بلوچستان میں حکمرانی کا اختیار
بلوچستان حکومت کی آئینی حیثیت کے بارے میں سپریم کورٹ کااستفسار لمحہ موجود کی سب سے بڑی آزمائش ہے .
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے بلوچستان میں امن و امان کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ آئینی اتھارٹی ختم ہوچکی۔
بلوچستان حکومت کو قانوناً حکمرانی کا اختیار نہیں، ہر کوئی آئین کی خلاف ورزی میں لگا ہوا ہے، غیر ذمے داری کی حد ہو گئی، چیف سیکریٹری بلوچستان، وزیر اعلیٰ سے تحریری طورپر پوچھ کر بتائیں کہ وہ کس طرح حکمرانی کر رہے ہیں ۔بلاشبہ بلوچستان حکومت کی آئینی حیثیت کے بارے میں سپریم کورٹ کااستفسار چشم کشا اور وفاقی حکومت کے ارباب اختیار کے لیے لمحہ موجود کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بات بھی واضح کردی کہ عدالتی فیصلے مذاق نہیں ہوتے،اس انتباہ کا بھی صوبہ کی سیاسی اور انتظامی مشینری کو فوری ادراک کرنا چاہیے ورنہ صورتحال کے مزید اندوہ ناک ہونے کا اندیشہ ہے جب کہ صورتحال سے داخلی اور غیر ملکی طاقتیں فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہیں،امریکا نے الزام لگایا ہے کہ بلوچ معاشرہ منتشر ہورہا ہے جہاں ''مارو اور پھینک دو'' کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب بھی اغوا اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر سینیٹر حاصل خان بزنجو نے انکشاف کیاہے کہ بلوچستانمیں پہلے نوآبادکار نقل مکانی کررہے تھے اب بلوچ بھی نقل مکانی کررہے ہیں امن وامان مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے کرپشن عروج پر ہے جب کہ مسلم لیگ ق کے اپوزیشن رکن سربراہ سردار یار محمد رند نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اور سپریم کورٹ کے عبوری آرڈر کے بعد موجودہ حکومت کو کام کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا وہ اپنی مینڈیٹ کھو چکی ہے گورنر راج ہم نہیں چاہتے مگر مجبوری ہے کہ وہاں پر ایسا ہو اگر انتخابات دو ماہ قبل کردیے جائیں یا نئے قائد ایوان منتخب کیا جائے تو بلوچستان کا کچھ مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے ۔
یاد رہے کہ ایک ماہ قبل سردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان کے حالات پر سماعت کرنا ایک مثبت عمل تھا کیونکہ پہلی بار بلوچ لوگوںکا موقف سناگیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں آئینی بحران کے فوری حل کی طرف رجوع کرے، صوبے کی صورتحال اندوہ ناک ہے اور انتظامی اور مالی کرپشن روکنے کے لیے آئینی ، قانونی اور سیاسی آپشنز اختیار کرنا ناگزیر ہے۔یہ وقت ہوشمندی،وژن اور دوراندیشی کا ہے۔بلوچستان کی کسی قسم کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔وہاں عدالتی احکامات کے تحت جلد سے جلد آئینی اتھارٹی بحال ہونی چاہیے۔
بلوچستان حکومت کو قانوناً حکمرانی کا اختیار نہیں، ہر کوئی آئین کی خلاف ورزی میں لگا ہوا ہے، غیر ذمے داری کی حد ہو گئی، چیف سیکریٹری بلوچستان، وزیر اعلیٰ سے تحریری طورپر پوچھ کر بتائیں کہ وہ کس طرح حکمرانی کر رہے ہیں ۔بلاشبہ بلوچستان حکومت کی آئینی حیثیت کے بارے میں سپریم کورٹ کااستفسار چشم کشا اور وفاقی حکومت کے ارباب اختیار کے لیے لمحہ موجود کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بات بھی واضح کردی کہ عدالتی فیصلے مذاق نہیں ہوتے،اس انتباہ کا بھی صوبہ کی سیاسی اور انتظامی مشینری کو فوری ادراک کرنا چاہیے ورنہ صورتحال کے مزید اندوہ ناک ہونے کا اندیشہ ہے جب کہ صورتحال سے داخلی اور غیر ملکی طاقتیں فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہیں،امریکا نے الزام لگایا ہے کہ بلوچ معاشرہ منتشر ہورہا ہے جہاں ''مارو اور پھینک دو'' کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب بھی اغوا اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر سینیٹر حاصل خان بزنجو نے انکشاف کیاہے کہ بلوچستانمیں پہلے نوآبادکار نقل مکانی کررہے تھے اب بلوچ بھی نقل مکانی کررہے ہیں امن وامان مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے کرپشن عروج پر ہے جب کہ مسلم لیگ ق کے اپوزیشن رکن سربراہ سردار یار محمد رند نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اور سپریم کورٹ کے عبوری آرڈر کے بعد موجودہ حکومت کو کام کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا وہ اپنی مینڈیٹ کھو چکی ہے گورنر راج ہم نہیں چاہتے مگر مجبوری ہے کہ وہاں پر ایسا ہو اگر انتخابات دو ماہ قبل کردیے جائیں یا نئے قائد ایوان منتخب کیا جائے تو بلوچستان کا کچھ مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے ۔
یاد رہے کہ ایک ماہ قبل سردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان کے حالات پر سماعت کرنا ایک مثبت عمل تھا کیونکہ پہلی بار بلوچ لوگوںکا موقف سناگیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں آئینی بحران کے فوری حل کی طرف رجوع کرے، صوبے کی صورتحال اندوہ ناک ہے اور انتظامی اور مالی کرپشن روکنے کے لیے آئینی ، قانونی اور سیاسی آپشنز اختیار کرنا ناگزیر ہے۔یہ وقت ہوشمندی،وژن اور دوراندیشی کا ہے۔بلوچستان کی کسی قسم کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔وہاں عدالتی احکامات کے تحت جلد سے جلد آئینی اتھارٹی بحال ہونی چاہیے۔