بھارتی رویے میں تبدیلی معنی خیز ہے
جب بھی مذاکرات کی بات چلتی ہے تو بھارت میں کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے جو سارے عمل کو سبوتاژ کر دیتا ہے
بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئر بیس میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے جے پور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ممبئی حملوں کے خلاف بھی کوئی ایکشن نہیں لیا' اب پٹھانکوٹ حملے کے بعد ہمارا صبر جواب دے گیا ہے،حملے کے نتائج ایک سال کے اندر ساری دنیا دیکھے گی۔ بھارتی وزیر دفاع نے بڑھک مارتے ہوئے کہا کہ اب کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے' بھارت کی برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔
پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد بھارت نے الزام لگایا تھا کہ اس واقعہ میں کالعدم تنظیم جیش محمد شامل ہے اور اس نے اس حوالے سے چند شواہد بھی پاکستان کو فراہم کیے تھے جس کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں مثبت پیش رفت کرتے ہوئے پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کی تحقیقات کے لیے بھارت سے ہر ممکن تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے اور کسی دہشت گرد کو پاکستان کی سرزمین دنیا میں کسی بھی جگہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ جس کے بعد کالعدم جیش محمد کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں شروع کرتے ہوئے اس کے متعدد ارکان کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی۔
پاکستان کی ان کارروائیوں کی نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ بھارت نے بھی تائید کی یہاں تک کہ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جیش محمد کے خلاف کارروائی کو پہلا اہم اور مثبت قدم مانتا ہے'دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستانی کارروائیاں درست سمت میں جاری ہیں اور وہ تحقیقات کے لیے آنے والی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو خوش آمدید کہے گا اور اگر پاکستان نے مزید ثبوت مانگے تو تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 15 جنوری کو خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات ہونے تھے جو دونوں ممالک کی باہمی رضامندی سے ملتوی کر دیئے گئے۔
پاکستان کے بارے میں بھارتی رویے میں مثبت تبدیلی دیکھ کر تمام حلقوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور یہ امید کی جانے لگی کہ دونوں ممالک میں مذاکراتی عمل جلد شروع ہونے سے نفرت اور اختلافات کے بادل چھٹ جائیں گے۔ پاکستان نے پٹھانکوٹ حملے کے بعد بھارت سے بھرپور تعاون کیا یہاں تک کہ اس کے فراہم کردہ شواہد کی روشنی میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے خلاف کارروائیاں بھی کیں اور بھارت کو بھرپور یقین دلایا کہ اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا مگر اب بھارتی رویے میں اچانک تبدیلی نے سب کو ایک بار پھر حیران کر دیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع نے نہ صرف پاکستانی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئر بیس میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا بلکہ پاکستان کو کھلی دھمکیاں دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت کی برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے اور اب وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا۔
بھارت کا اچانک پینترا بدلنا معنی خیز ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی رویے میں تحقیقات میں عدم تعاون کے حوالے سے تبدیلی قطعی حیران کن نہیں فہمیدہ حلقے اس کی پہلے ہی سے توقع کر رہے تھے کیوں کہ ایسے سوالات اٹھائے جا رہے تھے کہ آخر دہشت گرد پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملہ کرنے میں کامیاب کیسے ہوگئے اور ابھی دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری تھیں کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس کا الزام بھی لگا دیا اور ثبوت بھی فراہم کردیے' اس ساری صورت حال کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ پٹھانکوٹ ایئر بیس حملے میں بھارتی اداروں کے اپنے افراد بھی ملوث تھے اور یہ ساری منصوبہ بندی انھی کی کارستانی تھی کیوں کہ بعض حلقے پاک بھارت دوستانہ تعلقات کے قطعی حامی نہیں اور وہ کوشاں رہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان مذاکراتی عمل شروع نہ ہونے پائے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی مذاکرات کی بات چلتی ہے تو بھارت میں کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے جو سارے عمل کو سبوتاژ کر دیتا ہے۔ بھارت نے پہلے بھی ممبئی حملوں کی تحقیقات میں قطعی تعاون نہیں کیا تھا اور اب بھی وہ اس خدشے کے پیش نظر پاکستانی ٹیم کو تحقیقات کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے کہ جب تحقیقات شروع ہوں گی تو اصل حقائق سامنے آ جائیں گے اور وہ راز طشت ازبام ہو جائیں گے جن کی بھارت پردہ داری چاہتا ہے اس طرح پاکستان کے خلاف اس کی پراپیگنڈا مہم دم توڑ دے گی۔
پاکستان تو خطے میں قیام امن کے لیے ہر ممکن اقدامات اور دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کر رہا ہے لیکن بھارت کا غیر یقینی رویہ بہتر تعلقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹ بن رہا ہے۔ ایک دن وہ دوستانہ تعلقات کا عندیہ دیتا ہے تو دوسرے دن الزام تراشی اور ہرزہ سرائی شروع کر دیتا ہے۔ عالمی قوتوں کو بھی بھارت کے اس رویے کا نوٹس لیتے ہوئے اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ پٹھانکوٹ ایئر بیس حملے پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرنے کے بجائے اس حملے کی مشترکہ تحقیقات میں تعاون کرے بلکہ عالمی سطح پر تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
اگر بھارت عدم تعاون کا یہی رویہ اپنائے رکھتا ہے تو اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور پٹھانکوٹ ایئر بیس حملہ بھی بھارتی ایجنسیوں کی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے جس طرح ممبئی حملے کے بارے میں ایسی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ اس کی ساری منصوبہ بندی بھارتی ایجنسیوں ہی نے کی تھی۔
پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد بھارت نے الزام لگایا تھا کہ اس واقعہ میں کالعدم تنظیم جیش محمد شامل ہے اور اس نے اس حوالے سے چند شواہد بھی پاکستان کو فراہم کیے تھے جس کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں مثبت پیش رفت کرتے ہوئے پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کی تحقیقات کے لیے بھارت سے ہر ممکن تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے اور کسی دہشت گرد کو پاکستان کی سرزمین دنیا میں کسی بھی جگہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ جس کے بعد کالعدم جیش محمد کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں شروع کرتے ہوئے اس کے متعدد ارکان کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی۔
پاکستان کی ان کارروائیوں کی نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ بھارت نے بھی تائید کی یہاں تک کہ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جیش محمد کے خلاف کارروائی کو پہلا اہم اور مثبت قدم مانتا ہے'دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستانی کارروائیاں درست سمت میں جاری ہیں اور وہ تحقیقات کے لیے آنے والی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو خوش آمدید کہے گا اور اگر پاکستان نے مزید ثبوت مانگے تو تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 15 جنوری کو خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات ہونے تھے جو دونوں ممالک کی باہمی رضامندی سے ملتوی کر دیئے گئے۔
پاکستان کے بارے میں بھارتی رویے میں مثبت تبدیلی دیکھ کر تمام حلقوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور یہ امید کی جانے لگی کہ دونوں ممالک میں مذاکراتی عمل جلد شروع ہونے سے نفرت اور اختلافات کے بادل چھٹ جائیں گے۔ پاکستان نے پٹھانکوٹ حملے کے بعد بھارت سے بھرپور تعاون کیا یہاں تک کہ اس کے فراہم کردہ شواہد کی روشنی میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے خلاف کارروائیاں بھی کیں اور بھارت کو بھرپور یقین دلایا کہ اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا مگر اب بھارتی رویے میں اچانک تبدیلی نے سب کو ایک بار پھر حیران کر دیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع نے نہ صرف پاکستانی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئر بیس میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا بلکہ پاکستان کو کھلی دھمکیاں دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت کی برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے اور اب وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا۔
بھارت کا اچانک پینترا بدلنا معنی خیز ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی رویے میں تحقیقات میں عدم تعاون کے حوالے سے تبدیلی قطعی حیران کن نہیں فہمیدہ حلقے اس کی پہلے ہی سے توقع کر رہے تھے کیوں کہ ایسے سوالات اٹھائے جا رہے تھے کہ آخر دہشت گرد پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملہ کرنے میں کامیاب کیسے ہوگئے اور ابھی دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری تھیں کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس کا الزام بھی لگا دیا اور ثبوت بھی فراہم کردیے' اس ساری صورت حال کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ پٹھانکوٹ ایئر بیس حملے میں بھارتی اداروں کے اپنے افراد بھی ملوث تھے اور یہ ساری منصوبہ بندی انھی کی کارستانی تھی کیوں کہ بعض حلقے پاک بھارت دوستانہ تعلقات کے قطعی حامی نہیں اور وہ کوشاں رہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان مذاکراتی عمل شروع نہ ہونے پائے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی مذاکرات کی بات چلتی ہے تو بھارت میں کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے جو سارے عمل کو سبوتاژ کر دیتا ہے۔ بھارت نے پہلے بھی ممبئی حملوں کی تحقیقات میں قطعی تعاون نہیں کیا تھا اور اب بھی وہ اس خدشے کے پیش نظر پاکستانی ٹیم کو تحقیقات کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے کہ جب تحقیقات شروع ہوں گی تو اصل حقائق سامنے آ جائیں گے اور وہ راز طشت ازبام ہو جائیں گے جن کی بھارت پردہ داری چاہتا ہے اس طرح پاکستان کے خلاف اس کی پراپیگنڈا مہم دم توڑ دے گی۔
پاکستان تو خطے میں قیام امن کے لیے ہر ممکن اقدامات اور دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کر رہا ہے لیکن بھارت کا غیر یقینی رویہ بہتر تعلقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹ بن رہا ہے۔ ایک دن وہ دوستانہ تعلقات کا عندیہ دیتا ہے تو دوسرے دن الزام تراشی اور ہرزہ سرائی شروع کر دیتا ہے۔ عالمی قوتوں کو بھی بھارت کے اس رویے کا نوٹس لیتے ہوئے اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ پٹھانکوٹ ایئر بیس حملے پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرنے کے بجائے اس حملے کی مشترکہ تحقیقات میں تعاون کرے بلکہ عالمی سطح پر تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
اگر بھارت عدم تعاون کا یہی رویہ اپنائے رکھتا ہے تو اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور پٹھانکوٹ ایئر بیس حملہ بھی بھارتی ایجنسیوں کی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے جس طرح ممبئی حملے کے بارے میں ایسی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ اس کی ساری منصوبہ بندی بھارتی ایجنسیوں ہی نے کی تھی۔