دیار مغرب میں پرندے مشکل میں ہیں

شہر میں پنجروں میں بند طوطے بہت ہیں اور میرے پاس پیسے بہت کم ہیں۔

rmvsyndlcate@gmail.com

سنا ہے کہ دیار مغرب کے پرندے ان دنوں بہت مشکل میں ہیں۔ وہاں کے ذہین و فطین لوگوں نے ٹیکنولوجی کو فروغ دے کر اپنے لیے تو بہت سہولتیں پیدا کر لی ہیں۔

مگر اسی حساب سے اپنے دیس کے پرندوں کے لیے مصائب و آلام کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ مگر آدمی خود غرض مخلوق ہے۔ وہ اپنے عیش و آرام کے لیے سو سو طرح کے جتن کرتا ہے۔ باقی مخلوقات پر کیا گزرتی ہے یہ اس کی بلا جانے۔

خیر یہ تو لمبا مضمون ہے۔ لیکن اس وقت مخصوص طور پر مغرب کے پرندے جس مصیبت میں گرفتار ہیں اس کا ذکر مقصود ہے۔ سائنسی ترقی کے ساتھ ادھر یہ بھی تو ہوا ہے کہ فلک بوس عمارتوں کا چلن بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ خود مغربی انسان کی طرف سے بہت بڑا فائول ہے۔ اگر کوئی کائناتی قانون ہے تو یہ صریحاً اس قانون کی خلاف ورزی ہے۔ صدیوں سے تقسیم کچھ اس طرح کی چلی آتی تھی کہ زمین کی پستیوں میں انسانی مخلوق دندناتی پھرتی تھی۔ فضا کی بلندیوں میں پرندے بلا شرکت غیرے محو پرواز رہتے تھے۔ اور آدمی اس تقسیم پر قانع تھا۔ قانع نہ ہوتا بھی تو کیا کرتا۔ فضا کی بلندیوں میں تو پرواز نہیں کر سکتا تھا۔ قدرت نے اسے قوت پرواز سے محروم کر رکھا تھا۔ اڑن کھٹولا اور کل کا گھوڑا اس نے اپنے تخیل کے زور پر ایجاد تو کر لیے تھے۔ مگر یہ سواریاں بس قصہ کہانیوں کی دنیا میں پرواز کرتی تھیں۔

آدمی نے بہت تیر مارا تو دو منزلہ سہ منزلہ عمارتیں کھڑی کر لیں۔ پرندوں کو ان پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ بلکہ انھوں نے اونچی منڈیروں اور برجیوں کو غنیمت جانا۔ اب وہ صرف بلند و بالا درختوں کے محتاج نہیں رہے۔ بلندیوں میں اڑتے اڑتے کسی بلند و بالا منڈیر پر اتر گئے۔ وہاں اطمینان سے سانس لیا۔ دوچار بیٹیں کیں۔ گھڑی دو گھڑی کے لیے آنکھیں موندیں۔ پھر تازہ دم ہو کر پر پھڑ پھڑائے اور لمبی اڑان کے عزم کے ساتھ اڑ لیے۔

لیکن اب جو اہل مغرب نے اسکائی اسکریپر یا کہیے کہ فلک بوس عمارتیں کھڑی کر لی ہیں یہ تو گویا اپنی زمینی حدود سے گزر کر فضا کی ان حدود میں جارحانہ پیش قدمی ہے جہاں سے پرندوں کا جہان شروع ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ان ستم ایجادوں نے ایک بڑا ستم یہ کیا کہ اینٹ پتھر کی دیواریں کھڑی کرتے کرتے شیشے کے پردے کھڑے کرنے شروع کر دیے۔ ان شیشے کے پردوں نے قیامت ڈھائی۔ پرندوں کو کیا خبر کہ آگے شیشے کی دیوار ہے۔ تیزی سے اڑتے اڑتے آتے ہیں اور شیشے سے ٹکرا کر پٹخی کھاتے ہیں اور ڈھیر ہو جاتے ہیں۔

آج ہی ہم نے ایک اخباری رپورٹ میں پڑھا ہے کہ ایسے شہروں میں سب سے ظالم شہر ٹورنٹو ہے۔ یہاں فلک بوس عمارتوں کی بلندیوں میں کچھ زیادہ ہی شیشے نصب ہیں۔ یوں دوسرے شہر بھی کچھ کم ستم ایجاد نہیں ہیں۔ مگر ٹورنٹو سب پر بازی لے گیا۔ ایک بلند و بالا عمارت یہاں ایسی ہے کہ اس کے ارد گرد بہت گھنے پیڑ کھڑے ہیں۔ ان سب پیڑوں کا عکس اس عمارت پر چڑھے شیشوں پر پڑتا ہے۔ شمال کے ٹھنڈے یخ علاقوں سے سخت موسم میں جو پرندے ہجرت کر کے ادھر آتے ہیں ان کے رستے میں یہ عمارت آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آگے گھنے درخت ہیں۔ وہ ان کی طرف لپکتے ہیں اور شیشے کے پردوں سے ٹکرا کر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔


شہر میں آباد پرندے تو مار کھا کر چوکنے ہو گئے ہیں۔ وہ یہاں سے کترا کر نکل جاتے ہیں۔ مگر پردیسی چڑیاں' اپنی بے خبری کی بنا پر دھوکا کھاتی ہیں۔ سمجھتی ہیں کہ ہم درختوں کے جھنڈ میں جا کر شاخوں پر مزے سے چہچہائیں گی۔ یہ بھولی چڑیاں گانا چہچہانا جانتی ہیں۔ ترقی یافتہ شہروں کے بھید بھائو وہ کیا جانیں۔ شیشہ چڑھی فلک بوس عمارت سے جب ٹکراتی ہیں تو سیدھی موت کے منہ میں جاتی ہیں۔ وہ تڑپ کر نیچے فٹ پاتھ پر گرتی ہیں۔ گرتے ہی دم دیدیتی ہیں۔

کچھ خدا کے بندے پرندوں کے ہمدرد مردہ چڑیوں کو تھیلے میں بھر لیتے ہیں۔ جن میں ابھی جان ہوتی ہے انھیں اسپتال لے جاتے ہیں۔ انھوں نے حساب لگا کر یہ بتایا ہے کہ صرف ایک شہر ٹورنٹو میں کم از کم ایک لاکھ اور کبھی کبھی بڑھتے بڑھتے دس لاکھ چڑیاں سال میں ان عمارتوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ پرندوں کے ہمدردوں نے جو ایک ادارہ بنا رکھا ہے اس کا کام یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر گرنے والے پرندوں کو جلدی جلدی سمیٹتے ہیں تا کہ جو پرندے ادھ موئے ہیں وہ پیدل چلنے والی بھیڑ کے قدموں تلے آ کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ اسپتال میں علاج معالجہ سے ان کی جان بچ سکتی ہے۔ مغرب کے بڑے سوداگر اپنے کاروبار کی دھن میں پرندوں کو بری طرح روند رہے ہیں۔ مگر ان سوداگرں سے ہٹ کر ایسے درد مند لوگ بھی ہیں جو اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی جان بچ جائے۔

ادھر ہم پاکستان میں اپنے پرندوں کی خیر مانگتے ہیں۔ یہاں شیشہ جڑی عمارتیں تو کم کم ہیں۔ مگر پرندوں کے بیری تو یہاں بھی بہت ہیں۔ جو لوگ یہاں جنگلوں کو اجاڑ رہے ہیں اور درختوں پر اندھا دھند آرے اور کلہاڑیاں چلا رہے ہیں وہ بالواسطہ پرندوں کی موت کا سامان کر رہے ہیں۔

اور جو محکمے مشرق وسطیٰ سے آنے والے شکاریوں کو ذوق و شوق سے شکار کے لائسنس جاری کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دشمن پرندوں کے کون ہوں گے۔ مگر پرندوں کے ہمدرد کہتے ہیں کہ جو لوگ پرندوں کو پکڑ کر پنجروں میں بند کر کے اپنی تفریح کا سامان کرتے ہیں وہ بھی تو پرندوں کے بہت بڑے دشمن ہیں۔ ان پرندوں کے حق میں آواز سب سے بڑھ کر ایک شاعر نے اٹھائی تھی۔ یاد کیجیے علامہ اقبال کی نظم 'پرندے کی فریاد ' ؎

اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سنائوں
ڈر ہے یہیں قفس میں' میں غم سے مر نہ جائوں
آزاد مجھ کو کر دے و قید کرنے والے
میں بے زبان ہوں قیدی' تو چھوڑ کر دعا لے

اور ہم نے ایسے درد مند لوگ بھی دیکھے ہیں جو طوطوں سے بھرے پنجرے خریدتے ہیں۔ پھر کھلی فضا میں ان پنجروں کی کھڑکیاں کھول کر طوطوں کو اڑنے کا موقع فراہم کرتے ہیں مگر ایک غریب طوطا پرست ہم سے ملا اور فریاد کی کہ میں غریب آدمی طوطوں کے کتنے پنجرے خرید سکتا ہوں۔ شہر میں پنجروں میں بند طوطے بہت ہیں اور میرے پاس پیسے بہت کم ہیں۔
Load Next Story