مکالمے کے آداب
فلسفے کی جوشاخ شے، حقیقت کی ماہیت کو جانتی ہے اسے علمیات کہا جاتا ہے۔
لاہور:
فلسفے کی جوشاخ شے، حقیقت کی ماہیت کو جانتی ہے اسے علمیات کہا جاتا ہے۔ انسان کے علم میں جو توسیع ہوتی ہے، وہ حقیقت کے بارے اس کے علم کی ہی توسیع نہیں ، بلکہ وہ انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو بھی وسعت آشنا کرتی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے کہ اگر انسان حقیقت کو جاننے کے عمل کے ان ابتدائی اثرات کو برداشت نہ کر پا رہا ہو تو اس کے گہرے اثرات اس کے معاندانہ، تضحیک آمیز رویے سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔
تھوڑا علم انسان کے باطن میں بے چینی و اضطراب کو جنم دیتا ہے۔ بے چینی و اضطراب کا آسان سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر موجود تیقن کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں۔ اس کی شخصیت کا وہ پہلو جس نے داخلی و خارجی سطح پر استحکام عطا کررکھا تھا، وہ عدم استحکام میں بدل چکا ہے۔ عدم استحکام کا مطلب یہ کہ وہ تمام اقدار جو اس کی بظاہر 'مستحکم' شخصیت کا حصہ تھیں، بے چینی و اضطراب نے اس کے باطن میں ایک 'فتق' کو ابھار دیا ہے، اس کے اندر ایک شگاف کو پیدا کردیا ہے۔
ابتدائی علم کے حصول کے بعد وہ اس باطل خیال میں جکڑا جاتا ہے کہ اس کے پاس پہلے سے زیادہ علم ہے اور وہ بہت ''مضبوط'' ہوچکاہے۔ وہ ابتدائی علم کو ہی علم کی انتہا سمجھنے لگتا ہے۔ یہ احساس ''برتری'' نہیں بلکہ حقیقت میں احساسِ کمتری ہوتا ہے۔ علم کی انتہا انسان میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے، اسے اندر سے مستحکم کرتی ہے۔ اس کا احساس انسان کو اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اندر سے مستحکم ہوچکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے کو چھوئے بغیر اس احساس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
انسان جب تک علم کی اس معراج کو نہیں پہنچتا جس سے اس کی شخصیت بہت 'وزنی' ہوجاتی ہے، اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس ابتدائی علم کے داخلی و خارجی سطح پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک طرف احساس کمتری جسے وہ احساس برتری سمجھتا ہے، اسی کی بنیاد پر ہر دوسرے شخص سے اپنے ابتدائی درجے کے مباحث کو انتہائی غیر اخلاقی انداز میں چھیڑ کر ہر دوسرے انسان سے برسرِ پیکار رہتا ہے۔
ابتدائی علم رکھنے والے کے اندر یہ احساس ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ''صحیح علم'' کے نام پر اس نے ہر دوسرے انسان کے خلاف جو نزاعی مہم شروع کررکھی ہے اس کی کوئی نظریاتی بنیاد نہیں بلکہ وہ ایک نفسیاتی عارضے کا اظہاریہ ہے۔ ایسا نفسیاتی عارضہ جسے دیکھنے کی اہلیت علم کی تحصیل کے اس ابتدائی مرحلے میں پیدا ہی نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہی تو ایسے رویے کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مذہبی اسکالر جب کسی سے مکالمہ کرے گا تو وہ اپنے خلاف پیش کیے جانے والے دلائل پر نفرت، تعصب اور غصے کا اظہار کم ہی کرے گا۔ وہ تحمل مزاجی سے اپنے دلائل کے خلاف پیش کیے جانے والے دلائل کا اپنی اہلیت کے مطابق جواب دے گا۔
اس کے برعکس اگر ایک معمولی علم رکھنے والا مذہبی شخص کسی بھی پوچھے گئے سوال یا اٹھائے گئے ہر اس نکتے پر ہی سیخ پا ہوجائے گا جس کا پوچھا جانا اس کی نظر میں اس کے ایمان کا حصہ نہیں ہے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال سماجی، سیاسی، فلسفیانہ علوم کے حوالے سے ہے۔ علم کی سطح ہی رویے کی سختی و نرمی کو متعین کرتی ہے۔
یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ جب کوئی انسان اپنی مخصوص روایت سے ہٹ کر کسی علم کی تحصیل کرتا ہے، تو ابتدائی مرحلے یعنی تین چار کتابیں پڑھنے کے بعد ہی بے چین ہو جاتا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس ابتدائی مرحلے کی بے چینی کو برداشت ہی نہیں کرپاتے، ان کے خیالات منتشر ہوجاتے ہیں۔ وہ دوسروں کو عدم تعقل پسند اور خود کو تعقل پسند خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کے ''انسان دوست'' اور اپنے مخالف کے خیالات کو انسان دشمن گردانتے ہیں۔
علم کے اس ابتدائی مرحلے میں جکڑے لوگ کسی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ جس نظریے پر قائم ہیں وہ ''تعقل پسند'' ہے جب کہ ان کا مخالف ''عدم تعقلی'' فلسفے پر کاربند ہے۔
فلسفوں کی یہ تعقلی و عدم تعقلی ترتیب کو انسان نے ہی نام دے رکھا ہے۔ ان فلسفوں کے اندر کوئی ایسی شے نہیں ہے جو انھیں تعقل پسند یا عدم تعقل پسند بناتی ہو۔ یہ مصنوعی تشکیلات ہیں۔ ان کا فلسفوں کے مافیہا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تخصیص ایک فلسفیانہ روایت کا محض حصہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے تعقل پسندی کے اندر ہی عدم تعقل پسندی موجود ہوتی ہے۔ تعقل جسے خود سے باہر دیکھ کر عدم تعقل پسندی سے منسوب کردیتی ہے، محض اس لیے کہ خود کو ہر دہشت و بربریت سے مبّرا ٹھہرا سکے۔
یہ تعقل پسندی ہی ہے جو اپنے ہی اندر کے تضاد یعنی غیر تعقل پسندی کو نہیں دیکھتی۔ ایک ایسا تضاد جسے وہ حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، اس لیے بہتر ہے کہ اس خود سے باہر قرار دے کر خود معصومیت اور انسان دوستی کا لبادہ اوڑھ لیا جائے۔ سچا اگر مکمل ہوتا ہے، جو اپنا اظہار'' کلیت'' میں کرتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ تعقل پسندی اس کلیت سے باہر ہو۔
اور اگر وہ کسی سطح پر آکر ''کلیت'' سے کسی ٹکڑے کی شکل میں باہر رہ جانا چاہتی ہے، تو اس سے واضح ہوجانا چاہیے کہ اس تعقل پسند کلیت میں اس نے گھٹن، درد اور تکلیف محسوس کرنا شروع کردیا ہے۔ تعقل پسندی کے ایک بار عدم تعقل پسندی سے ہم آہنگ ہوجانے کے بعد بھی کسی خالص تعقل پسندی پر بضد رہنا سب سے بڑی عدم تعقل پسندی ہے۔
یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس کو جاننا، نہ صرف یہ کہ علم کی توسیع ہے، بلکہ اس سے جاننے والے کی ذات میں بھی وسعت آتی ہے۔ یہ تصور کرلینا کہ فلسفہ و فکر کہیں اٹھارویں صدی میں اٹک کر رہ گئے ہیں، یا اس سے بھی کہیں پیچھے چلے گئے ہیں، نہ صرف یہ کہ عدم تعقل پسندی کی علامت ہے بلکہ ''بیگانگی'' کی بھی مظہر ہے۔ یہی وہ ''بیگانگی'' عدم تعقل پسندی ہے جو انسان کو اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں سے ہر لمحہ برسرِ پیکار رہنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ علم جب انسان کی ذات کو وسعت آشنا کرتا ہے، تو یہ بنیادی طور پر تبدیلی کا ہی عمل ہوتا ہے۔ جاننے کے عمل میں جو تبدیلی آتی ہے، اس تبدیلی کے شعور سے علم کی مزید توسیع ہوتی ہے۔
انسان دشمن منفی رویے کی جڑیں تو حقیقی سماج میں ہی ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک ہی سماج، محلے بلکہ ایک ہی گھر میں رہنے والوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ علم میں وسعت بھی انسان کے باطن سے تنگ نظری، تعصب، بغض، عداوت وغیرہ کو رخصت کردیتی ہے۔ علم تبدیلی کے عمل کا محرک اور نتیجہ ہوتا ہے، جب کہ نتیجہ اس تسلسل میں محرک اور پھر نتیجے کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اشیا کی حقیقی ماہیت کی تفہیم کا آج تک کوئی ایسا 'طریقہ کار' (میتھڈ) تشکیل نہیں دیا جاسکتا جو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی مکمل ہوچکا ہو۔
یا اس کی تکمیل کے دعوے کے بعد اس میں ارتقا ناممکن ہوچکا ہو۔ علم کے حصول کے طریقہ کار میں توسیع کی جاسکتی ہے، اس میں گہرائی اور وسعت لائی جاسکتی ہے۔ میتھڈ کی اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے اپنے عہد کے علوم کو حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ علم کے حصول کے 'میتھڈ' کی حتمیت ایک بھیانک عدم تعقل پسند فلسفے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اور انسان ہر دوسرے انسان کو اپنا حریف یا نظریاتی دشمن سمجھتے ہوئے اپنے ارد گرد کے ماحول میں اپنے رویے کے ذریعے سڑاند بھرتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ انھی لوگوں کا ہمنوا بن جاتا ہے، جن کے خلاف اس نے اپنا خود ساختہ نظریاتی پرچم بلند کررکھا ہوتا ہے۔
(نوٹ: اس مضمون کا محرک فیس بک
پر ہونے والا ایک مکالمہ ہے)
فلسفے کی جوشاخ شے، حقیقت کی ماہیت کو جانتی ہے اسے علمیات کہا جاتا ہے۔ انسان کے علم میں جو توسیع ہوتی ہے، وہ حقیقت کے بارے اس کے علم کی ہی توسیع نہیں ، بلکہ وہ انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو بھی وسعت آشنا کرتی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے کہ اگر انسان حقیقت کو جاننے کے عمل کے ان ابتدائی اثرات کو برداشت نہ کر پا رہا ہو تو اس کے گہرے اثرات اس کے معاندانہ، تضحیک آمیز رویے سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔
تھوڑا علم انسان کے باطن میں بے چینی و اضطراب کو جنم دیتا ہے۔ بے چینی و اضطراب کا آسان سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر موجود تیقن کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں۔ اس کی شخصیت کا وہ پہلو جس نے داخلی و خارجی سطح پر استحکام عطا کررکھا تھا، وہ عدم استحکام میں بدل چکا ہے۔ عدم استحکام کا مطلب یہ کہ وہ تمام اقدار جو اس کی بظاہر 'مستحکم' شخصیت کا حصہ تھیں، بے چینی و اضطراب نے اس کے باطن میں ایک 'فتق' کو ابھار دیا ہے، اس کے اندر ایک شگاف کو پیدا کردیا ہے۔
ابتدائی علم کے حصول کے بعد وہ اس باطل خیال میں جکڑا جاتا ہے کہ اس کے پاس پہلے سے زیادہ علم ہے اور وہ بہت ''مضبوط'' ہوچکاہے۔ وہ ابتدائی علم کو ہی علم کی انتہا سمجھنے لگتا ہے۔ یہ احساس ''برتری'' نہیں بلکہ حقیقت میں احساسِ کمتری ہوتا ہے۔ علم کی انتہا انسان میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے، اسے اندر سے مستحکم کرتی ہے۔ اس کا احساس انسان کو اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اندر سے مستحکم ہوچکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے کو چھوئے بغیر اس احساس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
انسان جب تک علم کی اس معراج کو نہیں پہنچتا جس سے اس کی شخصیت بہت 'وزنی' ہوجاتی ہے، اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس ابتدائی علم کے داخلی و خارجی سطح پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک طرف احساس کمتری جسے وہ احساس برتری سمجھتا ہے، اسی کی بنیاد پر ہر دوسرے شخص سے اپنے ابتدائی درجے کے مباحث کو انتہائی غیر اخلاقی انداز میں چھیڑ کر ہر دوسرے انسان سے برسرِ پیکار رہتا ہے۔
ابتدائی علم رکھنے والے کے اندر یہ احساس ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ''صحیح علم'' کے نام پر اس نے ہر دوسرے انسان کے خلاف جو نزاعی مہم شروع کررکھی ہے اس کی کوئی نظریاتی بنیاد نہیں بلکہ وہ ایک نفسیاتی عارضے کا اظہاریہ ہے۔ ایسا نفسیاتی عارضہ جسے دیکھنے کی اہلیت علم کی تحصیل کے اس ابتدائی مرحلے میں پیدا ہی نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہی تو ایسے رویے کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مذہبی اسکالر جب کسی سے مکالمہ کرے گا تو وہ اپنے خلاف پیش کیے جانے والے دلائل پر نفرت، تعصب اور غصے کا اظہار کم ہی کرے گا۔ وہ تحمل مزاجی سے اپنے دلائل کے خلاف پیش کیے جانے والے دلائل کا اپنی اہلیت کے مطابق جواب دے گا۔
اس کے برعکس اگر ایک معمولی علم رکھنے والا مذہبی شخص کسی بھی پوچھے گئے سوال یا اٹھائے گئے ہر اس نکتے پر ہی سیخ پا ہوجائے گا جس کا پوچھا جانا اس کی نظر میں اس کے ایمان کا حصہ نہیں ہے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال سماجی، سیاسی، فلسفیانہ علوم کے حوالے سے ہے۔ علم کی سطح ہی رویے کی سختی و نرمی کو متعین کرتی ہے۔
یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ جب کوئی انسان اپنی مخصوص روایت سے ہٹ کر کسی علم کی تحصیل کرتا ہے، تو ابتدائی مرحلے یعنی تین چار کتابیں پڑھنے کے بعد ہی بے چین ہو جاتا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس ابتدائی مرحلے کی بے چینی کو برداشت ہی نہیں کرپاتے، ان کے خیالات منتشر ہوجاتے ہیں۔ وہ دوسروں کو عدم تعقل پسند اور خود کو تعقل پسند خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کے ''انسان دوست'' اور اپنے مخالف کے خیالات کو انسان دشمن گردانتے ہیں۔
علم کے اس ابتدائی مرحلے میں جکڑے لوگ کسی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ جس نظریے پر قائم ہیں وہ ''تعقل پسند'' ہے جب کہ ان کا مخالف ''عدم تعقلی'' فلسفے پر کاربند ہے۔
فلسفوں کی یہ تعقلی و عدم تعقلی ترتیب کو انسان نے ہی نام دے رکھا ہے۔ ان فلسفوں کے اندر کوئی ایسی شے نہیں ہے جو انھیں تعقل پسند یا عدم تعقل پسند بناتی ہو۔ یہ مصنوعی تشکیلات ہیں۔ ان کا فلسفوں کے مافیہا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تخصیص ایک فلسفیانہ روایت کا محض حصہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے تعقل پسندی کے اندر ہی عدم تعقل پسندی موجود ہوتی ہے۔ تعقل جسے خود سے باہر دیکھ کر عدم تعقل پسندی سے منسوب کردیتی ہے، محض اس لیے کہ خود کو ہر دہشت و بربریت سے مبّرا ٹھہرا سکے۔
یہ تعقل پسندی ہی ہے جو اپنے ہی اندر کے تضاد یعنی غیر تعقل پسندی کو نہیں دیکھتی۔ ایک ایسا تضاد جسے وہ حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، اس لیے بہتر ہے کہ اس خود سے باہر قرار دے کر خود معصومیت اور انسان دوستی کا لبادہ اوڑھ لیا جائے۔ سچا اگر مکمل ہوتا ہے، جو اپنا اظہار'' کلیت'' میں کرتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ تعقل پسندی اس کلیت سے باہر ہو۔
اور اگر وہ کسی سطح پر آکر ''کلیت'' سے کسی ٹکڑے کی شکل میں باہر رہ جانا چاہتی ہے، تو اس سے واضح ہوجانا چاہیے کہ اس تعقل پسند کلیت میں اس نے گھٹن، درد اور تکلیف محسوس کرنا شروع کردیا ہے۔ تعقل پسندی کے ایک بار عدم تعقل پسندی سے ہم آہنگ ہوجانے کے بعد بھی کسی خالص تعقل پسندی پر بضد رہنا سب سے بڑی عدم تعقل پسندی ہے۔
یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس کو جاننا، نہ صرف یہ کہ علم کی توسیع ہے، بلکہ اس سے جاننے والے کی ذات میں بھی وسعت آتی ہے۔ یہ تصور کرلینا کہ فلسفہ و فکر کہیں اٹھارویں صدی میں اٹک کر رہ گئے ہیں، یا اس سے بھی کہیں پیچھے چلے گئے ہیں، نہ صرف یہ کہ عدم تعقل پسندی کی علامت ہے بلکہ ''بیگانگی'' کی بھی مظہر ہے۔ یہی وہ ''بیگانگی'' عدم تعقل پسندی ہے جو انسان کو اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں سے ہر لمحہ برسرِ پیکار رہنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ علم جب انسان کی ذات کو وسعت آشنا کرتا ہے، تو یہ بنیادی طور پر تبدیلی کا ہی عمل ہوتا ہے۔ جاننے کے عمل میں جو تبدیلی آتی ہے، اس تبدیلی کے شعور سے علم کی مزید توسیع ہوتی ہے۔
انسان دشمن منفی رویے کی جڑیں تو حقیقی سماج میں ہی ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک ہی سماج، محلے بلکہ ایک ہی گھر میں رہنے والوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ علم میں وسعت بھی انسان کے باطن سے تنگ نظری، تعصب، بغض، عداوت وغیرہ کو رخصت کردیتی ہے۔ علم تبدیلی کے عمل کا محرک اور نتیجہ ہوتا ہے، جب کہ نتیجہ اس تسلسل میں محرک اور پھر نتیجے کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اشیا کی حقیقی ماہیت کی تفہیم کا آج تک کوئی ایسا 'طریقہ کار' (میتھڈ) تشکیل نہیں دیا جاسکتا جو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی مکمل ہوچکا ہو۔
یا اس کی تکمیل کے دعوے کے بعد اس میں ارتقا ناممکن ہوچکا ہو۔ علم کے حصول کے طریقہ کار میں توسیع کی جاسکتی ہے، اس میں گہرائی اور وسعت لائی جاسکتی ہے۔ میتھڈ کی اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے اپنے عہد کے علوم کو حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ علم کے حصول کے 'میتھڈ' کی حتمیت ایک بھیانک عدم تعقل پسند فلسفے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اور انسان ہر دوسرے انسان کو اپنا حریف یا نظریاتی دشمن سمجھتے ہوئے اپنے ارد گرد کے ماحول میں اپنے رویے کے ذریعے سڑاند بھرتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ انھی لوگوں کا ہمنوا بن جاتا ہے، جن کے خلاف اس نے اپنا خود ساختہ نظریاتی پرچم بلند کررکھا ہوتا ہے۔
(نوٹ: اس مضمون کا محرک فیس بک
پر ہونے والا ایک مکالمہ ہے)