حکومت کو تمام کمپنیاں لسٹ کرنے کی تجویزدیدی ندیم نقوی
حصص مارکیٹ کو سرمائے کی قلت کا سامنا ہے، تیزی کے باعث نئے سرمایہ کارآئیں گے۔
کراچی اسٹاک ایکس چینج انڈیکس کے16000 کی نفسیاتی حدعبور کرنے اور آئندہ کئی ماہ تک مستحکم رہنے سے حصص کی تجارت سے احتراز کرنے والے سرمایہ کار، میوچل، پینشن ودیگر فنڈز اورنئے سرمایہ کار دوبارہ متحرک ہوجائیں گے۔
یہ بات کراچی اسٹاک ایکس چینج کے منیجنگ ڈائریکٹرندیم نقوی نے جمعرات کوکے ایس ای میں ''ان سائیڈفنانشل مارکیٹ'' نامی میگزین کی تعارفی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ حصص مارکیٹ میں جاری تیزرفتار سرگرمیوں کے دوران براہ راست سرمایہ کاری کرنے والوں کوذمے داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اسٹاک بروکریج ہائوسزکوسرمایہ کاروں کی رقوم کودیانتداری کے ساتھ رکھتے ہوئے حصص کی تجارتی سرگرمیوں میں استعمال کرنا ہوگا، اسٹاک ایکس چینج میں کوئلے کی کان کنی اورپاورجنریشن سمیت ہرشعبے کی کمپنیوں کی لسٹنگ کی تجویز حکومت کوارسال کردی گئی ہے۔
ندیم نقوی نے بتایا کہ طویل دورانیے کی مندی اور جمود کے بعد کراچی اسٹاک ایکس چینج اب تیزی کی جانب گامزن ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں انڈیکس کی16000 کی نفسیاتی حد بھی عبور ہوگئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ عمومی سرمایہ کار براہ راست حصص کی خریداری کے بجائے میوچل فنڈز کے ذریعے سرمایہ کاری کو ترجیح دیں اور اگر براہ راست سرمایہ کاری کرنا مقصود ہے تو اس امر کا خیال بھی رکھا جائے کہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری رسکی ہوتی ہے۔
مزید براں سرمایہ کارکسی بھی بروکریج ہائوس کو سرمایہ فراہم کرنے سے قبل اس کی مکمل چھان بین ضرورکریں اور بروکر کی مشاورت کے ساتھ جن کمپنیوں میں وہ سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں ہیں کے مالیاتی انتظامی اور منافع کے حوالے سے پیشگی آگہی حاصل کریںتاکہ بعد میں کسی فراڈ کا احتمال کم سے کم ہو سکے، کسی بھی حصص میں سرمایہ کاری نقصان کی حد کے ساتھ کریں اور بروکر کو ہدایت کریں کہ آپ کتنا نقصان اٹھا سکتے ہیں اور اسٹاپ لوس کی حد کے ساتھ مارکیٹ میں لین دین کریں۔ ندیم نقوی نے دعویٰ کیا کہ کے ایس ای کے ایم ڈی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اسٹاک ایکس چینج میںدھوکہ دہی کا کوئی نیا واقعہ رونما نہیں ہوا، اسٹاک ایکس چینج، سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان اور سینٹرل ڈپازیٹری کمپنی نے اس حوالے سے متعدد اقدامات کیے ہیں تاہم ہرشعبے اور سرمایہ کار کودھوکہ دہی کے حوالے سے ہر وقت مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔
بالخصوص اس وقت جب اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کے اثرات غالب ہوں اور انڈیکس نئی بلندیوں کی جانب بڑھ رہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ بحران بدلہ فنانسنگ کی وجہ سے رونما ہوا تھا جس کے باعث سرمایہ کاری کے لیے جو پروڈکٹس متعارف کرائی گئیں وہ 25فیصد کیش مارجن پر تھیں اور ریگولیٹر کے ساتھ بات چیت کر کے اسے 15فیصد کیش مارجن اور 10فیصد سیکیورٹیز پر منتقل کیا لیکن یہ شرح اب بھی انتہائی زائد ہے لہٰذا اس شرح میں مزید کمی کی ضرورت ہے۔ ندیم نقوی نے بتایا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کی قلت دور کرنے کیلیے ڈیرویٹیو کو متعارف کیا جارہاہے ہے اور کے ایس ای 30انڈیکس میں یہ پروڈکٹ آئندہ چند ہفتوں میں متعارف کرائی جائے گی جس میں سرمایہ کار اصل رقم سے 8گنا زائد حصص کی خریداری کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اسٹاک مارکیٹس کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ دنیا اور خطے کی دیگرمارکیٹس کی نسبت انتہائی کم حجم کی حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ مقامی مارکیٹس میں اتارچڑھائو کے اثرات زیادہ رہتے ہیں، ایران کی اسٹاک مارکیٹ میں 30 لاکھ جبکہ بنگلہ دیش میں 20لاکھ سرمایہ کار ہیں جبکہ اسکے برعکس پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی تعداد صرف 2لاکھ تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی قلت کا سامنا ہے، پاکستانی معیشت میں پالیسی اور اسٹرکچرل معاملات کے باوجود بہت سے اہم شعبوں میں ترقی کی وسیع گنجائش موجود ہے، زراعت اور کان کنی کے شعبے میں بھی ترقی کے وسیع امکانات ہیں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ کوئلے کے نئے بجلی گھروں اور مائننگ کمپنیوں کوبھی اسٹاک ایکس چینج میں لسٹنگ کو لازم قراردینے کے احکامات جاری کرے تاکہ مقامی سرمایہ کاروں کی ان نئے شعبوں کی کمپنیوں میں نہ صرف دلچسپی پیدا ہو بلکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ اور کمپنیوں کی ترقی کی رفتار تیز تر ہوسکے۔
یہ بات کراچی اسٹاک ایکس چینج کے منیجنگ ڈائریکٹرندیم نقوی نے جمعرات کوکے ایس ای میں ''ان سائیڈفنانشل مارکیٹ'' نامی میگزین کی تعارفی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ حصص مارکیٹ میں جاری تیزرفتار سرگرمیوں کے دوران براہ راست سرمایہ کاری کرنے والوں کوذمے داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اسٹاک بروکریج ہائوسزکوسرمایہ کاروں کی رقوم کودیانتداری کے ساتھ رکھتے ہوئے حصص کی تجارتی سرگرمیوں میں استعمال کرنا ہوگا، اسٹاک ایکس چینج میں کوئلے کی کان کنی اورپاورجنریشن سمیت ہرشعبے کی کمپنیوں کی لسٹنگ کی تجویز حکومت کوارسال کردی گئی ہے۔
ندیم نقوی نے بتایا کہ طویل دورانیے کی مندی اور جمود کے بعد کراچی اسٹاک ایکس چینج اب تیزی کی جانب گامزن ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں انڈیکس کی16000 کی نفسیاتی حد بھی عبور ہوگئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ عمومی سرمایہ کار براہ راست حصص کی خریداری کے بجائے میوچل فنڈز کے ذریعے سرمایہ کاری کو ترجیح دیں اور اگر براہ راست سرمایہ کاری کرنا مقصود ہے تو اس امر کا خیال بھی رکھا جائے کہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری رسکی ہوتی ہے۔
مزید براں سرمایہ کارکسی بھی بروکریج ہائوس کو سرمایہ فراہم کرنے سے قبل اس کی مکمل چھان بین ضرورکریں اور بروکر کی مشاورت کے ساتھ جن کمپنیوں میں وہ سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں ہیں کے مالیاتی انتظامی اور منافع کے حوالے سے پیشگی آگہی حاصل کریںتاکہ بعد میں کسی فراڈ کا احتمال کم سے کم ہو سکے، کسی بھی حصص میں سرمایہ کاری نقصان کی حد کے ساتھ کریں اور بروکر کو ہدایت کریں کہ آپ کتنا نقصان اٹھا سکتے ہیں اور اسٹاپ لوس کی حد کے ساتھ مارکیٹ میں لین دین کریں۔ ندیم نقوی نے دعویٰ کیا کہ کے ایس ای کے ایم ڈی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اسٹاک ایکس چینج میںدھوکہ دہی کا کوئی نیا واقعہ رونما نہیں ہوا، اسٹاک ایکس چینج، سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان اور سینٹرل ڈپازیٹری کمپنی نے اس حوالے سے متعدد اقدامات کیے ہیں تاہم ہرشعبے اور سرمایہ کار کودھوکہ دہی کے حوالے سے ہر وقت مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔
بالخصوص اس وقت جب اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کے اثرات غالب ہوں اور انڈیکس نئی بلندیوں کی جانب بڑھ رہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ بحران بدلہ فنانسنگ کی وجہ سے رونما ہوا تھا جس کے باعث سرمایہ کاری کے لیے جو پروڈکٹس متعارف کرائی گئیں وہ 25فیصد کیش مارجن پر تھیں اور ریگولیٹر کے ساتھ بات چیت کر کے اسے 15فیصد کیش مارجن اور 10فیصد سیکیورٹیز پر منتقل کیا لیکن یہ شرح اب بھی انتہائی زائد ہے لہٰذا اس شرح میں مزید کمی کی ضرورت ہے۔ ندیم نقوی نے بتایا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کی قلت دور کرنے کیلیے ڈیرویٹیو کو متعارف کیا جارہاہے ہے اور کے ایس ای 30انڈیکس میں یہ پروڈکٹ آئندہ چند ہفتوں میں متعارف کرائی جائے گی جس میں سرمایہ کار اصل رقم سے 8گنا زائد حصص کی خریداری کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اسٹاک مارکیٹس کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ دنیا اور خطے کی دیگرمارکیٹس کی نسبت انتہائی کم حجم کی حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ مقامی مارکیٹس میں اتارچڑھائو کے اثرات زیادہ رہتے ہیں، ایران کی اسٹاک مارکیٹ میں 30 لاکھ جبکہ بنگلہ دیش میں 20لاکھ سرمایہ کار ہیں جبکہ اسکے برعکس پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی تعداد صرف 2لاکھ تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی قلت کا سامنا ہے، پاکستانی معیشت میں پالیسی اور اسٹرکچرل معاملات کے باوجود بہت سے اہم شعبوں میں ترقی کی وسیع گنجائش موجود ہے، زراعت اور کان کنی کے شعبے میں بھی ترقی کے وسیع امکانات ہیں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ کوئلے کے نئے بجلی گھروں اور مائننگ کمپنیوں کوبھی اسٹاک ایکس چینج میں لسٹنگ کو لازم قراردینے کے احکامات جاری کرے تاکہ مقامی سرمایہ کاروں کی ان نئے شعبوں کی کمپنیوں میں نہ صرف دلچسپی پیدا ہو بلکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ اور کمپنیوں کی ترقی کی رفتار تیز تر ہوسکے۔