معاشی حکمت عملی اور مہنگائی

حالیہ چند برسوں میں افراط زر اور مہنگائی میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے

پاکستان میںعام فہم انسان بھی بعض وجوہات کو سمجھ سکتا ہے. فوٹو: فائل

ملک میں عام انتخابات کے لیے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کر رکھی ہیں' حکومت نے بھی واضح کر دیا ہے کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات اس کے لیے سب سے بڑا ایجنڈا ہے۔

ادھر وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگلے برس مارچ کے وسط تک نگران سیٹ اپ آئے گا اور 10 مئی کو پولنگ ہو سکتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ملک میں انتخابی ماحول بن چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں تو ایک طرح سے انتخابی مہم شروع کر چکی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی ان انتخابات میں جانے کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کررہی ہے۔ اس کی اتحادی جماعتیں بھی اپنے اپنے انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ اس انتخابی ماحول میں بدھ کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے کابینہ کے ارکان کو خادم حرمین شرمین کی دعوت پر حج بیت اللہ کے لیے سعودی عرب میں اپنے قیام اور سعودی قیادت سے ملاقاتوں کے بارے میں بریف کیا۔ انھوں نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ سعودی ولی عہد نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کر لی ہے اور وہ جلد یہاں آئیں گے۔ عیدالاضحی کے موقع پر امن و امان کے قیام کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو سراہا گیا' ان باتوں کے علاوہ میڈیا کے اطلاعات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کابینہ کے ارکان نے معاشی پالیسی پر بھی تنقید کی گئی۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تشویش ظاہر کی۔ عام انتخابات سے قبل مہنگائی کے حوالے سے خصوصی اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

حالیہ چند برسوں میں افراط زر اور مہنگائی میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے ارکان نے اگر اپنی حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید کی ہے تو یہ ایک اچھی روایت ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ حکومت بھی صورت حال سے پوری طرح آگاہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی وجوہات ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ عام فہم انسان بھی بعض وجوہات کو سمجھ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال نے معیشت کو متاثر کیا ہے' جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑی ہیں' توانائی کے بحران میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے لیکن ارباب اختیار کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ حکومت کی بعض معاشی پالیسیاں بھی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئیں۔ حکومت کوئی ایسی ٹھوس اور مربوط معاشی پالیسی اختیار نہیں کر سکی جس سے معیشت میں مستقل بنیادوں پر مثبت تبدیلی آتی۔


ارباب اختیار کو بخوبی علم ہے کہ کئی خود مختار ادارے اپنے طور پر اپنی مصنوعات اور خدمات کے نرخ بڑھاتے ہیں' ان میں ریلوے' بجلی' گیس اور پٹرولیم وغیرہ شامل ہیں' ان کے نرخ سال میں کئی بار ایڈجسٹ ہوتے ہیں۔ دوسری جانب درآمد اشیا کے نرخ بھی سارا سال اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق ڈالر سے ہوتا ہے' ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا بھی یہی حال ہے۔ یوں دیکھا جائے تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں جو سالانہ میزانیہ قوم کے سامنے پیش کرتی ہیں' وہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ معیشت کو مکمل طور پر کھلا چھوڑ دیا گیا اور حکومت کا کام صرف یہ رہ گیا کہ وہ اپنے'سرکاری ملازموں اور ترقیاتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام سے ٹیکس اکٹھا کرتی ہے اور اگر اہداف پورے نہ ہوں تو پھر غیر ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ حاصل کر لیتی ہے۔

عالمی معاشی اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اس وقت منڈی کی معیشت ہے اور نہ ہی اسے آزاد معیشت کہا جا سکتا بلکہ اسے آئوٹ آف کنٹرول اکانومی یا منتشر معیشت کہنا زیادہ مناسب ہے۔ پاکستان میں طبقاتی حوالے سے بات کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس ملک میں بسنے والے قبائلی سردار' وڈیرے' جاگیردار اور گدی نشین انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ دولت ٹیکس وغیرہ بھی یہ طبقہ نہیں دیتا لیکن یہ ہر قسم کی مراعات حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان میں انکم ٹیکس ملازمت پیشہ طبقہ ادا کرتا ہے کیونکہ ان کی تنخواہوں سے اسے با آسانی منہا کر لیا جاتا ہے۔

پروفیشنلز جن میں وکلاء' ڈاکٹر' انجینئرز وغیرہ شامل ہیں' وہ بھی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں ' اسی طرح تاجر طبقہ بھی کسی حد تک انکم ٹیکس دیتا ہے۔ بڑا صنعتی طبقہ ایکسائز ڈیوٹیوں' کسٹم' ٹیرف اور جی ایس ٹی کی شکل میں ٹیکس دیتا ہے لیکن اپنی آمدنی پر ان کا ٹیکس استعداد سے کم ہے۔ ان پر ایکسائز ڈیوٹی' جنرل سیلز ٹیکس اور جو دیگر ٹیکس عائد ہوتے ہیں' وہ انھیں اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں جمع کر کے عوام پر ڈال دیتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو بڑے صنعتکاروں اور تاجروں کے ٹیکس کا بڑا حصہ بھی عام آدمی ہی ادا کرتا ہے۔ عام آدمی کے نام پر ہی حکومت غیر ملکی قرضے لیتی ہے اور اسے حکمران طبقے تقسیم کر لیتے ہیں۔

اسے دوسرے پہلو سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے' فاٹا'بلوچستان سے نہ ہونے کے برابر ٹیکس حاصل ہوتا ہے۔ اندرون سندھ سے بھی ٹیکس انتہائی کم اکٹھا ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی بھی یہی صورت حال ہے۔ زیادہ تر ٹیکس کراچی'لاہور اور پنجاب کے صنعتی شہر ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وجہ سے بھی پاکستانی معیشت پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے جہاں بیجا ٹیکسوں کا خاتمہ بہت ضروری ہے وہاں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں کا سالانہ بنیادوں پر تعین بھی ضروری ہے۔ اگر معیشت کو کسی سسٹم میں لا کر ریگولیٹ نہ کیا گیا تو مہنگائی میں کمی نہیں ہو سکتی۔
Load Next Story