مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کے آثار
مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ 34 ملکی اتحاد میں شامل ہیں۔
مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ 34 ملکی اتحاد میں شامل ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس اتحاد کو معلومات اور اسلحہ فراہم کریں گے۔ سعودی عرب نے فوج مانگی ہے نہ ہم بھیجیں گے۔ عرب ایران تنازعہ کا پس منظر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کا تعصب بالائے طاق رکھیں۔ کیوں کہ اس میں مسلمانوں کا مفاد پوشیدہ ہے۔ ورنہ تو دوسری صورت میں ایک ہولناک تباہی اگلی کئی دہائیوں کے لیے ہماری منتظر ہے۔1948ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سے پہلے وفادار عرب ریاستوں کا قیام عمل میں لایا جا چکا تھا۔
مقصد دونوں کا ایک ہی تھا کہ خطے میں تیل کی شکل میں سامراجی مفاد کی حفاظت۔ اس حفاظت کے لیے صرف عرب بادشاہتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی 53 ویں ریاست کے طور پر اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جائے جو نہ صرف عرب بادشاہتوں پر نظر رکھے کہ وہ پٹڑی سے اترنے نہ پائیں (یاد کریں سعودی شاہ فیصل کا قتل جب انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر سامراجی غلامی سے آزادی کے لیے تیل کا ہتھیار استعمال کیا)۔ اس بڑے خطے میں ایک اور ملک بھی تھا جس کے پاس بھی تیل کے بہت بڑے ذخائر تھے۔ اس کا نام تھا ایران۔ پہلوی بادشاہت وہاں قائم تھی جو برطانیہ اور امریکا کی وفادار تھی لیکن اس بادشاہت کو بھی ایرانی حریت پسندوں سے خطرہ تھا۔
ڈاکٹر مصدق کی شکل میں وہاں ایک ایسی حکومت قائم ہوئی جس نے سامراجی مفادات پر ایرانی مفادات کو ترجیح دی نتیجہ یہ نکلا کہ اس حکومت کا بھی تختہ الٹ دیا گیا۔ اب صورت یہ تھی کہ پورے خطے میں جن جن ملکوں میں تیل کے ذخائر تھے بادشاہتیں قائم تھیں۔ یہ بادشاہتیں اگر تیل کی شکل میں سامراجی مفادات کی حفاظت کر رہی تھیں تو امریکا بھی ان بادشاہتوں کی حفاظت کی شکل میں ادا کر رہا تھا کیوں کہ ان بادشاہتوں کو اپنے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
ان بادشاہتوں کو اپنے عوام سے سخت خطرہ تھا کیوں کہ عوام ان کو امریکی ایجنٹ سمجھتے تھے۔ امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں مشرق وسطیٰ اور ایران میں ان افراد اور تحریکوں کے بارے میں خفیہ معلومات کو فراہم کرتی تھیں جو ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ نتیجے میں لاتعداد حریت پسندوں کو قتل، لاپتہ اور عقوبت خانوں میں دھکیل دیا گیا۔ اس مسلسل عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان بادشاہتوں کے زیر اقتدار عوام اپنے انسانی و سیاسی حقوق سے محروم ہوتے گئے۔
بادشاہتیں طاقتور سے طاقتور ہوتی گئیں اور عوام کمزور سے کمزور تر۔ ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک نے ایرانی حریت پسندوں پر جو پہلوی بادشاہت سے آزادی چاہتے تھے بے پناہ مظالم ڈھائے پھر شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اتنا طاقتور ہو گیا کہ اسے مشرق وسطیٰ کا تھانیدار کہا جانے لگا کیوں کہ اسے امریکا کی سرپرستی حاصل تھی۔ اسے نہ صرف عرب بادشاہتوں پر بالادستی حاصل تھی بلکہ برصغیر کے علاقے میں بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ قدیم ایرانی شہنشاہیت کسری کی ماضی کی جھلک تھی جب موجودہ پاکستان کا بڑا حصہ ایرانی سلطنت کا حصہ تھا۔
ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی بالادستی مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک طویل عرصہ قائم رہی۔ پھر وقت نے فیصلہ دیا۔ ہر عروجے را زوال۔ ایران سے امریکی مفادات کا خاتمہ ہو گیا۔ ایران میں ایک ایسی قیادت برسراقتدار آئی جو امریکا مخالف تھی۔ اس صورت حال کا فائدہ سعودی عرب کو پہنچا۔ امریکی سرپرستی میں سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی بالادستی قوت بن گیا۔ یہ بالادستی پچھلے 36 سالوں سے قائم ہے۔ اب پھر صورت حال تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ایران امریکا جوہری ڈیل نے خطے کے حالات کو پھر سے ایران کے حق میں بدل دیا ہے۔
ایران امریکا ڈیل نے نہ صرف عرب بادشاہتوں بلکہ اسرائیل کی بھی اہمیت کم کر دی ہے۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ ''عرب بہار'' جس نے مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کی چولیں ہلا دی ہیں۔ ب بہت دیر مشرق وسطی میں بادشاہتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اپنے عوام کو سیاسی حقوق دیں اور ان کو شریک اقتدار کریں۔ اسی میں ان کی بقا ہے۔ اگر نسل در نسل بادشاہت کو قائم رکھنا ہے تو برطانیہ کی طرح آئینی بادشاہت اپنائیں۔ یہ عرب بہار ہی تھی اور پھر داعش جنہوں نے عرب بادشاہتوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب یمن کا محاذ ہو یا موجودہ ایران عرب تنازعہ جو بہت جلد دم توڑ دے گا کیوں کہ اس کو امریکا اور مغرب کی حمایت حاصل نہیں۔ وہ نہیں چاہتے یہ بحران مزید پھیلے۔ ان کا اپنا ایک طویل ایجنڈا ہے ۔ عرب بادشاہتوں کو اصل خطرہ اندر سے ہے باہر سے نہیں اور وہ ان کے عوام ہیں جو اقتدار اعلیٰ میں اپنی شرکت چاہتے ہیں۔
القاعدہ اور داعش کی جڑیں سعودی عرب میں بڑی گہری ہیں۔ تین دن پہلے القاعدہ نے حال ہی میں القاعدہ کے چالیس انتہا پسندوں کو موت کی سزا دینے پر سعودی عرب میں حملوں کا اعلان کیا ہے۔ عرب بادشاہتیں جان لیں کہ اپنے اندر کے بحران پر اس وقت تک قابو نہیں پا سکتیں۔جب تک وہ اپنے عوام کو سیاسی حقوق نہ دیں اگر عوام مطمئن ہیں تو کوئی بیرونی قوت انھیں گمراہ نہیں کر سکتی۔ عوام ہی وہ اصل قوت ہیں جو اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔
پاک بھارت مذاکرات اب کب ہوں گے اس کا پتہ 20,19 اور 23 تا 27 جنوری کو چلے گا۔
ایران سعودی بحران کی شدت اس مہینے کے آخر اور فروری کے شروع میں کم ہو جائے گی۔
مقصد دونوں کا ایک ہی تھا کہ خطے میں تیل کی شکل میں سامراجی مفاد کی حفاظت۔ اس حفاظت کے لیے صرف عرب بادشاہتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی 53 ویں ریاست کے طور پر اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جائے جو نہ صرف عرب بادشاہتوں پر نظر رکھے کہ وہ پٹڑی سے اترنے نہ پائیں (یاد کریں سعودی شاہ فیصل کا قتل جب انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر سامراجی غلامی سے آزادی کے لیے تیل کا ہتھیار استعمال کیا)۔ اس بڑے خطے میں ایک اور ملک بھی تھا جس کے پاس بھی تیل کے بہت بڑے ذخائر تھے۔ اس کا نام تھا ایران۔ پہلوی بادشاہت وہاں قائم تھی جو برطانیہ اور امریکا کی وفادار تھی لیکن اس بادشاہت کو بھی ایرانی حریت پسندوں سے خطرہ تھا۔
ڈاکٹر مصدق کی شکل میں وہاں ایک ایسی حکومت قائم ہوئی جس نے سامراجی مفادات پر ایرانی مفادات کو ترجیح دی نتیجہ یہ نکلا کہ اس حکومت کا بھی تختہ الٹ دیا گیا۔ اب صورت یہ تھی کہ پورے خطے میں جن جن ملکوں میں تیل کے ذخائر تھے بادشاہتیں قائم تھیں۔ یہ بادشاہتیں اگر تیل کی شکل میں سامراجی مفادات کی حفاظت کر رہی تھیں تو امریکا بھی ان بادشاہتوں کی حفاظت کی شکل میں ادا کر رہا تھا کیوں کہ ان بادشاہتوں کو اپنے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
ان بادشاہتوں کو اپنے عوام سے سخت خطرہ تھا کیوں کہ عوام ان کو امریکی ایجنٹ سمجھتے تھے۔ امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں مشرق وسطیٰ اور ایران میں ان افراد اور تحریکوں کے بارے میں خفیہ معلومات کو فراہم کرتی تھیں جو ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ نتیجے میں لاتعداد حریت پسندوں کو قتل، لاپتہ اور عقوبت خانوں میں دھکیل دیا گیا۔ اس مسلسل عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان بادشاہتوں کے زیر اقتدار عوام اپنے انسانی و سیاسی حقوق سے محروم ہوتے گئے۔
بادشاہتیں طاقتور سے طاقتور ہوتی گئیں اور عوام کمزور سے کمزور تر۔ ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک نے ایرانی حریت پسندوں پر جو پہلوی بادشاہت سے آزادی چاہتے تھے بے پناہ مظالم ڈھائے پھر شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اتنا طاقتور ہو گیا کہ اسے مشرق وسطیٰ کا تھانیدار کہا جانے لگا کیوں کہ اسے امریکا کی سرپرستی حاصل تھی۔ اسے نہ صرف عرب بادشاہتوں پر بالادستی حاصل تھی بلکہ برصغیر کے علاقے میں بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ قدیم ایرانی شہنشاہیت کسری کی ماضی کی جھلک تھی جب موجودہ پاکستان کا بڑا حصہ ایرانی سلطنت کا حصہ تھا۔
ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی بالادستی مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک طویل عرصہ قائم رہی۔ پھر وقت نے فیصلہ دیا۔ ہر عروجے را زوال۔ ایران سے امریکی مفادات کا خاتمہ ہو گیا۔ ایران میں ایک ایسی قیادت برسراقتدار آئی جو امریکا مخالف تھی۔ اس صورت حال کا فائدہ سعودی عرب کو پہنچا۔ امریکی سرپرستی میں سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی بالادستی قوت بن گیا۔ یہ بالادستی پچھلے 36 سالوں سے قائم ہے۔ اب پھر صورت حال تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ایران امریکا جوہری ڈیل نے خطے کے حالات کو پھر سے ایران کے حق میں بدل دیا ہے۔
ایران امریکا ڈیل نے نہ صرف عرب بادشاہتوں بلکہ اسرائیل کی بھی اہمیت کم کر دی ہے۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ ''عرب بہار'' جس نے مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کی چولیں ہلا دی ہیں۔ ب بہت دیر مشرق وسطی میں بادشاہتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اپنے عوام کو سیاسی حقوق دیں اور ان کو شریک اقتدار کریں۔ اسی میں ان کی بقا ہے۔ اگر نسل در نسل بادشاہت کو قائم رکھنا ہے تو برطانیہ کی طرح آئینی بادشاہت اپنائیں۔ یہ عرب بہار ہی تھی اور پھر داعش جنہوں نے عرب بادشاہتوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب یمن کا محاذ ہو یا موجودہ ایران عرب تنازعہ جو بہت جلد دم توڑ دے گا کیوں کہ اس کو امریکا اور مغرب کی حمایت حاصل نہیں۔ وہ نہیں چاہتے یہ بحران مزید پھیلے۔ ان کا اپنا ایک طویل ایجنڈا ہے ۔ عرب بادشاہتوں کو اصل خطرہ اندر سے ہے باہر سے نہیں اور وہ ان کے عوام ہیں جو اقتدار اعلیٰ میں اپنی شرکت چاہتے ہیں۔
القاعدہ اور داعش کی جڑیں سعودی عرب میں بڑی گہری ہیں۔ تین دن پہلے القاعدہ نے حال ہی میں القاعدہ کے چالیس انتہا پسندوں کو موت کی سزا دینے پر سعودی عرب میں حملوں کا اعلان کیا ہے۔ عرب بادشاہتیں جان لیں کہ اپنے اندر کے بحران پر اس وقت تک قابو نہیں پا سکتیں۔جب تک وہ اپنے عوام کو سیاسی حقوق نہ دیں اگر عوام مطمئن ہیں تو کوئی بیرونی قوت انھیں گمراہ نہیں کر سکتی۔ عوام ہی وہ اصل قوت ہیں جو اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔
پاک بھارت مذاکرات اب کب ہوں گے اس کا پتہ 20,19 اور 23 تا 27 جنوری کو چلے گا۔
ایران سعودی بحران کی شدت اس مہینے کے آخر اور فروری کے شروع میں کم ہو جائے گی۔