اپنی نبیڑتو
اس وقت سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو کھنچاؤ اور تناؤکی صورتحال ہے
مشیر برائے امورخارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ''سعودی عرب نے فوج مانگی ہے نہ بھیجیں گے'' ان کے بیان پر یقین نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، لیکن شکوک وشبہات اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ 68 برسوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وطن عزیز پر مسلط مقتدر اشرافیہ کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ کہتی کچھ ہے اور کرتی کچھ ہے، لیکن وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کا یہ فیصلہ صائب اور بروقت ہے کہ انھوں نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔
اس وقت سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو کھنچاؤ اور تناؤکی صورتحال ہے، وہ کوئی سادہ یا عام سا معاملہ نہیں ہے، بلکہ انتہائی پیچیدہ کھیل ہے، جس کی جڑیں تاریخ میںخاصی گہری پیوست ہیں، اگر بغور دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف سعودی عرب اور ایران قضیہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورا مشرق وسطیٰ اس دھماکے خیز صورتحال کی لپیٹ میں ہے۔ اس لیے ان واقعات کو سرسری طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ ماضی قریب میں رونما ہونے والے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اس خطے کی حالیہ تاریخ کے ڈانڈے پہلی جنگ عظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس دوران تین اہم واقعات قابل توجہ ہیں۔ اول، سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور خاتمہ۔ ویسے تو سلطنت عثمانیہ 19 ویں صدی کی آخری دہائیوں سے نظم حکمرانی میں ابتری اور انتشار کے باعث تیزی کے ساتھ روبہ زوال تھی، لیکن جرمنی کا ساتھ اتحاد سلطنت عثمانیہ کو مہنگا پڑا، کیوں کہ اس جنگ نے اس کے خاتمے پر مہر ثبت کر دی۔ دوئم، 19 ویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ زیر زمین ایسا سیال مادہ موجود ہے، جو کوئلہ سے زیادہ پراثر اور سستا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ذخائر خلیج سے شمال مغربی افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا برطانیہ نے اس خطے کی تشکیل نو کا فیصلہ کر لیا۔
سوئم، مشرق وسطیٰ پر اپنے تسلط کو برقرار کھنے کے لیے برطانوی حکومت نے انتہا پسند یہودیوں (جو صیہونی کہلاتے ہیں) کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ کر لیا۔ 2 نومبر 1917ء کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے یہودی رہنما بیرن رولتھ چائلد کو ایک خط کے ذریعے یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے میں بھرپور مدد کرے گا، بشرطیکہ یہودی اگلے 20 برسوں کے دوران مطلوبہ علاقے میں اپنی آبادی کو خاطر خواہ حد تک بڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بعد میں اس معاہدے کو بالفور معاہدے کا نام دیا گیا۔
جب سلطنت عثمانیہ شکست و ریخت سے دوچار ہوئی تو اس کے زیر تسلط ہر علاقے میں سرکشی اور بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ شریف حسین بن علی نے جو حجاز میں عثمانیہ سلطنت کے گورنر تھے، برطانیہ کی شہ پاتے ہی 1917ء میں بغاوت کر دی اور اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ وہ 1917ء سے1924ء تک حجاز مقدس کے بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔ اسی اثناء میں یمن کی سرحد کے قریب نجد کے علاقے سے آل سعود ایک قوت بن کر ابھرے اور تیزی کے ساتھ علاقے فتح کرتے ہوئے حجاز مقدس تک جا پہنچے۔ شریف حسین نے برطانیہ سے مدد چاہی تو اس نے ایک نیا ڈراما رچایا۔
برطانیہ نے جو تیل کی متوقع دریافت کے تناظر میں خلیجی علاقے پر اپنی مضبوط گرفت قائم رکھنے کا خواہش مند تھا، ایک طرف آل سعود کے ساتھ مکمل تعاون کیا، تو دوسری طرف حسین بن علی (شریف مکہ) کے دونوں بیٹوں کے لیے نئی مملکتیں تخلیق کر کے دے دیں۔ پہلی ریاست سلطنت عثمانیہ کی تین امارتوں (صوبوں) بغداد، بصرہ اور موصل کو یکجا کر کے قائم کی گئی تھی۔ جسے عراق کا نام دے کر شریف کے بڑے بیٹے عبداللہ کو اس کا بادشاہ بنا دیا۔ اسی طرح فلسطین اور شام کے کچھ علاقوں کو جو دریائے اردن کے کنارے واقع تھے، ایک نئی مملکت تشکیل دے کر امیر عبداللہ الحسین الثانی کو اس کا بادشاہ بنا دیا، جو شریف مکہ کا چھوٹا بیٹا تھا، لیکن 1946ء تک انتظامی اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے۔
دوسری طرف فلسطین جس پر برطانیہ1917ء میں براہ راست قابض ہو گیا تھا، تقسیم کر کے1948ء میں بالفور معاہدے کے تحت آزاد اسرائیلی ریاست قائم کر دی۔ اس کے علاوہ خلیج کے ساحل پر آباد مختلف قبائل کو اس طرح آزادی دیدی کہ پورے خلیج کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہو گئیں۔ یہ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا رہیں، جس کی وجہ سے برطانوی ڈیزائینز میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آ سکی۔ ان میں سے بعض ریاستوں کی آبادی پاکستان کے کئی قصبوں سے بھی کم ہے، لیکن یہ اپنی تیل کی دولت کے بل بوتے پر نہ صرف قائم ہیں، بلکہ مغربی عزائم کی اس خطے میں تکمیل کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔
تاریخ میں حجاز مقدس اپنی مخصوص حیثیت کے باعث محترم و مکرم ہونے کے ساتھ ہمیشہ ایک انتظامی یونٹ کی شکل میں اپنا وجود رکھتا تھا۔ 1924ء میں آل سعود کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی سلطنت کا حصہ بنا، جو جنوب اور مشرق میں یمن کے کچھ حصوں اور شمال میں بابل و نینوا کے بعض علاقوںتک پھیلی ہوئی ہے۔ 1979ء تک سعودی حکمرانوں اور شہنشاہ ایران کے تعلقات مثالی تھے، حالانکہ عقیدے اور مسلک کا فرق صدیوں پر محیط تھا، لیکن چونکہ دونوں ہی پشتینی بادشاہتیں تھیں اور دونوںکو امریکا کی آشیرباد تھی، اس لیے ان کے درمیان عقائد و مسلک کی کوئی دیوارکھڑی نہیں ہو سکی۔ حالانکہ دونوں ممالک مخصوص مسالک کے فروغ کے لیے پوری دنیا میں مختلف تنظیموں کی مالی معاونت کرتے رہے تھے۔
ان دونوں ریاستوں کے درمیان اختلافات اس وقت نمود ہوئے، جب ایران میں انقلاب بپا ہوا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی رہنماؤں کی جماعت اقتدار میں آئی۔ انقلاب ایران نے خلیج کی پشتینی بادشاہتوں اور شخصی آمریتوں کو لرزہ براندام کر دیا۔ چنانچہ خلیج میں سیاسی تبدیلیوں کا راستہ روکنے کے لیے ماضی کے نظریاتی اور مسلکی اختلافات ایک نئے انداز میں ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ دوسری جانب سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے اس خطے میں اپنے تسلط کو ایک نئی شکل دینے کے لیے نیو ورلڈ آرڈر(New World Order) کا تصور پیش کیا۔
اس تصور کا مقصدخلیج کے علاقے میں اسرائیل کو درپیش چیلنجوں کا خاتمہ تھا۔ پہلے عراق کو ایران پر حملہ کے لیے اکساکر8 سالہ جنگ کرائی گئی، جو ستمبر 1980ء میں شروع ہو کر اگست1988 میں اختتام پذیر ہوئی۔ جس نے اس خطے کی سالمیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس دوران عراق نے امریکی امداد سے اپنی عسکری صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کر لیا تھا۔ پھر عراق کے کویت پر حملے کو بہانہ بنا کر 1990ء میں پہلی عراق جنگ ہوئی۔ اس کے بعد 2003ء میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر امریکا کی اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کر دیا۔ جن کی موجودگی بعد میں ثابت تو نہ ہو سکی، مگر عراق تباہ ہو گیا۔
اگر بنظر غائر مشرق وسطیٰ کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو اس خطے میں تین دہائیوں قبل ملوکیت کی بقاء اور عوامی حق حکمرانی کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا ہے، مگر چونکہ پورے مشرق وسطیٰ میں سول سوسائٹی انتہائی کمزور ہے، اس لیے پشتینی بادشاہتوں اور شخصی آمریتوں کے خلاف عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر قائم ہونے والی متشدد تنظیمیں قبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ جیسا کہ ایران میں ہوا، جہاں شہنشاہیت کے خلاف طاقتور جنگ مذہبی طبقے نے لڑی اور کمیونسٹ پارٹی (تودہ پارٹی) بھی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوئی۔
لہٰذا مشرق وسطیٰ میں نظام کی تبدیلی کے لیے جو عوامی ابال آ رہا ہے، اس میں نمایاں کردارجمہوری قوتوں کے بجائے مذہبی عناصر کا ہے، جو پشتینی بادشاہتوں کو زیادہ پوٹینشیل کے ساتھ چیلنج کر رہے ہیں۔ مگر ان عناصر کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ نے مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ اختیارکر لیا۔ اس کشمکش کے نتیجے میں مسلم دنیا کئی پرتوں میں تقسیم ہوتی چلی جا رہی ہے، جس کے مظاہر آج زیادہ واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔امریکی منصوبہ ساز، جو ہمیشہ تزویراتی معاملات میں غلطیوں پر غلطیاں کرتے ہیں، انھوں نے اس خطے میں ابھرنے والی عوامی تحاریک کے بارے میں بھی غلط اندازے لگائے۔
انھوں نے اس خطے کی سماجی ساخت، اجتماعی نفسیات اور سول سوسائٹی کے حجم اور اس کی فعالیت کا مطالعہ کیے بغیر ابھرنے والی تحاریک کی حمایت شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں بعض ممالک میں مذہبی شدت پسند عناصر کو ابھرنے کا موقع ملا۔ شام میں جنم لینے والے تضادات کے ردعمل کے طور پر داعش (دولت اسلامی عراق و شام) نامی شدت پسندتنظیم وجود میں آ گئی۔ جس کے بعض علاقوں پر قبضہ نے امریکا سمیت پوری مغربی دنیا کو پریشان کر دیا۔ روسی صدر پوٹین کی تنبیہہ کے بعد امریکا بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی خواہش سے خاصی حد تک دست کش ہو گیا۔
جو سعودی عرب کی ناراضگی اور تحفظات کا باعث ہے۔دوسری طرف جوہری پروگرام پرجب امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے، تو یہ تبدیلی بھی بعض ممالک کے لیے تشویش کا باعث بنی۔ خاص طور شام اور یمن کے معاملات میں ایرانی رویے نے خلیجی ممالک کی قیادتوں کو اس کے خلاف مجتمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یوں خطے پر بالادستی کی جنگ نے مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اس وقت امریکا سمیت مغربی دنیا کے سامنے کئی سوالات ہیں۔ اول، آیا ان ممالک میں جمہوری جدوجہد کسی بھی قیمت پر جاری رہنی چاہیے، خواہ اس کے نتائج کچھ ہی برآمد کیوںنہ ہوں۔
دوئم، آیا قدرے سیکیولر بادشاہت یا آمریت کا ساتھ دیا جائے یا جمہوریت کی بحالی کے نام پر مذہبی شدت پسند عناصر کی بالادستی قبول کر لی جائے۔ لہٰذا امریکا اب یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ داعش جیسی تنظیموں کے مقابلے میں اس خطے میں موجود سیکیولر حکومتوں کا برقرار رہنا ضروری ہے، لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ معاملات اس کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں اور مشرق وسطیٰ ایک نئے عدم استحکام کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کھیل میں امریکی رویے کی سرد مہری کا سبب یہ بھی ہے کہ اب اسے مشرق وسطیٰ کے تیل کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔
اب جہاں تک پاکستان کے کردارکا تعلق ہے، تو پاکستان کے منصوبہ ساز اس دانشمندی سے عاری ہیں، جو ایسے نازک مواقعے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششیںہوں یا چین کے ساتھ تجارتی اور تزویراتی تعلقات کی حکمت عملی ہو یا بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کا معاملہ ہو پاکستان نے دانشمندانہ روش اختیار نہیں کی۔ مگر ایران اور سعودی عرب کے معاملے جس انداز میں سیاسی اور عسکری قیادت فیصلے کر رہی ہے، ان سے یہ امید ابندھی ہے کہ پاکستان ماضی کی فکری نرگسیت سے رفتہ رفتہ آزاد ہو رہا ہے۔ لہٰذا حکمرانوں کو یہی مشورہ ہے کہ وہ کسی ایک جانب ہونے کے بجائے اپنے معاملات نبیڑنے پر توجہ دیں۔ اسی میں وطن عزیزی کی بہتری پوشیدہ ہے۔
اس وقت سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو کھنچاؤ اور تناؤکی صورتحال ہے، وہ کوئی سادہ یا عام سا معاملہ نہیں ہے، بلکہ انتہائی پیچیدہ کھیل ہے، جس کی جڑیں تاریخ میںخاصی گہری پیوست ہیں، اگر بغور دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف سعودی عرب اور ایران قضیہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورا مشرق وسطیٰ اس دھماکے خیز صورتحال کی لپیٹ میں ہے۔ اس لیے ان واقعات کو سرسری طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ ماضی قریب میں رونما ہونے والے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اس خطے کی حالیہ تاریخ کے ڈانڈے پہلی جنگ عظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس دوران تین اہم واقعات قابل توجہ ہیں۔ اول، سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور خاتمہ۔ ویسے تو سلطنت عثمانیہ 19 ویں صدی کی آخری دہائیوں سے نظم حکمرانی میں ابتری اور انتشار کے باعث تیزی کے ساتھ روبہ زوال تھی، لیکن جرمنی کا ساتھ اتحاد سلطنت عثمانیہ کو مہنگا پڑا، کیوں کہ اس جنگ نے اس کے خاتمے پر مہر ثبت کر دی۔ دوئم، 19 ویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ زیر زمین ایسا سیال مادہ موجود ہے، جو کوئلہ سے زیادہ پراثر اور سستا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ذخائر خلیج سے شمال مغربی افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا برطانیہ نے اس خطے کی تشکیل نو کا فیصلہ کر لیا۔
سوئم، مشرق وسطیٰ پر اپنے تسلط کو برقرار کھنے کے لیے برطانوی حکومت نے انتہا پسند یہودیوں (جو صیہونی کہلاتے ہیں) کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ کر لیا۔ 2 نومبر 1917ء کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے یہودی رہنما بیرن رولتھ چائلد کو ایک خط کے ذریعے یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے میں بھرپور مدد کرے گا، بشرطیکہ یہودی اگلے 20 برسوں کے دوران مطلوبہ علاقے میں اپنی آبادی کو خاطر خواہ حد تک بڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بعد میں اس معاہدے کو بالفور معاہدے کا نام دیا گیا۔
جب سلطنت عثمانیہ شکست و ریخت سے دوچار ہوئی تو اس کے زیر تسلط ہر علاقے میں سرکشی اور بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ شریف حسین بن علی نے جو حجاز میں عثمانیہ سلطنت کے گورنر تھے، برطانیہ کی شہ پاتے ہی 1917ء میں بغاوت کر دی اور اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ وہ 1917ء سے1924ء تک حجاز مقدس کے بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔ اسی اثناء میں یمن کی سرحد کے قریب نجد کے علاقے سے آل سعود ایک قوت بن کر ابھرے اور تیزی کے ساتھ علاقے فتح کرتے ہوئے حجاز مقدس تک جا پہنچے۔ شریف حسین نے برطانیہ سے مدد چاہی تو اس نے ایک نیا ڈراما رچایا۔
برطانیہ نے جو تیل کی متوقع دریافت کے تناظر میں خلیجی علاقے پر اپنی مضبوط گرفت قائم رکھنے کا خواہش مند تھا، ایک طرف آل سعود کے ساتھ مکمل تعاون کیا، تو دوسری طرف حسین بن علی (شریف مکہ) کے دونوں بیٹوں کے لیے نئی مملکتیں تخلیق کر کے دے دیں۔ پہلی ریاست سلطنت عثمانیہ کی تین امارتوں (صوبوں) بغداد، بصرہ اور موصل کو یکجا کر کے قائم کی گئی تھی۔ جسے عراق کا نام دے کر شریف کے بڑے بیٹے عبداللہ کو اس کا بادشاہ بنا دیا۔ اسی طرح فلسطین اور شام کے کچھ علاقوں کو جو دریائے اردن کے کنارے واقع تھے، ایک نئی مملکت تشکیل دے کر امیر عبداللہ الحسین الثانی کو اس کا بادشاہ بنا دیا، جو شریف مکہ کا چھوٹا بیٹا تھا، لیکن 1946ء تک انتظامی اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے۔
دوسری طرف فلسطین جس پر برطانیہ1917ء میں براہ راست قابض ہو گیا تھا، تقسیم کر کے1948ء میں بالفور معاہدے کے تحت آزاد اسرائیلی ریاست قائم کر دی۔ اس کے علاوہ خلیج کے ساحل پر آباد مختلف قبائل کو اس طرح آزادی دیدی کہ پورے خلیج کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہو گئیں۔ یہ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا رہیں، جس کی وجہ سے برطانوی ڈیزائینز میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آ سکی۔ ان میں سے بعض ریاستوں کی آبادی پاکستان کے کئی قصبوں سے بھی کم ہے، لیکن یہ اپنی تیل کی دولت کے بل بوتے پر نہ صرف قائم ہیں، بلکہ مغربی عزائم کی اس خطے میں تکمیل کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔
تاریخ میں حجاز مقدس اپنی مخصوص حیثیت کے باعث محترم و مکرم ہونے کے ساتھ ہمیشہ ایک انتظامی یونٹ کی شکل میں اپنا وجود رکھتا تھا۔ 1924ء میں آل سعود کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی سلطنت کا حصہ بنا، جو جنوب اور مشرق میں یمن کے کچھ حصوں اور شمال میں بابل و نینوا کے بعض علاقوںتک پھیلی ہوئی ہے۔ 1979ء تک سعودی حکمرانوں اور شہنشاہ ایران کے تعلقات مثالی تھے، حالانکہ عقیدے اور مسلک کا فرق صدیوں پر محیط تھا، لیکن چونکہ دونوں ہی پشتینی بادشاہتیں تھیں اور دونوںکو امریکا کی آشیرباد تھی، اس لیے ان کے درمیان عقائد و مسلک کی کوئی دیوارکھڑی نہیں ہو سکی۔ حالانکہ دونوں ممالک مخصوص مسالک کے فروغ کے لیے پوری دنیا میں مختلف تنظیموں کی مالی معاونت کرتے رہے تھے۔
ان دونوں ریاستوں کے درمیان اختلافات اس وقت نمود ہوئے، جب ایران میں انقلاب بپا ہوا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی رہنماؤں کی جماعت اقتدار میں آئی۔ انقلاب ایران نے خلیج کی پشتینی بادشاہتوں اور شخصی آمریتوں کو لرزہ براندام کر دیا۔ چنانچہ خلیج میں سیاسی تبدیلیوں کا راستہ روکنے کے لیے ماضی کے نظریاتی اور مسلکی اختلافات ایک نئے انداز میں ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ دوسری جانب سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے اس خطے میں اپنے تسلط کو ایک نئی شکل دینے کے لیے نیو ورلڈ آرڈر(New World Order) کا تصور پیش کیا۔
اس تصور کا مقصدخلیج کے علاقے میں اسرائیل کو درپیش چیلنجوں کا خاتمہ تھا۔ پہلے عراق کو ایران پر حملہ کے لیے اکساکر8 سالہ جنگ کرائی گئی، جو ستمبر 1980ء میں شروع ہو کر اگست1988 میں اختتام پذیر ہوئی۔ جس نے اس خطے کی سالمیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس دوران عراق نے امریکی امداد سے اپنی عسکری صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کر لیا تھا۔ پھر عراق کے کویت پر حملے کو بہانہ بنا کر 1990ء میں پہلی عراق جنگ ہوئی۔ اس کے بعد 2003ء میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر امریکا کی اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کر دیا۔ جن کی موجودگی بعد میں ثابت تو نہ ہو سکی، مگر عراق تباہ ہو گیا۔
اگر بنظر غائر مشرق وسطیٰ کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو اس خطے میں تین دہائیوں قبل ملوکیت کی بقاء اور عوامی حق حکمرانی کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا ہے، مگر چونکہ پورے مشرق وسطیٰ میں سول سوسائٹی انتہائی کمزور ہے، اس لیے پشتینی بادشاہتوں اور شخصی آمریتوں کے خلاف عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر قائم ہونے والی متشدد تنظیمیں قبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ جیسا کہ ایران میں ہوا، جہاں شہنشاہیت کے خلاف طاقتور جنگ مذہبی طبقے نے لڑی اور کمیونسٹ پارٹی (تودہ پارٹی) بھی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوئی۔
لہٰذا مشرق وسطیٰ میں نظام کی تبدیلی کے لیے جو عوامی ابال آ رہا ہے، اس میں نمایاں کردارجمہوری قوتوں کے بجائے مذہبی عناصر کا ہے، جو پشتینی بادشاہتوں کو زیادہ پوٹینشیل کے ساتھ چیلنج کر رہے ہیں۔ مگر ان عناصر کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ نے مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ اختیارکر لیا۔ اس کشمکش کے نتیجے میں مسلم دنیا کئی پرتوں میں تقسیم ہوتی چلی جا رہی ہے، جس کے مظاہر آج زیادہ واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔امریکی منصوبہ ساز، جو ہمیشہ تزویراتی معاملات میں غلطیوں پر غلطیاں کرتے ہیں، انھوں نے اس خطے میں ابھرنے والی عوامی تحاریک کے بارے میں بھی غلط اندازے لگائے۔
انھوں نے اس خطے کی سماجی ساخت، اجتماعی نفسیات اور سول سوسائٹی کے حجم اور اس کی فعالیت کا مطالعہ کیے بغیر ابھرنے والی تحاریک کی حمایت شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں بعض ممالک میں مذہبی شدت پسند عناصر کو ابھرنے کا موقع ملا۔ شام میں جنم لینے والے تضادات کے ردعمل کے طور پر داعش (دولت اسلامی عراق و شام) نامی شدت پسندتنظیم وجود میں آ گئی۔ جس کے بعض علاقوں پر قبضہ نے امریکا سمیت پوری مغربی دنیا کو پریشان کر دیا۔ روسی صدر پوٹین کی تنبیہہ کے بعد امریکا بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی خواہش سے خاصی حد تک دست کش ہو گیا۔
جو سعودی عرب کی ناراضگی اور تحفظات کا باعث ہے۔دوسری طرف جوہری پروگرام پرجب امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے، تو یہ تبدیلی بھی بعض ممالک کے لیے تشویش کا باعث بنی۔ خاص طور شام اور یمن کے معاملات میں ایرانی رویے نے خلیجی ممالک کی قیادتوں کو اس کے خلاف مجتمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یوں خطے پر بالادستی کی جنگ نے مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اس وقت امریکا سمیت مغربی دنیا کے سامنے کئی سوالات ہیں۔ اول، آیا ان ممالک میں جمہوری جدوجہد کسی بھی قیمت پر جاری رہنی چاہیے، خواہ اس کے نتائج کچھ ہی برآمد کیوںنہ ہوں۔
دوئم، آیا قدرے سیکیولر بادشاہت یا آمریت کا ساتھ دیا جائے یا جمہوریت کی بحالی کے نام پر مذہبی شدت پسند عناصر کی بالادستی قبول کر لی جائے۔ لہٰذا امریکا اب یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ داعش جیسی تنظیموں کے مقابلے میں اس خطے میں موجود سیکیولر حکومتوں کا برقرار رہنا ضروری ہے، لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ معاملات اس کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں اور مشرق وسطیٰ ایک نئے عدم استحکام کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کھیل میں امریکی رویے کی سرد مہری کا سبب یہ بھی ہے کہ اب اسے مشرق وسطیٰ کے تیل کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔
اب جہاں تک پاکستان کے کردارکا تعلق ہے، تو پاکستان کے منصوبہ ساز اس دانشمندی سے عاری ہیں، جو ایسے نازک مواقعے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششیںہوں یا چین کے ساتھ تجارتی اور تزویراتی تعلقات کی حکمت عملی ہو یا بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کا معاملہ ہو پاکستان نے دانشمندانہ روش اختیار نہیں کی۔ مگر ایران اور سعودی عرب کے معاملے جس انداز میں سیاسی اور عسکری قیادت فیصلے کر رہی ہے، ان سے یہ امید ابندھی ہے کہ پاکستان ماضی کی فکری نرگسیت سے رفتہ رفتہ آزاد ہو رہا ہے۔ لہٰذا حکمرانوں کو یہی مشورہ ہے کہ وہ کسی ایک جانب ہونے کے بجائے اپنے معاملات نبیڑنے پر توجہ دیں۔ اسی میں وطن عزیزی کی بہتری پوشیدہ ہے۔