہ جو سامنے دریا میں چھوٹا سا جزیرہ ہے وہ اس پر اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں جبکہ ایک دوسرے شخص نے دریا کے دوسرے کنارے کی طرف اشارہ کیا یہ وہ جگہ ہے جہاں پر میاں صاحب اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں۔ بہرحال دل تو میرا بھی کرتا تھا کاش یہاں پر دریا کے کنارے ایک چھوٹا سا گھر بناؤں لیکن طویل اوربرفانی موسم میں تو ہمارے لیے مشکل ہوگی۔

ان وادیوں تک رسائی اور یہاں وقت گزارنا مشکل نہیں یہاں ہروادی میں چھوٹا سا بازار ہوتا ہے، ضرورت کی ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے، ہوٹل بھی ہیں۔ البتہ اگر آپ اپنی گاڑی پر آرہے ہیں تو آپ کوایک بہترین ڈرائیور ہونا چاہیے اور بعض جگہ پر سیلاب نے سڑک کو نگل لیا ہے وہاں پر پتھر اور مٹی ڈال کر عارضی راستہ بنایا جاتا ہے جہاں محتاط ڈرائیونگ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ ٹکڑے چھوٹے ہوتے ہیں اور ہر سال سیلاب ان علاقوں کے لوگوں سے چھڑ چھاڑ کرتا ہی رہتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو بڑی تباہی لاتا ہے جیسا کہ اس سال 2015ء میں پوری وادی چترال میں بہت نقصان ہوا تھا لیکن یہاں کے لوگ بہت بہادر اور زندہ دل ہیں۔ وہ ان سیلابوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے ہیں راستے دوبارہ تعمیر کرتے ہیں گھر دوبارہ بناتے ہیں اور ہنسی خوشی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
Load Next Story