یقین کیجیے جنات ہوتے ہیں بالکل ہوتے ہیں
جو بات میں کافی دیر سے نہیں سوچنا چاہ رہا تھا، وہ میرے دماغ کے ایک کونے سے نکل کر اب باہر آچکی تھی۔
KARACHI:
جنات اور غیر مرئی مخلوق کے بارے میں قصے کہانیاں ہر دور اور ہر معاشرے کا حصہ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں چاہے۔ پھر وہ افریقہ کا انتہائی پسماندہ معاشرہ ہو یا یورپ اور امریکہ کا انتہائی ماڈرن معاشرہ۔ ہر معاشرے میں اس کے وجود کے حامی اور غیر حامی لوگ موجود رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے انتہا ترقی کرنے والے ملک امریکہ میں آج بھی جنات اور ماورائے مخلوق پر بننے والی فلمیں اربوں روپے کا بزنس کرتی ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اتنی ترقی کرنے کے باوجود اِس اسرار سے پورے وثوق سے پردہ نہیں اٹھا سکا۔
دوسری طرف بحیثیت مسلمان ہم سب کا قرآن مجید پر مکمل ایمان ہے اور قرآن مجید میں جنات کے بارے کئی جگہوں پر ارشاد فرمایا گیا ہے۔ خاص طور پر سورہ جن میں انتہائی واضح انداز میں جنات کے بارے میں بتایا گیا ہے، اور اگر کسی کو اِس بارے شک ہے تو وہ سورہ جن جو قرآن کی 72 ویں سورۃ ہے اُس کی تفسیر کا مطالعہ کرکے اپنے ابہام دور کرسکتا ہے، لیکن اسلام میں جنات کی اِس حقیقت کو جعلی پیروں فقیروں نے ضعیفِ الاعتقاد اور ان پڑھ لوگوں کو بیوقوف بنانے اور لوٹنے کا ذریعہ بنالیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر اِس حوالے سے اخبارات میں خبریں پڑھتے رہتے ہیں جن میں سے اکثریت جوان لڑکیوں کی پسند یا محبت کی شادی کے معاملات ہوتے ہیں۔ ذاتی رائے یہ ہے کہ اِن واقعات کی اصل وجہ والدین کی جانب سے مناسب تربیت کی کمی بھی ہے۔
میں اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا، لیکن کئی بار نفسیاتی مسائل اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر مریض الٹی سیدھی حرکتیں شروع کردیتا ہے، اور کم علمی کی وجہ سے اس ڈپریشن کو جنات کی کارستانی سمجھ کر ایسے ہی نام نہاد عاملوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو خوب پیسہ لینے کے بعد اُس بچی کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور پھر اِس بات کو چھپانے کے لیے اس پر اِس حد تک جسمانی تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور جسمانی تشدد کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس طرح اس لڑکی کے جسم سے جن کو باہر نکالا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ڈپریشن کے مریض کو بہتر ماحول فراہم کرنے کے بجائے اُسے انتہائی بے دردی اور سفاکی سے مار دیا جاتا ہے۔ بہرحال میں اپنے موضوع سے دور نکل گیا۔ میرا شمار بھی معاشرے کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جو جنوں، چڑیلوں کے قصے سنانے والوں کا خوب مذاق اڑاتے تھے اور انہیں بیوقوف سمجھتے تھے لیکن ایک تو قرآن مجید میں اس حقیقت کی وجہ سے اور دوسرا ایک ذاتی طور پر پیش آنے والے واقعے کے بعد میں نے پھر کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑایا۔
یہاں یہ واقعہ آپ کی دلچسپی کے لیے بھی پیش کررہا ہوں۔ یہ غالباً جنوری 2009ء کی بات ہے جب مجھے ایک نجی بینک میں ملازمت کے لیے اپنا شہر چھوڑ کر راولپنڈی میں مستقل سکونت اختیار کرنی تھی۔ اُس وقت میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا پیش آیا۔ اس وقت میری والدہ کی ایک دوست مری روڈ سے ملحق ٹیپو روڈ پر رہائش پذیر تھیں۔ ان کے گھر کے بالکل سامنے راولپنڈی میڈیکل کالج موجود تھا اور وہ وہاں اپنے ایک ڈرایئور اور ایک گھریلو ملازمہ کے ساتھ اکیلی نچلے پورشن میں رہتی تھیں جبکہ اس گھر کا اوپر کا پورشن مکمل طور پر خالی تھا تو انہوں نے والدہ سے کہا کہ جب تک کوئی مناسب رہائش نہیں مل جاتی تب تک میں وہاں رہ لوں کیونکہ اوپر کا پورشن مکمل طور پر خالی اور فرنشڈ تھا۔ لہذا مجھے بھی کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ ہوا۔ رات کو جب میں ان کے گھر پہنچا تو کافی ٹائم ہوچکا تھا۔ رسمی گفتگو کے بعد ڈرائیور مجھے اوپر والے پورشن کے اس بیڈ روم میں لے گیا جہاں مجھے رہنا تھا۔ جب میں اُس بیڈ روم میں داخل ہوا تو کافی اطمینان ہوا۔ ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود تھی اور جب میں نے کھڑکی کھولنے کے لیے کمرے کے پردے ہٹائے تو جنوری کی اس سرد رات میں ہلکی بارش میں بھیگی سڑک اور سڑک کے اس پار راولپنڈی میڈیکل کالج کا وسیع و عریض گھاس سے ڈھکا فٹبال گراؤنڈ موجود تھا۔
اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں ہلکی ہلکی بارش کی پھوار بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔ یہ ایک مسحور کن نظارہ تھا، لیکن شدید تھکاوٹ اورصبح جلدی اٹھنے کا سوچ کر میں نے جلد ہی کمرے کی لائٹ بند کی اور کمرے کی چٹخنی لگا دی۔ چٹخنی لگاتے وقت مجھے کافی زور لگانا پڑا کیونکہ وہ کافی سخت تھی اور شاید بہت عرصہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے سخت ہوگئی تھی، خیر میں لائٹ بجھاکر بیڈ پر لیٹ گیا۔ پرانی طرز تعمیر کا جہازی سائز بیڈ تھا۔ جلد ہی نیند نے مجھے آگھیرا۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ مجھے ایسا لگا کہ کسی نے بیڈ کو بہت زور سے جھنجھوڑا ہو، میں اٹھا لیکن سخت نیند میں اسے وہم کی کارستانی سمجھ کر پھر گہری نیند سوگیا۔ اب کی بار بیڈ پہلے کی نسبت کافی زور سے ہلا، اب مجھے بھی تشویش ہوئی میں نے کمرے کی لائٹ آن کی اور بیڈ کے نیچے جھانکا۔ اچھی طرح چیک کیا کہ کہیں بیڈ لوز تو نہیں لیکن، یہ پرانے طرز کا بیڈ ہلکا سا بھی ہلانے کے لیے کافی قوت درکار تھی جو کروٹ لینے سے کسی طور پر نہیں ہل سکتا تھا۔
خیر اسے بھی وہم سمجھ کر سونے کی کوشش شروع کردی کہ اچانک کھڑاک کی آواز کے ساتھ چٹخنی کھلنے کی آواز آئی اور دروازہ چوپٹ ہوگیا، اب میں دوبارہ اُٹھا اور سوچا کیونکہ باہر ہوا چل رہی تو یقیناً دروازہ اسی لیے کھلا ہوگا۔ لیکن جب دوبارہ چٹخنی لگا کر واپس آرہا تھا تو ایک دم خیال آیا کہ یہ چٹخنی تو اتنی سخت ہے کہ بمشکل بند ہوئی تھی اور اسے کھولنے کے لیے اتنی ہی زور آزمائی کرنا پڑتی، یہ سوچ کر پہلی بار مجھے اپنے جسم میں سنسناہٹ محسوس ہونا شروع ہوئی۔ کیونکہ جو بات میں کافی دیر سے نہیں سوچنا چاہ رہا تھا اب وہ میرے دماغ کے ایک کونے سے نکل کر باہر آچکی تھی۔ میں نے اپنا دھیان بٹانے کے لیے اپنے ایک بہت قریبی دوست کو موبائل سے کال ملائی۔ رات ایک بجے کے قریب پہلے تو وہ پریشان ہوا اور جب میں نے اسے بتایا کہ ایسے ہی بات کرنے کے لیے کال ملائی تو اس نے مجھے خوب بُرا بھلا کہا اور سونے کا مشورہ دے کر بات ختم کردی۔
نیند بھی شدید آئی ہوئی تھی اور خوف بھی پھن پھیلا کر سامنے آچکا تھا کہ اچانک کمرے کی لائٹ بند ہوگئی، جبکہ کھڑکی کے باہر ہر جگہ لائٹ جل رہی تھی جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ یہ لائٹ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بند نہیں ہوئی تھی اور پھر کچھ ہی دیر میں کمرے میں ایک انتہائی ناگوار بدبو پھیلنے لگی اور رفتہ رفتہ اس کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ جب بدبو حد سے زیادہ بڑھ گئی اور برداشت سے باہر ہوگئی تو میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا کہ آنٹی کو کال کرکے اس صورتِ حال سے آگاہ کروں، لیکن بد قسمتی کہ موبائل کا بیلنس دوست کو کال کرنے کی وجہ سے ختم ہوچکا تھا۔ دروازہ کھول کر فوراً سیٹرھیوں سے نیچے اترا تو معلوم ہوا کہ دروازہ ڈرائیور باہر سے لاک کرگیا ہے۔
حالانکہ جاتے وقت آنٹی نے اسے تاکید بھی کی تھی کہ آج یہ دروازہ لاک نہیں کرنا، غالبًا بے دھیانی میں اس نے دروازہ پھر بھی لاک کردیا۔ مایوس ہو کر دوبارہ اوپر آیا کہ کسی راہ چلتے بندے کو روک کر نیچے گھر کی گھنٹی بجا کر اطلاع دے سکوں۔ کافی انتظار کے بعد ایک شخص سائیکل پر آتا ہوا دکھائی دیا۔ کھڑکی سے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ڈر کر سرپٹ بھاگا اور میں اسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا۔ کمرے کی بدبو اب اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ مجھے واضح طور پر اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور لگ رہا تھا کہ اگر میں کمرے سے باہر نہ نکل سکا تو یقینًا یہ میری آخری رات ہوگی۔
میں اپنا منہ بالکل کھڑکی کے ساتھ لگا کر بیٹھا تھا کہ زیادہ سے زیادہ آکسیجن جذب کرسکوں، اور پھر کچھ ہی دیر میں مجھے یوں لگا کہ میں بےہوش ہو رہا ہوں۔ وہی کھڑکی کے سامنے ہلکی ہلکی بارش کا منظر جو کچھ ہی دیر پہلے انتہائی مسحور کن لگ رہا تھا، اب انتہائی بھیانک منظر پیش کر رہا تھا اور پھر اچانک گھنگرو اور پائل کی آواز آتی سنائی دی، جیسے کوئی سیڑھیوں سے اوپر کی جانب آرہا ہے۔ ایک بار پھر چٹخنی کھولنے کی آواز آئی اور پھر کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں۔ جب میری آنکھ کھلی تو ڈرائیور سامنے کھڑا تھا اور میں کھڑکی کے پاس ہی صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے اُٹھنے کی کوشش کی لیکن جب کمرے کی طرف نظر گئی تو ایسا محسوس بھی نہیں ہورہا تھا کہ یہاں کچھ ہوا ہے، نہ تو کسی قسم کی کوئی بدبو اور نہ ہی کوئی آواز۔ میں نے خاموشی سے اپنا سامان اٹھایا اور آنٹی سے جھوٹ بولا کہ رات ہی ایک اور جگہ بندوبست ہوگیا ہے، اور کسی کو کچھ بتائے بغیر ایسے بھاگا، کہ مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ لیکن اس دن کے بعد میں نے کسی کی بھی ایسی کہانی کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ انتہائی سنجیدگی سے اس کی بات کو سنا کہ میں خود ایسے لمحات کا سامنا کرسکا ہوں۔
[poll id="898"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
جنات اور غیر مرئی مخلوق کے بارے میں قصے کہانیاں ہر دور اور ہر معاشرے کا حصہ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں چاہے۔ پھر وہ افریقہ کا انتہائی پسماندہ معاشرہ ہو یا یورپ اور امریکہ کا انتہائی ماڈرن معاشرہ۔ ہر معاشرے میں اس کے وجود کے حامی اور غیر حامی لوگ موجود رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے انتہا ترقی کرنے والے ملک امریکہ میں آج بھی جنات اور ماورائے مخلوق پر بننے والی فلمیں اربوں روپے کا بزنس کرتی ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اتنی ترقی کرنے کے باوجود اِس اسرار سے پورے وثوق سے پردہ نہیں اٹھا سکا۔
دوسری طرف بحیثیت مسلمان ہم سب کا قرآن مجید پر مکمل ایمان ہے اور قرآن مجید میں جنات کے بارے کئی جگہوں پر ارشاد فرمایا گیا ہے۔ خاص طور پر سورہ جن میں انتہائی واضح انداز میں جنات کے بارے میں بتایا گیا ہے، اور اگر کسی کو اِس بارے شک ہے تو وہ سورہ جن جو قرآن کی 72 ویں سورۃ ہے اُس کی تفسیر کا مطالعہ کرکے اپنے ابہام دور کرسکتا ہے، لیکن اسلام میں جنات کی اِس حقیقت کو جعلی پیروں فقیروں نے ضعیفِ الاعتقاد اور ان پڑھ لوگوں کو بیوقوف بنانے اور لوٹنے کا ذریعہ بنالیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر اِس حوالے سے اخبارات میں خبریں پڑھتے رہتے ہیں جن میں سے اکثریت جوان لڑکیوں کی پسند یا محبت کی شادی کے معاملات ہوتے ہیں۔ ذاتی رائے یہ ہے کہ اِن واقعات کی اصل وجہ والدین کی جانب سے مناسب تربیت کی کمی بھی ہے۔
میں اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا، لیکن کئی بار نفسیاتی مسائل اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر مریض الٹی سیدھی حرکتیں شروع کردیتا ہے، اور کم علمی کی وجہ سے اس ڈپریشن کو جنات کی کارستانی سمجھ کر ایسے ہی نام نہاد عاملوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو خوب پیسہ لینے کے بعد اُس بچی کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور پھر اِس بات کو چھپانے کے لیے اس پر اِس حد تک جسمانی تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور جسمانی تشدد کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس طرح اس لڑکی کے جسم سے جن کو باہر نکالا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ڈپریشن کے مریض کو بہتر ماحول فراہم کرنے کے بجائے اُسے انتہائی بے دردی اور سفاکی سے مار دیا جاتا ہے۔ بہرحال میں اپنے موضوع سے دور نکل گیا۔ میرا شمار بھی معاشرے کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جو جنوں، چڑیلوں کے قصے سنانے والوں کا خوب مذاق اڑاتے تھے اور انہیں بیوقوف سمجھتے تھے لیکن ایک تو قرآن مجید میں اس حقیقت کی وجہ سے اور دوسرا ایک ذاتی طور پر پیش آنے والے واقعے کے بعد میں نے پھر کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑایا۔
یہاں یہ واقعہ آپ کی دلچسپی کے لیے بھی پیش کررہا ہوں۔ یہ غالباً جنوری 2009ء کی بات ہے جب مجھے ایک نجی بینک میں ملازمت کے لیے اپنا شہر چھوڑ کر راولپنڈی میں مستقل سکونت اختیار کرنی تھی۔ اُس وقت میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا پیش آیا۔ اس وقت میری والدہ کی ایک دوست مری روڈ سے ملحق ٹیپو روڈ پر رہائش پذیر تھیں۔ ان کے گھر کے بالکل سامنے راولپنڈی میڈیکل کالج موجود تھا اور وہ وہاں اپنے ایک ڈرایئور اور ایک گھریلو ملازمہ کے ساتھ اکیلی نچلے پورشن میں رہتی تھیں جبکہ اس گھر کا اوپر کا پورشن مکمل طور پر خالی تھا تو انہوں نے والدہ سے کہا کہ جب تک کوئی مناسب رہائش نہیں مل جاتی تب تک میں وہاں رہ لوں کیونکہ اوپر کا پورشن مکمل طور پر خالی اور فرنشڈ تھا۔ لہذا مجھے بھی کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ ہوا۔ رات کو جب میں ان کے گھر پہنچا تو کافی ٹائم ہوچکا تھا۔ رسمی گفتگو کے بعد ڈرائیور مجھے اوپر والے پورشن کے اس بیڈ روم میں لے گیا جہاں مجھے رہنا تھا۔ جب میں اُس بیڈ روم میں داخل ہوا تو کافی اطمینان ہوا۔ ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود تھی اور جب میں نے کھڑکی کھولنے کے لیے کمرے کے پردے ہٹائے تو جنوری کی اس سرد رات میں ہلکی بارش میں بھیگی سڑک اور سڑک کے اس پار راولپنڈی میڈیکل کالج کا وسیع و عریض گھاس سے ڈھکا فٹبال گراؤنڈ موجود تھا۔
اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں ہلکی ہلکی بارش کی پھوار بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔ یہ ایک مسحور کن نظارہ تھا، لیکن شدید تھکاوٹ اورصبح جلدی اٹھنے کا سوچ کر میں نے جلد ہی کمرے کی لائٹ بند کی اور کمرے کی چٹخنی لگا دی۔ چٹخنی لگاتے وقت مجھے کافی زور لگانا پڑا کیونکہ وہ کافی سخت تھی اور شاید بہت عرصہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے سخت ہوگئی تھی، خیر میں لائٹ بجھاکر بیڈ پر لیٹ گیا۔ پرانی طرز تعمیر کا جہازی سائز بیڈ تھا۔ جلد ہی نیند نے مجھے آگھیرا۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ مجھے ایسا لگا کہ کسی نے بیڈ کو بہت زور سے جھنجھوڑا ہو، میں اٹھا لیکن سخت نیند میں اسے وہم کی کارستانی سمجھ کر پھر گہری نیند سوگیا۔ اب کی بار بیڈ پہلے کی نسبت کافی زور سے ہلا، اب مجھے بھی تشویش ہوئی میں نے کمرے کی لائٹ آن کی اور بیڈ کے نیچے جھانکا۔ اچھی طرح چیک کیا کہ کہیں بیڈ لوز تو نہیں لیکن، یہ پرانے طرز کا بیڈ ہلکا سا بھی ہلانے کے لیے کافی قوت درکار تھی جو کروٹ لینے سے کسی طور پر نہیں ہل سکتا تھا۔
خیر اسے بھی وہم سمجھ کر سونے کی کوشش شروع کردی کہ اچانک کھڑاک کی آواز کے ساتھ چٹخنی کھلنے کی آواز آئی اور دروازہ چوپٹ ہوگیا، اب میں دوبارہ اُٹھا اور سوچا کیونکہ باہر ہوا چل رہی تو یقیناً دروازہ اسی لیے کھلا ہوگا۔ لیکن جب دوبارہ چٹخنی لگا کر واپس آرہا تھا تو ایک دم خیال آیا کہ یہ چٹخنی تو اتنی سخت ہے کہ بمشکل بند ہوئی تھی اور اسے کھولنے کے لیے اتنی ہی زور آزمائی کرنا پڑتی، یہ سوچ کر پہلی بار مجھے اپنے جسم میں سنسناہٹ محسوس ہونا شروع ہوئی۔ کیونکہ جو بات میں کافی دیر سے نہیں سوچنا چاہ رہا تھا اب وہ میرے دماغ کے ایک کونے سے نکل کر باہر آچکی تھی۔ میں نے اپنا دھیان بٹانے کے لیے اپنے ایک بہت قریبی دوست کو موبائل سے کال ملائی۔ رات ایک بجے کے قریب پہلے تو وہ پریشان ہوا اور جب میں نے اسے بتایا کہ ایسے ہی بات کرنے کے لیے کال ملائی تو اس نے مجھے خوب بُرا بھلا کہا اور سونے کا مشورہ دے کر بات ختم کردی۔
نیند بھی شدید آئی ہوئی تھی اور خوف بھی پھن پھیلا کر سامنے آچکا تھا کہ اچانک کمرے کی لائٹ بند ہوگئی، جبکہ کھڑکی کے باہر ہر جگہ لائٹ جل رہی تھی جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ یہ لائٹ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بند نہیں ہوئی تھی اور پھر کچھ ہی دیر میں کمرے میں ایک انتہائی ناگوار بدبو پھیلنے لگی اور رفتہ رفتہ اس کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ جب بدبو حد سے زیادہ بڑھ گئی اور برداشت سے باہر ہوگئی تو میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا کہ آنٹی کو کال کرکے اس صورتِ حال سے آگاہ کروں، لیکن بد قسمتی کہ موبائل کا بیلنس دوست کو کال کرنے کی وجہ سے ختم ہوچکا تھا۔ دروازہ کھول کر فوراً سیٹرھیوں سے نیچے اترا تو معلوم ہوا کہ دروازہ ڈرائیور باہر سے لاک کرگیا ہے۔
حالانکہ جاتے وقت آنٹی نے اسے تاکید بھی کی تھی کہ آج یہ دروازہ لاک نہیں کرنا، غالبًا بے دھیانی میں اس نے دروازہ پھر بھی لاک کردیا۔ مایوس ہو کر دوبارہ اوپر آیا کہ کسی راہ چلتے بندے کو روک کر نیچے گھر کی گھنٹی بجا کر اطلاع دے سکوں۔ کافی انتظار کے بعد ایک شخص سائیکل پر آتا ہوا دکھائی دیا۔ کھڑکی سے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ڈر کر سرپٹ بھاگا اور میں اسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا۔ کمرے کی بدبو اب اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ مجھے واضح طور پر اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور لگ رہا تھا کہ اگر میں کمرے سے باہر نہ نکل سکا تو یقینًا یہ میری آخری رات ہوگی۔
میں اپنا منہ بالکل کھڑکی کے ساتھ لگا کر بیٹھا تھا کہ زیادہ سے زیادہ آکسیجن جذب کرسکوں، اور پھر کچھ ہی دیر میں مجھے یوں لگا کہ میں بےہوش ہو رہا ہوں۔ وہی کھڑکی کے سامنے ہلکی ہلکی بارش کا منظر جو کچھ ہی دیر پہلے انتہائی مسحور کن لگ رہا تھا، اب انتہائی بھیانک منظر پیش کر رہا تھا اور پھر اچانک گھنگرو اور پائل کی آواز آتی سنائی دی، جیسے کوئی سیڑھیوں سے اوپر کی جانب آرہا ہے۔ ایک بار پھر چٹخنی کھولنے کی آواز آئی اور پھر کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں۔ جب میری آنکھ کھلی تو ڈرائیور سامنے کھڑا تھا اور میں کھڑکی کے پاس ہی صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے اُٹھنے کی کوشش کی لیکن جب کمرے کی طرف نظر گئی تو ایسا محسوس بھی نہیں ہورہا تھا کہ یہاں کچھ ہوا ہے، نہ تو کسی قسم کی کوئی بدبو اور نہ ہی کوئی آواز۔ میں نے خاموشی سے اپنا سامان اٹھایا اور آنٹی سے جھوٹ بولا کہ رات ہی ایک اور جگہ بندوبست ہوگیا ہے، اور کسی کو کچھ بتائے بغیر ایسے بھاگا، کہ مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ لیکن اس دن کے بعد میں نے کسی کی بھی ایسی کہانی کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ انتہائی سنجیدگی سے اس کی بات کو سنا کہ میں خود ایسے لمحات کا سامنا کرسکا ہوں۔
[poll id="898"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔